گمنام صارف
"علم کلام" کے نسخوں کے درمیان فرق
←اہل سنت کے کلامی فرقے
imported>E.musavi |
imported>E.musavi |
||
سطر 93: | سطر 93: | ||
[[اہل حدیث]] کا ماننا ہے کہ عقاید کو فقط [[قرآن]] و [[حدیث]] سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس فرقہ کے ماننے والے علم کلام کے مخالف تھے چاہے وہ علم کلام عقلی ہو جس میں عقاید کے لئے عقل کو ایک مستقل دلیل مانتے ہیں یا چاہے علم کلام نقلی جس میں عقل سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس گروہ کی معروف ترین شخصیت [[احمد بن حنبل]] ہیں۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، ۱۳۸۹ش، ص۱۲۰تا۱۲۳.</ref> اہل حدیث کے نزدیک خداوند قدوس کو ان ظاہری آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔<ref> سبحانی، بحوثٌ فی الملل و النحل، ج۱، ص۲۲۶.</ref> جبر و اختیار کی بحث میں اہل حدیث انسان کے مجبور محض ہونے کے قائل ہیں۔<ref> سبحانی، بحوثٌ فی الملل و النحل، ج۱، ص۲۲۰-۲۲۱.</ref> | [[اہل حدیث]] کا ماننا ہے کہ عقاید کو فقط [[قرآن]] و [[حدیث]] سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس فرقہ کے ماننے والے علم کلام کے مخالف تھے چاہے وہ علم کلام عقلی ہو جس میں عقاید کے لئے عقل کو ایک مستقل دلیل مانتے ہیں یا چاہے علم کلام نقلی جس میں عقل سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس گروہ کی معروف ترین شخصیت [[احمد بن حنبل]] ہیں۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، ۱۳۸۹ش، ص۱۲۰تا۱۲۳.</ref> اہل حدیث کے نزدیک خداوند قدوس کو ان ظاہری آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔<ref> سبحانی، بحوثٌ فی الملل و النحل، ج۱، ص۲۲۶.</ref> جبر و اختیار کی بحث میں اہل حدیث انسان کے مجبور محض ہونے کے قائل ہیں۔<ref> سبحانی، بحوثٌ فی الملل و النحل، ج۱، ص۲۲۰-۲۲۱.</ref> | ||
[[ابو الحسن علی | [[اشاعرہ]] ابو الحسن علی اشعری (260-324 ه) کے ماننے والوں کو کہا جاتا ہے۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۸۶.</ref> اشاعرہ متون دینی میں استعمال ہونے والے صفات خداوند کی [[تاویل]] کو قبول نہیں کرتے ہیں جیسے ید اللہ (اللہ کے ہاتھ) وجہ اللہ (اللہ کا چہرا) اور کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ بھی ہے اور چہرہ بھی۔ لیکن کس طرح سے یہ ہمارے لئے واضح نہیں ہے۔<ref> شهرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۹۱-۹۲.</ref> اشاعرہ اسی طرح سے [[جبر و اختیار]] کے مسئلہ میں نطریہ کسب کا ذکر کرتے ہیں جو جبر و اختیار کو ساتھ میں جمع کرتا ہے۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۸۸-۸۹.</ref> | ||
[[ماتردیہ]] کے موسس ابو منصور ماتریدی (متوفی 333 ھ) ہیں۔ یہ بھی مذہب اشعری کی طرح ایک ایسی راہ کی فکر میں تھے جو اہل حدیث و معتزلہ کے وسط کی ہو۔ ماتردیہ عقل کو معتبر مانتے ہیں اور اصول عقاید کے کشف و دریافت کے لئے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ مذہب [[حسن و قبح]] افعال کو قبول کرتا ہے۔ انسان کے ارادہ کو کام کے انجام دینے میں دخیل مانتا ہے اور رویت خداوند کو ممکن مانتا ہے۔<ref> برنجکار، آشنایی با فرق و مذاهب اسلامی، ۱۳۸۹ش، ص۱۳۶تا۱۴۱.</ref> | |||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |