مندرجات کا رخ کریں

"سجدہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

9,320 بائٹ کا اضافہ ،  9 جون 2022ء
سطر 41: سطر 41:
* ناک کو کسی ایسی چیز پر رکھنا جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو۔
* ناک کو کسی ایسی چیز پر رکھنا جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو۔
* سجدہ کرتے وقت نظروں کا دونوں نتھنوں کی طرف ہونا <ref>العروۃ الوثقى، الطباطبائي اليزدي، السيد محمد كاظم، ج۲، ص۵۷۳</ref>   
* سجدہ کرتے وقت نظروں کا دونوں نتھنوں کی طرف ہونا <ref>العروۃ الوثقى، الطباطبائي اليزدي، السيد محمد كاظم، ج۲، ص۵۷۳</ref>   
* ہاتھ کی انگلیوں کا رخ [[قبلہ]] کی طرف رکھنا اور انگوٹھے کے علاوه باقی انگلیوں کو آپس میں ملا کر رکھنا۔
* ہاتھ کی انگلیوں کا رخ [[قبلہ]] کی طرف رکھنا اور انگوٹھے کے علاوہ باقی انگلیوں کو آپس میں ملا کر رکھنا۔
* ذکر سجدہ کو تکرار کرنا اور اسے طاق عدد پر ختم کرنا اسی طرح سجدے میں [[صلوات]] پڑھنا اور سجدے کو طول دینا۔
* ذکر سجدہ کو تکرار کرنا اور اسے طاق عدد پر ختم کرنا اسی طرح سجدے میں [[صلوات]] پڑھنا اور سجدے کو طول دینا۔
* سجدے کے بعد [[تورک|تورّک]](بائیں ران پر بیٹھنا اور دائیں پاؤوں کو بائیں پاؤں کے تلوے پر رکھنا) کی طرز پر بیٹھنا۔
* سجدے کے بعد [[تورک|تورّک]](بائیں ران پر بیٹھنا اور دائیں پاؤوں کو بائیں پاؤں کے تلوے پر رکھنا) کی طرز پر بیٹھنا۔
سطر 49: سطر 49:
* سجدے کے بعد قیام کے لئے اٹھتے وقت ہاتھوں سے پہلے گٹھنوں کو زمین سے بلند کرنا۔
* سجدے کے بعد قیام کے لئے اٹھتے وقت ہاتھوں سے پہلے گٹھنوں کو زمین سے بلند کرنا۔
* سجدے کے بعد قیام کے لئے اٹھتے وقت "بِحَولِ اللہِ وَ قُوَّتِہِ أقُومُ وَ أقْعُدُ" کہنا۔
* سجدے کے بعد قیام کے لئے اٹھتے وقت "بِحَولِ اللہِ وَ قُوَّتِہِ أقُومُ وَ أقْعُدُ" کہنا۔
===ذکر===
{{نقل قول چار طبقہ|عرض=۳۶|تراز=چپ|رنگ حاشیہ=D6E0CC|قال الصادق(ع):| إنّ قَوما أتَوا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم فقالوا: یا رسولَ اللہ، اضمَن لَنا علی رَبِّک الجَنَّۃَ، فقالَ: علی أن تُعِینُونِی بِطُولِ السُّجودِ۔|امام صادق(ع) فرمود: گروہی خدمت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم آمدند و عرض کردند:‌ ای رسول خدا، از پیشگاہ پروردگارت بہشت را برای ما ضمانت کن۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم فرمود: بہ شرط آن کہ شما نیز با سجدہ‌ہای طولانی مرا یاری دہید۔| شیخ طوسی، الأمالی، ۱۴۱۴ق، ص۶۶۴۔}}
ذکر خاص سجدہ، «سُبْحانَ رَبِّی الاَعْلیٰ وَ بِحَمْدِہِ» است۔ می‌توان سہ بار «سُبْحانَ اللہِ» یا ہر ذکر دیگری کہ حداقل بہ این مقدار باشد نیز گفت۔<ref>امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۷۲۸۔</ref>
===محل سجدہ===
{{اصلی|مہر نماز}}
محل سجدہ باید [[طہارت|پاک]]<ref>اصفہانی، وسیلۃ النجاۃ، ۱۹۹۳ق، ج۱، ص۱۳۵۔</ref> و از جنس زمین یا آنچہ از زمین می‌روید باشد(بہ شرط آنکہ خوردنی و پوشیدنی نباشد)،<ref>اصفہانی، وسیلۃ النجاۃ، ۱۹۹۳ق، ج۱، ص۱۵۷۔</ref> بنابراین سجدہ بر کاغذ یا دستمال کاغذی از چوب یا گیاہ (بہ جز پنبہ و کتان) صحیح است۔<ref> نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۸، ص۴۳۰-۴۳۲۔</ref> بر اساس روایات، برترین سجدہ‌گاہ تربت [[امام حسین(ع)]] است۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۳۶۶۔</ref>
سجدہ بر مواد معدنی مانند طلا و نقرہ و قیر صحیح نیست و بیشتر [[مراجع تقلید]] سجدہ بر سنگہای معدنی مانند [[عقیق]] و [[فیروزہ]] را نیز صحیح نمی‌دانند۔<ref> نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۸، ص۴۱۲۔</ref> اما در حال ضرورت می‌توان بر لباس کتان یا پنبہ‌ای سجدہ کرد و در صورت نبود آن بر ہر نوع لباسی، و در صورت نبود آنہا در اینکہ باید بر پشت دست سجدہ کرد یا مواد معدنی مانند عقیق، اختلاف نظر وجود دارد۔<ref> یزدی، العروۃ الوثقی‌، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۳۹۴-۳۹۵۔</ref>
اہل سنت سجدہ بر فرش، زیلو و آنچہ نجس نباشد را ہم جایز می‌دانند۔<ref>زحیلی، الفقہ الإسلامی و أدلّتہ،‌ دار الفکر، ج۱، ص۷۳۱۔</ref> [[وہابیت|وہابیون]] سجدہ شیعیان بر مُہر یا تربت را بہ بہانہ‌ہایی مانند [[شرک]]، پرستش قبر، [[تبرک]]، یا [[بدعت]] مورد ہجمہ قرار دادہ و در مکانہایی مانند [[مسجد الحرام]] و [[مسجد النبی]] با آن برخورد تندی می‌کنند۔<ref group="یادداشت"> آیت اللہ خویی نمونہ‌ای از این برخوردہا را در تفسیر خود نقل کردہ است۔ ایشان می‌گوید: در سال ۱۳۵۳ برای حج مشرف شدم، شخصی دانشمند- بہ نام شیخ زین العابدین- در مسجد النبی مراقب بود ہر کس روی مہر سجدہ می‌کرد مہر او را می‌گرفت۔ بہ او گفتم: آیا رسول اللَّہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تصرف در مال مسلمان را بدون اذن و رضایت او حرام نکردہ است؟
گفت: بلی حرام کردہ است۔
گفتم: پس چرا اموال این مسلمانان را از آنہا بہ زور میگیری و حال اینکہ اینہا شہادت بہ «لا إِلہَ إِلَّا اللَّہُ»* و «محمد عبدہ و رسولہ» میدہند؟
گفت: اینہا مشرک ہستند و مہر را بت قرار دادہ و برای مہر سجدہ میکنند (نہ برای خدا)۔
گفتم: حاضر ہستی دربارہ این موضوع با ہم مذاکرہ کنیم؟ گفت: مانعی ندارد۔
شروع بہ صحبت کردم و سرانجام آن شخص از کاری کہ مرتکب شدہ بود عذر خواہی و استغفار کرد۔ خویی، البیان فی تفسیر القران، ص۵۲۳۔</ref>
جای پیشانی نمازگزار باید از جای ایستادن او بیش از چہار انگشت بستہ بلندتر یا پایین‌تر نباشد۔ سجدہ‌گاہ باید استقرار داشتہ و تکان نخورد؛ بدین معنا کہ پیشانی روی آن قرار گرفتہ و ثبات پیدا کند۔ بنابر این، سجدہ بر گِل صحیح نیست۔<ref>بروجردی، مستند العروۃ، مدرسۃ دار العلم، ج۲، ص۱۹۱۔</ref>
==سجدہ برای معصومان==
سجدہ برای غیر خداوند [[حرام]] است؛ خواہ برای [[معصومان]] باشد یا غیر ایشان۔ البتہ سجدہ نزد قبر معصومان برای خدا بہ قصد شکرگزاری بر توفیق یافتن بہ [[زیارت]] قبر ایشان جایز است۔<ref>یزدی، العروۃ الوثقی‌، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۵۸۷۔</ref>
بر اساس تفسیر‌ہای قرآن، سجدہ برادران [[حضرت یوسف]] بر وی و سجدہ [[فرشتہ|فرشتگان]] بر [[حضرت آدم]]، نوعی احترام و بزرگداشت بود و نہ پرستہجری شمسی۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۸۱ش، ج۱۰، ص۸۳۔</ref>
==پانویس==
{{پانویس|۲}}
==منابع==
{{منابع}}
* قرآن کریء۔
* ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت،‌ دار صادر، ۱۴۱۴ھ۔
* اصفہانی، ابوالحسن، وسیلۃ النجاۃ، قم، انتشارات مہر استوار، ۱۹۹۳ھ۔
* امام خمینی، سید روح‌اللہ، توضیح المسائل (محشی)، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، ۱۳۹۲ہجری شمسی۔
* بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی أحکام العترۃ الطاہرۃ، بیروت،‌ دار الأضواء، ۱۹۸۵ء۔
* بروجردی، مرتضی، مستند العروۃ الوثقی (تقریرات آیۃ اللہ خوئی)، قم، مدرسۃ دار العلم، [بے تا]۔
* پایندہ، ابوالقاسم، نہج الفصاحہ، بہ اہتمام غلامحسین مجیدی‌ خوانساری، قم، مؤسسہ انصاریان، چاپ اول، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
* حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، ۱۴۰۹ق
* خویی، سید أبوالقاسم، البیان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دار الزہراء، بے تا۔
* راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، بہ کوشش صفوان عدنان داوودی، دمشق، دار القلم، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ۔
* زُحَیلی، وہبۃ بن مصطفی، الفقہ الإسلامی و أدلّتہ، دمشق،‌ دار الفکر، بے تا۔
* سُرُور، ابراہیم حسین، المعجم الشامل للمصطلحات العلمیۃ والدینیۃ، بیروت،‌ دار الہادی، ۲۰۰۸ء۔
* سیستانی، سید علی، منہاج الصالحین، بغداد،‌ دار البذرۃ، ۲۰۰۹ء۔
* شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، بے تا۔
* شیخ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، قم،‌ دار الثقافۃ، ۱۴۱۴ھ۔
* علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیۃ علی مذہب الامامیہ، بہ کوشش ابراہیم بہادری، قم، مؤسسۃ الامام الصادق(علیہ‌السلام)، چاپ اول، ۱۴۲۰ھ۔
* مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۱ہجری شمسی۔
* نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، بے تا۔
* نوفل، عبد الرزاق، الإعجاز العددی للقرآن الکریم، بیروت،‌ دار الکتاب العربی، ۱۹۸۷ء۔
* یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، با تعلیقہ سید علی سیستانی، قم،‌ مکتب آیۃ اللہ السید السیستانی، ۱۴۲۵ھ۔
{{پایان}}


==حوالہ جات ==
==حوالہ جات ==
confirmed، templateeditor
8,854

ترامیم