مندرجات کا رخ کریں

"افعال کا حسن اور قبح" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 11: سطر 11:
:ملائمت نفس یا  منافرت نفس مراد لیتے ہیں جیسے کہا جاتا ہے {{حدیث|ھذ المنظر حسن}} (یہ منظر خوبصورت ہے){{حدیث|ھذا المنظر قبیح}} یا افعال اختیاریہ میں کہتے ہیں:{{حدیث| نوم القیلوله حسن}} (قیلولہ کی نیند کرنا اچھا ہے){{حدیث|الاکل عند الجوع حسن}}(بھوک کے وقت کھانا کھانا حسن یعنی اچھا ہے )۔ ان افعال میں حسن اور قبح کی بازگشت حقیقت میں نفس کی طرف لوٹتی ہے یعنی انسانی نفس کو اس سے لذت محسوس ہونے کی وجہ سے انسانی نفس اس کی طرف میلان رکھتا ہے یا انسانی نفس اس سے قبح کا احساس کرتا ہے اور اس سے دوری اختیاری کرتا ہے ۔اس قسم میں  کبھی حسن اور قبح کو  مصلحت اور مفسدہ سے بھی تعبیر  کرتے ہیں<ref>شیخ مظفر ،اصول الفقہ ، ج 2 ص 274 با حوالۂ قوشجی ،شرح التجرید،ص338 ۔ایجی، المواقف ج 3 ص 262۔</ref> ۔یہ قسم پہلی قسم سے زیادہ وسیع تر ہے ۔ یہ قسم اشاعرہ اور عدلیہ کے درمیان محل نزاع نہیں ہے ۔
:ملائمت نفس یا  منافرت نفس مراد لیتے ہیں جیسے کہا جاتا ہے {{حدیث|ھذ المنظر حسن}} (یہ منظر خوبصورت ہے){{حدیث|ھذا المنظر قبیح}} یا افعال اختیاریہ میں کہتے ہیں:{{حدیث| نوم القیلوله حسن}} (قیلولہ کی نیند کرنا اچھا ہے){{حدیث|الاکل عند الجوع حسن}}(بھوک کے وقت کھانا کھانا حسن یعنی اچھا ہے )۔ ان افعال میں حسن اور قبح کی بازگشت حقیقت میں نفس کی طرف لوٹتی ہے یعنی انسانی نفس کو اس سے لذت محسوس ہونے کی وجہ سے انسانی نفس اس کی طرف میلان رکھتا ہے یا انسانی نفس اس سے قبح کا احساس کرتا ہے اور اس سے دوری اختیاری کرتا ہے ۔اس قسم میں  کبھی حسن اور قبح کو  مصلحت اور مفسدہ سے بھی تعبیر  کرتے ہیں<ref>شیخ مظفر ،اصول الفقہ ، ج 2 ص 274 با حوالۂ قوشجی ،شرح التجرید،ص338 ۔ایجی، المواقف ج 3 ص 262۔</ref> ۔یہ قسم پہلی قسم سے زیادہ وسیع تر ہے ۔ یہ قسم اشاعرہ اور عدلیہ کے درمیان محل نزاع نہیں ہے ۔
: '''تیسرا معنا''':
: '''تیسرا معنا''':
:حسن اور قبح سے مدح اور ذم مراد لیا جاتا ہے یعنی عقلا کے نزدیک اس فعل کو انجام دینے والا قابل مدح اور ستائش ہے نیز ثواب کا مستحق ہے۔ لہذا وہ فعل حسن ہے یا اس فعل کو انجام دینے والا قال مذمت ہے اور عقاب کا مستحق ہے ۔ لہذا وہ فعل قبیح ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ حسن وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک کرنا چاہئے اور قبح وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک نہیں کرنا چاہئے ۔عقل اس بات کو درک کرتی ہے کہ حسن فعل کو انجام دینا چاہئے اور قبیح کو ترک کرنا چاہئے۔<ref>شیخ محمد رضا مظفر ،اصول الفقہ،ج 1 ص ؛نیز ر ک: میثم بحرانی ،قواعد المرام،ص 104؛ایجی ،المواقف ج3 ص261؛قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ض8 ص 181،.... ۔</ref>
:حسن اور قبح سے مدح اور ذم مراد لیا جاتا ہے یعنی عقلا کے نزدیک اس فعل کو انجام دینے والا قابل مدح اور ستائش ہے نیز ثواب کا مستحق ہے۔ لہذا وہ فعل حسن ہے یا اس فعل کو انجام دینے والا قال مذمت ہے اور عقاب کا مستحق ہے ۔ لہذا وہ فعل قبیح ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ حسن وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک کرنا چاہئے اور قبح وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک نہیں کرنا چاہئے ۔عقل اس بات کو درک کرتی ہے کہ حسن فعل کو انجام دینا چاہئے اور قبیح کو ترک کرنا چاہئے۔<ref>شیخ محمد رضا مظفر ،اصول الفقہ،ج 1 ص ؛نیز ر ک: میثم بحرانی ،قواعد المرام،ص 104؛ایجی ،المواقف ج3 ص262؛قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ض8 ص 181،.... ۔</ref>


پہلے اور دوسرے معنا کی نسبت عدلیہ اور اشاعرہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ تیسر معنا کی نسبت عدلیہ بعض افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ  کلی طور پر انکار کرتے ہیں <ref>جعفر سبحانی،الٰہیات،ض 231۔</ref>۔ افعال کے حسن اور قبح کے قائلین کے درمیان درج ذیل تفصیل پائی جاتی ہے :
پہلے اور دوسرے معنا کی نسبت عدلیہ اور اشاعرہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ تیسرا معنا کی نسبت عدلیہ بعض افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ  کلی طور پر انکار کرتے ہیں <ref>جعفر سبحانی،الٰہیات،ض 231۔</ref>۔ افعال کے حسن اور قبح کے قائلین کے درمیان درج ذیل تفصیل پائی جاتی ہے :


:حسن اور قبح افعال کی ذوات کو لاحق ہوتا ہے ۔
:حسن اور قبح افعال کی ذوات کو لاحق ہوتا ہے ۔

نسخہ بمطابق 09:04، 13 فروری 2016ء



افعال کا حسن اور قبح علم کلام کی معرکۃ الآرا ابحاث میں سے ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ افعال ذاتی طور پر حسن رکھتے ہیں اور کچھ افعال ذاتی طور پر قبح رکھتے ہیں ۔ علم کلام کے ماہرین اس مقام پر دو طائفوں میں تقسیم ہوئے ہیں ۔معتزلہ اور امامیہ اس موضوع کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ اشاعرہ اس کی نفی کرتے ہیں ۔علم کلام میں اس بحث کو نہایت اہمیت حاصل ہے کیونکہ علم کلام کے بہت سے دوسرے مسائل اس بحث پر متفرع ہیں مثلا انسان کا اپنے اعمال میں خود مختار ہونا،....، توحید کے باب میں سے اللہ کی بعض صفات کمالیہ کا ثبوت اس پر موقوف ہے جیسے خدا کا عادل ہونا،... ،اسی طرح بعض صفات سلبیہ کی خدا سے نفی کرنا اسی بحث پر موقوف ہے جیسے خدا سے قبیح کا سرزد ہونا،خدا سے ظلم کی نفی وغیرہ اس میں شامل ہیں ۔اسی طرح خیر اور شر کی ابحاث بھی اسی سے تعلق رکھتی ہیں۔جو گروہ اس بحث افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں وہ انسانی افعال میں انسان کو مختار،خدا کو عادل مانتے ہیں جبکہ اس کے منکرین انسان کو مجبور اور خدا کے عادل ہونے میں ایک طرح سے اس کی عدالت کے منکر مانے جاتے ہیں ۔انکار قبح اور حسن کی وجہ سے اشاعرہ کو بہت سے اعتراضات کا سامنا پڑتا ہے اور انہیں مجبرہ کہا جاتا ہے ۔

تاریخچہ

اس مسئلے کی قدمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حسن و قبح کا مسئلہ یونانی فلسفۂ اخلاق میں موجود تھا کیونکہ وہ اخلاقی اقداروں کی بنیاد حسن و قبح کو قرار دیتے تھے ۔[1]۔اس کے بعد دوسری صدی میں کلام اسلامی میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہوا جس کی بنا پر متکلمین عدلیہ اور اشاعرہ کے اختلاف کی صورت میں تقسیم ہوئے ۔

محل بحث

حسن اور قبح تین معانی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک محل اختلاف ہے جبکہ دوسرے دو محل نزاع نہیں ہیں۔جن کی تفصیل درج ذیل ہے :

پہلا معنا :
حسن اور قبح سے کمال اور نقص مراد لئے جاتے ہیں نیز حسن اور قبح افعال اختیاری کیلئے صفت بنتے ہیں ۔ جیسے کہا جاتا ہے علم حاصل کرنا حسن و جہل قبیح ہے۔ یعنی علم حاصل کرنا نفس کیلئے کمال ہے اور جہل نفس کی نسبت نقص ہے ۔اس معنی کے لحاظ سے اکثر اخلاقی صفات حسن اور قبح رکھتی ہیں یعنی ان کا ہونا نفس کیلئے کمال اور نہ ہونا نقص ہوتا ہے ۔اس لحاظ سے ان صفات کا حسن یا نہ ہونا قبیح ہونا ایسامعنی ہے جس سے اشاعرہ بھی اختلاف نہیں رکھتے ہیں جیسا کہ ایجی نے مواقف میں کہا ہے ۔
دوسرا معنا:
ملائمت نفس یا منافرت نفس مراد لیتے ہیں جیسے کہا جاتا ہے ھذ المنظر حسن (یہ منظر خوبصورت ہے)ھذا المنظر قبیح یا افعال اختیاریہ میں کہتے ہیں: نوم القیلوله حسن (قیلولہ کی نیند کرنا اچھا ہے)الاکل عند الجوع حسن(بھوک کے وقت کھانا کھانا حسن یعنی اچھا ہے )۔ ان افعال میں حسن اور قبح کی بازگشت حقیقت میں نفس کی طرف لوٹتی ہے یعنی انسانی نفس کو اس سے لذت محسوس ہونے کی وجہ سے انسانی نفس اس کی طرف میلان رکھتا ہے یا انسانی نفس اس سے قبح کا احساس کرتا ہے اور اس سے دوری اختیاری کرتا ہے ۔اس قسم میں کبھی حسن اور قبح کو مصلحت اور مفسدہ سے بھی تعبیر کرتے ہیں[2] ۔یہ قسم پہلی قسم سے زیادہ وسیع تر ہے ۔ یہ قسم اشاعرہ اور عدلیہ کے درمیان محل نزاع نہیں ہے ۔
تیسرا معنا:
حسن اور قبح سے مدح اور ذم مراد لیا جاتا ہے یعنی عقلا کے نزدیک اس فعل کو انجام دینے والا قابل مدح اور ستائش ہے نیز ثواب کا مستحق ہے۔ لہذا وہ فعل حسن ہے یا اس فعل کو انجام دینے والا قال مذمت ہے اور عقاب کا مستحق ہے ۔ لہذا وہ فعل قبیح ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ حسن وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک کرنا چاہئے اور قبح وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک نہیں کرنا چاہئے ۔عقل اس بات کو درک کرتی ہے کہ حسن فعل کو انجام دینا چاہئے اور قبیح کو ترک کرنا چاہئے۔[3]

پہلے اور دوسرے معنا کی نسبت عدلیہ اور اشاعرہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ تیسرا معنا کی نسبت عدلیہ بعض افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ کلی طور پر انکار کرتے ہیں [4]۔ افعال کے حسن اور قبح کے قائلین کے درمیان درج ذیل تفصیل پائی جاتی ہے :

حسن اور قبح افعال کی ذوات کو لاحق ہوتا ہے ۔
حسن اور قبح افعال کی ذات کو نہیں بلکہ ان کی ایسی صفات کو لاحق ہوتا ہے جو فعل کیلئے لازم ہوتی ہیں۔
فعل کی ایسی صفت سے متصف ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ قبح کا باعث بنتا ہے ۔
حسن کیلئے قباحت کا نہ پایا جانا ہی کافی ہے ۔

حسن اور قبح کا ذاتی اور عقلی ہونا

ذاتی ہونا
جب تیسرے معنی کے مطابق افعال کے حسن و قبح کا لحاظ کیا جاتا ہے تو ہم کچھ ایسے افعال پاتے ہیں کہ وہ افعال خود حسن اور قبح کی علت ہوتے ہیں ۔ یعنی جب ہم اس فعل کا لحاظ کرتے ہیں تو وہ فعل کسی بھی دوسرے لحاظ کے بغیر خود فعل حسن یا قبح کی علت ہوتا ہے یوں کہئے کہ حسن اور قبح بعض افعال کی ذات میں پوشیدہ ہوتا ہے ۔مثلا عدل، علم،ظلم، جہل وغیرہ میں جب بھی کسی جگہ عدل کا عنوان صدق کرے گا تو وہاں حسن کا ذاتی طور پر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ عدل کبھی بھی حسن کے بغیر قابل تصور نہیں ہے ۔جیسے ھی کوئی شخص عدل کرے گا تو عقلا کے نزدیک ایسا شخص قابل ستائش ہے۔پس یہی وجہ ہے کہ عدل کرنے والا کسی بھی دین سے تعلق رکھتا ہو عقلا کے نزدیک وہ قابل مدح اور ستائش کا مستحق ہے ۔اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ عدل ہمیشہ حسن رکھتا ہے اور کبھی بھی عدل کا حسن کے بغیر پایا جانا ممکن نہیں ہے ۔ اسی طرح جب کوئی شخص ظلم کرتا ہے تو عقلا اس کے اس ظلم کے وجہ سے اسکی سرزنش کرتے ہیں ۔

اس کے بر خلاف بعض افعال ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں یا تو سرے سے حسن اور قبح پایا ہی نہیں جاتا یا حسن یا قبح کا عنوان کسی دوسرے لحاظ یا کسی دوسرے عنوان کی وجہ سے پیدا ہو جاتا ہے ۔مثلا مارنا اس فعل کو اگر ادب سکھانے کی وجہ سے انجام دیں تو مارنے کے فعل میں حسن پایا جاتا ہے اور اگر کسی غیر جاندار پتھر وغیرہ پر مارا جائے تو اس میں نہ حسن ہے اور نہ قبح پایا جاتا ہے ۔

عقلی ہونا:
افعال کے حسن اور قبح کا عقلی ہونا یعنی عقل (عملی) کا کسی فعل کے متعلق حسن یا قبح کا حکم لگانا ہے ۔انسانی عقل بعض چیزوں کا بعض چیزوں سے مقائسہ کرتی ہے تو وہ جان لیتی ہے کہ یہ چیز فلاں چیز کی نسبت کمال یا نقص رکھتی ہے یا یہ چیز فلاں چیز کی نسبت ملائمت یا مصلحت یا مفسدہ وغیرہ رکھتی ہے۔ عقل کے اس عمل کو عقل نظری کہا جاتا ہے ۔اس چیز کو جاننے کے بعد انسانی عقل اس کے حسن کا حکم لگاتی اور وہ کہتی ہے اسے انجام دینا چاہئے یاانجام دینا قابل ستائش ہے یا اسے انجام دینا قبیح ہے اسے ترک کرنا چاہئے یا اس قبیح کو انجام دینے والا قابل مذمت ہے ۔ عقل کے اس عمل کو عقل عملی کہا جاتا ہے ۔ عقل عملی کے مقام پر کہا جاتا ہے کہ بعض ایسے افعال ہیں جن کے متعلق عقل کسی دوسری شرط، قید اور عنوان کا لحاظ کئے بغیر ان کے حسن یا قبح کا حکم لگاتی ہے ۔[5]

ثمرات و اثرات

ثمرات

وجوب معرفت،انسان کے اعمال ،تکلیف ،نبوت کے بعض مسائل،جبرو اختیار،معاد،.... جیسے علم کلام کے اہم مسائل اس بحث سے مربوط ہیں[6] جہاں اس بحث کے ثمرات ظاہر ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ اس بحث کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے ۔

اثرات

چونکہ افعال کا حسن اور قبح مسئلہ عقلی ہے اس لئے تمام عقلی علوم میں اس کے اثرات محسوس کئے جا سکتے ہیں ۔ درج ذیل ان علوم کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے :

علم منطق
علم منطق میں مشہورات کی اقسام میں سے آرائے محمودہ میں اس سے بحث کی جاتی ہے اور اس قسم کو اس مسئلے کے اثبات کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے ۔[7][8]
علم فلسفہ
فلسفے میں نظامِ احسن اور اصلح کسی واسطے کے بغیر حسن اور قبح کی بحث سے مربوط ہے ۔
علم اصول فقہ
اس علم میں دلیل عقل سے مربوط ابحاث جیسے مستقلات عقلیہ،عقل و شرع کے درمیان ملازمہ ،احکام تابع مصالح اور مفسدہ ہیں یا نہیں؟، حکم شرعی کے استنباط وغیرہ میں اس مسئلے سے استفادہ حاصل کیا جاتا ہے ۔
  1. محمد کاظم عماد زادہ،مقالہ بررسی تطبیقی حسن و قبح وثمرات آن در اندیشہ شیعہ ،معتزلہ ، اشاعرہ و ماتریدیہ۔
  2. شیخ مظفر ،اصول الفقہ ، ج 2 ص 274 با حوالۂ قوشجی ،شرح التجرید،ص338 ۔ایجی، المواقف ج 3 ص 262۔
  3. شیخ محمد رضا مظفر ،اصول الفقہ،ج 1 ص ؛نیز ر ک: میثم بحرانی ،قواعد المرام،ص 104؛ایجی ،المواقف ج3 ص262؛قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ض8 ص 181،.... ۔
  4. جعفر سبحانی،الٰہیات،ض 231۔
  5. جعفر سبحانی،الٰہیات ص 240۔ ملا ہادی سبزواری، شرح الاسماء الحسنیٰ ج 1 ص 107۔
  6. جعفر سبحانی،الہیات،صص 246،247......۔ شہید مطہری،مجموعه آثار، ج 1، صص 112-114.
  7. مظفر،المنطق ص342
  8. ابن سینا،الاشارات و التنیہات ج 1 صص219 ،220 نقل از الہیات سبحانی ص237۔