مندرجات کا رخ کریں

"قیام امام حسینؑ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 9: سطر 9:


==اصحاب رسول اللہ اور معروف شخصیات کی رائے ==
==اصحاب رسول اللہ اور معروف شخصیات کی رائے ==
مکتب تشیع میں امام ایک ایسی شخصیت  ہے جو عصمت کے درجے پر فائز ہوتی ہے ۔ لہذا اس بنا پر ایسی شخصیت کے بارے میں یہ سوچنا ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے افعال کو کسی حکمت و عقلی سبب کی رعایت کئے بغیر انجام دے۔ اس وجہ سے مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے دانشوران واقعہ کربلا کے بعد سے لے کر آج تک اس بات پر متفق ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا یہ اقدام ایک مثبت اقدام تھاالبتہ اس اقدام کے بیان میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے ۔لیکن اس کے برعکس کچھ کا یہ کہنا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا یہ اقدام نا درست تھا جیسا کہ بعض اصحاب رسول یا تابعین اسی نظر کے قائل نظر آتے ہیں ۔اس رائے کا مستند ان اصحاب کے اقوال کو قرار دیا جاتا ہے کہ جس کا اظہار انہوں نے امام حسین ؑ سے اس موضوع کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ ان میں سے چند ایک  کی گفتگو میں واقع ہونے والے نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
مکتب تشیع میں امام ایک ایسی شخصیت  ہے جو عصمت کے درجے پر فائز ہوتی ہے ۔ لہذا اس بنا پر ایسی شخصیت کے بارے میں یہ سوچنا ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے افعال کو کسی حکمت و عقلی سبب کی رعایت کئے بغیر انجام دے۔ اس وجہ سے مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے دانشوران [[المیۂ کربلا|واقعہ کربلا]] کے بعد سے لے کر آج تک اس بات پر متفق ہیں کہ [[امام حسین]] علیہ السلام کا یہ اقدام ایک مثبت اقدام تھاالبتہ اس اقدام کے بیان میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے ۔لیکن اس کے برعکس کچھ کا یہ کہنا ہے کہ [[امام حسین]] علیہ السلام کا یہ اقدام نا درست تھا جیسا کہ بعض [[اصحاب]] رسول یا تابعین اسی نظر کے قائل نظر آتے ہیں ۔اس رائے کا مستند ان اصحاب کے اقوال کو قرار دیا جاتا ہے کہ جس کا اظہار انہوں نے [[امام حسین]] ؑ سے اس موضوع کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ ان میں سے چند ایک  کی گفتگو میں واقع ہونے والے نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
::حکوت کاحصول
::حکوت کاحصول
امام حسین ؑ نے دنیاوی مقاصد میں سے اپنی حکومت کے قیام کیلئے یہ اقدام کیا ۔ یہ  رائے اس وقت مدینے اور مکہ کی بعض شخصیات کے اذہان میں موجود تھی اور انہوں نے اسی اعتقاد کی بنا پر امام حسین ؑ کو یزید کے خلاف قیام سے روکنے کی کوشش کی ۔ مثال کے طور پر عبد اللہ بن عمر نے حضرت امام حسین کو کوفہ جانے سے روکنے کیلئے ان الفاظ میں سر زنش کی ۔
[[امام حسین]] ؑ نے دنیاوی مقاصد میں سے اپنی حکومت کے قیام کیلئے یہ اقدام کیا ۔ یہ  رائے اس وقت [[مدینہ|مدینے]] اور [[مکہ|مکے]] کی بعض شخصیات کے اذہان میں موجود تھی اور انہوں نے اسی اعتقاد کی بنا پر [[امام حسین]] ؑ کو [[یزید|یزید بن معاویہ]] کے خلاف قیام سے روکنے کی کوشش کی ۔ مثال کے طور پر عبد اللہ بن عمر نے حضرت [[امام حسین]] کو [[کوفہ]] جانے سے روکنے کیلئے ان الفاظ میں سر زنش کی ۔
:{{حدیث|'''لا تخرج فانّ رسول اللہ خیّره اللہ بین الدنیا و الآخرہ فاختار الآخرہ و انّک  بضعہ منہ ولا تعاطھا یعنی الدنیا'''}} ترجمہ: تم خروج نہ کرو  کیونکہ رسول کو اللہ نے دنیا اور آخرت اختیار کرنے کا اختیار دیا تھا اور رسول اللہ نے آخرت کو اختیار کیا تم تو اسی کا ٹکڑا ہو تم اپنے آپ کو اس میں مشغول نہ کرو ۔ ۔<ref>طبرانی ، معجم الاوسط  ج 1 ص 189۔ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق ج 14  ص 208۔ابن کثیر ،البدایہ و النہایہ  ج 8 ص 175</ref>
:{{حدیث|'''لا تخرج فانّ رسول اللہ خیّره اللہ بین الدنیا و الآخرہ فاختار الآخرہ و انّک  بضعہ منہ ولا تعاطھا یعنی الدنیا'''}} ترجمہ: تم خروج نہ کرو  کیونکہ رسول کو اللہ نے دنیا اور آخرت اختیار کرنے کا اختیار دیا تھا اور [[رسول اللہ]] نے آخرت کو اختیار کیا تم تو اسی کا ٹکڑا ہو تم اپنے آپ کو اس میں مشغول نہ کرو ۔ ۔<ref>طبرانی ، معجم الاوسط  ج 1 ص 189۔ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق ج 14  ص 208۔ابن کثیر ،البدایہ و النہایہ  ج 8 ص 175</ref>
::آسودہ حالی کے خاتمے کا ڈر
::آسودہ حالی کے خاتمے کا ڈر
عبد اللہ بن مطیع کی یہ روایت منقول ہے :۔
عبد اللہ بن مطیع کی یہ روایت منقول ہے :۔
{{حدیث|'''لما خرج الحسين بن علي من المدينة يريد مكة ، مر بابن مطيع وهو يحفر بئره فقال له : أين فداك أبي وامي ؟ قال : أردت مكة - قال : وذكر له أنه كتب إليه شيعته بها - فقال له ابن مطيع : اين فداك أبي وامي ؟ متعنا بنفسك ولا تسر إليهم'''}}عبد اللہ بن مطیع کے کنواں کھودنے کے وقت جب حضرت امام حسین کی اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے امام سے کہا :میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کہاں کا ارادہ ہے ؟امام نے جواب دیا مکے کا۔تو اس نے کہا : آپ کی ذات کی  وجہ سے تو ہم آسودگی  کی زندگی گزار رہے ہیں آپ اس سفر پہ مت جائیں ۔<ref>ابن عساکر، ترجمہ الامام حسین،ص1۔</ref> دوسری روایت میں کہا کہ آپ عراق مت جائیں خدا کی قسم اگر انہوں نے تمہیں قتل کر دیا تو وہ ہمیں غلام بنا لیں گے ۔<ref>ابن عساکر ،ترجمہ الامام الحسین ص 292۔</ref>
{{حدیث|'''لما خرج الحسين بن علي من المدينة يريد مكة ، مر بابن مطيع وهو يحفر بئره فقال له : أين فداك أبي وامي ؟ قال : أردت مكة - قال : وذكر له أنه كتب إليه شيعته بها - فقال له ابن مطيع : اين فداك أبي وامي ؟ متعنا بنفسك ولا تسر إليهم'''}}عبد اللہ بن مطیع کے کنواں کھودنے کے وقت جب حضرت امام حسین کی اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے امام سے کہا :میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کہاں کا ارادہ ہے ؟امام نے جواب دیا مکے کا۔تو اس نے کہا : آپ کی ذات کی  وجہ سے تو ہم آسودگی  کی زندگی گزار رہے ہیں آپ اس سفر پہ مت جائیں ۔<ref>ابن عساکر، ترجمہ الامام حسین،ص1۔</ref> دوسری روایت میں کہا کہ آپ [[عراق]] مت جائیں خدا کی قسم اگر انہوں نے تمہیں قتل کر دیا تو وہ ہمیں غلام بنا لیں گے ۔<ref>ابن عساکر ،ترجمہ الامام الحسین ص 292۔</ref>
:امام وقت کے خلاف خروج نا درست اقدام
:امام وقت کے خلاف خروج نا درست اقدام
ابو سعید خدری :اپنے نفس کو بچاؤ اور گھر میں ہی رہو اپنے امام کے خلاف خروج نہ کرو۔<ref>ابن عساکر،ترجمہ الامام الحسین 294۔</ref>
ابو سعید خدری :اپنے نفس کو بچاؤ اور گھر میں ہی رہو اپنے امام کے خلاف خروج نہ کرو۔<ref>ابن عساکر،ترجمہ الامام الحسین 294۔</ref>
سطر 22: سطر 22:
:موجودہ حاکم کی بیعت نہ کرنا درست اقدام
:موجودہ حاکم کی بیعت نہ کرنا درست اقدام
محمد بن حنفیہ:
محمد بن حنفیہ:
اے میرے بھائی !تم مجھے سب سے زیادہ عزیز ہو اور محبوب ہو ......تم یزید بن معاویہ کی بیعت سے دوری اختیار کرو اور جہاں تک ہو سکے شہروں دور رہو ۔پھر اپنے قاصد لوگوں کی جانب روانہ کرو اور انہیں اپنی جانب بلاؤ اگر تمہارے پیغام کو قبول کریں تو الحمد للہ اور اگر وہ کسی اور پر [6]اتفاق کریں تو انکے اس عمل سے تمہارے دین میں کوئی کمی نہیں ہوئی ،نہ تمہارے فضل میں کمی ہو گی......۔
اے میرے بھائی !تم مجھے سب سے زیادہ عزیز ہو اور محبوب ہو ......تم [[یزید بن معاویہ]] کی بیعت سے دوری اختیار کرو اور جہاں تک ہو سکے شہروں دور رہو ۔پھر اپنے قاصد لوگوں کی جانب روانہ کرو اور انہیں اپنی جانب بلاؤ اگر تمہارے پیغام کو قبول کریں تو الحمد للہ اور اگر وہ کسی اور پر [6]اتفاق کریں تو انکے اس عمل سے تمہارے دین میں کوئی کمی نہیں ہوئی ،نہ تمہارے فضل میں کمی ہو گی......۔
:کوفہ کی بے وفائی اور مکہ میں رہنا
:کوفہ کی بے وفائی اور مکہ میں رہنا
عبد اللہ بن عباس نے مکہ میں کہا : تم انکے پاس جارے ہو جنہوں نے آپکے والد کو قتل کیا اور آپکے بھائی کو زخمی کیا۔یقینا وہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے لہذا آپ مکہ میں ہی قیام کریں۔
عبد اللہ بن عباس نے مکہ میں کہا : تم انکے پاس جارے ہو جنہوں نے آپکے والد کو قتل کیا اور آپکے بھائی کو زخمی کیا۔یقینا وہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے لہذا آپ مکہ میں ہی قیام کریں۔
گمنام صارف