مندرجات کا رخ کریں

"عبد اللہ بن عبد المطلب" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 97: سطر 97:
تاریخی متون و مآخذ کے مطابق، نہ صرف [[رسول خدا(ص)]] کے آباء و اجداد کے مشرک ہونے کے سلسلے میں کوئی روشن دلیل موجود نہیں ہے بلکہ اسلامی مآخذ میں ایسے دلائل بکثرت پائے جاتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ وہ عظیم اور بہترین شخصیت کے مالک تھے۔ مثال کے طور پر [[مکہ]] پر [[ابرہہ]] کے حملے کے دوران [[حضرت عبدالمطلب علیہ السلام]] کا کلام اور ان کی [[دعا]] اس امر کی بہترین دلیل ہے۔ [[ابرہہ اشرم|ابرہہ]] نے [[کعبہ]] کی ویرانی کی غرض سے [[مکہ]] پر حملہ کیا تو [[عبدالمطلب]] نے بتوں کی پناہ میں چلے جانے کے بجائے اللہ عز و جل کی بارگاہ میں التجا کی اور [[کعبہ]] کی حفاظت کے لئے اللہ پر [[توکل]] فرمایا۔<ref>رضوانی، شیعه شناسى و پاسخ به شبهات، ج1، ص261۔</ref>
تاریخی متون و مآخذ کے مطابق، نہ صرف [[رسول خدا(ص)]] کے آباء و اجداد کے مشرک ہونے کے سلسلے میں کوئی روشن دلیل موجود نہیں ہے بلکہ اسلامی مآخذ میں ایسے دلائل بکثرت پائے جاتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ وہ عظیم اور بہترین شخصیت کے مالک تھے۔ مثال کے طور پر [[مکہ]] پر [[ابرہہ]] کے حملے کے دوران [[حضرت عبدالمطلب علیہ السلام]] کا کلام اور ان کی [[دعا]] اس امر کی بہترین دلیل ہے۔ [[ابرہہ اشرم|ابرہہ]] نے [[کعبہ]] کی ویرانی کی غرض سے [[مکہ]] پر حملہ کیا تو [[عبدالمطلب]] نے بتوں کی پناہ میں چلے جانے کے بجائے اللہ عز و جل کی بارگاہ میں التجا کی اور [[کعبہ]] کی حفاظت کے لئے اللہ پر [[توکل]] فرمایا۔<ref>رضوانی، شیعه شناسى و پاسخ به شبهات، ج1، ص261۔</ref>


ابرہہ کے گماشتے [[قریش]] کے اونٹ چوری کرکے لے گئے۔ عبدالمطلب اور ابرہہ کے درمیان ملاقات ہوئی۔ عبدالمطلب نے صرف اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ابرہہ نے کہا: "میں نے گمان کیا کہ تم [[کعبہ]] کے بارے میں گفتگو کرنے آئے ہو"۔ عبدالمطلب نے کہا: "'''میں اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا اپنا مالک ہے جس کی وہ خود حفاظت کرے گا'''"۔ عبدالمطلب [[مکہ]] واپس آئے اور مکیوں سے کہا کہ اپنا گھر بار چھوڑ کر پہاڑیوں میں چلے جائیں اور اپنے اموال بھی ساتھ لے جائیں۔<ref>شفیعی کدکنی، آفرینش‏ وتاریخ، ج‏1، ص532۔</ref>
ابرہہ کے گماشتے [[قریش]] کے اونٹ چوری کرکے لے گئے۔ عبدالمطلب اور ابرہہ کے درمیان ملاقات ہوئی۔ عبدالمطلب نے صرف اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ابرہہ نے کہا: "میں نے گمان کیا کہ تم [[کعبہ]] کے بارے میں گفتگو کرنے آئے ہو"۔ عبدالمطلب نے کہا: "{{حدیث|'''میں اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا اپنا مالک ہے جس کی وہ خود حفاظت کرے گا'''}}"۔ عبدالمطلب [[مکہ]] واپس آئے اور مکیوں سے کہا کہ اپنا گھر بار چھوڑ کر پہاڑیوں میں چلے جائیں اور اپنے اموال بھی ساتھ لے جائیں۔<ref>شفیعی کدکنی، آفرینش‏ وتاریخ، ج‏1، ص532۔</ref>


روایات کے مطابق جناب عبدالمطلب دین [[حنیف]] پر تھے اور انھوں نے کبھی بھی بت کی پوجا نہیں کی ہے۔ [[تیسری صدی ہجری]] کے مؤرخ [[مسعودی]] نے عبدالمطلب کے دین کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک [مشترکہ] قول یہ ہے کہ عبدالمطلب سمیت [[رسول اللہ]](ص) کے اجداد میں سے کسی نے بھی بتوں کی پرستش نہیں کی ہے۔<ref>مسعودی، مروج‏ الذهب، ج‏2، ص109۔</ref>  
روایات کے مطابق جناب عبدالمطلب دین [[حنیف]] پر تھے اور انھوں نے کبھی بھی بت کی پوجا نہیں کی ہے۔ [[تیسری صدی ہجری]] کے مؤرخ [[مسعودی]] نے عبدالمطلب کے دین کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک [مشترکہ] قول یہ ہے کہ عبدالمطلب سمیت [[رسول اللہ]](ص) کے اجداد میں سے کسی نے بھی بتوں کی پرستش نہیں کی ہے۔<ref>مسعودی، مروج‏ الذهب، ج‏2، ص109۔</ref>


عمل صالح بھی شرط [[ایمان]] ہے جیسا کہ [[قرآن]] کی متعدد آیات میں ارشاد ہوا ہے اور [[رسول اللہ(ص)]] کے آباء و اجداد کی ایک وجۂ شہرت ان کا عمل صالح ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی مآخذ میں منقولہ اقوال کے مطابق [[آمنہ بنت وہب سلام اللہ علیہا]] کے اعمال صالح ان کی اعلی شخصیت کی دلیل ہیں۔ [[عبدالمطلب]] اپنے فرزند عبداللہ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: "{{حدیث|'''فواللّه ما في بنات اهل مكّة مثلها لانّها محتشمةٌ في نفسها طاهرةٌ مطهرةٌ عاقلةٌ دَيّنَةٌ''': خداوند متعال کی عزت و جلال کی قسم! [[مکہ]] میں کوئی لڑکی [[آمنہ]] کی طرح نہیں ہے کیونکہ وہ با حیا اور با ادب ہے اور پاکیزہ نفس کی مالک اور عاقل و فہیم ہے اور [[دین]] پر ایمان رکھتی ہے}}"۔<ref>بحارالانوار، علامه مجلسی، ج 15، ص 99۔</ref>۔<ref>البکری، الأنوار و مفتاح السرور، ص118-119۔</ref> پس [[رسول خدا(ص)]] کے والدین اور آباء و اجداد کی زندگی کی بنیادیں نیکی اور عمل صالح پر استوار تھیں جس کی وجہ سے اُس زمانے اور اس ماحول میں ان کی وجۂ شہرت نیکی اور عمل صالح اور انسانی عظمتوں سے عبارت تھی۔
عمل صالح بھی شرط [[ایمان]] ہے جیسا کہ [[قرآن]] کی متعدد آیات میں ارشاد ہوا ہے اور [[رسول اللہ(ص)]] کے آباء و اجداد کی ایک وجۂ شہرت ان کا عمل صالح ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی مآخذ میں منقولہ اقوال کے مطابق [[آمنہ بنت وہب سلام اللہ علیہا]] کے اعمال صالح ان کی اعلی شخصیت کی دلیل ہیں۔ [[عبدالمطلب]] اپنے فرزند عبداللہ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: "{{حدیث|'''فواللّه ما في بنات اهل مكّة مثلها لانّها محتشمةٌ في نفسها طاهرةٌ مطهرةٌ عاقلةٌ دَيّنَةٌ''': خداوند متعال کی عزت و جلال کی قسم! [[مکہ]] میں کوئی لڑکی [[آمنہ]] کی طرح نہیں ہے کیونکہ وہ با حیا اور با ادب ہے اور پاکیزہ نفس کی مالک اور عاقل و فہیم ہے اور [[دین]] پر ایمان رکھتی ہے}}"۔<ref>بحارالانوار، علامه مجلسی، ج 15، ص 99۔</ref>۔<ref>البکری، الأنوار و مفتاح السرور، ص118-119۔</ref> پس [[رسول خدا(ص)]] کے والدین اور آباء و اجداد کی زندگی کی بنیادیں نیکی اور عمل صالح پر استوار تھیں جس کی وجہ سے اُس زمانے اور اس ماحول میں ان کی وجۂ شہرت نیکی اور عمل صالح اور انسانی عظمتوں سے عبارت تھی۔
گمنام صارف