مندرجات کا رخ کریں

"عبد اللہ بن عبد المطلب" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>Noorkhan
imported>Noorkhan
سطر 70: سطر 70:


بہر حال [[:زمرہ:علمائے شیعہ|علمائے امامیہ]]۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج15، ص117۔</ref>۔<ref>صدوق، الاعتقادات، ص110۔</ref> اور [[اہل سنت]] کی ایک جماعت۔<ref>الآلوسی، تفسیر روح المعانی، ج10، ص135۔</ref>۔<ref>فخر رازی، تفسیر مفاتیح الغیب، ج13، ص32-33۔</ref>۔<ref>حقی بروسوی، تفسیر روح البیان، ج6، ص313-124۔</ref>۔<ref>عجلونی جراحی، کشف الخفاء، ج1، ص60-62۔</ref> کا عقیدہ ہے کہ [[رسول خدا(ص)]] کے والدین اور آباء و اجداد مسلمان اور یکتا پرست تھے۔
بہر حال [[:زمرہ:علمائے شیعہ|علمائے امامیہ]]۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج15، ص117۔</ref>۔<ref>صدوق، الاعتقادات، ص110۔</ref> اور [[اہل سنت]] کی ایک جماعت۔<ref>الآلوسی، تفسیر روح المعانی، ج10، ص135۔</ref>۔<ref>فخر رازی، تفسیر مفاتیح الغیب، ج13، ص32-33۔</ref>۔<ref>حقی بروسوی، تفسیر روح البیان، ج6، ص313-124۔</ref>۔<ref>عجلونی جراحی، کشف الخفاء، ج1، ص60-62۔</ref> کا عقیدہ ہے کہ [[رسول خدا(ص)]] کے والدین اور آباء و اجداد مسلمان اور یکتا پرست تھے۔
===قرآن مجید کی نگاہ میں===
خداوند متعال کا ارشاد ہے:
<font color = green>"{{قرآن کا متن|'''الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ (218) وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ (219)'''|ترجمہ=جو دیکھتا ہے آپ کو جب آپ کھڑے ہوتے ہیں (218) اور آپ کی گردش کو سجدہ کرنے والوں میں (219)|سورت=[[سورہ شعراء]]|آیت=218-219}}"</font>
اس کے معنی یہ ہیں کہ خداوند متعال [[رسول خدا(ص)]] کی روح کو ایک سجدہ کرنے والے سے دوسرے ساجد کی صلب میں منتقل کرتا ہے؛ اس معنی کے مطابق، آیت کی دلالت یہ ہے کہ [[رسول خدا(ص)]] کے تمام آباء و اجداد مسلمان تھے۔<ref>مفید، اوائل المقالات، ص43-46۔</ref>۔<ref>مفید، الصحابة بین العدالة والعصمة، ص97-98۔</ref>۔<ref>رضوانی، شیعه شناسى و پاسخ به شبهات، ج1، ص260۔</ref> لہذا ان آیات کے ذیل میں منقولہ [[احادیث]] سے ثابت ہے کہ [[رسول خدا(ص)]] پے در پے ایک پیغمبر کی صلب سے دوسرے پیغمبر کی صلب میں منتقل ہوجاتے تھے۔<ref>الکوفی، تفسیر فرات، ص304۔</ref>۔<ref>البحرانی، تفسیر برهان، ج4، ص191-193۔</ref>۔<ref>البغوی، معالم التنزیل، ج3، ص484۔</ref>
===احادیث کی روشنی میں===
[[رسول اللہ(ص)]] کے آباء و اجداد کے [[ایمان]] اور یکتا پرستی کے بارے میں دو قسم کی [[حدیث|حدیثیں]] وارد ہوئی ہیں:
[[امام صادق(ع)]] می‌فرماید: «جبرئیل علیه‌السلام بر پیغمبر نازل شد و گفت:‌ای محمد! پروردگارت به تو سلام می‌رساند و می‌فرماید: من آتش دوزخ را حرام کردم بر پشتی (صُلب) که تو را فرود آورد، و شکمی که به تو آبستن شد و دامانی که تو را پروراند:
1۔ وہ [[احادیث]] جو [[رسول خدا(ص)]] کے آباء اور ماؤں کی پاکیزگی اور طہارت پر دلالت کرتی ہیں جیسا کہ [[امام صادق(ع)]] فرماتے ہیں کہ [[رسول اللہ|آنحضرت(ص)]] نے فرمایا: <font color = green>"{{حدیث|'''جبرائیل مجھ پر نازل ہوئے اور کہا اے [[محمد]]! خداوند عزّ و جلّ خداوند متعال نے آپ پر درود بھیجتا ہے اور فرماتا ہے: بےشک میں نے آگ کو حرام کردیا ہر صلب پر جس نے آپ کو اتارا ہے اور ہر رَحِم (= کوکھ) پر جس نے آپ کو حمل کیا ہے، اور ہر دامن پر جس نے آپ کو پالا ہے اور آپ کی کفالت کی ہے'''}}</font>۔<ref>صدوق، علل الشرائع، ج1، ص177۔</ref>۔<ref>[http://lib.eshia.ir/11005/1/446/%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B7%D9%84%D8%A8 کلینی، الکافی، ج1، ص446]۔</ref>
نیز [[رسول اللہ|آنحضرت(ص)]] نے فرمایا: <font color = green>"{{حدیث|'''خداوند عزّ و جلّ نے مجھے یکے بعد از دیگرے پاک صلبوں سے پاک اور مطہر کوکھوں میں منتقل کیا اور [[جاہلیت]] کی برائیاں مجھ تک نہیں پہنچ سکی ہیں'''}}</font>۔<ref>البحرانی، تفسیر برہان، ج3، ص312۔</ref>۔<ref>طبری (الشیعی)، المسترشد في امامة علي بن ابی طالب(ع)، ص649۔</ref>۔<ref>ابوحیان الاندلسی، تفسیر البحر المیحط، ج8، ص198۔</ref>۔<ref>شعیری، جامع الاخبار، ص16۔</ref>۔<ref>فخر رازی، تفسیر مفاتیح الغیب، ج24، ص536۔</ref> یہ [[احادیث]] معنوی [[حدیث متواتر|تواتر]] کی حد تک پہنچی ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالأنوار، ج15، ص118-119۔</ref>
2۔ وہ [[احادیث]] جن کے مطابق [[رسول اللہ(ص)]] [[قیامت]] کے دن اپنے آباء و اجداد کی [[شفاعت]] کرتے ہیں جیسا کہ [[رسول خدا(ص)]] نے فرمایا:
<font color = green>"{{حدیث|'''میں نے اپنے پروردگار سے التجا کی کہ چار افراد کو بخش دے اور خدا انہیں بخش دے گا ان شاء اللہ: [میری والدہ] [[آمنہ بنت وہب]]، [میرے والد] عبداللہ بن عبدالمطلب، [میرے چچا] [[ابو طالب علیہ السلام|ابو طالب بن عبدالمطلب]]، اور ایک انصاری مرد جس کے ساتھ میرا عہد پیمان تھا}}'''}}</font>۔<ref>حمیری، قرب الاسناد، ص56۔</ref> حالانکہ [[قرآن]] کی روشنی میں [[رسول اللہ(ص)]] کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لئے طلب مغفرت اور ان کی [[شفاعت]] کریں؛ ارشاد ہوتا ہے:
<font color = green>"{{قرآن کا متن|'''مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُواْ أُوْلِي قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ|ترجمہ=پیغمبر کو اور انہیں جو ایمان لائے ہیں، یہ حق نہیں کہ وہ دعائے مغفرت کریں مشرکوں کے لیے، چاہے وہ عزیز ہوں بعد اس کے کہ ان پر ثابت ہو گیا وہ دوزخ والے ہیں|سورت|[[سورہ توبہ|آیت=113'''}}"۔ اور یہ جو [[رسول خدا(ص)]] نے فرمایا ہے کہ "میں اپنے والدین کی [[شفاعت]] کرتا ہوں" اس بات کی دلیل ہے کہ وہ موحد اور یکتا پرست تھے۔<ref>مجلسی، بحار الأنوار، ج15، ص108۔</ref>
[[شیخ صدوق]] نے [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق]](ع) سے نقل کیا ہے کہ [[رسول اللہ|پیغمبر اسلام(ص)]] نے [[امیرالمؤمنین|امام علی(ع)]] سے مخاطب ہوکر فرمایا: "عبدالمطلب نے کبھی بھی قمار بازی (= جوا بازی) نہیں کی اور بتوں کی پوجا نہیں کی اور ۔۔۔۔ اور وہ کہا کرتے تھے کہ میں اپنے باپ [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم خلیل]](ع) کے دین پر ہوں"۔<ref>صدوق، خصال، ج‏1، ص455۔</ref>
نیز [[شیخ صدوق]] کہتے ہیں: ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ [[رسول خدا(ص)]] کے آباء و اجداد [[حضرت آدم علیہ السلام|آدم(ع)]] تک، نیز [[ابوطالب]] اور [[رسول اکرم(ص)]] کی والدہ [[آمنہ بنت وہب|آمنہ]] سب مسلمان اور صاحب ایمان تھے۔<ref>صدوق، الاعتقادات، ص110۔</ref>
===تاریخ کی روشنی میں===
تاریخی متون و مآخذ کے مطابق، نہ صرف [[رسول خدا(ص)]] کے آباء و اجداد کے مشرک ہونے کے سلسلے میں کوئی روشن دلیل موجود نہیں ہے بلکہ اسلامی مآخذ میں ایسے دلائل بکثرت پائے جاتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ وہ عظیم اور بہترین شخصیت کے مالک تھے۔ مثال کے طور پر [[مکہ]] پر [[ابرہہ]] کے حملے کے دوران [[حضرت عبدالمطلب علیہ السلام]] کا کلام اور ان کی [[دعا]] اس امر کی بہترین دلیل ہے۔ [[ابرہہ اشرم|ابرہہ]] نے [[کعبہ]] کی ویرانی کی غرض سے [[مکہ]] پر حملہ کیا تو [[عبدالمطلب]] نے بتوں کی پناہ میں چلے جانے کے بجائے اللہ عز و جل کی بارگاہ میں التجا کی اور [[کعبہ]] کی حفاظت کے لئے اللہ پر [[توکل]] فرمایا۔<ref>رضوانی، شیعه شناسى و پاسخ به شبهات، ج1، ص261۔</ref>
ابرہہ کے گماشتے [[قریش]] کے اونٹ چوری کرکے لے گئے۔ عبدالمطلب اور ابرہہ کے درمیان ملاقات ہوئی۔ عبدالمطلب نے صرف اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ابرہہ نے کہا: "میں نے گمان کیا کہ تم [[کعبہ]] کے بارے میں گفتگو کرنے آئے ہو"۔ عبدالمطلب نے کہا: "'''میں اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا اپنا مالک ہے جس کی وہ خود حفاظت کرے گا'''"۔ عبدالمطلب [[مکہ]] واپس آئے اور مکیوں سے کہا کہ اپنا گھر بار چھوڑ کر پہاڑیوں میں چلے جائیں اور اپنے اموال بھی ساتھ لے جائیں۔<ref>شفیعی کدکنی، آفرینش‏ وتاریخ، ج‏1، ص532۔</ref>
روایات کے مطابق جناب عبدالمطلب دین [[حنیف]] پر تھے اور انھوں نے کبھی بھی بت کی پوجا نہیں کی ہے۔ [[تیسری صدی ہجری]] کے مؤرخ [[مسعودی]] نے عبدالمطلب کے دین کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک [مشترکہ] قول یہ ہے کہ عبدالمطلب سمیت [[رسول اللہ]](ص) کے اجداد میں سے کسی نے بھی بتوں کی پرستش نہیں کی ہے۔<ref>مسعودی، مروج‏ الذهب، ج‏2، ص109۔</ref>
عمل صالح بھی شرط [[ایمان]] ہے جیسا کہ [[قرآن]] کی متعدد آیات میں ارشاد ہوا ہے اور [[رسول اللہ(ص)]] کے آباء و اجداد کی ایک وجۂ شہرت ان کا عمل صالح ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی مآخذ میں منقولہ اقوال کے مطابق [[آمنہ بنت وہب سلام اللہ علیہا]] کے اعمال صالح ان کی اعلی شخصیت کی دلیل ہیں۔ [[عبدالمطلب]] اپنے فرزند عبداللہ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: "{{حدیث|'''فواللّه ما في بنات اهل مكّة مثلها لانّها محتشمةٌ في نفسها طاهرةٌ مطهرةٌ عاقلةٌ دَيّنَةٌ''': خداوند متعال کی عزت و جلال کی قسم! [[مکہ]] میں کوئی لڑکی [[آمنہ]] کی طرح نہیں ہے کیونکہ وہ با حیا اور با ادب ہے اور پاکیزہ نفس کی مالک اور عاقل و فہیم ہے اور [[دین]] پر ایمان رکھتی ہے}}"۔<ref>بحارالانوار، علامه مجلسی، ج 15، ص 99۔</ref>۔<ref>البکری، الأنوار و مفتاح السرور، ص118-119۔</ref> پس [[رسول خدا(ص)]] کے والدین اور آباء و اجداد کی زندگی کی بنیادیں نیکی اور عمل صالح پر استوار تھیں جس کی وجہ سے اُس زمانے اور اس ماحول میں ان کی وجۂ شہرت نیکی اور عمل صالح اور انسانی عظمتوں سے عبارت تھی۔


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
گمنام صارف