مندرجات کا رخ کریں

"غزوہ خیبر" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 120: سطر 120:
[[خیبر]] کے دوسرے قلعے (منجملہ: وطیح اور سلالم) مصالحت کے ذریعے [[رسول خدا(ص)]] کے سپرد کئے گئے چنانچہ ان قلعوں سے حاصل ہونے والے اموال "مالِ فیئ"<ref>وہ مال جو اللہ نے بغیر جنگ کے اپنے رسول کی طرف پہنچایا۔</ref> میں شمار ہوتے تھے جو خالصۃ الرسول(ص) کے زمرے میں آتے تھے۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص670-671۔</ref>۔<ref>ابن فراء، الاحکام السلطانیة، ص200-201۔</ref>۔<ref>السهمودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، ج4، ص1209-1210۔</ref>۔<ref>صالحی شامی، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص143۔</ref>
[[خیبر]] کے دوسرے قلعے (منجملہ: وطیح اور سلالم) مصالحت کے ذریعے [[رسول خدا(ص)]] کے سپرد کئے گئے چنانچہ ان قلعوں سے حاصل ہونے والے اموال "مالِ فیئ"<ref>وہ مال جو اللہ نے بغیر جنگ کے اپنے رسول کی طرف پہنچایا۔</ref> میں شمار ہوتے تھے جو خالصۃ الرسول(ص) کے زمرے میں آتے تھے۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص670-671۔</ref>۔<ref>ابن فراء، الاحکام السلطانیة، ص200-201۔</ref>۔<ref>السهمودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، ج4، ص1209-1210۔</ref>۔<ref>صالحی شامی، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص143۔</ref>


====غنیمت کن کو ملی؟===
====مال غنیمت کی تقسیم ===
[[خیبر]] کا مال غنیمت، [[خمس]] الگ کرنے کے بعد ان افراد کے درمیان بانٹ دیا گیا جو [[غزوہ حدیبیہ]] میں شریک ہوئے تھے خواہ وہ جو جنگ [[خیبر]] میں شریک ہوئے خواہ وہ جو شریک نہیں ہوئے تھے؛<ref>صنعانی، المصنف، ج5، ص372۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص364۔</ref> تاہم الواقدی کی رائے<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص684۔</ref> زیادہ صحیح ہے جن کا کہنا ہے کہ غنائم کو [[خیبر]] میں حاضر تمام افراد کے درمیان بانٹ کیا گیا چاہے وہ جنہوں نے [[غزوہ حدیبیہ]] میں شرکت کی تھی چاہے وہ جنہوں نے شرکت نہیں کی تھی۔ فروخت شدہ اموال سے حاصلہ آمدنی بھی ان کے درمیان بانٹ دی گئی۔ تمام حصص کی تعداد 1800 تھی جن کو 18 گروہوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر 100 حصص کی تقسیم کے لئے ایک سرپرست متعین کیا گیا۔<ref>ابویوسف، کتاب الخراج، ص23۔</ref>۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص689۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص364۔</ref>۔<ref>قس ابن آدم، کتاب الخراج، ص37-39۔</ref>۔<ref>ابن زنجویه، کتاب الاموال، ج1، ص188-190۔</ref>۔<ref>البلاذري، فتوح البلدان، ص28-29۔</ref>۔<ref>
[[خیبر]] کا مال غنیمت [[خمس]] الگ کرنے کے بعد ان افراد کے درمیان بانٹ دیا گیا جو [[غزوہ حدیبیہ]] میں شریک ہوئے تھے خواہ وہ جو جنگ [[خیبر]] میں شریک ہوئے خواہ وہ جو شریک نہیں ہوئے تھے؛<ref>صنعانی، المصنف، ج5، ص372۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص364۔</ref> تاہم الواقدی کی رائے<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص684۔</ref> زیادہ صحیح ہے جن کا کہنا ہے کہ غنائم کو [[خیبر]] میں حاضر تمام افراد کے درمیان بانٹ کیا گیا چاہے وہ جنہوں نے [[غزوہ حدیبیہ]] میں شرکت کی تھی چاہے وہ جنہوں نے شرکت نہیں کی تھی۔ فروخت شدہ اموال سے حاصلہ آمدنی بھی ان کے درمیان بانٹ دی گئی۔ تمام حصص کی تعداد 1800 تھی جن کو 18 گروہوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر 100 حصص کی تقسیم کے لئے ایک سرپرست متعین کیا گیا۔<ref>ابویوسف، کتاب الخراج، ص23۔</ref>۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص689۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص364۔</ref>۔<ref>قس ابن آدم، کتاب الخراج، ص37-39۔</ref>۔<ref>ابن زنجویه، کتاب الاموال، ج1، ص188-190۔</ref>۔<ref>البلاذري، فتوح البلدان، ص28-29۔</ref>۔<ref>


حصص کی تقسیم اور مسلمانوں کے مختلف گروہوں کا تذکرہ البلاذری نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص364-365۔</ref>۔<ref>البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج2، ص689-690۔</ref>۔<ref> غنائم کے سلسلے میں غنائم کے بارے میں مختلف موقف اپنایا جس کا تذکرہ [[الواقدی]] نے کیا ہے۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص697-699۔</ref>
حصص کی تقسیم اور مسلمانوں کے مختلف گروہوں کا تذکرہ البلاذری نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص364-365۔</ref>۔<ref>البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج2، ص689-690۔</ref>۔<ref> غنائم کے سلسلے میں غنائم کے بارے میں مختلف موقف اپنایا جس کا تذکرہ [[الواقدی]] نے کیا ہے۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص697-699۔</ref>
گمنام صارف