مندرجات کا رخ کریں

"غزوہ خیبر" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 87: سطر 87:
ابو رافع کی روایت کے مطابق، ایک یہودی نے قلعے کے دروازے کے پاس [[امیرالمؤمنین|حضرت علی]] پر وار کیا اور آپ(ع) کی ڈھال گر گئی چنانچہ آپ(ع) نے قلعے کے ایک دروازے کو اکھاڑ کر اس کو اپنی ڈھال قرار دیا اور اسی دروازے کو ہاتھ میں لے کر آخر تک لڑتے رہے یہاں تک کہ قلعہ آپ(ع) کے ہاتھوں فتح ہوا اور اسی قلعے (یعنی قلعۂ مرحب) کی فتح کی خوشخبری [[رسول خدا(ص)]] کے لئے بھجوا دی۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص655۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص349-350۔</ref>۔<ref>المقدسی، البدء والتاریخ، ج5، ص226۔</ref> ایک روایت کے مطابق جس یہودی مرد نے آپ(ع) پر تلوار کا وار کیا تھا، وہ مرحب ہی تھا۔<ref>المقريزي، امتاع الاسماع، ج1، ص310 ۔</ref> مروی ہے کہ جنگ کے بعد 40 یا 70 افراد اس دروازے کو اٹھانے میں کامیاب ہوسکے تھے۔<ref>المفید، الارشاد، ج2، ص128-129۔</ref>۔<ref>البیهقی، دلائل النبوة، ج4، ص212۔</ref>۔<ref>ابن شهر آشوب، مناقب آل ابي طالب، ج2، ص78، 125-128۔</ref>۔<ref>العاملی، الصحیح من سیرة النبی(ص)، ج18، ص27۔</ref> [[خیبر]] کی فیصلہ کن فتح [[امام علی علیہ السلام]] کے فضائل و مناقب میں شمار ہوتی ہے جس پر بہت سے مؤرخین اور محدثین کا اتفاق ہے۔<ref>ابن بابویه، الخصال، ج2، ص369۔</ref>۔<ref>مفید، الارشاد، ج1، ص124۔</ref>۔<ref>العاملی، الصحیح من سیرة النبی(ص)، ج18، ص29-34 ۔</ref> یہودیوں کے متذکرہ بالا دلیر پہلوانوں اور قلعۂ ناعم میں بعض دیگر بہادر جنگجؤوں کی ہلاکت کے بعد خیبر کی فتح کاملہ آسان ہوگئی۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص654، 657-658۔</ref>
ابو رافع کی روایت کے مطابق، ایک یہودی نے قلعے کے دروازے کے پاس [[امیرالمؤمنین|حضرت علی]] پر وار کیا اور آپ(ع) کی ڈھال گر گئی چنانچہ آپ(ع) نے قلعے کے ایک دروازے کو اکھاڑ کر اس کو اپنی ڈھال قرار دیا اور اسی دروازے کو ہاتھ میں لے کر آخر تک لڑتے رہے یہاں تک کہ قلعہ آپ(ع) کے ہاتھوں فتح ہوا اور اسی قلعے (یعنی قلعۂ مرحب) کی فتح کی خوشخبری [[رسول خدا(ص)]] کے لئے بھجوا دی۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص655۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص349-350۔</ref>۔<ref>المقدسی، البدء والتاریخ، ج5، ص226۔</ref> ایک روایت کے مطابق جس یہودی مرد نے آپ(ع) پر تلوار کا وار کیا تھا، وہ مرحب ہی تھا۔<ref>المقريزي، امتاع الاسماع، ج1، ص310 ۔</ref> مروی ہے کہ جنگ کے بعد 40 یا 70 افراد اس دروازے کو اٹھانے میں کامیاب ہوسکے تھے۔<ref>المفید، الارشاد، ج2، ص128-129۔</ref>۔<ref>البیهقی، دلائل النبوة، ج4، ص212۔</ref>۔<ref>ابن شهر آشوب، مناقب آل ابي طالب، ج2، ص78، 125-128۔</ref>۔<ref>العاملی، الصحیح من سیرة النبی(ص)، ج18، ص27۔</ref> [[خیبر]] کی فیصلہ کن فتح [[امام علی علیہ السلام]] کے فضائل و مناقب میں شمار ہوتی ہے جس پر بہت سے مؤرخین اور محدثین کا اتفاق ہے۔<ref>ابن بابویه، الخصال، ج2، ص369۔</ref>۔<ref>مفید، الارشاد، ج1، ص124۔</ref>۔<ref>العاملی، الصحیح من سیرة النبی(ص)، ج18، ص29-34 ۔</ref> یہودیوں کے متذکرہ بالا دلیر پہلوانوں اور قلعۂ ناعم میں بعض دیگر بہادر جنگجؤوں کی ہلاکت کے بعد خیبر کی فتح کاملہ آسان ہوگئی۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص654، 657-658۔</ref>


===قلعہ نطاۃ؛ محاصرہ اور فتح===
===قلعہ نطاۃکی فتح===
صعب بن معاذ کا حصار بھی نطاۃ کے احاطے میں تھا جس میں کھانے پینے کی اشیاء، دیگر سازوسامان اور چوپائے نیز 500 جنگجو تھے۔ مسلمانوں نے 10 روز تک نطاۃ کا محاصرے میں رکھا اور قلعے کے اطراف میں لڑتے رہے۔ مجاہدین ـ بالخصوص بنو اسلم بھوک سے نڈھال ہوئے تو [[رسول اکرم(ص)]] نے دعا کی کہ خداوند متعال سب سے بڑا قلعہ ـ جو سب سے زیادہ پر ثروت بھی تھا ـ ان کے لئے کھول دے۔ بعد ازاں صعب بن معاذ کا حصار دو روز تک گھمسان کی لڑائی کے بعد تیسرے روز بوقت صبح اللہ کی مدد سے فتح ہوچکا اور یہودیوں نے ناعم، نطاۃ اور صعب بن معاذ نامی قلعوں کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی اور سب سے زیادہ مضبوط اور اونچے قلعے ــ یعنی قلعۂ زبیر ــ میں فرار کرکے چلے گئے۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص662۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص345-346۔</ref> یہ قلعہ بھی تین دن تک محاصرے میں رہا؛ اسی اثناء میں ایک یہودی [[رسول خدا(ص)]] کی خدمت میں حاضر ہوا اور امان مانگی اور اس کی راہنمائی میں شدید جنگ کے بعد مسلمانوں نے اس حصار کو ـ جو نطاۃ کا آخری حصار تھا ـ فتح کرلیا۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص666-667۔</ref>
صعب بن معاذ کا حصار بھی نطاۃ کے احاطے میں تھا جس میں کھانے پینے کی اشیاء، دیگر سازوسامان اور چوپائے نیز 500 جنگجو تھے۔ مسلمانوں نے 10 روز تک نطاۃ کا محاصرے میں رکھا اور قلعے کے اطراف میں لڑتے رہے۔ مجاہدین ـ بالخصوص بنو اسلم بھوک سے نڈھال ہوئے تو [[رسول اکرم(ص)]] نے دعا کی کہ خداوند متعال سب سے بڑا قلعہ ـ جو سب سے زیادہ پر ثروت بھی تھا ـ ان کے لئے کھول دے۔ بعد ازاں صعب بن معاذ کا حصار دو روز تک گھمسان کی لڑائی کے بعد تیسرے روز بوقت صبح اللہ کی مدد سے فتح ہوچکا اور یہودیوں نے ناعم، نطاۃ اور صعب بن معاذ نامی قلعوں کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی اور سب سے زیادہ مضبوط اور اونچے قلعے ــ یعنی قلعۂ زبیر ــ میں فرار کرکے چلے گئے۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص662۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص345-346۔</ref> یہ قلعہ بھی تین دن تک محاصرے میں رہا؛ اسی اثناء میں ایک یہودی [[رسول خدا(ص)]] کی خدمت میں حاضر ہوا اور امان مانگی اور اس کی راہنمائی میں شدید جنگ کے بعد مسلمانوں نے اس حصار کو ـ جو نطاۃ کا آخری حصار تھا ـ فتح کرلیا۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص666-667۔</ref>


گمنام صارف