گمنام صارف
"صلح حدیبیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Noorkhan کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 78: | سطر 78: | ||
کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ عثمان قتل نہیں ہوئے تھے بلکہ [[مکہ]] میں قید تھے۔<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص89۔</ref> [[قریش]] نے ایک نمائندہ [[مسلمانوں]] کی طرف روانہ کیا تاکہ ان کے ساتھ صلح کے معاہدے پر دستخط کرے جس کے تحت مسلمان اس سال [[کعبہ|خانۂ خدا]] کی زیارت کئے بغیر [[مدینہ]] واپس چلے جائیں اور اگلے سال [[مکہ]] کا سفر کریں تا کہ [[قریش]] کو دوسرے عربوں کی ملامت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس شخص کا نام "سہیل بن عمرو" تھا اور [[رسول خدا(ص)]] نے سہیل کو دیکھ کر فرمایا: "[[قریش]] اس شخص کو بھیج کر، مصالحت کا ارادہ رکھتے ہیں"۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج3، ص781۔</ref> فریقین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق ہونے کے بعد، صلح نامے پر [[رسول اللہ(ص)]] اور [[قریش]] کے نمائندے نے دستخط کئے۔ [[رسول خدا(ص)]] ـ جو صلح کے فوائد سے بخوبی آگاہ تھے ـ نے زیادہ لچکدار رویہ اپنایا۔ اس لچکدار رویئے کا ایک نمونہ یہ تھا کہ آپ(ص) نے سہیل بن عمرو کے اس مطالبے سے اتفاق کیا کہ "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کو معاہدے کے سرنامے سے حذف کیا جائے اور اس کے بجائے "باسمک اللہم" لکھا جائے؛ نیز آپ(ص) نے سہیل کا یہ مطالبہ بھی قبول کیا کہ [[رسول اللہ]] کا عنوان حذف کیا جائے اور اس کے بجائے [[رسول اللہ|محمد بن عبداللہ]] لکھا جائے۔<ref>رجوع کریں: الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص54۔</ref>۔<ref>الطبرسی، اعلام الوری، ج1، ص371ـ 372۔</ref>۔<ref>الحلبی، السيرة الحلبية، ج3، ص20۔</ref> | کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ عثمان قتل نہیں ہوئے تھے بلکہ [[مکہ]] میں قید تھے۔<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص89۔</ref> [[قریش]] نے ایک نمائندہ [[مسلمانوں]] کی طرف روانہ کیا تاکہ ان کے ساتھ صلح کے معاہدے پر دستخط کرے جس کے تحت مسلمان اس سال [[کعبہ|خانۂ خدا]] کی زیارت کئے بغیر [[مدینہ]] واپس چلے جائیں اور اگلے سال [[مکہ]] کا سفر کریں تا کہ [[قریش]] کو دوسرے عربوں کی ملامت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس شخص کا نام "سہیل بن عمرو" تھا اور [[رسول خدا(ص)]] نے سہیل کو دیکھ کر فرمایا: "[[قریش]] اس شخص کو بھیج کر، مصالحت کا ارادہ رکھتے ہیں"۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج3، ص781۔</ref> فریقین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق ہونے کے بعد، صلح نامے پر [[رسول اللہ(ص)]] اور [[قریش]] کے نمائندے نے دستخط کئے۔ [[رسول خدا(ص)]] ـ جو صلح کے فوائد سے بخوبی آگاہ تھے ـ نے زیادہ لچکدار رویہ اپنایا۔ اس لچکدار رویئے کا ایک نمونہ یہ تھا کہ آپ(ص) نے سہیل بن عمرو کے اس مطالبے سے اتفاق کیا کہ "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کو معاہدے کے سرنامے سے حذف کیا جائے اور اس کے بجائے "باسمک اللہم" لکھا جائے؛ نیز آپ(ص) نے سہیل کا یہ مطالبہ بھی قبول کیا کہ [[رسول اللہ]] کا عنوان حذف کیا جائے اور اس کے بجائے [[رسول اللہ|محمد بن عبداللہ]] لکھا جائے۔<ref>رجوع کریں: الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص54۔</ref>۔<ref>الطبرسی، اعلام الوری، ج1، ص371ـ 372۔</ref>۔<ref>الحلبی، السيرة الحلبية، ج3، ص20۔</ref> | ||
===بعض صحابہ کی مخالفت=== | |||
[[رسول خدا(ص)]] کا لچکدار رویہ بعض [[صحابہ]] کی تنقید اور غیظ و غضب کا سبب بنا!! اور بعض صحابہ نے درشت لہجہ استعمال کیا اور ان کی زبان سے طعن آمیز سوالات سنے گئے؛ ان صحابہ میں سے ایک [[عمر بن خطاب]] بھی تھے جنہوں نے آپ(ص) کے ساتھ تند رویہ روا رکھا!<ref>رجوع کریں: ابن هشام، السيرة النبوية، ج3، ص783۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص609ـ611۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات، ج2، ص101۔</ref> عمر نے اس صلحنامے کو مسلمانوں کی حقارت کا سبب قرار دیا،<ref>بیهقی، دلایل النبوة، ج4، ص106۔</ref>۔<ref>الذهبی، تاريخ الإسلام و وفيات المشاهير والأعلام، ج2، ص371۔</ref> اور اپنی رائے پر اس قدر اصرار کیا کہ ابو عبیدہ جراح نے جاکر ان سے کہا: "[[شیطان]] کے شر سے خدا کی پناہ مانگو اور اپنی رائے کو غلط سمجھو"،<ref>سبل الهدى و الرشاد في سيرة خير العباد، ج5، ص53۔</ref> عمر خود بھی معترف ہیں اور کہتے ہیں: خدا کی قسم میں نے [[اسلام]] قبول کرنے سے لے کر واقعۂ حدیبیہ تک آپ(ص) کی رسالت میں اس قدر شک نہیں کیا تھا؛ چنانچہ میں آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا "کیا آپ پیغمبر نہیں ہیں؟!<ref>قال عمر: '''واللَّه ما شككت منذ أسلمت إلّا یومئذ فأتیت النّبیّ، صلّی اللَّه علیه و سلّم فقلت: یا رسول اللَّه، أ لست نبیّ اللَّه؟''': الذهبی، تاريخ الإسلام و وفيات المشاهير والأعلام، ج2 ،ص372۔</ref>۔<ref>بیهقی، ابوبکر،ج4،ص:106۔</ref>۔<ref>الصالحي الشامي، سبل الهدى والرشاد، ص53۔</ref>۔<ref>الواقدی نقل کرتے ہیں: کہ عمر نے کہا: '''ارتبت ارتیابا لم أرتبه منذ أسلمت''': المغازی، ج2، ص607۔</ref> نیز [[عمر بن خطاب|عمر]] کا کہنا تھا: "میں اپنی تشخیص سے [[رسول اللہ(ص)]] کے احکامات کی کو رد کیا کرتا تھا۔<ref>الصالحي الشامي، سبل الهدى والرشاد، ج5، ص85۔</ref> | |||
==پاورقی حاشیے== | ==پاورقی حاشیے== |