مندرجات کا رخ کریں

"صلح حدیبیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 80: سطر 80:
===بعض صحابہ کی مخالفت===
===بعض صحابہ کی مخالفت===
[[رسول خدا(ص)]] کا لچکدار رویہ بعض [[صحابہ]] کی تنقید اور غیظ و غضب کا سبب بنا!! اور بعض صحابہ نے درشت لہجہ استعمال کیا اور ان کی زبان سے طعن آمیز سوالات سنے گئے؛ ان صحابہ میں سے ایک [[عمر بن خطاب]] بھی تھے جنہوں نے آپ(ص) کے ساتھ تند رویہ روا رکھا!<ref>رجوع کریں: ابن هشام، السيرة النبوية، ج3، ص783۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص609ـ611۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات، ج2، ص101۔</ref> عمر نے اس صلحنامے کو مسلمانوں کی حقارت کا سبب قرار دیا،<ref>بیهقی، دلایل النبوة، ج4، ص106۔</ref>۔<ref>الذهبی، تاريخ الإسلام و وفيات المشاهير والأعلام، ج2، ص371۔</ref> اور اپنی رائے پر اس قدر اصرار کیا کہ ابو عبیدہ جراح نے جاکر ان سے کہا: "[[شیطان]] کے شر سے خدا کی پناہ مانگو اور اپنی رائے کو غلط سمجھو"،<ref>سبل الهدى و الرشاد في سيرة خير العباد، ج‏5، ص53۔</ref> عمر خود بھی معترف ہیں اور کہتے ہیں: خدا کی قسم میں نے [[اسلام]] قبول کرنے سے لے کر واقعۂ حدیبیہ تک آپ(ص) کی رسالت میں اس قدر شک نہیں کیا تھا؛ چنانچہ میں آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا "کیا آپ پیغمبر نہیں ہیں؟!<ref>قال عمر: '''واللَّه ما شككت منذ أسلمت إلّا یومئذ  فأتیت النّبیّ، صلّی اللَّه علیه و سلّم فقلت: یا رسول اللَّه، أ لست نبیّ اللَّه؟''': الذهبی، تاريخ الإسلام و وفيات المشاهير والأعلام، ج‏2 ،ص372۔</ref>۔<ref>بیهقی، ابوبکر،ج‏4،ص:106۔</ref>۔<ref>الصالحي الشامي، سبل الهدى والرشاد، ص53۔</ref>۔<ref>الواقدی نقل کرتے ہیں: کہ عمر نے کہا: '''ارتبت ارتیابا لم أرتبه منذ أسلمت''': المغازی، ج2، ص607۔</ref> نیز [[عمر بن خطاب|عمر]] کا کہنا تھا: "میں اپنی تشخیص سے [[رسول اللہ(ص)]] کے احکامات کی کو رد کیا کرتا تھا۔<ref>الصالحي الشامي، سبل الهدى والرشاد، ج‏5، ص85۔</ref>
[[رسول خدا(ص)]] کا لچکدار رویہ بعض [[صحابہ]] کی تنقید اور غیظ و غضب کا سبب بنا!! اور بعض صحابہ نے درشت لہجہ استعمال کیا اور ان کی زبان سے طعن آمیز سوالات سنے گئے؛ ان صحابہ میں سے ایک [[عمر بن خطاب]] بھی تھے جنہوں نے آپ(ص) کے ساتھ تند رویہ روا رکھا!<ref>رجوع کریں: ابن هشام، السيرة النبوية، ج3، ص783۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص609ـ611۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات، ج2، ص101۔</ref> عمر نے اس صلحنامے کو مسلمانوں کی حقارت کا سبب قرار دیا،<ref>بیهقی، دلایل النبوة، ج4، ص106۔</ref>۔<ref>الذهبی، تاريخ الإسلام و وفيات المشاهير والأعلام، ج2، ص371۔</ref> اور اپنی رائے پر اس قدر اصرار کیا کہ ابو عبیدہ جراح نے جاکر ان سے کہا: "[[شیطان]] کے شر سے خدا کی پناہ مانگو اور اپنی رائے کو غلط سمجھو"،<ref>سبل الهدى و الرشاد في سيرة خير العباد، ج‏5، ص53۔</ref> عمر خود بھی معترف ہیں اور کہتے ہیں: خدا کی قسم میں نے [[اسلام]] قبول کرنے سے لے کر واقعۂ حدیبیہ تک آپ(ص) کی رسالت میں اس قدر شک نہیں کیا تھا؛ چنانچہ میں آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا "کیا آپ پیغمبر نہیں ہیں؟!<ref>قال عمر: '''واللَّه ما شككت منذ أسلمت إلّا یومئذ  فأتیت النّبیّ، صلّی اللَّه علیه و سلّم فقلت: یا رسول اللَّه، أ لست نبیّ اللَّه؟''': الذهبی، تاريخ الإسلام و وفيات المشاهير والأعلام، ج‏2 ،ص372۔</ref>۔<ref>بیهقی، ابوبکر،ج‏4،ص:106۔</ref>۔<ref>الصالحي الشامي، سبل الهدى والرشاد، ص53۔</ref>۔<ref>الواقدی نقل کرتے ہیں: کہ عمر نے کہا: '''ارتبت ارتیابا لم أرتبه منذ أسلمت''': المغازی، ج2، ص607۔</ref> نیز [[عمر بن خطاب|عمر]] کا کہنا تھا: "میں اپنی تشخیص سے [[رسول اللہ(ص)]] کے احکامات کی کو رد کیا کرتا تھا۔<ref>الصالحي الشامي، سبل الهدى والرشاد، ج‏5، ص85۔</ref>
===صلح نامے کے نکات===
سہیل بن عمرو کے ساتھ مذاکرات کے بعد [[رسول خدا(ص)]] نے [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] کو طلب کیا اور فرمایا: لکھو: "[[بسم اللہ الرحمن الرحیم]]"۔
سہیل نے کہا: میں اس عنوان کو تسلیم نہیں کرتا؛ آپ کو ہمارا وہی مرسوم عنوان تحریر کرنا چاہئے: "باسمک اللهم"؛ اور [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] نے [[رسول خدا(ص)]] کے حکم پر وہی عنوان تحریر کیا۔
بعد ازاں [[رسول اللہ(ص)]] نے فرمایا: لکھو: "یہ ہے وہ عہدنامہ جس پر [[رسول اللہ]] نے [[سہیل بن عمرو]] کے ساتھ اتفاق کیا۔
سہیل نے کہا: اگر ہم آپ کو [[رسول اللہ|پیغمبر خدا]] کے عنوان سے تسلیم کرتے تو آپ کے ساتھ اس قدر جنگ و جدل نہ کرتے؛ اس عنوان کو مٹنا چاہئے اور اس کے بجائے "[[رسول اللہ|محمد بن عبداللہ]]" لکھنا چاہئے۔ آپ(ص) نے اس کا یہ مطالبہ بھی قبول کیا اور جب آپ(ص) متوجہ ہوئے کہ [[امیرالمؤمنین|علی بن ابی طالب]] کے لئے "[[رسول اللہ]]" کا عنوان مٹانا دشوار ہے تو آپ(ص) نے اپنی انگلی آگے بڑھا دی  اور فرمایا: یا علی! مجھے یہ عنوان دکھا دو تاکہ میں خود اس کو مٹا دوں۔
صلح [[حدیبیہ]] کے نکات حسب ذیل تھے:
# 10 سال تک فریقین کے درمیان صلح برقرار ہو تاکہ لوگ امن و سکون میں زندگی بسر کریں؛<ref>قس الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص54۔</ref>
# مسلمان اُس سال [[کعبہ|خانۂ خدا]] کی [[زیارت]] کئے بغیر [[مدینہ]] پلٹ کر چلے جائیں اور اگلے سال [[عمرہ]] کی بجا آوری کے لئے [[مکہ]] آئیں بشرطیکہ اسلحۂ مسافر کے سوا کوئی ہتھیار اٹھا کر نہ آئیں اور [[مکہ]] میں 3 دن سے زائد عرصہ نہ گذاریں؛ [[قریش]] بھی ان ایام میں شہر چھوڑ کر چلے جائیں گے؛
# مسلمانوں نے عہد کیا کہ ان افراد کو پلٹا دیں گے جو [[مکہ]] سے بھاگ کر [[مدینہ]] چلے جاتے ہیں لیکن فریق مخالف [[مدینہ]] سے فرار ہوکر [[مکہ]] آنے والوں کی نسبت اس قسم کے اقدام کے پابند نہ ہونگے؛
# دوسرے قبائل کو پوری آزادی حاصل ہوگی کہ وہ [[قریش]] یا مسلمانوں کے ساتھ معاہدے منعقد کریں۔<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص611ـ612۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج3، ص784۔</ref>۔<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص204۔</ref>۔<ref>قس الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص54۔</ref>
[[صحیح مسلم]] میں منقول ہے کہ جب [[سورہ فتح]] نازل ہوئی تو [[رسول خدا(ص)]] نے [[عمر بن خطاب]] کو بلوایا اور اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی [[وحی]] انہیں سنا دی۔ عمر نے کہا: کیا واقعی یہ صلح، فتح ہے؟! فرمایا: ہاں یہ فتح ہے۔<ref>نیسابوری، صحیح، ج2، باب صلح الحديبية في الحديبية، ص175، ح1785۔</ref>


==پاورقی حاشیے==
==پاورقی حاشیے==
گمنام صارف