مندرجات کا رخ کریں

"غزوہ احد" کے نسخوں کے درمیان فرق

3,961 بائٹ کا اضافہ ،  26 مئی 2015ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 52: سطر 52:
==جنگ کی تیاریاں==
==جنگ کی تیاریاں==
[[رسول خدا(ص)]] نے لشکر کو منظم اور مرتب کیا اور [[کوہ احد]] کی طرف پشت کرکے دشمن کے سامنے صف آرا ہوئے جبکہ اور [[عبداللہ بن جبیر]] کو تیراندازوں کا ایک دستہ دے کر [[کوہ عینین]] پر تعینات کیا جو احد کے بائیں جانب واقع ہے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص220ـ219۔</ref> مشرکین نے بھی صف آرائی کی: میمنہ کی کمان [[خالد بن ولید]] کو جبکہ  میسرہ کی کمان [[عکرمہ بن ابوجہل]] کے سپرد کی گئی<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص220۔</ref> [[رسول خدا(ص)]] نے جنگ شروع ہونے سے قبل خطبہ دیا <ref>واقدی، المغازی، ج1، ص223ـ221۔</ref> اور تیراندازوں پر زور دیا کہ مسلمانوں کے عقبی مورچے کی سختی سے حفاظت کریں اور کسی صورت میں بھی اپنا مورچہ نہ چھوڑیں۔<ref>ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص326۔</ref>۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص225ـ224۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج2، ص66ـ65۔</ref>۔<ref>بخاری، الصحیح البخاری، ج5، ص29۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ، ج2، ص509۔</ref>
[[رسول خدا(ص)]] نے لشکر کو منظم اور مرتب کیا اور [[کوہ احد]] کی طرف پشت کرکے دشمن کے سامنے صف آرا ہوئے جبکہ اور [[عبداللہ بن جبیر]] کو تیراندازوں کا ایک دستہ دے کر [[کوہ عینین]] پر تعینات کیا جو احد کے بائیں جانب واقع ہے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص220ـ219۔</ref> مشرکین نے بھی صف آرائی کی: میمنہ کی کمان [[خالد بن ولید]] کو جبکہ  میسرہ کی کمان [[عکرمہ بن ابوجہل]] کے سپرد کی گئی<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص220۔</ref> [[رسول خدا(ص)]] نے جنگ شروع ہونے سے قبل خطبہ دیا <ref>واقدی، المغازی، ج1، ص223ـ221۔</ref> اور تیراندازوں پر زور دیا کہ مسلمانوں کے عقبی مورچے کی سختی سے حفاظت کریں اور کسی صورت میں بھی اپنا مورچہ نہ چھوڑیں۔<ref>ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص326۔</ref>۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص225ـ224۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج2، ص66ـ65۔</ref>۔<ref>بخاری، الصحیح البخاری، ج5، ص29۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ، ج2، ص509۔</ref>
==مسلمانوں کی ابتدائی فتح==
جنگ شروع ہوئی تو مشرکین کے ایک جنگجو [[طلحہ بن ابی طلحہ]] نے مبارز طلبی کی۔ [[امیرالمؤمنین|علی (ع)]] میدان میں اترے اور اس کو گرا کر ہلاک کردیا چنانچہ مسلمان اس ابتدائی کامیابی سے مسرور ہوئے اور [[تکبیر]] کے نعرے لگا کر اچانک مشرکین کی صفوں پر حملہ آور ہوئے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص226ـ225۔</ref> مسلمان بہت تیزی سے مشرکین پر غالب آئے اور مشرکین فرار ہوئے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص229۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص41ـ40۔</ref>
==مسلمانان==
جن تیر اندازوں کو لشکر اسلام کے بائیں جانب تعینات کیا گیا تھا [[غنیمت]] کی طمع کرکے اپنا مورچہ چھوڑ گئے اور ان کے سالار [[عبداللہ بن جبیر]] کا اصرار ـ جو انہیں [[رسول خدا(ص)]] کی فرمانبرداری کی دعوت دے رہے تھے ـ بےسود رہا۔ [[خالد بن ولید]] ـ جو اس سے پہلے بھی تیراندازوں کی تعیناتی کے مقام سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ناکام کوشش کرچکا تھا۔<ref> واقدی، المغازی، ج1، ص229۔</ref> ـ اس بار درے کے اوپر باقیماندہ چند تیراندازوں پر حملہ کیا اور عکرمہ بھی [پسپائی کے بعد] خالد سے آملا تھا۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص232۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص42ـ41۔</ref> اور وہ سب مل کر مشرکین کے پیادوں کے تعاقب میں مصروف مسلمانوں پر پشت سے حملہ کیا۔ اسی اثناء میں کسی نے ندا دی کی [[رسول اللہ|پیغمبر خدا(ص)]] شہید ہوچکے ہیں۔<ref>زهری، المغازی النبویة، ص77۔</ref>۔<ref>ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص27۔</ref>۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص232۔</ref> یہ خبر مسلمانوں کے حوصلے پست ہونے کا سبب بنی اور بعض نے تو پہاڑ کی پناہ لی۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص235۔</ref> مروی ہے کہ گھمسان کی لڑائی میں کئی مشرکوں نے [[رسول خدا(ص)]] کے قتل کی غرض سے حملے کئے جن کے نتیجے میں آپ(ص) کے دانت ٹوٹ گئے اور چہرہ مبارک زخمی ہوا۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص244۔</ref>۔<ref>زهری، المغازی النبویة، ص77۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ، ج2 ص519۔</ref> جبکہ صرف چند صحابی میدان میں باقی تھے<ref> واقدی، المغازی، ج1 ص240۔</ref> اور [[رسول خدا(ص)]] کو متعدد چوٹ آئے تھے، آپ(ص) پہاڑ میں موجود دراڑ کی پناہ میں چلے گئے۔<ref>ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص230۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج2، ص83۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ، ج2، ص518۔</ref>
[[شیخ مفید]] نے [[ابن مسعود]] سے روایت کی ہے کہ مسلمانوں کی پریشانی اور افراتفری اس قدر بڑھ گئی کہ پورا لشکر بھاگ گیا اور [[امیرالمؤمنین|علی (ع)]] کے سوا [[رسول اللہ]](ص) کے قریب نہ رہا۔ جملہ لشکر بھاگ کیا اور بعد ازاں معدودے چند افراد آپ(ص) سے آملے جن میں سب سے پہلے [[عاصم بن ثابت]]، [[ابو دجانہ]] اور [[سہل بن حنیف]] آپ(ص) کی طرف آگئے۔<ref>آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص256.۔</ref>




سطر 77: سطر 85:
* بلاذری، احمد، انساب الاشراف، به کوشش محمد حمیدالله، قاهره، 1959 عیسوی۔
* بلاذری، احمد، انساب الاشراف، به کوشش محمد حمیدالله، قاهره، 1959 عیسوی۔
* زهری، محمد، المغازی النبویة، به کوشش سهیل زکار، دمشق، 1401هجری قمری / 1981هجری شمسی۔.
* زهری، محمد، المغازی النبویة، به کوشش سهیل زکار، دمشق، 1401هجری قمری / 1981هجری شمسی۔.
* طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری۔  
* طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری۔
* طبری، محمد بن جریر، تفسیر طبری۔  
* طبری، محمد بن جریر، تفسیر طبری۔
* عروة بن زبیر، مغازی رسول الله، به کوشش محمد مصطفی اعظمی، ریاض، 1404هجری قمری/1981هجری شمسی۔.
* عروة بن زبیر، مغازی رسول الله، به کوشش محمد مصطفی اعظمی، ریاض، 1404هجری قمری/1981هجری شمسی۔.
* واقدی، محمدبن عمر، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن 1966 عیسوی، چاپ افست قاهره، بی‌تا۔
* واقدی، محمدبن عمر، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن 1966 عیسوی، چاپ افست قاهره، بی‌تا۔
گمنام صارف