مندرجات کا رخ کریں

"اجتہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

49 بائٹ کا ازالہ ،  28 اکتوبر 2020ء
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 204: سطر 204:
=== فتوے  کی حجیت ===
=== فتوے  کی حجیت ===
علماء نے [[مجتہد]] کے فتوے کی حجیت کے دلائل ذکر کرتے ہوئے [[قرآن]]، احادیث،سیرت عقلاء سے دلائل ذکر کئے ہیں:
علماء نے [[مجتہد]] کے فتوے کی حجیت کے دلائل ذکر کرتے ہوئے [[قرآن]]، احادیث،سیرت عقلاء سے دلائل ذکر کئے ہیں:
===='''[[قرآن]]'''====
====قرآن کریم====
<font color=green>
<font color=green>
*{{حدیث|'''و‌ما‌کانَ المُؤمِنونَ لِینفِروا کافَّةً فَلَولا نَفَرَ مِن کلِّ فِرقَة مِنهُم طَائِفَةٌ لِیتَفَقَّهوا فِی الدّینِ ولِینذِروا قَومَهُم اِذا رَجَعوا اِلَیهِم لَعَلَّهُم یحذَرون'''}}<ref>سورہ توبہ 122۔</ref></font><br/>
*{{حدیث|'''و‌ما‌کانَ المُؤمِنونَ لِینفِروا کافَّةً فَلَولا نَفَرَ مِن کلِّ فِرقَة مِنهُم طَائِفَةٌ لِیتَفَقَّهوا فِی الدّینِ ولِینذِروا قَومَهُم اِذا رَجَعوا اِلَیهِم لَعَلَّهُم یحذَرون'''}}<ref>سورہ توبہ 122۔</ref></font><br/>
ترجمہ : اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سب کے سب مؤمنین نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں ایک جماعت نکلے تا کہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب وہ واپس آئیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں تا کہ وہ ہلاکت سے بچے رہیں۔
ترجمہ: اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سب کے سب مؤمنین نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں ایک جماعت نکلے تا کہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب وہ واپس آئیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں تا کہ وہ ہلاکت سے بچے رہیں۔


خداوند کریم نے اس [[آیت]] میں:
خداوند کریم نے اس [[آیت]] میں:


(1)لفظ "لولا" کے ذریعے مومنین کو ترغیب دی ہے کہ ان میں سے ایک جماعت دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے نکلے؛(2)اس جماعت پر واجب ہے کہ وہ واپسی پر مؤمنین کو انذار (ڈرانا) کرے ۔(3) جس چیز سے انذار کیا گیا اسے جان لینے بعد [[حکم]] الہی کی وجہ سے اس پر عمل کرتے ہوئے بچنا واجب ہے اگر ایسا نہ ہو تو وجوب انذار کی لغویت لازم آتی ہے نیز عرف وجوب انذار اور انذار کے بعد بچنے کے درمیان ملازمے کا لحاظ کرتا ہے ۔(4) [[مجتہد]] کا فتوی اس انذار کا ایک مصداق ہے ۔لہذا اس پر عمل کرنا بھی واجب ہے تا کہ اس پر عمل کر کے مخالفت الہی سے بچا جائے ۔<ref>مدارک العروۃ الوثقی ،بیار جمندی،ج1 ص 6۔</ref>۔
(1)لفظ لولا کے ذریعے مومنین کو ترغیب دی ہے کہ ان میں سے ایک جماعت دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے نکلے؛( 2)اس جماعت پر واجب ہے کہ وہ واپسی پر مؤمنین کو انذار (ڈرانا) کرے ۔ (3) جس چیز سے انذار کیا گیا اسے جان لینے بعد [[حکم]] الہی کی وجہ سے اس پر عمل کرتے ہوئے بچنا واجب ہے اگر ایسا نہ ہو تو وجوب انذار کی لغویت لازم آتی ہے نیز عرف وجوب انذار اور انذار کے بعد بچنے کے درمیان ملازمے کا لحاظ کرتا ہے۔ (4) [[مجتہد]] کا فتوی اس انذار کا ایک مصداق ہے۔ لہذا اس پر عمل کرنا بھی واجب ہے تا کہ اس پر عمل کر کے مخالفت الہی سے بچا جائے۔<ref>مدارک العروۃ الوثقی، بیار جمندی، ج1 ص 6۔</ref>۔
<font color=green>
<font color=green>
*{{حدیث|'''فَسـئَلوا اَهلَ الذِّكرِ اِن كُنتُم لاتَعلَمون'''}}<ref>سورہ نحل 43 ؛ سورہ انبیاء </ref></font><br/>
*{{حدیث|'''فَسـئَلوا اَهلَ الذِّكرِ اِن كُنتُم لاتَعلَمون'''}}<ref>سورہ نحل 43 ؛ سورہ انبیاء 7</ref></font><br/>
پس اگر تم نہیں جانتے ہو تو تم اہل ذکر سے سوال کرو۔
پس اگر تم نہیں جانتے ہو تو تم اہل ذکر سے سوال کرو۔
خدا وند کریم نے جہالت کی صورت میں اہل ذکر (یعنی علماء) سے سوال کرنے کا [[وجوبی]] [[حکم]] دیا ہے اور آیت کا ظاہر یہ ہے کہ سوال کرنا عمل کیلئے مقدمہ ہے پس آیت کا یہ معنی ہے کہ تم اہل ذکر سے سوال کرو تا کہ ان کے جواب کے مطابق عمل کرو ۔یہاں یہ کہنا کہ آیت میں تو صرف سوال کرنے حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ، یہ درست نہیں کیونکہ  اہل ذکر سے صرف سوال کرنے کا حکم دینا اور انکے جواب پر عمل کرنے کا [[وجوبی]] [[حکم]] نہ ہو تو ایسے سوال کرنے کا حکم دینا لغو اور عبث ہے اور خدا کا عبث کام کا حکم دینا قبیح ہے ۔ پس عالم کا فتوی جاہل کیلئے حجت ہے اگر وہ حجت نہ ہو تو جاہل کو عالم سے سے پوچھنے کا [[حکم]] دینے کا لغو ہونا لازم آتا ہے ۔شان نزول کی وجہ سے صرف اہل کتاب کے علماء مراد لینا درست نہیں جیسا کہ شان نزول میں ذکر کیا گیا ہے چونکہ شان نزول مخصص نہیں ہوتا ہے نیز یہ کہنا کہ : آیت کہہ رہی کہ نہ جاننے کی صرت میں اہل ذکر سے پوچھو تا کہ تمہیں علم حاصل ہو جائے ،بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ فہم عرفی کے خلاف ہے چونکہ یہاں جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا مریض کے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے کی مانند ہے۔ مریض کا ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے سے مقصود صرف بیماری کو جاننا نہیں ہوتا بلکہ ڈاکٹر کے بتائے ہوئے کے مطابق عمل کرنا مقصود ہوتا ہے ۔<ref>التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی ، الاجتہاد و التقلید ص 88 و 89۔</ref>
خدا وند کریم نے جہالت کی صورت میں اہل ذکر (علماء) سے سوال کرنے کا [[وجوبی]] [[حکم]] دیا ہے اور آیت کا ظاہر یہ ہے کہ سوال کرنا عمل کیلئے مقدمہ ہے پس آیت کا یہ معنی ہے کہ تم اہل ذکر سے سوال کرو تا کہ ان کے جواب کے مطابق عمل کرو۔ یہاں یہ کہنا کہ آیت میں تو صرف سوال کرنے حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، یہ درست نہیں کیونکہ  اہل ذکر سے صرف سوال کرنے کا حکم دینا اور انکے جواب پر عمل کرنے کا [[وجوبی]] [[حکم]] نہ ہو تو ایسے سوال کرنے کا حکم دینا لغو اور عبث ہے اور خدا کا عبث کام کا حکم دینا قبیح ہے۔ پس عالم کا فتوی جاہل کیلئے حجت ہے اگر وہ حجت نہ ہو تو جاہل کو عالم سے سے پوچھنے کا [[حکم]] دینے کا لغو ہونا لازم آتا ہے۔ شان نزول کی وجہ سے صرف اہل کتاب کے علماء مراد لینا درست نہیں جیسا کہ شان نزول میں ذکر کیا گیا ہے چونکہ شان نزول مخصص نہیں ہوتا ہے نیز یہ کہنا کہ: آیت کہہ رہی کہ نہ جاننے کی صرت میں اہل ذکر سے پوچھو تا کہ تمہیں علم حاصل ہو جائے، بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ فہم عرفی کے خلاف ہے چونکہ یہاں جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا مریض کے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے کی مانند ہے۔ مریض کا ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے سے مقصود صرف بیماری کو جاننا نہیں ہوتا بلکہ ڈاکٹر کے بتائے ہوئے کے مطابق عمل کرنا مقصود ہوتا ہے۔<ref>التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، الاجتہاد و التقلید ص 88 و 89۔</ref>


====احادیث ====
====احادیث ====
[[تقلید]] کے جواز اور [[فروعات دین]] میں فتوے کی حجیت پر [[تواتر]] اجمالی کی حد تک روایات مذکور ہیں ۔ان روایات کے مختلف گروہ ہیں ۔<ref>التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی ، الاجتہاد و التقلید ص91۔</ref>
[[تقلید]] کے جواز اور [[فروعات دین]] میں فتوے کی حجیت پر [[تواتر]] اجمالی کی حد تک روایات مذکور ہیں۔ ان روایات کے مختلف گروہ ہیں۔<ref>التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، الاجتہاد و التقلید ص91۔</ref>


'''پہلا گروہ '''ایسی روایات کا ہے جن میں لوگوں کو مخصوص افراد مثلا [[عمری]] ، اس کے بیٹے ، [[یونس بن عبد الرحمن]] ،[[زکریا بن آدم]] ،وغیرہ کی طرف یا ایسے عنوان ذکر کیے گئے ہیں جو ان پر صادق آتے ہیں، رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے مثلا :
'''پہلا گروہ''': ایسی روایات کا ہے جن میں لوگوں کو مخصوص افراد مثلا [[عمری]]، اس کے بیٹے، [[یونس بن عبد الرحمن]]، [[زکریا بن آدم]]، وغیرہ کی طرف یا ایسے عنوان ذکر کیے گئے ہیں جو ان پر صادق آتے ہیں، رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے مثلا:
*[[عبد العزیز بن مہتدی]] اور [[حسن بن علی بن یقطین]] نے حضرت [[امام رضا]] ؑ سے کہا : میرے لئے آپ تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ۔ دینی مسائل میں مجھے جس چیز کی ضرورت ہو کیا میں اسے [[یونس بن عبد الرحمن سے پوچھ سکتا ہوں ۔امام نے جواب دیا : ہاں ۔
*[[عبد العزیز بن مہتدی]] اور [[حسن بن علی بن یقطین]] نے حضرت [[امام رضا]] ؑ سے کہا: میرے لئے آپ تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ دینی مسائل میں مجھے جس چیز کی ضرورت ہو کیا میں اسے [[یونس بن عبد الرحمن سے پوچھ سکتا ہوں۔ امام نے جواب دیا: ہاں۔


*[[علی بن مسیب]] نے حضرت [[امام رضا]] سے عرض کیا : میرا گھر یہاں سے دور ہے۔ میرے لئے ہر وقت آپ تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے میں دین کس سے لوں ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا :[[زکریا بن آدم]] قمی سے پوچھو اس کا دین اور دنیا دونوں محفوظ ہیں ۔
*[[علی بن مسیب]] نے حضرت [[امام رضا]] سے عرض کیا: میرا گھر یہاں سے دور ہے۔ میرے لئے ہر وقت آپ تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے میں دین کس سے لوں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: [[زکریا بن آدم]] قمی سے پوچھو اس کا دین اور دنیا دونوں محفوظ ہیں۔


*[[اسحاق بن یعقوب]] کہتے ہیں میرے کہنے پر [[محمد بن عثمان عمری]] نے خط کے ذریعے امام سے سوالات پوچھیں تو [[امام زمانہ]] کی جانب سے [[توقیع]] آئی جس میں یہ جملے بھی مذکور تھے :نئے ہونے والے واقعات میں تم ہماری روایات نقل کرنے والوں کی طرف رجوع کرو۔<ref>وسائل الشیعہ،حر عاملی،ابواب صفات قاضی باب 11۔</ref>
*[[اسحاق بن یعقوب]] کہتے ہیں میرے کہنے پر [[محمد بن عثمان عمری]] نے خط کے ذریعے امام سے سوالات پوچھیں تو [[امام زمانہ]] کی جانب سے [[توقیع]] آئی جس میں یہ جملے بھی مذکور تھے: نئے ہونے والے واقعات میں تم ہماری روایات نقل کرنے والوں کی طرف رجوع کرو۔<ref> وسائل الشیعہ، حر عاملی، ابواب صفات قاضی باب 11۔</ref>
'''دوسرا گروہ''' :ایسی روایات کا ہے جن میں [[آئمہ]] نے اپنے اصحاب کو واضح طور فتوی دینے کا حکم دیا ہے جیسے :
'''دوسرا گروہ''': ایسی روایات کا ہے جن میں [[آئمہ]] نے اپنے اصحاب کو واضح طور فتوی دینے کا حکم دیا ہے جیسے:
امام نے [[ابان بن تغلب]] کو کہا : تم مدینے کی مسجد میں بیٹھو اور لوگوں کیلئے فتوی دو کیونکہ  میں اپنے شیعوں میں تمہارے جیسے شیعہ دیکھنے کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔<ref>رجال نجاشی ،نجاشی ،ص10۔</ref>
امام نے [[ابان بن تغلب]] کو کہا: تم مدینے کی مسجد میں بیٹھو اور لوگوں کیلئے فتوی دو کیونکہ  میں اپنے شیعوں میں تمہارے جیسے شیعہ دیکھنے کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔<ref>رجال نجاشی، نجاشی، ص10۔</ref>
[[معاذ بن مسلم نحوی]] سے حضرت [[امام جعفر صادق]] ؑ نے کہا : مجھے خبر ملی ہے کہ تم جامعہ مسجد میں بیٹھ کو لوگوں کیلئے ھتوے دیتے ہو ۔معاذ نے جواب دیا : جی ہاں ایسا ہی ہے میرا ارادہ تھا کہ میں آپ سے رخصت ہونے سے پہلے آپ سے اس کے بارے میں سوال کروں ؛ میں مسجد میں بیٹھتا ہوں جب مخالفین میں کوئی شخص مجھ سے سوال کرتا ہے تو جیسے اس مسلک کے لوگ کرتے ہیں میں اسے وہی بتاتا ہوں اور جب کوئی آپ کے محبین میں سے آتا ہے کہ جسے میں جانتا ہوں تو میں اسے وہی بتاتا ہوں جو کچھ مجھے آپ کی جانب سے پہنچا ہوتا ہے اور جب کوئی ایسا شخص آجائے جسے کے حالات سے میں واقف نہیں تو میں اسے کہتا ہوں فلاں نے یہا فلان نے یہ کہا فلاں نے یہ کہا اس کے درمیان آپ کا حکم بھی بیان کر دیتا ہوں۔معاذ کی یہ بات سن کر امام نے ارشاد فرمایا : ایسا ہی کیا کرو کیونکہ میں بھی ایسے ہی کرتا ہوں ۔<ref>اختیار معرفۃ الرجال ،شیخ طوسی ،ج2 ص 524 ش 470۔</ref>
[[معاذ بن مسلم نحوی]] سے حضرت [[امام جعفر صادق]] ؑ نے کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ تم جامعہ مسجد میں بیٹھ کو لوگوں کیلئے فتوے دیتے ہو۔ معاذ نے جواب دیا: جی ہاں ایسا ہی ہے میرا ارادہ تھا کہ میں آپ سے رخصت ہونے سے پہلے آپ سے اس کے بارے میں سوال کروں؛ میں [[مسجد]] میں بیٹھتا ہوں جب مخالفین میں کوئی شخص مجھ سے سوال کرتا ہے تو جیسے اس مسلک کے لوگ کرتے ہیں میں اسے وہی بتاتا ہوں اور جب کوئی آپ کے محبین میں سے آتا ہے کہ جسے میں جانتا ہوں تو میں اسے وہی بتاتا ہوں جو کچھ مجھے آپ کی جانب سے پہنچا ہوتا ہے اور جب کوئی ایسا شخص آجائے جس کے حالات سے میں واقف نہیں تو میں اسے کہتا ہوں فلاں نے یہاں یہ کہا فلاں نے یہ کہا اس کے درمیان آپ کا حکم بھی بیان کر دیتا ہوں۔ معاذ کی یہ بات سن کر امام نے ارشاد فرمایا: ایسا ہی کیا کرو کیونکہ میں بھی ایسے ہی کرتا ہوں۔<ref> اختیار معرفۃ الرجال، شیخ طوسی، ج2 ص 524 ش 470</ref>


فتوے کی حجیت پر دلالت کرنے میں ان دونوں گروہوں کی روایات کی دلالت میں کوئی مشکل نہیں کیونکہ اگر فتوے پر عمل کرنا واجب نہ تو [[امام]] کا لوگوں کو ان کی رجوع کرنے اور فتوی دینے کا حکم دینا ایک لغو کام ہو گا ۔
فتوے کی حجیت پر دلالت کرنے میں ان دونوں گروہوں کی روایات کی دلالت میں کوئی مشکل نہیں کیونکہ اگر فتوے پر عمل کرنا واجب نہ تو [[امام]] کا لوگوں کو ان کی رجوع کرنے اور فتوی دینے کا حکم دینا ایک لغو کام ہوگا۔


'''تیسرا گروہ''': ایسی روایات کا ہے جن میں علم کے بغیر فتوی دینے اور [[قیاس]] ،[[استحسان]] وغیرہ کے ذریعے قضاوت کرنے سے منع کیا گیا ہے ایسی روایات کی کثیر تعداد موجود ہے ۔ گویا [[آئمہ طاہرین]] کی یہ روایات ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق فتوی دینے کے جواز کو بیان کرتی ہیں۔
'''تیسرا گروہ''': ایسی [[روایات]] کا ہے جن میں علم کے بغیر فتوی دینے اور [[قیاس]]، [[استحسان]] وغیرہ کے ذریعے قضاوت کرنے سے منع کیا گیا ہے ایسی روایات کی کثیر تعداد موجود ہے۔ گویا [[آئمہ طاہرین]] کی یہ روایات ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق فتوی دینے کے جواز کو بیان کرتی ہیں۔


====سیرت عقلا====
====سیرت عقلا====
گمنام صارف