گمنام صارف
"اجتہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق
←سیرت عقلا
imported>E.musavi |
imported>E.musavi |
||
سطر 235: | سطر 235: | ||
====سیرت عقلا==== | ====سیرت عقلا==== | ||
دنیا کے عقلاء کی سیرت رہی ہے کہ جاہل عالم کی طرف رجوع کرتا ہے اسی طرح مریض علاج کیلئے طبیب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب عقلاء کی یہ سیرت رہی اور شارع کی طرف سے کوئی ممنوعیت بھی نہیں آئی ہے تو اس سے کشف کرتے ہیں کہ اس نے اس کی اجازت دی ہے اور وہ اس رجوع پر راضی | دنیا کے عقلاء کی سیرت رہی ہے کہ جاہل عالم کی طرف رجوع کرتا ہے اسی طرح مریض علاج کیلئے طبیب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب عقلاء کی یہ سیرت رہی اور شارع کی طرف سے کوئی ممنوعیت بھی نہیں آئی ہے تو اس سے کشف کرتے ہیں کہ اس نے اس کی اجازت دی ہے اور وہ اس رجوع پر راضی ہے۔ | ||
'''اعتراض''' :عقلاء کی یہ سیرت اور عمل اس وقت حجت ہے جب اس پر شارع کی رضایت موجود ہو اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب یہ سیرت نسل عن نسل آئمہ کے زمانے تک منتہی ہوتی ہو جبکہ یہ سیرت آئمہ کے زمانے تک منتہی نہیں ہوتی ہے کیونکہ علم فقہ ہمارے زمانے کے علوم نظری میں سے ہے کہ جس میں فقیہ اپنے اجتہاد کے ذریعے ایک ظنی حکم کو حاصل کرتا ہے لہذا جاہل اس عالم کی طرف رجوع کرتا ہے کہ جس کا علم ظنی اجتہاد پر موقوف ہوتا ہے | '''اعتراض''': عقلاء کی یہ سیرت اور عمل اس وقت حجت ہے جب اس پر شارع کی رضایت موجود ہو اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب یہ سیرت نسل عن نسل آئمہ کے زمانے تک منتہی ہوتی ہو جبکہ یہ سیرت آئمہ کے زمانے تک منتہی نہیں ہوتی ہے کیونکہ علم فقہ ہمارے زمانے کے علوم نظری میں سے ہے کہ جس میں فقیہ اپنے اجتہاد کے ذریعے ایک ظنی حکم کو حاصل کرتا ہے لہذا جاہل اس عالم کی طرف رجوع کرتا ہے کہ جس کا علم ظنی اجتہاد پر موقوف ہوتا ہے جبکہ اصحاب آئمہ کا علم وجدانی ہوتا تھا چونکہ وہ [[آئمہ]] سے خود ملاقات کے ذریعے علم حاصل کرتے تھے لہذا اصحاب [[آئمہ]] کا آج کے زمانے کی مانند [[اجتہاد]] ظنی نہیں تھا اس وجہ سے ان کے زمانے کے جاہل کا عالم کی طرف رجوع بھی آج کے زمانے کے جاہل کے عالم کی طرف رجوع کی مانند نہیں ہے۔ پس جس سیرت کے آپ مدعی ہیں وہ آئمہ کے زمانے میں موجود نہیں ہے اور جو سیرت [[آئمہ]] کے زمانے میں موجود تھی اور اس پہ [[آئمہ]] کی رضایت موجود تھی وہ آپ کے پاس نہیں ہے اس وجہ سے اس سیرت پہ شارع کی رضایت موجود نہیں ہے۔ پس یہ سیرت عقلاء [[آئمہ]] کی رضایت کے نہ ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں ہے۔ | ||
'''جواب ''': | '''جواب ''': | ||
مذکورہ اعتراض کا جواب دینے کیلئے ضروری ہے کہ دو امور کو ثابت کیا جائے یا کم از کم ایک امر کو ثابت کیا | مذکورہ اعتراض کا جواب دینے کیلئے ضروری ہے کہ دو امور کو ثابت کیا جائے یا کم از کم ایک امر کو ثابت کیا جائے۔ | ||
'''پہلا امر''':ہمارے زمانے کا رائج | '''پہلا امر''': ہمارے زمانے کا رائج اجتہاد [[آئمہ]] کے زمانے کے [[اجتہاد]] سے مختلف نہیں تھا اور عوام کی سیرت تھی کہ وہ علماء کی طرف رجوع کرتے تھے نیز ائمہ نے بھی اپنے اصحاب کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی ہے۔ | ||
'''دوسرا امر''': | '''دوسرا امر''': آئمہ کی طرف سے لوگوں کے اذہان میں راسخ اس بات: جہالت کی صورت میں عالم کی طرف رجوع کرنے کی، ممانعت ثابت نہ ہو ۔ | ||
*'''پہلا امر''' | *'''پہلا امر''' | ||
''' آئمہ کے زمانے کا [[اجتہاد]] آج کے زمانے کے [[اجتہاد]] کی مانند ''' | '''آئمہ کے زمانے کا [[اجتہاد]] آج کے زمانے کے [[اجتہاد]] کی مانند''' | ||
اس پر بہت سی روایات کی اقسام دلالت کرتی ہیں کہ [[آئمہ]] کے زمانے کا [[اجتہاد]] ہمارے زمانے کے [[اجتہاد]] کی مانند تھا یا اس کے قریب | اس پر بہت سی روایات کی اقسام دلالت کرتی ہیں کہ [[آئمہ]] کے زمانے کا [[اجتہاد]] ہمارے زمانے کے [[اجتہاد]] کی مانند تھا یا اس کے قریب تھا۔ مثلا قوانین کی احادیث جیسے: | ||
<font color=blue>{{حدیث|'''انما علینا ان نلقی الیکم الاصول و علیکم ان تفرعوا'''}}<ref>مستطرفات السرائر، ابن ادریس | <font color=blue>{{حدیث|'''انما علینا ان نلقی الیکم الاصول و علیکم ان تفرعوا'''}}<ref>مستطرفات السرائر، ابن ادریس حلی، 575۔</ref></font> ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اصول بیان کریں اور تم پر ضروری ہے کہ تم ان سے فروعات اخذ کرو۔ | ||
<font color=blue>{{حدیث|'''علینا القاء الاصول و علیکم التفریع''' }}<ref>مستطرفات السرائر، ابن ادریس | <font color=blue>{{حدیث|'''علینا القاء الاصول و علیکم التفریع'''}}<ref> مستطرفات السرائر، ابن ادریس حلی، 575۔</ref></font> | ||
ہماری ذمہ داری اصول بیان کرنا اور تمہاری ذمہ داری اس کی فرعیں بنانا | ہماری ذمہ داری اصول بیان کرنا اور تمہاری ذمہ داری اس کی فرعیں بنانا ہے۔ | ||
<font color=blue>{{حدیث|'''لا تنقض الیقین بالشک'''}}</font><ref>وسائل | <font color=blue>{{حدیث|'''لا تنقض الیقین بالشک'''}}</font><ref>وسائل الشیعہ، حر عاملی، نواقض الوضو، باب 1 </ref>۔اپنے یقین کو شک کے ساتھ مت توڑو۔ | ||
<font color=blue>{{حدیث |'''رفع عن امتی تسعه.....'''}}</font> | <font color=blue>{{حدیث |'''رفع عن امتی تسعه.....'''}}</font> میری امت سے نو چیزوں کی جواب دہی اٹھا لی گئی ہے ... | ||
ان جیسی قوانین کی احادیث ہیں جن سے علماء نے کثیر تعداد میں فروعات اخذ کی ہیں اور یہ بات [[امام صادق ؑ]] اور [[امام رضا ؑ]] کے زمانے میں رائج تھی اور ہمارے زمانے میں صرف قلت اور کثرت کے فرق کے ساتھ رائج ہے نیز ہمارے زمانے کے مجتہدین اسی پر عمل کرتے | ان جیسی قوانین کی احادیث ہیں جن سے علماء نے کثیر تعداد میں فروعات اخذ کی ہیں اور یہ بات [[امام صادق ؑ]] اور [[امام رضا ؑ]] کے زمانے میں رائج تھی اور ہمارے زمانے میں صرف قلت اور کثرت کے فرق کے ساتھ رائج ہے نیز ہمارے زمانے کے مجتہدین اسی پر عمل کرتے ہیں۔ | ||
کچھ ایسی احادیث ہیں جن میں متشابہات کو محکمات کی طرف لوٹانے کا حکم دیا گیا ہے مثلا : | کچھ ایسی احادیث ہیں جن میں متشابہات کو محکمات کی طرف لوٹانے کا حکم دیا گیا ہے مثلا: | ||
<font color=blue>{{حدیث|'''من رد متشابہ القرآن الي محكمه فقد ھدی الی صراط مستقیم ثم قال : ان فی اخبارنا محکما کمحکم [[القرآن]] ، متشابھا کمتشابہ | <font color=blue>{{حدیث|'''من رد متشابہ القرآن الي محكمه فقد ھدی الی صراط مستقیم ثم قال: ان فی اخبارنا محکما کمحکم [[القرآن]]، متشابھا کمتشابہ القرآن، فردوا متشابھھا الی محکمھا، و لا تتبعوا متشابھھا دون محکمھا فتضلوا'''}}</font><ref>عیون اخبار الرضا، شیخ صدوق،ج1 ص 290 ش39۔</ref>جس نے متشابہ کو محکمہ کی طرف پلٹایا تو اس نے صراط مستقیم کی طرف ہدایت کی ہے۔ پھر فرمایا :ہماری احادیث بھی [[قرآن]] کی مانند [[متشابہ]] اور [[محکمات]] ہیں پس تم [[متشابہ]] کو [[محکمات]] کی طرف لوٹاؤ اور [[محکمات]] (کی طرف لوٹائے) بغیر [[متشابہ]] کی پیروی نہ کرو اگر ایسا کرو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ | ||
واضح سی بات ہے کہ متشابہ کو محکم کی طرف پلٹانا دو کلاموں میں سے ایک کو دوسرے پر قرینہ قرار دینا صرف [[اجتہاد]] کے ذریعے ہی ممکن | واضح سی بات ہے کہ متشابہ کو محکم کی طرف پلٹانا دو کلاموں میں سے ایک کو دوسرے پر قرینہ قرار دینا صرف [[اجتہاد]] کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ | ||
[[معانی الاخبار]] میں ارشاد ہے: | [[معانی الاخبار]] میں ارشاد ہے: | ||
<font color=blue>{{حدیث|'''انتم افقہ الناس اذا عرفتم معانی کلامنا ،ان الکلمه لتنصرف علی وجوہ ، فلو شاء انسان لصرف کلامہ کیف شاء ولا یکذب'''}}</font><ref>معانی | <font color=blue>{{حدیث|'''انتم افقہ الناس اذا عرفتم معانی کلامنا ،ان الکلمه لتنصرف علی وجوہ ، فلو شاء انسان لصرف کلامہ کیف شاء ولا یکذب'''}}</font><ref>معانی الاخبار، شیخ صدوق، ج1 ص1۔</ref> | ||
اسی طرح [[بنی فضال]] کے بارے میں امام کا یہ قول | اسی طرح [[بنی فضال]] کے بارے میں امام کا یہ قول | ||
<font color=blue>{{حدیث|'''خذوا ما رووا و ذروا ما راوا'''}}</font><ref> | <font color=blue>{{حدیث|'''خذوا ما رووا و ذروا ما راوا'''}}</font><ref>الغیبۃ، شیخ طوسی، 239۔</ref> بنی فضال جو روایت کرتے ہیں اسے لے لو اور ان کے نظریات کو چھوڑ دو۔ | ||
یہ حدیث اس بات کو بیان کرتی ہے کہ [[بنی فضال]] کے نظریات احادیث کے علاوہ تھے اور وہ باطل نظریات تھے اور حدیث کے اطلاق سے صرف اصول عقائد مراد لینا درست نہیں | یہ حدیث اس بات کو بیان کرتی ہے کہ [[بنی فضال]] کے نظریات احادیث کے علاوہ تھے اور وہ باطل نظریات تھے اور حدیث کے اطلاق سے صرف اصول عقائد مراد لینا درست نہیں ہے۔ | ||
بعض ایسی روایات ہیں جو [[قرآن]] سے استنباط کی کیفیت کو بیان کرتی ہیں جیسے :[[زرارہ]] کا سر اور پاؤں کے کچھ حصے کا مسح کرنا کیسے جان لیا آپ نے مسکرا کر فرمایا :اے [[زرارہ]] !ارشاد پروردگار ہے فاغسلوا وجوھکم اس سے جان لیا مکمل چہرہ دھونا | بعض ایسی روایات ہیں جو [[قرآن]] سے استنباط کی کیفیت کو بیان کرتی ہیں جیسے: [[زرارہ]] کا سر اور پاؤں کے کچھ حصے کا مسح کرنا کیسے جان لیا آپ نے مسکرا کر فرمایا: اے [[زرارہ]] !ارشاد پروردگار ہے فاغسلوا وجوھکم اس سے جان لیا مکمل چہرہ دھونا چاہئے۔ پھر ارشاد ہوا ایدیکم الی المرافق پس ہاتھوں کو چہرے کے ساتھ ملایا اور اس سے ہم نے جان لیا کہ ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا چاہئے۔ پھر ارشاد ہوا و امسحوا برؤسکم تو ہم نے لفظ برؤسکم کی با سے جان لیا کہ مسح کچھ حصہ کا کرنا چاہئے... لوگوں نے رسول خدا کی اس تفسیر کو ضائع کر دیا ہے۔ | ||
یہ تمام احادیث کی اقسام اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ [[آئمہ معصومین]] کے زمانے اور ہمارے زمانے کے | یہ تمام احادیث کی اقسام اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ [[آئمہ معصومین]] کے زمانے اور ہمارے زمانے کے اجتہاد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ | ||
'''[[آئمہ طاہرین]] کا لوگوں کو فقہاء کی طرف رجوع کرنے کا حکم دینا''': | '''[[آئمہ طاہرین]] کا لوگوں کو فقہاء کی طرف رجوع کرنے کا حکم دینا''': | ||
بہت سی روایات میں [[آئمہ طاہرین]] نے اپنے اصحاب کی طرف سائلین کو رجوع کرنے کا حکم دیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے اس زمانے میں لوگوں کے درمیان یہ چیز رائج تھے جیسے : | بہت سی روایات میں [[آئمہ طاہرین]] نے اپنے اصحاب کی طرف سائلین کو رجوع کرنے کا حکم دیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے اس زمانے میں لوگوں کے درمیان یہ چیز رائج تھے جیسے: | ||
مقبولہ [[عمر بن حنظلہ]] کا ظاہری معنی اسے بیان کرتا ہے کہ امام نے شبہ حکمیہ اجتہادیہ میں لوگوں کو فقہاء کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا۔ ابی خدیجہ کی روایت بھی اسی کی مانند | مقبولہ [[عمر بن حنظلہ]] کا ظاہری معنی اسے بیان کرتا ہے کہ امام نے شبہ حکمیہ اجتہادیہ میں لوگوں کو فقہاء کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا۔ ابی خدیجہ کی روایت بھی اسی کی مانند ہے۔ نیز آیۃ النفر کے ذیل میں آنے والی حديث بھی اسی زمرے میں شمار ہوتی ہے۔ان احادیث میں جب امام سے جھگڑے کی صورت کا پوچھا گیا تو امام نے فرمایا ایسے شخص کو حاکم قرار دو جو ہمارے حلال اور حرام کی احادیث کو جانتا ہو اور ہمارے احکام کی معرفت رکھتا ہو پھر کہا جب وہ ہمارے حکم کے مطابق فیصلہ کر دے تو کوئی اسے قبول نہ کرے تو اس نے ہمیں رد کیا ہے۔<ref> تہذیب الاحکام، شیخ طوسی، ج6 ٍ301،ش845و ص 303،ش846</ref> | ||
اما الحوادث | اما الحوادث ... کی توقیع اسی کو بیان کرتی ہے۔ | ||
شعیب عقرقوفی نے [[امام جعفر صادق ؑ]] سے سوال کیا جب ہمیں کسی چیز کی ضرورت پیش آئے | شعیب عقرقوفی نے [[امام جعفر صادق ؑ]] سے سوال کیا جب ہمیں کسی چیز کی ضرورت پیش آئے تو ہم کس سے پوچھیں تو آپ نے فرمایا: [[ابو اسدی]] سے پوچھو یعنی [[ابو بصیر اسدی]] سے۔<ref>وسائل الشیعہ، حر عاملی، ج27، ص142، ش15۔</ref>۔ نیز اس سے پہلے علی بن مسیب ہمدانی کی حدیث بھی گزر چکی ہے۔ ان تمام احادیث سے اس پتہ چلتا تھا اس زمانے میں بھی لوگوں کے ذہن یہ بات راسخ تھی کہ علماء کی طرف رجوع کرنا ہے پس انہوں نے امام سے اس سلسلے میں سوال تو کیا امام نے ایک باوثوق اور مامون شخص کی طرف انکی راہنمائی کی ہے۔ | ||
*'''دوسرا امر''': | *'''دوسرا امر''': | ||
[[آئمہ طاہرین]] کی طرف اس سیرت کی مخالفت کے ثابت نہ ہونے سے ہم کشف کرتے ہیں کہ [[آئمہ]] اس سیرت پر راضی | [[آئمہ طاہرین]] کی طرف اس سیرت کی مخالفت کے ثابت نہ ہونے سے ہم کشف کرتے ہیں کہ [[آئمہ]] اس سیرت پر راضی تھے۔ کیونکہ کسی بھی چیز سے جاہل کا اس چیز کے عالم کی طرف رجوع کرنا ہر ایک کیلئے ایک واضح اور بدیہی امر ہے۔ آئمہ جانتے تھے کہ زمانۂ غیبت میں علمائے شیعہ کیلئے امام سے اتصال ممکن نہیں لہذا ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ اصول، جوامع اور احادیث کی کتب کی طرف رجوع کریں جیسا کہ روایات میں مذکور ہے اور شیعہ عوام اس سیرت عقلائی کی بنا پر خواہ نخواہ ان علماء کی طرف رجوع کریں گے کہ جو ان کے ذہنوں میں راسخ ہو چکی ہے اور ہر کوئی اس سے آگاہ ہے۔ پس اگر وہ اس سیرت سے راضی نہیں تھے تو ان پر اس عدم رضایت کا اظہار کرنا ضروری تھا۔<ref> امام خمینی کی کتاب الاجتہاد و التقلید سے سیرت عقلاء کی دلیل کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔</ref> | ||
=== اثبات اجتہاد کے راہ === | === اثبات اجتہاد کے راہ === |