"امام محمد باقر علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق
←ولادت اور شہادت
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 39: | سطر 39: | ||
== ولادت اور شہادت == | == ولادت اور شہادت == | ||
امام | امام محمد باقرؑ بروز جمعہ [[یکم رجب المرجب]] سنہ 57 ہجری کو [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے۔<ref> طبری، دلائل الإمامہ، ص۲۱۵؛ طبرسی، إعلام الورى، ج۱، ص۴۹۸۔</ref> گوکہ بعض منابع میں آپ کی تاریخ ولادت اسی سال [[3 صفر]] بروز منگل ثبت کی گئی ہے۔<ref>مجلسی، بحار، ج46، ص212۔</ref> | ||
=== شہادت === | === شہادت === | ||
امام باقرؑ [[7 ذی | امام باقرؑ [[7 ذی الحجہ]] [[سنہ 114 ہجری]] کو <ref>فرق الشیعہ 61؛ اعلام الوری میں [[امین الاسلام طبرسی]] نے لکھا ہے کہ کہ آپ [[ربیع الاول]] کے مہینے میں [[شہید]] ہوئے ہیں۔ رجوع کریں: ص259۔</ref> شہید ہوئے۔ امام محمد باقرؑ کی [[شہادت]] کے سلسلے میں دوسرے اقوال بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہيں۔ | ||
اس سلسلے میں متعدد تاریخی اور روائی<ref>حدیث و روایت سے متعلق مباحث کو روائی کہا جاتا ہے۔</ref> اقوال نقل ہوئے ہیں کہ امام محمد باقرؑ کو کس شخص یا کن اشخاص نے قتل کیا؟ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ (اموی مروانی بادشاہ) [[ہشام بن عبد الملک]] براہ راست اس قتل میں ملوث ہے۔<ref>مصباح کفعمی، 691۔</ref> بعض کا قول ہے کہ آپ کا قاتل [[ابراہیم بن ولید]] بن [[عبد الملک بن مروان]] ہے جس نے امامؑ کو مسموم کیا۔<ref>دلائل الامامہ، ص216؛ مناقب ابن شہر آشوب ج4، ص228۔</ref> بعض روایات میں حتی کہ [[زید بن حسن]] کو آپ کے قاتل کے طور پر پہچنوایا گیا ہے جو عرصہ دراز سے امامؑ کا کینہ اپنے دل میں رکھے ہوئے تھا؛{{نوٹ|علامہ مجلسی کی روایت کے مطابق امام صادقؑ نے فرمایا: زید بن حسن نے امام حسینؑ کا ساتھ نہیں دیا اور [[عبداللہ بن زبیر]] کی بیعت کی۔(بحار الأنوارج 47 ص294۔) اس نے میرے والد امام محمد باقرؑ کے ساتھ [[امامت]] کے مسئلے پر اختلاف کیا اور جب امام باقرؑ نے اس کو معجزات دکھا کر اپنی حقانیت کے عملی ثبوت ديئے تو اس نے خوفزدہ ہوکر جھگڑا جاری نہ رکھنے کا وعدہ کیا مگر وہيں سے ہشام بن عبدالملک کے پاس پہنچا اور امام محمد باقرؑ کو جادوگر اور ساحر قرار دے کر کہا کہ انہیں آزاد مت چھوڑنا۔ زید بن حسن اور ہشام نے مل کر امامؑ کو شہید کرنے کی سازش پر طویل غور و فکر کیا۔ بالآخر زید شام سے واپس آیا اور امامؑ کو ایک زين کا تحفہ دیا۔ امامؑ نے فرمایا: وائے ہو تم پر اے زید! میں اس درخت کو بھی جانتا ہوں جس کی لکڑی اس زین میں استعمال ہوئی ہے لیکن وائے ہے اس شخص پر جو شر انگیزي کا سبب ہے۔ زین گھوڑے پر رکھی گئی اور یہی زین امامؑ کی شہادت کا سبب بنی۔ میرے والد گھوڑے پر سوار ہوئے اور جب اترے تو آپ کے پاؤں سوجھ گئے تھے چنانچہ آپ نے فرمایا: میرے لئے کفن تیار کرو۔ (بحار الانوار، ج46 ص329۔) چنانچہ یہی زین امامؑ کی شہادت کا سبب بنی۔ (کشف الغمہ: 137/2۔) گوکہ بعض روایات کے مطابق ابراہیم بن الولید بن عبد الملک بن مروان نے ہی آپ کو زہر دے کر شہید کردیا۔}} ان روایات میں ہے کہ زید بن حسن نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا۔<ref>فرق الشیعہ ص 61۔</ref> بہر صورت امام محمد باقرؑ ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں جام شہادت نوش کیا۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج2، ص289، مروج الذہب 3/219، </ref> کیونکہ ہشام کی خلافت سنہ 105 سے سنہ 125 ہجری تک جاری رہی ہے اور بعض مؤرخین نے امامؑ کی شہادت کے سال میں اختلاف کرتے ہوئے آپ کے سال شہادت کو سنہ 118 ہجری قرار دیا ہے۔ <br /> اس کے باوجود کہ روایات بظاہر مختلف ہیں لیکن بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ سارے اقوال ایک لحاظ سے صحیح ہوں کیونکہ ممکن ہے کہ متعدد افراد امام محمد باقرؑ کے قتل میں ملوث ہوں اور کہا جا سکتا ہے کہ ہر روایت میں اس واقعے کا ایک حصہ نقل ہوا ہے۔ امام باقرؑ کے ساتھ ہشام کی دشمنی اور جارحانہ رویوں نیز [[خاندان محمدؐ]] کے ساتھ آل ابی سفیان اور آل مروان کی ناقابل انکار دشمنی کو مد نظر قرار دیتے ہوئے، اس بات میں کوئی شک و شبہہ کی گنجائش نہيں رہتی کہ [[ہشام بن عبدالملک]] امام باقرؑ کو غیر اعلانیہ طور پر قتل کرنے کا خواہاں تھا اور تاریخی اموی محرکات ہی اس فعل کے لئے کافی تھے۔ <br /> | اس سلسلے میں متعدد تاریخی اور روائی<ref>حدیث و روایت سے متعلق مباحث کو روائی کہا جاتا ہے۔</ref> اقوال نقل ہوئے ہیں کہ امام محمد باقرؑ کو کس شخص یا کن اشخاص نے قتل کیا؟ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ (اموی مروانی بادشاہ) [[ہشام بن عبد الملک]] براہ راست اس قتل میں ملوث ہے۔<ref>مصباح کفعمی، 691۔</ref> بعض کا قول ہے کہ آپ کا قاتل [[ابراہیم بن ولید]] بن [[عبد الملک بن مروان]] ہے جس نے امامؑ کو مسموم کیا۔<ref>دلائل الامامہ، ص216؛ مناقب ابن شہر آشوب ج4، ص228۔</ref> بعض روایات میں حتی کہ [[زید بن حسن]] کو آپ کے قاتل کے طور پر پہچنوایا گیا ہے جو عرصہ دراز سے امامؑ کا کینہ اپنے دل میں رکھے ہوئے تھا؛{{نوٹ|علامہ مجلسی کی روایت کے مطابق امام صادقؑ نے فرمایا: زید بن حسن نے امام حسینؑ کا ساتھ نہیں دیا اور [[عبداللہ بن زبیر]] کی بیعت کی۔(بحار الأنوارج 47 ص294۔) اس نے میرے والد امام محمد باقرؑ کے ساتھ [[امامت]] کے مسئلے پر اختلاف کیا اور جب امام باقرؑ نے اس کو معجزات دکھا کر اپنی حقانیت کے عملی ثبوت ديئے تو اس نے خوفزدہ ہوکر جھگڑا جاری نہ رکھنے کا وعدہ کیا مگر وہيں سے ہشام بن عبدالملک کے پاس پہنچا اور امام محمد باقرؑ کو جادوگر اور ساحر قرار دے کر کہا کہ انہیں آزاد مت چھوڑنا۔ زید بن حسن اور ہشام نے مل کر امامؑ کو شہید کرنے کی سازش پر طویل غور و فکر کیا۔ بالآخر زید شام سے واپس آیا اور امامؑ کو ایک زين کا تحفہ دیا۔ امامؑ نے فرمایا: وائے ہو تم پر اے زید! میں اس درخت کو بھی جانتا ہوں جس کی لکڑی اس زین میں استعمال ہوئی ہے لیکن وائے ہے اس شخص پر جو شر انگیزي کا سبب ہے۔ زین گھوڑے پر رکھی گئی اور یہی زین امامؑ کی شہادت کا سبب بنی۔ میرے والد گھوڑے پر سوار ہوئے اور جب اترے تو آپ کے پاؤں سوجھ گئے تھے چنانچہ آپ نے فرمایا: میرے لئے کفن تیار کرو۔ (بحار الانوار، ج46 ص329۔) چنانچہ یہی زین امامؑ کی شہادت کا سبب بنی۔ (کشف الغمہ: 137/2۔) گوکہ بعض روایات کے مطابق ابراہیم بن الولید بن عبد الملک بن مروان نے ہی آپ کو زہر دے کر شہید کردیا۔}} ان روایات میں ہے کہ زید بن حسن نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا۔<ref>فرق الشیعہ ص 61۔</ref> بہر صورت امام محمد باقرؑ ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں جام شہادت نوش کیا۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج2، ص289، مروج الذہب 3/219، </ref> کیونکہ ہشام کی خلافت سنہ 105 سے سنہ 125 ہجری تک جاری رہی ہے اور بعض مؤرخین نے امامؑ کی شہادت کے سال میں اختلاف کرتے ہوئے آپ کے سال شہادت کو سنہ 118 ہجری قرار دیا ہے۔ <br /> اس کے باوجود کہ روایات بظاہر مختلف ہیں لیکن بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ سارے اقوال ایک لحاظ سے صحیح ہوں کیونکہ ممکن ہے کہ متعدد افراد امام محمد باقرؑ کے قتل میں ملوث ہوں اور کہا جا سکتا ہے کہ ہر روایت میں اس واقعے کا ایک حصہ نقل ہوا ہے۔ امام باقرؑ کے ساتھ ہشام کی دشمنی اور جارحانہ رویوں نیز [[خاندان محمدؐ]] کے ساتھ آل ابی سفیان اور آل مروان کی ناقابل انکار دشمنی کو مد نظر قرار دیتے ہوئے، اس بات میں کوئی شک و شبہہ کی گنجائش نہيں رہتی کہ [[ہشام بن عبدالملک]] امام باقرؑ کو غیر اعلانیہ طور پر قتل کرنے کا خواہاں تھا اور تاریخی اموی محرکات ہی اس فعل کے لئے کافی تھے۔ <br /> |