مندرجات کا رخ کریں

"حوزہ علمیہ قم" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
سطر 30: سطر 30:


==تیسری صدی کے شیعہ علماء==
==تیسری صدی کے شیعہ علماء==
تیسری صدی ہجری میں [[شیعہ]] علماء کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا چنانچہ مذکورہ بالا فہرست کے مطابق<ref>مهاجر، رجال الاشعريين...، ص 192ـ195۔</ref> ان میں سے 44 افراد تیسری صدی میں گذرے ہیں۔ اگر اس تعداد میں دوسرے خاندانوں جیسے [[برقى خاندان]]، [[خاندان حمیر|حِمْیَرى]]، [[ابراہیم بن ہاشم قمى]]، [[ابن مَتّیل]]/ مُتَّیْل، [[خاندان ابن بابویہ|ابن بابویہ]] اور دیگر علم پرور خاندانوں ـ کے علماء کی کو شامل کیا جائے تو تیسری صدی کے بعد حوزہ علمیہ کی وسعت و ترقی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکے گا۔ [[برقی خاندان]] کے مورث اعلی اور پہلے عالم دین [[محمد بن خالد برقی |ابو عبداللہ محمد بن خالد بن عبدالرحمٰن برقى]] (جو سنہ 220 ہجری سے قبل زندہ تھے) [[امام موسی کاظم علیہ السلام|امام کاظم]] (ع) اور [[امام رضا (ع)]] کے اصحاب میں سے تھے اور دوسری صدی ہجری اور تیسری صدی کے اوائل کے مشہور محدث اور روای ہیں۔ ان کے فرزند [[احمد بن محمد بن خالد برقی|احمد بن محمد]] اس خاندان کے نامور ترین عالم ہیں۔
تیسری صدی ہجری میں [[شیعہ]] علماء کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا چنانچہ مذکورہ بالا فہرست کے مطابق<ref>مهاجر، رجال الاشعريين...، ص 192ـ195۔</ref> ان میں سے 44 افراد تیسری صدی میں گذرے ہیں۔ اگر اس تعداد میں دوسرے خاندانوں جیسے برقى خاندان، خاندان حِمْیَرى، ابراہیم بن ہاشم قمى، ابن مَتّیل/ مُتَّیْل، خاندان ابن بابویہ اور دیگر علم پرور خاندانوں کے علماء کی کو شامل کیا جائے تو تیسری صدی کے بعد حوزہ علمیہ کی وسعت و ترقی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکے گا۔ برقی خاندان کے مورث اعلی اور پہلے عالم دین [[محمد بن خالد برقی |ابو عبداللہ محمد بن خالد بن عبدالرحمٰن برقى]] (جو سنہ 220 ہجری سے قبل زندہ تھے) [[امام موسی کاظم علیہ السلام|امام کاظم]] (ع) اور [[امام رضا (ع)]] کے اصحاب میں سے تھے اور دوسری صدی ہجری اور تیسری صدی کے اوائل کے مشہور محدث اور روای ہیں۔ ان کے فرزند [[احمد بن محمد بن خالد برقی|احمد بن محمد]] اس خاندان کے نامور ترین عالم ہیں۔


[[خاندان حمیری]] کے مشہور ترین فرد [[عبداللہ بن جعفر حمیری|ابو العباس عبداللہ بن جعفر حِمیَرى]] (متوفى سنہ 310 ہجری)، [[امام علی نقی علیہ السلام|امام ہادی(ع)]] اور [[امام حسن عسکری|امام عسكرى]] (ع) کے صحابی تھے اور [[شیعہ کتب حدیث]] [[کتب اربعہ]] میں 180 [[حدیث|حدیثیں]] ان سے نقل ہوئی ہیں۔ انھوں نے [[قرب الاسناد]] سمیت کئی کتابیں تالیف کی ہیں۔<ref>نجاشی، رجال ...، ج2، ص 18ـ19۔</ref>۔<ref> طوسى، رجال طوسی، ص389، 400۔</ref>۔<ref> سبحانى، موسوعة طبقات الفقهاء، ج 4، ص 238۔</ref> ان کےفرزند، [[محمد بن عبداللہ حمیری|ابو جعفر محمد]] بھی نامی گرامی اور موثق راویوں میں سے ہیں۔ وہ کئی کتب کے مؤلف ہیں اور انھوں نے [[امام مہدی علیہ السلام|امام زمانہ(عج)]] کے ساتھ مکاتبہ بھی کیا ہے۔<ref>نجاشی، رجال ...، ج 2، ص 253۔</ref>
خاندان حمیری کے مشہور ترین فرد [[عبداللہ بن جعفر حمیری|ابو العباس عبداللہ بن جعفر حِمیَرى]] (متوفى سنہ 310 ہجری)، [[امام علی نقی علیہ السلام|امام ہادی(ع)]] اور [[امام حسن عسکری|امام عسكرى]] (ع) کے صحابی تھے اور [[شیعہ کتب حدیث]] [[کتب اربعہ]] میں 180 [[حدیث|حدیثیں]] ان سے نقل ہوئی ہیں۔ انھوں نے [[قرب الاسناد]] سمیت کئی کتابیں تالیف کی ہیں۔<ref>نجاشی، رجال ...، ج2، ص 18ـ19۔</ref>۔<ref> طوسى، رجال طوسی، ص389، 400۔</ref>۔<ref> سبحانى، موسوعة طبقات الفقهاء، ج 4، ص 238۔</ref> ان کے فرزند، [[محمد بن عبداللہ حمیری|ابو جعفر محمد]] بھی نامی گرامی اور موثق راویوں میں سے ہیں۔ وہ کئی کتب کے مؤلف ہیں اور انھوں نے [[امام مہدی علیہ السلام|امام زمانہ(عج)]] کے ساتھ مکاتبہ بھی کیا ہے۔<ref> نجاشی، رجال ...، ج 2، ص 253۔</ref>


[[ابراہیم بن ہاشم قمى|ابو اسحق ابراہیم بن ہاشم قمى]] (جو سنہ 247 ہجری میں زندہ تھے) بھی قم کے ایک علمی خاندان کے مورث اعلی تھے۔ وہ در حقیقت [[کوفہ|کوفی]] اور [[یونس بن عبدالرحمن]] کے شاگرد اور قم میں علم حدیث کے پیشرو شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے محدث ہیں جنہوں نے [[کوفہ|کوفیوں]] کی [[حدیث|حدیثوں]] کو قم میں ترویج دی ہے۔<ref>نجاشی، رجال ...، ج1، ص89۔</ref>۔<ref>طوسى، فهرست كتب الشيعة، ص11ـ 12۔</ref> ان کے فرزند [[علی بن ابراہیم قمی|على بن ابراہیم قمى]] مشہور محدّث اور مفسر اور [[کلینی رازی|شیخ کلینی]] کے مشائخ اور اساتذہ میں سے ہیں۔
[[ابراہیم بن ہاشم قمى|ابو اسحق ابراہیم بن ہاشم قمى]] (جو سنہ 247 ہجری میں زندہ تھے) بھی قم کے ایک علمی خاندان کے مورث اعلی تھے۔ وہ در حقیقت [[کوفہ|کوفی]] اور [[یونس بن عبدالرحمن]] کے شاگرد اور قم میں علم حدیث کے پیشرو شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے محدث ہیں جنہوں نے [[کوفہ|کوفیوں]] کی [[حدیث|حدیثوں]] کو قم میں ترویج دی ہے۔<ref> نجاشی، رجال ...، ج1، ص89۔</ref>۔<ref> طوسى، فهرست كتب الشيعة، ص11ـ 12۔</ref> ان کے فرزند [[علی بن ابراہیم قمی|على بن ابراہیم قمى]] مشہور محدّث اور مفسر اور [[کلینی رازی|شیخ کلینی]] کے مشائخ اور اساتذہ میں سے ہیں۔


[[متیل قمی|مَتّیل/ مُتَّیْل قمى]] کے فرزندوں کو نمایاں محدثین میں شمار کیا گیا ہے۔ [[حسن بن متّیل]] (جو سنہ 300 ہجری کے بعد زندہ تھے) قم کے مشہور و معروف مصنف اور محدث تھے اور انھوں نے النوادر نامی کتاب تالیف کی ہے<ref>نجاشی، رجال ...، ج1، ص 155۔</ref>۔<ref>منعّل قمى، تذكره مشايخ قم، ص37۔</ref> ان کے بھائی [[على بن متیل]]، [[شیخ صدوق]] کے مشائخ میں سے تھے۔<ref>نائینى، رياض المحدثين، ص495۔</ref> احمد بن متّیل اور ان کے فرزند جعفر بن احمد [[امام زمانہ]] (عج) کے دوسرے نائب خاص ابو جعفر [[محمد بن عثمان عمری|محمد بن عثمان عَمْرى]] کے نزدیک اس قدر قدر و منزلت رکھتے تھے کہ [[شیعہ]] علماء تقریبا مطمئن ہوچکے تھے کہ [[محمد بن عثمان عمری|محمد بن عثمان]] کے بعد نیابت خاصہ کا منصب ان میں سے ایک کو ملے گا۔<ref>طوسى، 1417، ص 369۔</ref>
[[متیل قمی|مَتّیل/ مُتَّیْل قمى]] کے فرزندوں کو نمایاں محدثین میں شمار کیا گیا ہے۔ [[حسن بن متّیل]] (جو سنہ 300 ہجری کے بعد زندہ تھے) قم کے مشہور و معروف مصنف اور محدث تھے اور انھوں نے النوادر نامی کتاب تالیف کی ہے<ref> نجاشی، رجال ...، ج1، ص 155۔</ref>۔<ref> منعّل قمى، تذكره مشايخ قم، ص37۔</ref> ان کے بھائی [[على بن متیل]]، [[شیخ صدوق]] کے مشائخ میں سے تھے۔<ref> نائینى، رياض المحدثين، ص495۔</ref> احمد بن متّیل اور ان کے فرزند جعفر بن احمد [[امام زمانہ]] (عج) کے دوسرے نائب خاص ابو جعفر [[محمد بن عثمان عمری|محمد بن عثمان عَمْرى]] کے نزدیک اس قدر قدر و منزلت رکھتے تھے کہ [[شیعہ]] علماء تقریبا مطمئن ہو چکے تھے کہ [[محمد بن عثمان عمری|محمد بن عثمان]] کے بعد نیابت خاصہ کا منصب ان میں سے ایک کو ملے گا۔<ref> طوسى، 1417، ص 369۔</ref>


===خاندان ابن بابویہ===
===خاندان ابن بابویہ===
بہرحال حوزہ قم اور بعد ازاں [[حوزہ علمیہ رے|رے]] کا مشہور ترین علمی خاندان [[خاندان ابن بابویہ]] ہے۔ یہ خاندان چھٹی صدی ہجری تک [[قم]] اور [[رے]] کے حوزہ ہائے علمیہ میں نامی گرامی تھا۔ اس خاندان کے آخری چشم و چراغ [[منتجب الدین رازی]] کا نام بھی اس خاندان کے مورث اعلی کی طرح علی تھا اور کنیت [[ابن بابویہ]] تھی۔ [[على بن حسین بن موسى بن بابویہ قمى|ابو الحسن على بن حسین بن موسى بن بابویہ قمى]] (متوفى سنہ 329 ہجری) عظیم [[محدث]] تھے اور [[نجاشی]]<ref>نجاشی، ج 1، ص 89ـ90۔</ref> نے انہیں قمیوں کا شیخ اور [[فقیہ]] قرار دیا ہے اور ان کی لکھی ہوئی کتب کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے اکثر کتب کا تعلق [[فقہی]] [[احکام]] سے تھا۔ ان کے بیٹے ابو عبداللہ حسین بن علی کی کنیت بھی والد کی طرح ابن بابویہ تھی اور ان کو نقل [[حدیث]] کی اجازت اپنے والد سے ملی تھی<ref>نجاشی، ج1، ص189۔</ref> ان کا اپنا قول ہے کہ وہ 20 سال تک تدریس کرتے رہے ہیں اور فقہی احکام کے حل میں ان کی حاضر جوابی سامعین کو حیرت زدہ کیا کرتی تھی۔<ref>طوسى، 1417، ص 321۔</ref> ابو الحسن علی بن حسین کے دوسرے فرزند [[شیخ صدوق|ابو جعفر محمد بن على]] المعروف بہ [[شیخ صدوق]] اور [[ابن بابویہ]] اس علمی خاندان کے معروف ترین رکن ہیں۔ [[شیعہ]] کتب [[فقہ]] و [[حدیث]] [یعنی] [[کتب اربعہ]] میں سے ایک کتاب [[من لا یحضرہ الفقیہ|مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ]]، ان ہی کے قلم کا ثمرہ ہے<ref>طوسى، فهرست كتب الشيعة، ص442ـ443۔</ref> [[شیخ صدوق]] کو درحقیقت حوزہ قم اور بعد ازاں حوزہ رے کی نمایاں ترین شخصیت اور علامت قرار دیا جا سکتا ہے جنہوں نے سنہ 339 ہجری کے بعد قم سے ہجرت کرکے رے میں سکونت اختیار کی۔<ref>ابن بابویہ، مقدمہ عبد الرحیم ربانى شیرازى، ص 18ـ19۔</ref>
بہرحال حوزہ قم اور بعد ازاں [[حوزہ علمیہ رے|رے]] کا مشہور ترین علمی خاندان [[ابن بابویہ]] ہے۔ یہ خاندان چھٹی صدی ہجری تک [[قم]] اور [[رے]] کے حوزہ ہائے علمیہ میں نامی گرامی تھا۔ اس خاندان کے آخری چشم و چراغ [[منتجب الدین رازی]] کا نام بھی اس خاندان کے مورث اعلی کی طرح علی تھا اور کنیت ابن بابویہ تھی۔ [[على بن حسین بن موسى بن بابویہ قمى|ابو الحسن على بن حسین بن موسى بن بابویہ قمى]] (متوفى سنہ 329 ہجری) عظیم [[محدث]] تھے اور [[نجاشی]]<ref> نجاشی، ج 1، ص 89ـ90۔</ref> نے انہیں قمیوں کا شیخ اور [[فقیہ]] قرار دیا ہے اور ان کی لکھی ہوئی کتب کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے اکثر کتب کا تعلق [[فقہی]] [[احکام]] سے تھا۔ ان کے بیٹے ابو عبداللہ حسین بن علی کی کنیت بھی والد کی طرح ابن بابویہ تھی اور ان کو نقل [[حدیث]] کی اجازت اپنے والد سے ملی تھی<ref> نجاشی، ج1، ص189۔</ref> ان کا اپنا قول ہے کہ وہ 20 سال تک تدریس کرتے رہے ہیں اور فقہی احکام کے حل میں ان کی حاضر جوابی سامعین کو حیرت زدہ کیا کرتی تھی۔<ref> طوسى، 1417، ص 321۔</ref> ابو الحسن علی بن حسین کے دوسرے فرزند [[شیخ صدوق|ابو جعفر محمد بن على]] المعروف بہ [[شیخ صدوق]] اور [[ابن بابویہ]] اس علمی خاندان کے معروف ترین رکن ہیں۔ [[شیعہ]] کتب [[فقہ]] و [[حدیث]] [یعنی] [[کتب اربعہ]] میں سے ایک کتاب [[من لا یحضرہ الفقیہ|مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ]]، ان ہی کے قلم کا ثمرہ ہے<ref>طوسى، فهرست كتب الشيعة، ص442ـ443۔</ref> [[شیخ صدوق]] کو درحقیقت حوزہ قم اور بعد ازاں حوزہ رے کی نمایاں ترین شخصیت اور علامت قرار دیا جا سکتا ہے جنہوں نے سنہ 339 ہجری کے بعد قم سے ہجرت کرکے رے میں سکونت اختیار کی۔<ref> ابن بابویہ، مقدمہ عبد الرحیم ربانى شیرازى، ص 18ـ19۔</ref>


==علویوں اور سادات کی موجودگی==
==علویوں اور سادات کی موجودگی==
گمنام صارف