مندرجات کا رخ کریں

"حوزہ علمیہ قم" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 145: سطر 145:


===تاریخچہ===
===تاریخچہ===
قدیمی قم کا حوزہ علمیہ ـ جس نے خاص طور پر تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں شکوہ و عظمت کی چوٹیاں سر کی تھیں ـ کا سابقہ شکوہ، رے اور [[بغداد]] میں دوسرے مشابہ حوزات علمیہ کے رونق پانے کے بعد ـ بطور خاص پانچویں صدی ہجری میں [[اہل سنت|سنی]] مذہب کے پیروکار [[سلجوقیہ|سلجوقیوں]] کے بر سر اقتدار آنے کے بعد، تنزلی کا شکار ہوا؛ بايں حال، اس شہر کے علماء کے حالات زندگی اور اس کے علمی اور تعلیمی و تربیتی حالات کے بارے میں [[رے]] کے دو [[شیعہ]] مؤلفین یعنی [[منتجب الدین رازى]] اور [[عبدالجلیل قزوینی رازى]] کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خاص طور پر چھٹی صدی ہجری میں یہ حوزہ اپنے سابقہ شکوہ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ جیسا کہ سطور بالا میں اشارہ ہوا [[خاندان دعویدار قمی]] سے پانچویں سے ساتویں صدی ہجری تک بہت سے علماء ابھر کر سامنے آئے جن میں سے بعض نے اس شہر کے مسند قضاء کو سنبھالا۔ اس خاندان سے باہر دوسرے علماء نے بھی حوزہ قم کو رونق بخشی۔ چھٹی صدی ہجری میں اس شہر کے ایک مشہور فقیہ [[حسن بن حَسّولہ بن صالحان قمى|ابو محمد حسن بن حَسّولة بن صالحان قمى]] قم کے جامع عتیق خطیب تھے جس نے "طرشت" کے عالم دین [[جعفربن محمد دوریستى|ابو عبدالله جعفر بن محمد دُوریستى]] کے ہاں تعلیم حاصل کی تھی نیز [[شاذان بن جبرئیل قمی]] کے شاگردوں میں سے تھے؛<ref>محمدباقر مجلسى، بحار الانوار، ج106، ص42۔</ref> صاحب فتوی فقیہ [[قاضى ابوابراہیم بابوئى]]، بھی چھٹی صدی کے نصف اول میں مذہب [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]](ع) کے مطابق فیصلے کرتے تھے؛<ref>عبدالجلیل قزوینى، النقضِ، ص459۔</ref> نیز [[محمد بن على نیشابورى|ابو جعفر محمدبن على نیشابورى]] (متوفى سنہ 550ہجری قمری[[فضل اللہ بن على حسنى راوندى]] کے استاد تھے اور حوزہ قم میں فعال کردار ادا کررہے تھے۔ وہ کئی کتب کے مؤلف ہیں جن میں ''الحدود'' اور ''الموجز فی النحو'' خاص طور پر قابل ذکر ہیں؛<ref>منتجب الدین رازى، الفهرست، ص102ـ 103۔</ref>۔<ref>عبدالجلیل قزوینى، النقضِ، ص212۔</ref>۔<ref>امین، اعیان الشیعه، ج8، ص408۔</ref> [[خاندان علوىِ سید زکى]] سے [[مرتضى کبیر شرف الدین محمد بن على]] ـ جن کا اپنا مدرسہ بھی تھا ـ علم اور زہد و پارسائی میں شہرت تامہ رکھتے تھے اور ان کے بھائی "تاج الدین" و "امیر [[شمس الدین ابو الفضل رضوى]]" چھٹی صدی میں حوزہ قم میں فعال تھے؛<ref>عبدالجلیل قزوینى، النقضِ، ص195، 224ـ225۔</ref> [[زین‌الدین امیرۃ بن شرف شاہ حسینی]] قم کے ان فقہاء میں سے تھے جو قضاء اور تدریس میں مصروف عمل تھے اور ان کے نام پر ایک مدرسہ بھی تعلیمی مراکز میں سے تھا۔<ref>منتجب الدین رازى، الفهرست، ص36۔</ref>۔<ref>عبدالجلیل قزوینى، النقضِ، ص195، 459۔</ref>۔<ref>ابن حجر عسقلانى، لسان المیزان، ج2، ص218، عسقلانی نے ان کا نام امیر بن شرف شاہ الشریف الحسنى القمى ضبط و ثبت کیا ہے۔</ref>
قدیمی قم کا حوزہ علمیہ جس نے خاص طور پر تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں شکوہ و عظمت کی چوٹیاں سر کی تھیں، کا سابقہ شکوہ، رے اور [[بغداد]] میں دوسرے مشابہ حوزات علمیہ کے رونق پانے کے بعد بطور خاص پانچویں صدی ہجری میں [[اہل سنت|سنی]] مذہب کے پیروکار [[سلجوقیہ|سلجوقیوں]] کے بر سر اقتدار آنے کے بعد، تنزلی کا شکار ہوا؛ بايں حال، اس شہر کے علماء کے حالات زندگی اور اس کے علمی اور تعلیمی و تربیتی حالات کے بارے میں [[رے]] کے دو [[شیعہ]] مؤلفین یعنی [[منتجب الدین رازى]] اور عبدالجلیل قزوینی رازى کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خاص طور پر چھٹی صدی ہجری میں یہ حوزہ اپنے سابقہ شکوہ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ جیسا کہ سطور بالا میں اشارہ ہوا خاندان دعویدار قمی سے پانچویں سے ساتویں صدی ہجری تک بہت سے علماء ابھر کر سامنے آئے جن میں سے بعض نے اس شہر کے مسند قضاء کو سنبھالا۔ اس خاندان سے باہر دوسرے علماء نے بھی حوزہ قم کو رونق بخشی۔ چھٹی صدی ہجری میں اس شہر کے ایک مشہور [[فقیہ]] [[حسن بن حَسّولہ بن صالحان قمى|ابو محمد حسن بن حَسّولة بن صالحان قمى]] قم کے جامع عتیق خطیب تھے جس نے طرشت کے عالم دین [[جعفر بن محمد دوریستى|ابو عبد الله جعفر بن محمد دُوریستى]] کے ہاں تعلیم حاصل کی تھی نیز شاذان بن جبرئیل قمی کے شاگردوں میں سے تھے؛<ref> محمد باقر مجلسى، بحار الانوار، ج106، ص42۔</ref> صاحب فتوی فقیہ قاضى ابو ابراہیم بابوئى، بھی چھٹی صدی کے نصف اول میں مذہب [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] (ع) کے مطابق فیصلے کرتے تھے؛<ref> عبد الجلیل قزوینى، النقضِ، ص459۔</ref> نیز [[محمد بن على نیشابورى|ابو جعفر محمد بن على نیشابورى]] (متوفى سنہ 550 ہجری)، فضل اللہ بن على حسنى راوندى کے استاد تھے اور حوزہ قم میں فعال کردار ادا کر رہے تھے۔ وہ کئی کتب کے مؤلف ہیں جن میں الحدود اور الموجز فی النحو خاص طور پر قابل ذکر ہیں؛<ref> منتجب الدین رازى، الفهرست، ص102ـ 103۔</ref>۔<ref> عبدالجلیل قزوینى، النقضِ، ص212۔</ref>۔<ref> امین، اعیان الشیعه، ج8، ص408۔</ref> خاندان علوىِ سید زکى سے مرتضى کبیر شرف الدین محمد بن على، جن کا اپنا مدرسہ بھی تھا ـ علم اور زہد و پارسائی میں شہرت تامہ رکھتے تھے اور ان کے بھائی تاج الدین و امیر شمس الدین ابو الفضل رضوى چھٹی صدی میں حوزہ قم میں فعال تھے؛<ref> عبد الجلیل قزوینى، النقضِ، ص195، 224ـ225۔</ref> زین‌الدین امیرۃ بن شرف شاہ حسینی قم کے ان فقہاء میں سے تھے جو قضاء اور تدریس میں مصروف عمل تھے اور ان کے نام پر ایک مدرسہ بھی تعلیمی مراکز میں سے تھا۔<ref> منتجب الدین رازى، الفهرست، ص36۔</ref>۔<ref> عبدالجلیل قزوینى، النقضِ، ص195، 459۔</ref>۔<ref> ابن حجر عسقلانى، لسان المیزان، ج2، ص218، عسقلانی نے ان کا نام امیر بن شرف شاہ الشریف الحسنى القمى ضبط و ثبت کیا ہے۔</ref>


===مدارس===
===مدارس===
چھٹی صدی میں مدرسۂ [[زین‌الدین امیرۃ بن شرف شاہ حسینی|امیرۃ بن شرف شاہ حسینی]] قم کا واحد مدرسہ نہ تھا اور عبدالجلیل قزوینی کی تصریح کے مطابق<ref>عبدالجلیل قزوینى، النقضِ، ص195۔</ref> اس شہر میں مختلف فرقوں کی کتب سے بھرے ہوئے کتب خانے اور درس و تدریس کی محافل اور حلقے برقرار تھے۔ انھوں نے قم میں 10 آباد مدارس کے نام لئے ہیں جیسے:
چھٹی صدی میں مدرسۂ [[زین‌الدین امیرۃ بن شرف شاہ حسینی|امیرۃ بن شرف شاہ حسینی]] قم کا واحد مدرسہ نہ تھا اور عبد الجلیل قزوینی کی تصریح کے مطابق<ref> عبد الجلیل قزوینى، النقضِ، ص195۔</ref> اس شہر میں مختلف فرقوں کی کتب سے بھرے ہوئے کتب خانے اور درس و تدریس کی محافل اور حلقے برقرار تھے۔ انھوں نے قم میں 10 آباد مدارس کے نام لئے ہیں جیسے:
{{ستون آ|2}}
{{ستون آ|2}}
* مدرسه سعد، مدرسۂ اثیر الملک،
* مدرسہ سعد، مدرسۂ اثیر الملک،
* مدرسۂ شهید سعید عز الدین مرتضى،
* مدرسۂ شهید سعید عز الدین مرتضى،
* مدرسۂ ظہیرالدین عبد العزیز،
* مدرسۂ ظہیرالدین عبد العزیز،
سطر 157: سطر 157:
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}


نیز حرم [[فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا|فاطمہ معصومہ]](س) میں بھی دینی علوم کی تدریس ہوتی تھی اور اس حرم کے اپنے اوقاف تھے جس سے طلاب، اساتذہ اور مدرسین کے اخراجات دیئے جاتے تھے۔<ref>عبدالجلیل قزوینى، النقضِ، ص195۔</ref>
نیز حرم [[فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا|فاطمہ معصومہ]] (س) میں بھی دینی علوم کی تدریس ہوتی تھی اور اس حرم کے اپنے اوقاف تھے جس سے طلاب، اساتذہ اور مدرسین کے اخراجات دیئے جاتے تھے۔<ref> عبد الجلیل قزوینى، النقضِ، ص195۔</ref>


===منگولوں کی یلغار===
===منگولوں کی یلغار===


سنہ 621 ہجری قمری میں قم اور [[کاشان]] پر منگولوں کا حملہ اور ان شہروں میں وسیع خونریزی اور تباہی<ref>رجوع کریں: ابن اثیر، ج12، ص419۔</ref> حوزہ قم بھی رو بزوال ہوا۔ [[آقا بزرگ طہرانى]] کہتے تھے کہ "قمی" نسبت رکھنے والے علماء کی تعداد چھٹی صدی ہجری میں 34،<ref>طبقات اعلام الشیعه: الثقات العیون فی سادس القرون، ص225ـ226۔</ref> ساتویں صدی میں 3،<ref>آقا بزرگ طهرانى، الحقائق، ص165۔</ref> اور نویں صدی میں 7<ref>آقابزرگ طهرانى، الضیاء، ص110۔</ref> ذکر کی ہے۔ یہ تعداد ـ اس فرض کے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ ممکن ہے کہ مذکورہ علماء قمی نہ ہوں یا قم میں مقیم نہ ہوں ـ [[حلہ]] کے علماء کی تعداد کے مقابلے میں جو چھٹی صدی میں 16،<ref>آقابزرگ طهرانى، الثقات، ص85ـ86۔</ref> ساتویں صدی میں 34،<ref>آقا بزرگ طهرانی، الانوار، ص55ـ56۔</ref> آٹھویں صدی میں 38،<ref> آقابزرگ طهرانى، الحقائق، ص61ـ62۔</ref> اور نویں صدی میں 10 تھی<ref>آقابزرگ طهرانى، الضیاء، ص54۔</ref> ـ اس دور میں حوزہ علمیہ قم کے جمود کی بخوبی تصویر کشی کرتی ہے۔
سنہ 621 ہجری میں قم اور [[کاشان]] پر منگولوں کا حملہ اور ان شہروں میں وسیع خونریزی اور تباہی<ref> رجوع کریں: ابن اثیر، ج12، ص419۔</ref> حوزہ قم بھی رو بزوال ہوا۔ [[آقا بزرگ طہرانى]] کہتے تھے کہ قمی نسبت رکھنے والے علماء کی تعداد چھٹی صدی ہجری میں 34،<ref>طبقات اعلام الشیعہ: الثقات العیون فی سادس القرون، ص225ـ226۔</ref> ساتویں صدی میں 3،<ref>آقا بزرگ طهرانى، الحقائق، ص165۔</ref> اور نویں صدی میں 7<ref>آقا بزرگ طهرانى، الضیاء، ص110۔</ref> ذکر کی ہے۔ یہ تعداد، اس فرض کے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ ممکن ہے کہ مذکورہ علماء قمی نہ ہوں یا قم میں مقیم نہ ہوں، [[حلہ]] کے علماء کی تعداد کے مقابلے میں جو چھٹی صدی میں 16،<ref>آقابزرگ طهرانى، الثقات، ص85ـ86۔</ref> ساتویں صدی میں 34،<ref>آقا بزرگ طهرانی، الانوار، ص55ـ56۔</ref> آٹھویں صدی میں 38،<ref> آقابزرگ طهرانى، الحقائق، ص61ـ62۔</ref> اور نویں صدی میں 10 تھی<ref>آقا بزرگ طهرانى، الضیاء، ص54۔</ref> ـ اس دور میں حوزہ علمیہ قم کے جمود کی بخوبی تصویر کشی کرتی ہے۔


اس دور میں چھٹی صدی کے متعدد اور پر شکوہ مدارس کا اتا پتا نہیں ہے، اس کے باوجود اس حوزہ کی علمی فعالیت بہت زیادہ نشیب و فراز کے باوجود تقریبا جاری و ساری رہی ہے۔ [[ابن طاؤس]] (حیات سنہ 647 تا 693ہجری قمری)۔<ref>ابن طاؤس، فرحةالغرى فى تعیین قبر امیرالمؤمنین على علیه السلام، ص131۔</ref> نے قم میں ایک مدرسے کا تذکرہ کیا ہے جو ان کے زمانے میں سرگرم عمل تھا اور شاید قم کے بازار کے قریب واقع [[مدرسہ رضویہ]] اسی مدرسے کی یادگار ہے۔ [[ابن عنبہ]]<ref>ابن عنبه، عمدةالطالب فى انساب آل ابی طالب،  ص92۔</ref> نے بھی بازار قم کے علاقے میں "سورانیک" کے علاقے میں ایک مدرسے کا تذکرہ کیا ہے، جس میں [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن مجتبی(ع)]] کی اولاد میں سے ایک امامزادہ "[[ناصر الدین على بطحانی]]" مدفون تھے۔ "خواند میر" اپنی کتاب ''دستور الوزراء'' میں<ref>خواندمیر، دستورالوزراء، ص377ـ380۔</ref> گورکانی/ تیموری بادشاہوں کے وزیر [[برہان الدین عبدالحمید کرمانى]] (متوفى سنہ 877ہجری قمری) کے حالات زندگی بیان کرتے ہیں جس نے قم کے ایک مدرسے میں سکونت اختیار کی تھی۔ [[مدرسى طباطبائى]]<ref>مدرسى طباطبائى، قم در قرن نهم هجرى، ص37ـ38۔</ref> نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ وہی [[مدرسہ غیاثیہ]] تھا جو تقریبا سنہ 730 ہجری قمری میں [[خواجہ غیاث الدین امیر محمد]] بن رشید الدین فضل اللہ کے ہاتھوں تعمیر ہوا تھا اور آج بھی اس کے داخلی دروازے کا بالائی حصہ اور مینارے موجود ہیں۔
اس دور میں چھٹی صدی کے متعدد اور پر شکوہ مدارس کا اتا پتا نہیں ہے، اس کے باوجود اس حوزہ کی علمی فعالیت بہت زیادہ نشیب و فراز کے باوجود تقریبا جاری و ساری رہی ہے۔ [[ابن طاؤس]] (حیات سنہ 647 تا 693 ہجری)۔<ref>ابن طاؤس، فرحة الغرى فى تعیین قبر امیر المؤمنین على علیہ السلام، ص131۔</ref> نے قم میں ایک مدرسے کا تذکرہ کیا ہے جو ان کے زمانے میں سرگرم عمل تھا اور شاید قم کے بازار کے قریب واقع [[مدرسہ رضویہ]] اسی مدرسے کی یادگار ہے۔ ابن عنبہ<ref> ابن عنبہ، عمدة الطالب فى انساب آل ابی طالب،  ص92۔</ref> نے بھی بازار قم کے علاقے میں سورانیک کے علاقے میں ایک مدرسے کا تذکرہ کیا ہے، جس میں [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن مجتبی(ع)]] کی اولاد میں سے ایک امام زادے ناصر الدین على بطحانی مدفون تھے۔ خواند میر اپنی کتاب دستور الوزراء میں<ref> خواندمیر، دستورالوزراء، ص377ـ380۔</ref> گورکانی/تیموری بادشاہوں کے وزیر برہان الدین عبد الحمید کرمانى (متوفى سنہ 877 ہجری) کے حالات زندگی بیان کرتے ہیں جس نے قم کے ایک مدرسے میں سکونت اختیار کی تھی۔ [[مدرسى طباطبائى]]<ref>مدرسى طباطبائى، قم در قرن نهم هجرى، ص37ـ38۔</ref> نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ وہی [[مدرسہ غیاثیہ]] تھا جو تقریبا سنہ 730 ہجری میں خواجہ غیاث الدین امیر محمد بن رشید الدین فضل اللہ کے ہاتھوں تعمیر ہوا تھا اور آج بھی اس کے داخلی دروازے کا بالائی حصہ اور مینارے موجود ہیں۔


==صفویہ اور قاجاریہ کے ادوار==
==صفویہ اور قاجاریہ کے ادوار==
گمنام صارف