مندرجات کا رخ کریں

"حدیث کساء" کے نسخوں کے درمیان فرق

4,517 بائٹ کا اضافہ ،  31 اکتوبر 2014ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 108: سطر 108:
خلیفہ کے تعین کے لئے [[عمر بن خطاب|خلیفۂ ثانی]] نے شوری تشکیل دی تو [[امیرالمؤمنین]] نے حکومت اور [[رسول اللہ|پیغمبر(ص)]] کی جانشینی کے سلسلے میں اپنے استحقاق کے اثبات کے لئے حدیث کساء سے استناد و استشہاد کیا۔<ref>ابن‌بابویه، الخصال، ج2، ص561 ۔</ref><br/>
خلیفہ کے تعین کے لئے [[عمر بن خطاب|خلیفۂ ثانی]] نے شوری تشکیل دی تو [[امیرالمؤمنین]] نے حکومت اور [[رسول اللہ|پیغمبر(ص)]] کی جانشینی کے سلسلے میں اپنے استحقاق کے اثبات کے لئے حدیث کساء سے استناد و استشہاد کیا۔<ref>ابن‌بابویه، الخصال، ج2، ص561 ۔</ref><br/>
ایک موقع پر [[صحابۂ]] [[رسول اللہ|رسول(ص)]] ایک دوسرے پر فخر فروشی اور تفاخر کرنے لگے تو [[امیرالمؤمنین]])(ع) نے اپنے اور اپنے خاندان کی فضیلت کرتے ہوئے حدیث کساء کا حوالہ دیا۔<ref>ابن‌بابویه،کمال الدین و تمام النعمة، ج1، ص278۔</ref>
ایک موقع پر [[صحابۂ]] [[رسول اللہ|رسول(ص)]] ایک دوسرے پر فخر فروشی اور تفاخر کرنے لگے تو [[امیرالمؤمنین]])(ع) نے اپنے اور اپنے خاندان کی فضیلت کرتے ہوئے حدیث کساء کا حوالہ دیا۔<ref>ابن‌بابویه،کمال الدین و تمام النعمة، ج1، ص278۔</ref>
===امام حسن(ع) کا استدلال===
[[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] کے ساتھ [[صلح امام حسن|امام حسن(ع)]] کی صلح کے بعد، معاویہ نے تقریر کی تو [[امام حسن]](ع) نے خطبہ دیا اور [[اہل بیت]] کی شان میں [[آیت مباہلہ]] کا حوالہ دینے کے بعد اپنے اور [[اہل بیت]](ع) کی فضیلت بیان کرنے کے لئے [[اصحاب کساء|حدیث کساء]] سے استدلال کیا۔<ref>طوسی، الأمالی، ص559۔</ref>
== مفاتیح الجنان کی آخری حدیث ==
[[شیخ عباس قمی]] کی مشہور عالم کتاب دعا [[مفاتیح الجنان]] کی آخری حدیث ـ جو حدیث کساء کے عنوان سے مشہور ہے ـ فریقین کی کسی بھی معتبر کتاب میں منقول نہیں ہے اور حتی کہ [[بحار الانوار]] میں اس کو نقل نہیں کیا گیا ہے حالانکہ اس کتاب کا مقصد ہی [[اہل بیت]](ع) سے منسوب [[حدیث|احادیث]] کو جمع کرنا تھا۔ <br/>
مرحوم مغفور [[شیخ عباس قمی]] اپنی کتاب [[متنہی الآمال]] میں لکھتے ہیں کہ "حدیث کساء" [[تواتر|متواتر]] حدیثوں میں سے ہے لیکن جو حدیث "حدیث کساء" کےعنوان سے ہمارے درمیان رائج ہے، اس کیفیت کے ساتھ معتبر اور معروف کتب اور اصول حدیث اور محدثین کے مجامعی متقنہ میں نقل نہیں ہوئی ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث کتاب ''[[منتخب طریحی|منتخب]]'' کے خطائص میں سے ہے۔<ref>عباس قمی، منتهی الامال ج1، ص820۔</ref> <br/>
جس طرح کہ جناب [[شیخ عباس قمی|محدث قمی]] نے نقل کیا ہے یہ حدیث پہلی بار بغیر سند کے، ''[[منتخب طریحی]]'' میں نقل ہوئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ صدر اول سے تقریبا ایک ہزار سال تک یہ حدیث [اس کیفیت سے] کتب حدیث میں نہیں دیکھی جاسکی ہے۔ <br/>
بہت سے [[شیعہ]] اکابرین [[حدیث]] ـ منجملہ [[کلینی رازی]]، [[شیخ طوسی]]، [[شیخ مفید]]، [[شیخ طبرسی]] اور [[ابن شہر آشوب]] ـ نے اس [[حدیث]] کو اسی کیفیت سے ـ عبارات میں مختصر اختلاف کے ساتھ ـ  نقل کیا ہے جس طرح کہ اس مضمون کے آغاز میں منقول ہے اور یہ عبارات رائج حدیث کساء کی عبارت سے مختلف ہیں۔<ref>ری شهری اهل بیت(ع) در قرآن و حدیث ج1، ص42 ۔</ref>
==حدیث کساء، کتب اور شرحیں==
بعض [[شیعہ]] علماء نے [[حدیث]] کساء کی سند کے سلسلے میں مستقل رسالے تالیف کئے ہیں اور اس کے اعتبار کے اثبات کے لئے اقدام کیا ہے؛ جیسے:
{{ستون آ|2}}
# [[سند حدیث کساء]]، تالیف: [[آیت اللہ مرعشی نجفی]]، مطبوعہ 1356ہجری قمری؛
# آیۃ التطہیر فی الخمسۃ اہل الکساء، تالیف: [[محیی الدین موسوی غریفی]]، مطبوعہ 1377ہجری قمری؛
# حدیث الکساء عند اهل السنه، تالیف: [[سید مرتضی عسکری]]، طبع اول 1395ہجری قمری، اور طبع دوئم بمع شیعہ مآخذ، 1402ہجری قمری؛
# سند حدیث شریف کساء، تالیف: علی اکبر مهدی پور، چاپ 1410 ہجری قمری۔
{{ستون خ}}
{{ستون آ|2}}
نیز [[حدیث]] شریف کساء پر مختلف شرحیں بھی لکھی گئی ہیں؛ جیسے:
# التحفۃ الکسائیۃ، تالیف: [[شیخ بافقی یزدی]] (متوفٰی 1310ہجری قمری)؛
# کشف الغطاء عن حدیث الکساء، تالیف: [[علی آل عبدالغفار کشمیری|شیخ علی آل عبدالغفار کشمیری]] (متوفٰی 1345ہجری قمری).
{{ستون خ}}
نیز [[عربی]]، [[فارسی]]، [[اردو]]، ترکی، لُری اور دیگر زبانیں بولنے اور لکھنے والے شعراء نے بھی اس حدیث کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔<ref>دائرة المعارف تشیع، ج6، ص188۔</ref>


==متعلقہ مآخذ==
==متعلقہ مآخذ==
گمنام صارف