"اولوا العزم" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Noorkhan |
imported>Noorkhan کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''اولو العزم''' '''''[أُوْلُوا الْعَزْمِ]''''' یعنی صاحبان عزم، اللہ کے بعض پیغمبروں کو کہا جاتا ہے۔ | '''اولو العزم''' '''''[أُوْلُوا الْعَزْمِ]''''' یعنی صاحبان عزم، اللہ کے بعض پیغمبروں کو کہا جاتا ہے۔ | ||
یہ عبارت ایک بار قرآن کی [[سورہ احقاف]] میں مذکور ہے جہاں ارشاد ہوا ہے: | یہ عبارت ایک بار قرآن کی [[سورہ احقاف]] میں مذکور ہے جہاں ارشاد ہوا ہے: | ||
:<font color=green>"'''فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ...'''" </font>؛ ترجمہ: تو صبروبرداشت سے کام لیجئے جس طرح صبر کیا اور الوالعزم رسولوں نے...۔<ref>سورہ احقاف آیت 35۔</ref> | :<font color=green>"'''فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ...'''" </font>؛ ترجمہ: تو صبروبرداشت سے کام لیجئے جس طرح صبر کیا اور الوالعزم رسولوں نے...۔<ref>سورہ احقاف آیت 35۔</ref> | ||
"اوالو العزم انبیاء کونسے ہیں اور کیا وہ عالمی رسالت کے حامل ہیں یا ان کی رسالت محدود ہے؟" ان سوالوں کے جواب میں مختلف آراء پیش ہوئی ہیں۔ مشہور رائے یہ ہے کہ اس اصطلاح کا اطلاق پانچ صاحب [[شریعت]] پیغمبروں پر ہوتا ہے: | "اوالو العزم انبیاء کونسے ہیں اور کیا وہ عالمی رسالت کے حامل ہیں یا ان کی رسالت محدود ہے؟" ان سوالوں کے جواب میں مختلف آراء پیش ہوئی ہیں۔ مشہور رائے یہ ہے کہ اس اصطلاح کا اطلاق پانچ صاحب [[شریعت]] پیغمبروں پر ہوتا ہے: | ||
{{ستون آ|2}} | {{ستون آ|2}} | ||
#'''[[حضرت نوح علیہ السلام]]'''، | #'''[[حضرت نوح علیہ السلام]]'''، | ||
#'''[[حضرت ابراہیم علیہ السلام]]'''، | #'''[[حضرت ابراہیم علیہ السلام]]'''، | ||
#'''[[حضرت موسى علیہ السلام]]'''، | #'''[[حضرت موسى علیہ السلام]]'''، | ||
#'''[[حضرت عیسی علیہ السلام]]'''، اور | #'''[[حضرت عیسی علیہ السلام]]'''، اور | ||
#'''[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ]]'''۔ | #'''[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ]]'''۔ | ||
{{ستون خ}} | {{ستون خ}} | ||
== اولو العزم سے مقصود == | == اولو العزم سے مقصود == | ||
"اولوا" یعنی صاحبان و مالکان اور "عزم" کے لغوی معنی محکم اور استوار ارادے کے ہیں۔ [[راغب]] [[مفردات]] میں لکھتے ہیں: لفظ "عزم" کسی کام کے انجام دینے کا فیصلہ کرنے اور ارادہ کرنے کے معنی میں آیا ہے۔<ref>مفردات راغب، لفظ "عزم"۔</ref> رائج [[فارسی]] تحریر میں عبارت "اولوا العزم" یکے بعد دیگرے آنے والے دو الف ایک بار لکھنے جاتے ہیں: اولو العزم"۔<ref>فرهنگ املایی خط فارسی، ص79۔</ref> اور [[اردو]] تحریر میں بھی ایسا ہی ہے۔۔<ref>[http://urdulughat.info/words/52967-%D8%A7%D9%88%D9%84%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B2%D9%85 اردو لغت]۔</ref> | "اولوا" یعنی صاحبان و مالکان اور "عزم" کے لغوی معنی محکم اور استوار ارادے کے ہیں۔ [[راغب]] [[مفردات]] میں لکھتے ہیں: لفظ "عزم" کسی کام کے انجام دینے کا فیصلہ کرنے اور ارادہ کرنے کے معنی میں آیا ہے۔<ref>مفردات راغب، لفظ "عزم"۔</ref> رائج [[فارسی]] تحریر میں عبارت "اولوا العزم" یکے بعد دیگرے آنے والے دو الف ایک بار لکھنے جاتے ہیں: اولو العزم"۔<ref>فرهنگ املایی خط فارسی، ص79۔</ref> اور [[اردو]] تحریر میں بھی ایسا ہی ہے۔۔<ref>[http://urdulughat.info/words/52967-%D8%A7%D9%88%D9%84%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B2%D9%85 اردو لغت]۔</ref> | ||
اس سلسلے میں تین آراء موجود ہیں کہ اولو العزم سے مقصود کیا اور انبیائے اولو العزم کون ہیں: | اس سلسلے میں تین آراء موجود ہیں کہ اولو العزم سے مقصود کیا اور انبیائے اولو العزم کون ہیں: | ||
=== صاحبان صبر=== | === صاحبان صبر=== | ||
سطر 22: | سطر 22: | ||
=== صاحبان عہد=== | === صاحبان عہد=== | ||
بعض [[مفسر|مفسرین]] نے بعض [[روایت|روایات]] سے استناد کرتے ہوئے "اولو العزم" میں لفظ "عزم" کو "عہد" کے ہم معنی قرار دیا ہے اور اپنی اس رائے کے لئے [[سورہ احزاب]] کی آیات 7 اور 8<ref><font color=green>'وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقاً غَلِيظاً (7) لِيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ ... (8)۔</font> ترجمہ: اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا او ر آپ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ فرزند مریم سے اور ان سب ہی سے مضبوط عہد لیا (7) تاکہ وہ پوچھے سچوں سے ان کی سچائی کے متعلق...(8)۔</ref> سے استناد و استفادہ کیا ہے۔ ان آیات میں [[حضرت نوح علیہ السلام|سورہ نوح]]، [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]، [[حضرت موسی علیہ السلام|موسى]]، [[حضرت عیسی علیہ السلام|عیسى]]، اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد]] علیہم السلام جیسے عظیم الشان انبیاء سے لی گئی میثاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ نیز [[قرآن کریم|قرآن]] کی ایک دیگر آیات میں [[حضرت آدم علیہ السلام|حضر آدم]](ع) کا نام لیا گیا ہے اور اشارہ ہوا ہے کہ وہ اپنے عہد و میثاق پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور عدم کامیابی کو عزم کے فقدان سے تعبیر کیا گیا ہے۔<ref>سورہ طہ آیت 115:<font color=green>وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً</font> ترجمہ: اور اس کے پہلے آدم سے ہم نے عہد و پیمان لیا تو وہ بھول گئے اور نہیں پایا ہم نے ان میں مضبوط ارادہ۔</ref> چنانچہ عزم کے معنی عہد و میثاق کے ہیں۔<ref>ابن كثیر، اسماعیل، تفسیر القرآن العظیم، ج6، ص342۔۔</ref>۔<ref>قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج8، ص360۔</ref> اولوالعزم سے مراد وہ انبیاء ہیں جن سے خداوند متعال نے اپنی [[عبودیت]] اور اطاعت تامہ کا عہد لیا ہے۔<ref>مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج11، ص35۔</ref>۔<ref>تفسیر القرآن الكریم، ج6، ص342)۔</ref> یا اللہ نے ان سے [[حضرت محمد|پیغمبر خاتم]](ص) اور آپ(ص) کے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] کی [[ولایت]] کا عہد لیا ہے۔<ref>مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج11، ص35۔</ref>۔<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔</ref>۔<ref>فیض كاشانى، تفسیر الصافى، ج3، ص342۔</ref>۔<ref>قمى، على بن ابراهیم، تفسیر قمى، ج2، ص66۔</ref>۔<ref>قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج8، ص360۔</ref> | بعض [[مفسر|مفسرین]] نے بعض [[روایت|روایات]] سے استناد کرتے ہوئے "اولو العزم" میں لفظ "عزم" کو "عہد" کے ہم معنی قرار دیا ہے اور اپنی اس رائے کے لئے [[سورہ احزاب]] کی آیات 7 اور 8<ref><font color=green>'وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقاً غَلِيظاً (7) لِيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ ... (8)۔</font> ترجمہ: اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا او ر آپ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ فرزند مریم سے اور ان سب ہی سے مضبوط عہد لیا (7) تاکہ وہ پوچھے سچوں سے ان کی سچائی کے متعلق...(8)۔</ref> سے استناد و استفادہ کیا ہے۔ ان آیات میں [[حضرت نوح علیہ السلام|سورہ نوح]]، [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]، [[حضرت موسی علیہ السلام|موسى]]، [[حضرت عیسی علیہ السلام|عیسى]]، اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد]] علیہم السلام جیسے عظیم الشان انبیاء سے لی گئی میثاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ نیز [[قرآن کریم|قرآن]] کی ایک دیگر آیات میں [[حضرت آدم علیہ السلام|حضر آدم]](ع) کا نام لیا گیا ہے اور اشارہ ہوا ہے کہ وہ اپنے عہد و میثاق پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور عدم کامیابی کو عزم کے فقدان سے تعبیر کیا گیا ہے۔<ref>سورہ طہ آیت 115:<font color=green>وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً</font> ترجمہ: اور اس کے پہلے آدم سے ہم نے عہد و پیمان لیا تو وہ بھول گئے اور نہیں پایا ہم نے ان میں مضبوط ارادہ۔</ref> چنانچہ عزم کے معنی عہد و میثاق کے ہیں۔<ref>ابن كثیر، اسماعیل، تفسیر القرآن العظیم، ج6، ص342۔۔</ref>۔<ref>قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج8، ص360۔</ref> اولوالعزم سے مراد وہ انبیاء ہیں جن سے خداوند متعال نے اپنی [[عبودیت]] اور اطاعت تامہ کا عہد لیا ہے۔<ref>مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج11، ص35۔</ref>۔<ref>تفسیر القرآن الكریم، ج6، ص342)۔</ref> یا اللہ نے ان سے [[حضرت محمد|پیغمبر خاتم]](ص) اور آپ(ص) کے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] کی [[ولایت]] کا عہد لیا ہے۔<ref>مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج11، ص35۔</ref>۔<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔</ref>۔<ref>فیض كاشانى، تفسیر الصافى، ج3، ص342۔</ref>۔<ref>قمى، على بن ابراهیم، تفسیر قمى، ج2، ص66۔</ref>۔<ref>قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج8، ص360۔</ref> | ||
=== صاحبان شریعت === | === صاحبان شریعت === | ||
سطر 42: | سطر 42: | ||
[[علامہ محمد حسین طباطبائی|علامہ طباطبائی]] اور بعض دوسرے مفسرین نے صرف صاحب [[شریعت]] انبیاء یعنی [[حضرت نوح علیہ السلام|نوح]]، [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]، [[حضرت موسی علیہ السلام|موسٰی]]، [[حضرت عیسی علیہ السلام|عیسٰی]] اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد]] علیہم السلام کو ہی اولو العزم پیغمبروں کے عنوان سے متعارف کرایا ہے<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔</ref>۔<ref>البحرانى، البرهان، ج3، ص776۔</ref>۔<ref>المراغی، تفسیر مراغى، ج21، ص132 و ج26، ص29۔</ref> اور ان کا کہنا ہے کہ اس مدعا پر دلالت کرنے والی [[روایت|روایات]] [[حدیث مستفیض|مستفیض]] <ref>[[حدیث مستفیض]] وہ [[حدیث]] ہے جس کے راوی تین سے زیادہ اور [[حدیث متواتر|تواتر]] کی حد سے کم ہو؛ اور اس کی چار قسمیں ہیں: [[حدیث مشہور]]، [[حدیث عزیز]]، [[حدیث مفرد]] اور [[حدیث غریب]]۔ [http://wiki.ahlolbait.com/index.php/%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB_%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%81%DB%8C%D8%B6 حدیث مستفیض]۔</ref> کی حد تک پہنچتی ہیں۔<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص145 و 146 و ج18 ص220۔</ref> لیکن بعض دوسروں کی رائے یہ ہے کہ چونکہ یہ روایات [[حدیث متواتر|تواتر]] کی حد تک نہیں پہنچتیں؛ لہذا یہ یقین کا موجب نہیں ہیں اور [[قرآن کریم]] میں بھی ایسی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے جو صاحب شریعت پیغمبروں کی تعداد کو پانچ تک محدود کرے۔<ref>الآلوسی، روح المعانى، ج18، ص333۔</ref>۔<ref>مصباح، محمدتقى، راه و راهنماشناسى، ج5، ص329۔</ref> | [[علامہ محمد حسین طباطبائی|علامہ طباطبائی]] اور بعض دوسرے مفسرین نے صرف صاحب [[شریعت]] انبیاء یعنی [[حضرت نوح علیہ السلام|نوح]]، [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]، [[حضرت موسی علیہ السلام|موسٰی]]، [[حضرت عیسی علیہ السلام|عیسٰی]] اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد]] علیہم السلام کو ہی اولو العزم پیغمبروں کے عنوان سے متعارف کرایا ہے<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔</ref>۔<ref>البحرانى، البرهان، ج3، ص776۔</ref>۔<ref>المراغی، تفسیر مراغى، ج21، ص132 و ج26، ص29۔</ref> اور ان کا کہنا ہے کہ اس مدعا پر دلالت کرنے والی [[روایت|روایات]] [[حدیث مستفیض|مستفیض]] <ref>[[حدیث مستفیض]] وہ [[حدیث]] ہے جس کے راوی تین سے زیادہ اور [[حدیث متواتر|تواتر]] کی حد سے کم ہو؛ اور اس کی چار قسمیں ہیں: [[حدیث مشہور]]، [[حدیث عزیز]]، [[حدیث مفرد]] اور [[حدیث غریب]]۔ [http://wiki.ahlolbait.com/index.php/%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB_%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%81%DB%8C%D8%B6 حدیث مستفیض]۔</ref> کی حد تک پہنچتی ہیں۔<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص145 و 146 و ج18 ص220۔</ref> لیکن بعض دوسروں کی رائے یہ ہے کہ چونکہ یہ روایات [[حدیث متواتر|تواتر]] کی حد تک نہیں پہنچتیں؛ لہذا یہ یقین کا موجب نہیں ہیں اور [[قرآن کریم]] میں بھی ایسی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے جو صاحب شریعت پیغمبروں کی تعداد کو پانچ تک محدود کرے۔<ref>الآلوسی، روح المعانى، ج18، ص333۔</ref>۔<ref>مصباح، محمدتقى، راه و راهنماشناسى، ج5، ص329۔</ref> | ||
==پاورقی حاشیے== | |||
{{حوالہ جات|4}} |
نسخہ بمطابق 05:22، 21 اکتوبر 2014ء
اولو العزم [أُوْلُوا الْعَزْمِ] یعنی صاحبان عزم، اللہ کے بعض پیغمبروں کو کہا جاتا ہے۔
یہ عبارت ایک بار قرآن کی سورہ احقاف میں مذکور ہے جہاں ارشاد ہوا ہے:
- "فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ..." ؛ ترجمہ: تو صبروبرداشت سے کام لیجئے جس طرح صبر کیا اور الوالعزم رسولوں نے...۔[1]
"اوالو العزم انبیاء کونسے ہیں اور کیا وہ عالمی رسالت کے حامل ہیں یا ان کی رسالت محدود ہے؟" ان سوالوں کے جواب میں مختلف آراء پیش ہوئی ہیں۔ مشہور رائے یہ ہے کہ اس اصطلاح کا اطلاق پانچ صاحب شریعت پیغمبروں پر ہوتا ہے:
اولو العزم سے مقصود
"اولوا" یعنی صاحبان و مالکان اور "عزم" کے لغوی معنی محکم اور استوار ارادے کے ہیں۔ راغب مفردات میں لکھتے ہیں: لفظ "عزم" کسی کام کے انجام دینے کا فیصلہ کرنے اور ارادہ کرنے کے معنی میں آیا ہے۔[2] رائج فارسی تحریر میں عبارت "اولوا العزم" یکے بعد دیگرے آنے والے دو الف ایک بار لکھنے جاتے ہیں: اولو العزم"۔[3] اور اردو تحریر میں بھی ایسا ہی ہے۔۔[4]
اس سلسلے میں تین آراء موجود ہیں کہ اولو العزم سے مقصود کیا اور انبیائے اولو العزم کون ہیں:
صاحبان صبر
بعض نے "عزم" کو "صبر" کے ہم معنی سمجھا ہے اور کہا ہے کہ اس اصطلاح کا اطلاق ان پیغمبروں پر ہوتا ہے جو دشواریوں اور صعوبتوں میں صبر و تحمل کے مالک تھے اور احکام اللہ کی تبلیغ میں صابر تھے؛ کیونکہ "آیت اولو العزم" (احقاف:35) میں "صبر" کی صفت کو اولوالعزم پیغمبروں کی ایک نمایاں صفت کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔[5]۔[6]۔[7]۔[8]
صاحبان عہد
بعض مفسرین نے بعض روایات سے استناد کرتے ہوئے "اولو العزم" میں لفظ "عزم" کو "عہد" کے ہم معنی قرار دیا ہے اور اپنی اس رائے کے لئے سورہ احزاب کی آیات 7 اور 8[9] سے استناد و استفادہ کیا ہے۔ ان آیات میں سورہ نوح، ابراہیم، موسى، عیسى، اور محمد علیہم السلام جیسے عظیم الشان انبیاء سے لی گئی میثاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ نیز قرآن کی ایک دیگر آیات میں حضر آدم(ع) کا نام لیا گیا ہے اور اشارہ ہوا ہے کہ وہ اپنے عہد و میثاق پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور عدم کامیابی کو عزم کے فقدان سے تعبیر کیا گیا ہے۔[10] چنانچہ عزم کے معنی عہد و میثاق کے ہیں۔[11]۔[12] اولوالعزم سے مراد وہ انبیاء ہیں جن سے خداوند متعال نے اپنی عبودیت اور اطاعت تامہ کا عہد لیا ہے۔[13]۔[14] یا اللہ نے ان سے پیغمبر خاتم(ص) اور آپ(ص) کے اہل بیت کی ولایت کا عہد لیا ہے۔[15]۔[16]۔[17]۔[18]۔[19]
صاحبان شریعت
مفسرین کی ایک جماعت ـ بعض روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے ـ اولو العزم انبیاء کو کتاب و شریعت کے حامل انبیاء سے تعبیر و تفسیر کیا ہے[20]۔[21]۔[22]۔[23]۔[24] بطور مثال امام رضا(ع) سے پوچھا گیا کہ "بعض انبیاء کیوں س بنیاد پر اولو العزمی کے مرتبے پر فائز ہوئے؟" تو آپ(ع) نے فرمایا: "اس لئے کہ نوح کتاب اور شریعت لے کر مبعوث ہوئے اور جو بھی ان کے بعد آیا ان کی کتاب و شریعت اور روش و سیرت پر عمل کیا حتی کہ ابراہیم مبعوث ہوئے اور وہ اپنی کتاب اور صُحُف لے کر آئے اور آپ(ع) کے بعد جو بھی پیغمبر آیا اس نے آپ(ع) ہی کی کتاب و صحف اور سیرت و روش پر عمل کیا؛ بعد ازاں جناب موسی آئے تورات ساتھ لے کر آئے جو نئی کتاب تھی اور ان کے بعد جناب عیسی آئے اور [انجیل]] لے کر آئے جو نئی شریعت پر مشتمل تھی اور رسول اللہ محمد بن عبداللہ(ص) کی بعثت تک سب نے حضرت عیسی کی شریعت پر عمل کیا؛ پیغمبر اسلام(ص) قرآن اور نئی شریعت لے کر آئے اور اس شریعت میں جو کچھ بھی حلال کیا گیا ہے وہ حلال ہے اور جو کچھ بھی حرام کیا ہے قیامت تک حرام ہے۔[25]۔۔[26]۔[27]۔[28]۔[29]۔
بعض انبیاء عظام اگرچہ آسمانی کتاب کے حامل تھے لیکن ان کی کتابیں نئے احکام و شریعت پر مشتمل نہ تھیں؛ جیسا کہ حضرت آدم(ع)، شیث(ع)، ادریس(ع) اور داؤد(ع) بھی صاحب کتاب تھے لیکن اولو العزم نہ تھے۔[30]۔[31]
اولو العزم انبیاء کی تعداد
در مورد تعداد و مصادیق پیامبران اولوالعزم بین مفسرین اختلافاتى وجود دارد:
تمام انبیاء عظام
بعض مفسرین کا خیال ہے کہ "آیت اولو العزم" میں لفظ "مِن" بیانی ہے (یعنی اپنے سے ما قبل عبارت کو واضح کرتا ہے) اور صبر و استقامت اور اللہ کی آزمائش سے گذرنا، تمام انبیاء اور رسل کی خصوصیت ہے۔[32]۔[33]۔[34]۔[35] تاہم یہاں رسول اور نبی کے درمیان فرق کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے۔
بعض انبیاء عظام
اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ لفظ "مِن" مذکورہ آیت میں "من تبعیضیہ" ہے اور یوں صرف انبیاء عظام کا ایک خاص گروہ اولو العزم انبیاء کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔[36]۔[37]۔[38]۔[39]
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اولوالعزم وہ اٹھارہ رسل۔[40] ہیں جن کا ذکر سورہ انعام کی آیات (74 تا 90) میں آیا ہے اور خداوند متعال نے آیت 90 میں ارشاد فرمایا ہے کہ: "فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ"، اور ان کی ہدایت کی پیروی کیجئے۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ اولو العزم انبیاء 9 ہیں جبکہ بعض دوسروں نے 7 یا 6 بتائی ہے۔[41]۔[42]
علامہ طباطبائی اور بعض دوسرے مفسرین نے صرف صاحب شریعت انبیاء یعنی نوح، ابراہیم، موسٰی، عیسٰی اور محمد علیہم السلام کو ہی اولو العزم پیغمبروں کے عنوان سے متعارف کرایا ہے[43]۔[44]۔[45] اور ان کا کہنا ہے کہ اس مدعا پر دلالت کرنے والی روایات مستفیض [46] کی حد تک پہنچتی ہیں۔[47] لیکن بعض دوسروں کی رائے یہ ہے کہ چونکہ یہ روایات تواتر کی حد تک نہیں پہنچتیں؛ لہذا یہ یقین کا موجب نہیں ہیں اور قرآن کریم میں بھی ایسی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے جو صاحب شریعت پیغمبروں کی تعداد کو پانچ تک محدود کرے۔[48]۔[49]
پاورقی حاشیے
- ↑ سورہ احقاف آیت 35۔
- ↑ مفردات راغب، لفظ "عزم"۔
- ↑ فرهنگ املایی خط فارسی، ص79۔
- ↑ اردو لغت۔
- ↑ عاملى، ابراهیم، تفسیر عاملى، ج7، ص533.
- ↑ سایس، محمدعلى، تفسیر آیات الاحكام، ص680.
- ↑ مراغى، احمد بن مصطفى، تفسیر مراغى، ج 21، ص132.
- ↑ ابن عاشور، محمد بن طاهر، التحریر والتنور، ج26، ص57۔
- ↑ 'وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقاً غَلِيظاً (7) لِيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ ... (8)۔ ترجمہ: اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا او ر آپ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ فرزند مریم سے اور ان سب ہی سے مضبوط عہد لیا (7) تاکہ وہ پوچھے سچوں سے ان کی سچائی کے متعلق...(8)۔
- ↑ سورہ طہ آیت 115:وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً ترجمہ: اور اس کے پہلے آدم سے ہم نے عہد و پیمان لیا تو وہ بھول گئے اور نہیں پایا ہم نے ان میں مضبوط ارادہ۔
- ↑ ابن كثیر، اسماعیل، تفسیر القرآن العظیم، ج6، ص342۔۔
- ↑ قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج8، ص360۔
- ↑ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج11، ص35۔
- ↑ تفسیر القرآن الكریم، ج6، ص342)۔
- ↑ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج11، ص35۔
- ↑ الطباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔
- ↑ فیض كاشانى، تفسیر الصافى، ج3، ص342۔
- ↑ قمى، على بن ابراهیم، تفسیر قمى، ج2، ص66۔
- ↑ قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج8، ص360۔
- ↑ طباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔
- ↑ الطبرسی، جوامع الجامع، ج6، ص27 و 29۔
- ↑ الآلوسی، روح البیان، ج8، ص495۔
- ↑ قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج12، ص203۔
- ↑ المغنیه، تفسیر المبین، ص550۔
- ↑ بحرانى، سید هاشم، البرهان فى تفسیر القرآن، ج5، ص51۔
- ↑ یض كاشانى، الصافى، ج5، ص19۔
- ↑ قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج12، ص206۔
- ↑ البحرانی، تفسیر البرهان، ج4، ص80۔
- ↑ الصدوق، عیون اخبار الرضا، ج2، ص178۔
- ↑ الطباطبائی، المیزان، ج 2، ص142۔
- ↑ الطباطبائی، المیزان، (فارسی ترجمہ) ج2، ص213۔
- ↑ ابن عاشور، التحریر والتنویر، 426۔
- ↑ الطوسى، تفسیر تبیان، ج9،ص287۔
- ↑ زمخشری، تفسیر کشاف، ج4،ص313۔
- ↑ فخرالدین، تفسیر کبیر، ج27،ص35۔
- ↑ ابن عاشور، التحریر والتنویر، 426۔
- ↑ الطوسى، التبیان فی تفسیر القرآن، ج9،ص287۔
- ↑ زمخشری، الکشاف ج4،ص313۔
- ↑ فخرالدین، تفسیر کبیر، ج27،ص35۔
- ↑ ابراہیم، اسحٰق، یعقوب، نوح، داؤد، سلیمان، ایوب، [حضرت یوسف علیہ السلام|یوسف]]، موسٰی، ہارون، زکریا، یحیٰی، عیسٰی، الیاس، اسمٰعیل، یسع، یونس اور لوط علیہم السلام۔
- ↑ الطباطبائی، المیزان، ج18، ص333۔
- ↑ الآلوسی، روح المعانى، ج26، ص34و 35۔
- ↑ الطباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔
- ↑ البحرانى، البرهان، ج3، ص776۔
- ↑ المراغی، تفسیر مراغى، ج21، ص132 و ج26، ص29۔
- ↑ حدیث مستفیض وہ حدیث ہے جس کے راوی تین سے زیادہ اور تواتر کی حد سے کم ہو؛ اور اس کی چار قسمیں ہیں: حدیث مشہور، حدیث عزیز، حدیث مفرد اور حدیث غریب۔ حدیث مستفیض۔
- ↑ الطباطبائی، المیزان، ج2، ص145 و 146 و ج18 ص220۔
- ↑ الآلوسی، روح المعانى، ج18، ص333۔
- ↑ مصباح، محمدتقى، راه و راهنماشناسى، ج5، ص329۔