مندرجات کا رخ کریں

"اولوا العزم" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''اولو العزم''' '''''[أُوْلُوا الْعَزْمِ]''''' یعنی صاحبان عزم، اللہ کے بعض پیغمبروں کو کہا جاتا ہے۔
'''اولو العزم''' '''''[أُوْلُوا الْعَزْمِ]''''' یعنی صاحبان عزم، اللہ کے بعض پیغمبروں کو کہا جاتا ہے۔


یہ عبارت ایک بار قرآن کی [[سورہ احقاف]] میں مذکور ہے جہاں ارشاد ہوا ہے:  
یہ عبارت ایک بار قرآن کی [[سورہ احقاف]] میں مذکور ہے جہاں ارشاد ہوا ہے:
:<font color=green>"'''فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ...'''" </font>؛ ترجمہ: تو صبروبرداشت سے کام لیجئے جس طرح صبر کیا اور الوالعزم رسولوں نے...۔<ref>سورہ احقاف آیت 35۔</ref>
:<font color=green>"'''فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ...'''" </font>؛ ترجمہ: تو صبروبرداشت سے کام لیجئے جس طرح صبر کیا اور الوالعزم رسولوں نے...۔<ref>سورہ احقاف آیت 35۔</ref>


"اوالو العزم انبیاء کونسے ہیں اور کیا وہ عالمی رسالت کے حامل ہیں یا ان کی رسالت محدود ہے؟" ان سوالوں کے جواب میں مختلف آراء پیش ہوئی ہیں۔ مشہور رائے یہ ہے کہ اس اصطلاح کا اطلاق پانچ صاحب [[شریعت]] پیغمبروں پر ہوتا ہے:  
"اوالو العزم انبیاء کونسے ہیں اور کیا وہ عالمی رسالت کے حامل ہیں یا ان کی رسالت محدود ہے؟" ان سوالوں کے جواب میں مختلف آراء پیش ہوئی ہیں۔ مشہور رائے یہ ہے کہ اس اصطلاح کا اطلاق پانچ صاحب [[شریعت]] پیغمبروں پر ہوتا ہے:
{{ستون آ|2}}
{{ستون آ|2}}
#'''[[حضرت نوح علیہ السلام]]'''،  
#'''[[حضرت نوح علیہ السلام]]'''،
#'''[[حضرت ابراہیم علیہ السلام]]'''،  
#'''[[حضرت ابراہیم علیہ السلام]]'''،
#'''[[حضرت موسى علیہ السلام]]'''،  
#'''[[حضرت موسى علیہ السلام]]'''،
#'''[[حضرت عیسی علیہ السلام]]'''، اور  
#'''[[حضرت عیسی علیہ السلام]]'''، اور
#'''[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ]]'''۔
#'''[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ]]'''۔
{{ستون خ}}  
{{ستون خ}}


== اولو العزم سے مقصود ==
== اولو العزم سے مقصود ==
"اولوا" یعنی صاحبان و مالکان اور "عزم" کے لغوی معنی محکم اور استوار ارادے کے ہیں۔ [[راغب]] [[مفردات]] میں لکھتے ہیں: لفظ "عزم" کسی کام کے انجام دینے کا فیصلہ کرنے اور ارادہ کرنے کے معنی میں آیا ہے۔<ref>مفردات راغب، لفظ "عزم"۔</ref> رائج [[فارسی]] تحریر میں عبارت "اولوا العزم" یکے بعد دیگرے آنے والے دو الف ایک بار لکھنے جاتے ہیں: اولو العزم"۔<ref>فرهنگ املایی خط فارسی، ص79۔</ref> اور [[اردو]] تحریر میں بھی ایسا ہی ہے۔۔<ref>[http://urdulughat.info/words/52967-%D8%A7%D9%88%D9%84%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B2%D9%85 اردو لغت]۔</ref>
"اولوا" یعنی صاحبان و مالکان اور "عزم" کے لغوی معنی محکم اور استوار ارادے کے ہیں۔ [[راغب]] [[مفردات]] میں لکھتے ہیں: لفظ "عزم" کسی کام کے انجام دینے کا فیصلہ کرنے اور ارادہ کرنے کے معنی میں آیا ہے۔<ref>مفردات راغب، لفظ "عزم"۔</ref> رائج [[فارسی]] تحریر میں عبارت "اولوا العزم" یکے بعد دیگرے آنے والے دو الف ایک بار لکھنے جاتے ہیں: اولو العزم"۔<ref>فرهنگ املایی خط فارسی، ص79۔</ref> اور [[اردو]] تحریر میں بھی ایسا ہی ہے۔۔<ref>[http://urdulughat.info/words/52967-%D8%A7%D9%88%D9%84%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B2%D9%85 اردو لغت]۔</ref>


اس سلسلے میں تین آراء موجود ہیں کہ اولو العزم سے مقصود کیا اور انبیائے اولو العزم کون ہیں:  
اس سلسلے میں تین آراء موجود ہیں کہ اولو العزم سے مقصود کیا اور انبیائے اولو العزم کون ہیں:


=== صاحبان صبر===
=== صاحبان صبر===
سطر 22: سطر 22:


=== صاحبان عہد===
=== صاحبان عہد===
بعض [[مفسر|مفسرین]] نے بعض [[روایت|روایات]] سے استناد کرتے ہوئے "اولو العزم" میں لفظ "عزم" کو "عہد" کے ہم معنی قرار دیا ہے اور اپنی اس رائے کے لئے [[سورہ احزاب]] کی آیات 7  اور 8<ref><font color=green>'وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقاً غَلِيظاً (7) لِيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ ... (8)۔</font> ترجمہ: اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا او ر آپ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ فرزند مریم سے اور ان سب ہی سے مضبوط عہد لیا (7) تاکہ وہ پوچھے سچوں سے ان کی سچائی کے متعلق...(8)۔</ref> سے استناد و استفادہ کیا ہے۔ ان آیات میں [[حضرت نوح علیہ السلام|سورہ نوح]]، [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]، [[حضرت موسی علیہ السلام|موسى]]، [[حضرت عیسی علیہ السلام|عیسى]]، اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد]] علیہم السلام جیسے عظیم الشان انبیاء سے لی گئی میثاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ نیز [[قرآن کریم|قرآن]] کی ایک دیگر آیات میں [[حضرت آدم علیہ السلام|حضر آدم]](ع) کا نام لیا گیا ہے اور اشارہ ہوا ہے کہ وہ اپنے عہد و میثاق پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور عدم کامیابی کو عزم کے فقدان سے تعبیر کیا گیا ہے۔<ref>سورہ طہ آیت 115:<font color=green>وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً</font> ترجمہ: اور اس کے پہلے آدم سے ہم نے عہد و پیمان لیا تو وہ بھول گئے اور نہیں پایا ہم نے ان میں مضبوط ارادہ۔</ref> چنانچہ عزم کے معنی عہد و میثاق کے ہیں۔<ref>ابن كثیر، اسماعیل، تفسیر القرآن العظیم، ج6، ص342۔۔</ref>۔<ref>قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج8، ص360۔</ref> اولوالعزم سے مراد وہ انبیاء ہیں جن سے خداوند متعال نے اپنی [[عبودیت]] اور اطاعت تامہ کا عہد لیا ہے۔<ref>مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج11، ص35۔</ref>۔<ref>تفسیر القرآن الكریم، ج6، ص342)۔</ref> یا اللہ نے ان سے [[حضرت محمد|پیغمبر خاتم]](ص) اور آپ(ص) کے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] کی [[ولایت]] کا عہد لیا ہے۔<ref>مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج11، ص35۔</ref>۔<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔</ref>۔<ref>فیض كاشانى، تفسیر الصافى، ج3، ص342۔</ref>۔<ref>قمى، على بن ابراهیم، تفسیر قمى، ج2، ص66۔</ref>۔<ref>قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج8، ص360۔</ref>  
بعض [[مفسر|مفسرین]] نے بعض [[روایت|روایات]] سے استناد کرتے ہوئے "اولو العزم" میں لفظ "عزم" کو "عہد" کے ہم معنی قرار دیا ہے اور اپنی اس رائے کے لئے [[سورہ احزاب]] کی آیات 7  اور 8<ref><font color=green>'وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقاً غَلِيظاً (7) لِيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ ... (8)۔</font> ترجمہ: اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا او ر آپ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ فرزند مریم سے اور ان سب ہی سے مضبوط عہد لیا (7) تاکہ وہ پوچھے سچوں سے ان کی سچائی کے متعلق...(8)۔</ref> سے استناد و استفادہ کیا ہے۔ ان آیات میں [[حضرت نوح علیہ السلام|سورہ نوح]]، [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]، [[حضرت موسی علیہ السلام|موسى]]، [[حضرت عیسی علیہ السلام|عیسى]]، اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد]] علیہم السلام جیسے عظیم الشان انبیاء سے لی گئی میثاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ نیز [[قرآن کریم|قرآن]] کی ایک دیگر آیات میں [[حضرت آدم علیہ السلام|حضر آدم]](ع) کا نام لیا گیا ہے اور اشارہ ہوا ہے کہ وہ اپنے عہد و میثاق پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور عدم کامیابی کو عزم کے فقدان سے تعبیر کیا گیا ہے۔<ref>سورہ طہ آیت 115:<font color=green>وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً</font> ترجمہ: اور اس کے پہلے آدم سے ہم نے عہد و پیمان لیا تو وہ بھول گئے اور نہیں پایا ہم نے ان میں مضبوط ارادہ۔</ref> چنانچہ عزم کے معنی عہد و میثاق کے ہیں۔<ref>ابن كثیر، اسماعیل، تفسیر القرآن العظیم، ج6، ص342۔۔</ref>۔<ref>قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج8، ص360۔</ref> اولوالعزم سے مراد وہ انبیاء ہیں جن سے خداوند متعال نے اپنی [[عبودیت]] اور اطاعت تامہ کا عہد لیا ہے۔<ref>مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج11، ص35۔</ref>۔<ref>تفسیر القرآن الكریم، ج6، ص342)۔</ref> یا اللہ نے ان سے [[حضرت محمد|پیغمبر خاتم]](ص) اور آپ(ص) کے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] کی [[ولایت]] کا عہد لیا ہے۔<ref>مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج11، ص35۔</ref>۔<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔</ref>۔<ref>فیض كاشانى، تفسیر الصافى، ج3، ص342۔</ref>۔<ref>قمى، على بن ابراهیم، تفسیر قمى، ج2، ص66۔</ref>۔<ref>قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج8، ص360۔</ref>


=== صاحبان شریعت ===
=== صاحبان شریعت ===
سطر 42: سطر 42:


[[علامہ محمد حسین طباطبائی|علامہ طباطبائی]] اور بعض دوسرے مفسرین نے صرف صاحب [[شریعت]] انبیاء یعنی [[حضرت نوح علیہ السلام|نوح]]، [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]، [[حضرت موسی علیہ السلام|موسٰی]]، [[حضرت عیسی علیہ السلام|عیسٰی]] اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد]] علیہم السلام کو ہی اولو العزم پیغمبروں کے عنوان سے متعارف کرایا ہے<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔</ref>۔<ref>البحرانى، البرهان، ج3، ص776۔</ref>۔<ref>المراغی، تفسیر مراغى، ج21، ص132 و ج26، ص29۔</ref> اور ان کا کہنا ہے کہ اس مدعا پر دلالت کرنے والی [[روایت|روایات]] [[حدیث مستفیض|مستفیض]] <ref>[[حدیث مستفیض]] وہ [[حدیث]] ہے جس کے راوی تین سے زیادہ اور [[حدیث متواتر|تواتر]] کی حد سے کم ہو؛ اور اس کی چار قسمیں ہیں: [[حدیث مشہور]]، [[حدیث عزیز]]، [[حدیث مفرد]] اور [[حدیث غریب]]۔ [http://wiki.ahlolbait.com/index.php/%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB_%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%81%DB%8C%D8%B6 حدیث مستفیض]۔</ref>  کی حد تک پہنچتی ہیں۔<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص145 و 146 و ج18 ص220۔</ref> لیکن بعض دوسروں کی رائے یہ ہے کہ چونکہ یہ روایات [[حدیث متواتر|تواتر]] کی حد تک نہیں پہنچتیں؛ لہذا یہ یقین کا موجب نہیں ہیں اور [[قرآن کریم]] میں بھی ایسی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے جو صاحب شریعت پیغمبروں کی تعداد کو پانچ تک محدود کرے۔<ref>الآلوسی، روح المعانى، ج18، ص333۔</ref>۔<ref>مصباح، محمدتقى، راه و راهنماشناسى، ج5، ص329۔</ref>
[[علامہ محمد حسین طباطبائی|علامہ طباطبائی]] اور بعض دوسرے مفسرین نے صرف صاحب [[شریعت]] انبیاء یعنی [[حضرت نوح علیہ السلام|نوح]]، [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]، [[حضرت موسی علیہ السلام|موسٰی]]، [[حضرت عیسی علیہ السلام|عیسٰی]] اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد]] علیہم السلام کو ہی اولو العزم پیغمبروں کے عنوان سے متعارف کرایا ہے<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔</ref>۔<ref>البحرانى، البرهان، ج3، ص776۔</ref>۔<ref>المراغی، تفسیر مراغى، ج21، ص132 و ج26، ص29۔</ref> اور ان کا کہنا ہے کہ اس مدعا پر دلالت کرنے والی [[روایت|روایات]] [[حدیث مستفیض|مستفیض]] <ref>[[حدیث مستفیض]] وہ [[حدیث]] ہے جس کے راوی تین سے زیادہ اور [[حدیث متواتر|تواتر]] کی حد سے کم ہو؛ اور اس کی چار قسمیں ہیں: [[حدیث مشہور]]، [[حدیث عزیز]]، [[حدیث مفرد]] اور [[حدیث غریب]]۔ [http://wiki.ahlolbait.com/index.php/%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB_%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%81%DB%8C%D8%B6 حدیث مستفیض]۔</ref>  کی حد تک پہنچتی ہیں۔<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص145 و 146 و ج18 ص220۔</ref> لیکن بعض دوسروں کی رائے یہ ہے کہ چونکہ یہ روایات [[حدیث متواتر|تواتر]] کی حد تک نہیں پہنچتیں؛ لہذا یہ یقین کا موجب نہیں ہیں اور [[قرآن کریم]] میں بھی ایسی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے جو صاحب شریعت پیغمبروں کی تعداد کو پانچ تک محدود کرے۔<ref>الآلوسی، روح المعانى، ج18، ص333۔</ref>۔<ref>مصباح، محمدتقى، راه و راهنماشناسى، ج5، ص329۔</ref>
==پاورقی حاشیے==
{{حوالہ جات|4}}
گمنام صارف