گمنام صارف
"امام حسن مجتبی علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق
←مدینہ میں دینی مرجعیت
imported>E.musavi |
imported>E.musavi |
||
سطر 221: | سطر 221: | ||
==مدینہ میں دینی مرجعیت == | ==مدینہ میں دینی مرجعیت == | ||
حسن بن علیؑ معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد کوفہ کے بعض شیعوں کی طرف سے کوفہ میں رہنے کی درخواست کے باوجود مدینہ واپس تشریف لے | حسن بن علیؑ معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد کوفہ کے بعض شیعوں کی طرف سے کوفہ میں رہنے کی درخواست کے باوجود مدینہ واپس تشریف لے گئے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۶، ص۱۶.</ref> اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔ اس دوران آپؑ نے صرف [[مکہ]]<ref> ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۸، ص۳۷؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۴۳، ص۳۳۱.</ref> اور [[شام]]<ref> ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۱۸.</ref> کا سفر کیا۔ کتاب [[الارشاد]] میں آیا ہے کہ امام حسن مجتبیؑ [[امام علیؑ]] کی شہادت کے بعد آپؑ کی وصیت سے مختلف امور من جملہ [[وقف]] اور صدقات کے متولی بھی تھے۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۷.</ref> | ||
===مرجعیت علمی=== | ===مرجعیت علمی=== | ||
مدینے میں لوگوں کی ہدایت اور تعلیم و تربیت کی خاطر امام حسنؑ کی طرف سے برگزار ہونے والے علمی محافل کا تذکرہ مختلف منابع میں ملتا ہے۔ ابن سعد (متوفی 230 ھ)، بلاذری (متوفی 279 ھ) اور ابن عساکر (متوفی 571 ھ) نقل کرتے ہیں کہ حسن بن علیؑ صبح کی نماز [[مسجد نبوی]] میں پڑھتے تھے جس کے بعد سورج نکلنے تک عبادت میں مشغول رہتے تھے اس کے بعد مسجد میں حاضر بزرگان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بحث و گفتگو کرتے تھے۔ ظہرین کی نماز کے بعد بھی آپ کی یہی روٹین ہوتی تھی۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۲۹۷؛ بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۴۱.</ref> | مدینے میں لوگوں کی ہدایت اور تعلیم و تربیت کی خاطر امام حسنؑ کی طرف سے برگزار ہونے والے علمی محافل کا تذکرہ مختلف منابع میں ملتا ہے۔ ابن سعد (متوفی 230 ھ)، بلاذری (متوفی 279 ھ) اور ابن عساکر (متوفی 571 ھ) نقل کرتے ہیں کہ حسن بن علیؑ صبح کی نماز [[مسجد نبوی]] میں پڑھتے تھے جس کے بعد سورج نکلنے تک عبادت میں مشغول رہتے تھے اس کے بعد مسجد میں حاضر بزرگان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بحث و گفتگو کرتے تھے۔ ظہرین کی نماز کے بعد بھی آپ کی یہی روٹین ہوتی تھی۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۲۹۷؛ بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۴۱.</ref> |