مندرجات کا رخ کریں

"سورہ ملک" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 22: سطر 22:


[[تفسیر نمونہ]] میں سورہ ملک کے مطالب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
[[تفسیر نمونہ]] میں سورہ ملک کے مطالب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
#مبدأ و معاد، [[صفات خداوند|کے صفات]] اور خلقت کے شگفت انگیز نظام خاص کر آسمانوں، ستاروں اور زمین اور اس کی نعمتوں، پرندوں اور جاری پانی اور کان، آنکھ اور دیگر شناخت کے ابزار کے بارے میں بحث و گفتگو۔  
#مبدأ و معاد، [[صفات خداوند|خدا کے صفات]] اور خلقت کے شگفت انگیز نظام خاص کر آسمانوں، ستاروں اور زمین اور اس کی نعمتوں، پرندوں اور جاری پانی اور کان، آنکھ اور دیگر شناخت کے ابزار کے بارے میں بحث و گفتگو۔  
#معاد اور [[دوزخ|عذاب دوزخ]] نیز دوزخ عذاب پر موکل پہرہ داروں کا جنہمیوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں بحث۔
#معاد اور [[دوزخ|عذاب دوزخ]] نیز دوزخ عذاب پر موکل پہرہ داروں کا جنہمیوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں بحث۔
#[[کافر|کافروں]] اور ظالموں کو دنیوی اور اخروی عذاب کے مختلف انواع سے ڈرانا۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۴، ص۳۱۱-۳۱۲.</ref>
#[[کافر|کافروں]] اور ظالموں کو دنیوی اور اخروی عذاب کے مختلف انواع سے ڈرانا۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۴، ص۳۱۱-۳۱۲.</ref>
{{سورہ ملک}}
{{سورہ ملک}}
==آیت نمبر 13 کی شأن نزول==
==آیت نمبر 13 کی شأن نزول==
سورہ ملک کی آیت نمبر 13 {{قرآن کا متن|وَأَسِرُّ‌وا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُ‌وا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‌؛|ترجمہ=اور تم اپنی بات آہستہ کرو یا بلند آواز سے کرو وہ (خدا) تو سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے۔}} کی شأن نزول کے بارے میں [[ابن عباس]] سے یوں نقل ہوا ہے: یہ [[آیت]] بعض [[شرک|مشرکوں]] یا [[منافق|منافقوں]] کے بارے میں ہے جو [[پیغمبر اکرمؐ]] کے ساتھ ناروا روا رکھتے تھے اور آپ کی شأن میں گستاخی کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ آہستہ بات کرو تاکہ [[محمدؐ]] اور ان کے [[اصحاب]] کے کانوں تک یہ باتیں نہ پہنچنے پائیں۔ لیکن [[جبرئیل]] آنحضرت کو ان کی باتوں سے آگاہ کیا کرتے تھے اور قرآن نے بھی اس نکتے پر زیادہ تأکید کی ہے کہ تم چاہے آہستہ بولیں یا بلند آواز کے ساتھ خدا تمہارے باطن سے بھی آگاہ ہیں۔<ref>واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۴۶۲.</ref>
سورہ ملک کی آیت نمبر 13 {{قرآن کا متن|وَأَسِرُّ‌وا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُ‌وا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‌؛|ترجمہ=اور تم اپنی بات آہستہ کرو یا بلند آواز سے کرو وہ (خدا) تو سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے۔}} کی شأن نزول کے بارے میں [[ابن عباس]] سے یوں نقل ہوا ہے: یہ [[آیت]] بعض [[شرک|مشرکوں]] یا [[منافق|منافقوں]] کے بارے میں ہے جو [[پیغمبر اکرمؐ]] کے ساتھ ناروا روا رکھتے تھے اور آپ کی شأن میں گستاخی کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ آہستہ بات کرو تاکہ [[محمدؐ]] اور ان کے [[اصحاب]] کے کانوں تک یہ باتیں نہ پہنچنے پائیں۔ لیکن [[جبرئیل]] آنحضرت کو ان کی باتوں سے آگاہ کیا کرتے تھے اور قرآن نے بھی اس نکتے پر زیادہ تأکید کی ہے کہ تم چاہے آہستہ بولیں یا بلند آواز کے ساتھ خدا تمہارے باطن سے بھی آگاہ ہیں۔<ref>واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۴۶۲.</ref>
confirmed، templateeditor
9,239

ترامیم