مندرجات کا رخ کریں

"سورہ ملک" کے نسخوں کے درمیان فرق

3,645 بائٹ کا اضافہ ،  9 مارچ 2019ء
م
سطر 28: سطر 28:
==آیت نمبر 13 کی شأن نزول==
==آیت نمبر 13 کی شأن نزول==
سورہ ملک کی آیت نمبر 13 {{قرآن کا متن|وَأَسِرُّ‌وا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُ‌وا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‌؛|ترجمہ=اور تم اپنی بات آہستہ کرو یا بلند آواز سے کرو وہ (خدا) تو سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے۔}} کی شأن نزول کے بارے میں [[ابن عباس]] سے یوں نقل ہوا ہے: یہ [[آیت]] بعض [[شرک|مشرکوں]] یا [[منافق|منافقوں]] کے بارے میں ہے جو [[پیغمبر اکرمؐ]] کے ساتھ ناروا روا رکھتے تھے اور آپ کی شأن میں گستاخی کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ آہستہ بات کرو تاکہ [[محمدؐ]] اور ان کے [[اصحاب]] کے کانوں تک یہ باتیں نہ پہنچنے پائیں۔ لیکن [[جبرئیل]] آنحضرت کو ان کی باتوں سے آگاہ کیا کرتے تھے اور قرآن نے بھی اس نکتے پر زیادہ تأکید کی ہے کہ تم چاہے آہستہ بولیں یا بلند آواز کے ساتھ خدا تمہارے باطن سے بھی آگاہ ہیں۔<ref>واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۴۶۲.</ref>
سورہ ملک کی آیت نمبر 13 {{قرآن کا متن|وَأَسِرُّ‌وا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُ‌وا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ‌؛|ترجمہ=اور تم اپنی بات آہستہ کرو یا بلند آواز سے کرو وہ (خدا) تو سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے۔}} کی شأن نزول کے بارے میں [[ابن عباس]] سے یوں نقل ہوا ہے: یہ [[آیت]] بعض [[شرک|مشرکوں]] یا [[منافق|منافقوں]] کے بارے میں ہے جو [[پیغمبر اکرمؐ]] کے ساتھ ناروا روا رکھتے تھے اور آپ کی شأن میں گستاخی کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ آہستہ بات کرو تاکہ [[محمدؐ]] اور ان کے [[اصحاب]] کے کانوں تک یہ باتیں نہ پہنچنے پائیں۔ لیکن [[جبرئیل]] آنحضرت کو ان کی باتوں سے آگاہ کیا کرتے تھے اور قرآن نے بھی اس نکتے پر زیادہ تأکید کی ہے کہ تم چاہے آہستہ بولیں یا بلند آواز کے ساتھ خدا تمہارے باطن سے بھی آگاہ ہیں۔<ref>واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۴۶۲.</ref>
==مشہور آیات==
سورہ ملک کی ابتدائی دو [[آیت|آیتیں]] اس کی مشہور اور معروف آیتوں میں سے ہیں:
===آیت تبارک (1)===
<div style="text-align: center;"><noinclude>
{{قرآن کا متن|تَبَارَ‌كَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌﴿1﴾»<br />
|ترجمہ= بابرکت ہے وہ (خدا) جس کے ہاتھ (قبضۂ قدرت) میں (کائنات کی) بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔}}
</noinclude>
{{خاتمہ}}
[[علامہ طباطبایی]] لفظ "تبارک" جو کہ اس آیت کی ابتداء میں آیا ہے کو ہر اس چیز کے بارے میں جو فراوان خیر و برکت کا منشاء قرار پاتی ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۳۴۸.</ref> اس آیت میں خداوند عالم کی ذات کا مبارک ہونا پوری کائنات پر اس کی مالکیت اور حاکمیت اور ہر چیز پر اس کی قدرت اور سلطنت کی وجہ سے ہے اور اسی وجہ سے خدا کو زوال ناپذیر اور بابرکت ذات کے طور پر معرفی کرتے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۴، ص۳۱۶.</ref>
<br />
"بیدہ الملک" کی تعبیر اس آیت میں نمام کائنات پر خدا کی تسلط اور قدرت کی طرف اشارہ ہے اس طرح کہ خدا کائنات میں ہر طرح کی تغیر اور تبدیلی لانے چاہے لا سکتے ہیں اور اسے جس طرح بھی چاہے چلا سکتے ہیں اور اس کی قدرت میں اس حوالے سے کسی قسم کی بھی محدودیت ­ہیں ہے۔۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۹، ص۳۴۸.</ref>
===آیت آزمایش (2)===
<div style="text-align: center;"><noinclude>
{{قرآن کا متن|الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ‌ ﴿2﴾»<br />
|ترجمہ=جس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے لحاظ سے سب سے زیادہ اچھا کون ہے؟ وہ بڑا زبردست (اور) بڑا بخشنے والا ہے۔}}
</noinclude>
{{خاتمہ}}
'''آزمایش (لِيَبْلُوَكُمْ) سے مراد'''
اس آیت میں انسان کی موت اور حیات کی خلقت جو کہ خدا کی مالکیت اور حاکمیت کے دائرے میں آتی ہے، کے اہداف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ خدا کی طرف سے ہونے والے امتحانات اور آزمائیشیں ایک قسم کی تربیت ہے جو انسان کو میدان عمل میں آنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ وہ پختہ، تجربہ کار اور پاک و پاکیزہ ہو کر خدا کی قربت حاصل کرنے کی لیاقت اور شائستگی پیدا کرے۔ اس بنا پر کائنات ایک وسیع میدان ہے تمام انسانوں کیلئے اور موت و حیات اس امتحان اور آزمائش کا ذریعہ ہے اور اس کا ہدف نیک کردار، کامل معرفت، خالص نیت اور ہر نیک کام کی انجام دہی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۴، ص۳۱۶-۳۱۷.</ref>


==متن سورہ==
==متن سورہ==
confirmed، templateeditor
9,239

ترامیم