مندرجات کا رخ کریں

"سورہ نمل" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 43: سطر 43:
سورہ نمل کی آیات 80، 81 اور 83 کے ذیل میں کچھ تفسیری نکات ذکر ہوئے ہیں۔
سورہ نمل کی آیات 80، 81 اور 83 کے ذیل میں کچھ تفسیری نکات ذکر ہوئے ہیں۔
===کافروں کو بہرے اور آندھے مُردوں سے تشبیہ===
===کافروں کو بہرے اور آندھے مُردوں سے تشبیہ===
سورہ نمل کی آیات 80 اور 81 «إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ...» میں [[کفر|کافروں]] کو ایسے مردوں سے شباہت دی ہے کہ جن کے پاس نہ سننے کو کان ہیں اور نہ ہی دیکھنے کو آنکھیں ہیں اور انبیاؐ کی نصیحتوں کو نہیں سنتے ہیں اور انبیاؐ بھی ان کو حقیقت سمجھانے سے قاصر ہونگے؛<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۵، ص۳۹۰.</ref> [[طبرسی]] تفسیر [[مجمع البیان]] میں اسی آیت کے ذیل میں لکھتا ہے کہ بہرا اور آندھے شخص کو بھی کچھ سمجھایا جاسکتا ہے؛ لیکن جس شخص نے منہ موڈ لیا ہے اسے کچھ نہیں سمجھایا جاسکتا ہے اور اس تشبیہ کو [[قرآن کریم|قرآن مجید]] میں [[پیغمبر اکرمؐ]] کے منکروں کی جہالت کی طرف اشارہ ہے جو اپنے موقف پر تعصب کی وجہ سے حقیقت کی شناخت سے محروم رہ گئے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۳۶۵.</ref>
سورہ نمل کی آیات 80 اور 81 {{عربی|«إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ...»}} میں [[کفر|کافروں]] کو ایسے مردوں سے شباہت دی ہے کہ جن کے پاس نہ سننے کو کان ہیں اور نہ ہی دیکھنے کو آنکھیں ہیں اور انبیاؐ کی نصیحتوں کو نہیں سنتے ہیں اور انبیاؐ بھی ان کو حقیقت سمجھانے سے قاصر ہونگے؛<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۵، ص۳۹۰.</ref> [[طبرسی]] تفسیر [[مجمع البیان]] میں اسی آیت کے ذیل میں لکھتا ہے کہ بہرا اور آندھے شخص کو بھی کچھ سمجھایا جاسکتا ہے؛ لیکن جس شخص نے منہ موڈ لیا ہے اسے کچھ نہیں سمجھایا جاسکتا ہے اور اس تشبیہ کو [[قرآن کریم|قرآن مجید]] میں [[پیغمبر اکرمؐ]] کے منکروں کی جہالت کی طرف اشارہ ہے جو اپنے موقف پر تعصب کی وجہ سے حقیقت کی شناخت سے محروم رہ گئے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۳۶۵.</ref>


[[تفسیر نمونہ]] میں انہی آیات کو مستند کرتے ہوئے قرآن کی نظر میں موت اور حیات کو اور مادی نظرئے کے مطابق موت اور حیات سے مختلف قرار دیا ہے۔ قرآنی نظرئہ کے مطابق ممکن ہے کچھ لوگ جسمانی اعتبار سے زندہ ہوں لیکن مردوں میں شمار ہوتے ہیں جیسے وہ لوگ جنہوں نے انبیاؐ کی ہدایت سے اپنی آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں اور اس کے برعکس ممکن ہے بعض لوگ جسمانی حوالے سے زندہ نہ ہوں لیکن مادی دنیا میں چھوڑے گئے آثار کی وجہ سے زندہ ہوں؛ جیسے شہدا کہ جن کو اللہ تعالی نے زندہ کہا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۵، ص۵۴۲-۵۴۳.</ref>
[[تفسیر نمونہ]] میں انہی آیات کو مستند کرتے ہوئے قرآن کی نظر میں موت اور حیات کو اور مادی نظرئے کے مطابق موت اور حیات سے مختلف قرار دیا ہے۔ قرآنی نظرئہ کے مطابق ممکن ہے کچھ لوگ جسمانی اعتبار سے زندہ ہوں لیکن مردوں میں شمار ہوتے ہیں جیسے وہ لوگ جنہوں نے انبیاؐ کی ہدایت سے اپنی آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں اور اس کے برعکس ممکن ہے بعض لوگ جسمانی حوالے سے زندہ نہ ہوں لیکن مادی دنیا میں چھوڑے گئے آثار کی وجہ سے زندہ ہوں؛ جیسے شہدا کہ جن کو اللہ تعالی نے زندہ کہا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۵، ص۵۴۲-۵۴۳.</ref>
سطر 49: سطر 49:
===عصر ظہور میں رجعت===
===عصر ظہور میں رجعت===
{{اصل مضمون|رجعت}}
{{اصل مضمون|رجعت}}
[[شیعہ]] علما سورہ نمل کی آیت 83 «وَيَوْمَ نَحْشُرُ‌ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّن يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا؛ ترجمہ:اور (اس دن کو یاد کرو) جس دن ہم ہر امت میں سے ایک ایسا گروہ محشور (جمع) کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتا تھا۔ پھر اس کو روک کر جماعت بندی کی جائے گی۔» کو رجعت کے بارے میں صریح اور اہم دلیل قرار دیتے ہیں۔<ref>رضانژاد و پای برجای، «بررسی دلالت آیہ ۸۳ سورہ نمل بر رجعت از دیدگاہ فریقین»، ص۴۳۴۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۵، ص۵۴۹.</ref> [[شیخ مفید]] کے نظرئے کے مطابق [[امام مہدی علیہ السلام|امام مہدیؑ]] کے [[ظہور امام زمانہ|ظہور]] کے وقت اللہ تعالی بعض مردوں کو زندہ کرتا ہے۔<ref>مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۷۷</ref>  
[[شیعہ]] علما سورہ نمل کی آیت 83 {{عربی|«وَيَوْمَ نَحْشُرُ‌ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّن يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا؛}} ترجمہ:اور (اس دن کو یاد کرو) جس دن ہم ہر امت میں سے ایک ایسا گروہ محشور (جمع) کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتا تھا۔ پھر اس کو روک کر جماعت بندی کی جائے گی۔» کو رجعت کے بارے میں صریح اور اہم دلیل قرار دیتے ہیں۔<ref>رضانژاد و پای برجای، «بررسی دلالت آیہ ۸۳ سورہ نمل بر رجعت از دیدگاہ فریقین»، ص۴۳۴۶؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۵، ص۵۴۹.</ref> [[شیخ مفید]] کے نظرئے کے مطابق [[امام مہدی علیہ السلام|امام مہدیؑ]] کے [[ظہور امام زمانہ|ظہور]] کے وقت اللہ تعالی بعض مردوں کو زندہ کرتا ہے۔<ref>مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۷۷</ref>  


شیعہ مفسرین اور [[علم کلام|متکلمین]] کے مطابق یہ رجعت کرنا، [[قیامت]] کے دن مردوں کا زندہ ہونے کے علاوہ ہے؛ کیونکہ قیامت میں تو تمام مردے زندہ ہوتے ہیں؛ لیکن اس آیت میں بعض مردوں کا زندہ ہونے کے بارے میں اشارہ ہوا ہے۔ شیعہ علما میں سے [[شیخ صدوق|شیخ صدوقؒ]] نے اپنی کتاب [[الاعتقادات (کتاب)|الاعتقادات]]،<ref>صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ۶۲۶۳.</ref> میں، [[شیخ مفید]]،<ref>مفید، المسائل السرویه، ۱۴۱۳ق، ص۳۲۳۳.</ref> [[شیخ طوسی]] نے اپنی تفسیر [[التبیان فی تفسیر القرآن|التبیان]]،<ref>طوسی، التبیان، ۱۳۸۲ق، ج۸، ص۱۲۰.</ref> میں [[فضل بن حسن طبرسی]] نے اپنی تفسیر [[مجمع البیان فی تفسیر القرآن|مجمع البیان]]<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷،ص ۳۶۶.</ref> میں اور [[محمدباقر مجلسی|علامہ مجلسی]] نے اپنی کتاب [[حق الیقین (کتاب)|حق الیقین]]<ref>مجلسی، حق الیقین، ۱۳۸۷ق، ص۳۳۶.</ref> میں اس آیت سے رجعت پر استدلال کیا ہے۔<ref>رضانژاد و پای برجای، «بررسی دلالت آیہ ۸۳ سورہ نمل بر رجعت از دیدگاه فریقین»، ص۴۳-۴۶.</ref>
شیعہ مفسرین اور [[علم کلام|متکلمین]] کے مطابق یہ رجعت کرنا، [[قیامت]] کے دن مردوں کا زندہ ہونے کے علاوہ ہے؛ کیونکہ قیامت میں تو تمام مردے زندہ ہوتے ہیں؛ لیکن اس آیت میں بعض مردوں کا زندہ ہونے کے بارے میں اشارہ ہوا ہے۔ شیعہ علما میں سے [[شیخ صدوق|شیخ صدوقؒ]] نے اپنی کتاب [[الاعتقادات (کتاب)|الاعتقادات]]،<ref>صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ۶۲۶۳.</ref> میں، [[شیخ مفید]]،<ref>مفید، المسائل السرویه، ۱۴۱۳ق، ص۳۲۳۳.</ref> [[شیخ طوسی]] نے اپنی تفسیر [[التبیان فی تفسیر القرآن|التبیان]]،<ref>طوسی، التبیان، ۱۳۸۲ق، ج۸، ص۱۲۰.</ref> میں [[فضل بن حسن طبرسی]] نے اپنی تفسیر [[مجمع البیان فی تفسیر القرآن|مجمع البیان]]<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷،ص ۳۶۶.</ref> میں اور [[محمدباقر مجلسی|علامہ مجلسی]] نے اپنی کتاب [[حق الیقین (کتاب)|حق الیقین]]<ref>مجلسی، حق الیقین، ۱۳۸۷ق، ص۳۳۶.</ref> میں اس آیت سے رجعت پر استدلال کیا ہے۔<ref>رضانژاد و پای برجای، «بررسی دلالت آیہ ۸۳ سورہ نمل بر رجعت از دیدگاه فریقین»، ص۴۳-۴۶.</ref>
سطر 62: سطر 62:
[[علامه طباطبایی|علامہ طباطبایی]] نے اس آیت میں شہروں میں افساد سے مراد شہروں کو ویران کرنے، نذر آتش کرنے، وہاں کی عمارتیں تخریب کرنے اور اس شہر کے لوگوں کو ذلیل کرتے ہوئے اسیر کرنے، قتل کرنے اور شہر بدر کرنے کے معنی میں لیا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۵، ص۳۶۰.</ref> یہ آیت ملکہ سبا کی طرف سے اس کے طرفداورں کا جواب تھا جو حضرت سلیمان سے جنگ چاہتے تھے۔ تفسیر نمونہ میں اس نکتے کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ ملکہ سبا خود بادشاہ تھی اور بادشاہوں کی خصوصیات کو جانتی تھی اور اس کے طرفداروں کی جنگ طلبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنگ کے آثار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا ہے تاکہ حضرت سلیمان کے خط کا جواب دینے کا کوئی راستہ نکلے اور ان کے گفتار کی صحت سقم کا اندازہ لگایا جاسکے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۵، ص۴۵۵.</ref>
[[علامه طباطبایی|علامہ طباطبایی]] نے اس آیت میں شہروں میں افساد سے مراد شہروں کو ویران کرنے، نذر آتش کرنے، وہاں کی عمارتیں تخریب کرنے اور اس شہر کے لوگوں کو ذلیل کرتے ہوئے اسیر کرنے، قتل کرنے اور شہر بدر کرنے کے معنی میں لیا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۵، ص۳۶۰.</ref> یہ آیت ملکہ سبا کی طرف سے اس کے طرفداورں کا جواب تھا جو حضرت سلیمان سے جنگ چاہتے تھے۔ تفسیر نمونہ میں اس نکتے کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ ملکہ سبا خود بادشاہ تھی اور بادشاہوں کی خصوصیات کو جانتی تھی اور اس کے طرفداروں کی جنگ طلبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنگ کے آثار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا ہے تاکہ حضرت سلیمان کے خط کا جواب دینے کا کوئی راستہ نکلے اور ان کے گفتار کی صحت سقم کا اندازہ لگایا جاسکے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۵، ص۴۵۵.</ref>


[[طبرسی]] نے [[تفسیر مجمع البیان]] میں آیت کا آخری جملہ <nowiki>{{عربی|«وَكَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ»}}</nowiki> کو اللہ تعالی کی طرف سے بلقیس کی تائید قرار دیا ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۳۴۵.</ref>
[[طبرسی]] نے [[تفسیر مجمع البیان]] میں آیت کا آخری جملہ {{عربی|«وَكَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ»}} کو اللہ تعالی کی طرف سے بلقیس کی تائید قرار دیا ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۳۴۵.</ref>
===آیہ امن یجیب===
===آیہ امن یجیب===
{{اصل مضمون|آیہ امن یجیب}}
{{اصل مضمون|آیہ امن یجیب}}
سطر 74: سطر 74:
بعض روایات کے مطابق یہ آیت حضرت امام مہدیؑ پر تطبیق کرتا ہے۔ [[امام صادقؑ]] فرماتے ہیں: یہ آیت قائمؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، خدا کی قسم مضطر وہ ہے، جب مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز بجالاتا ہے اور اللہ کے حضور ہاتھ بلند کر کے دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول کرتا ہے، پریشانیوں کو دور کرتا ہے اور اسے زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیتا ہے۔<ref>قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۳ق، ج۲، ص۱۲۹.</ref>
بعض روایات کے مطابق یہ آیت حضرت امام مہدیؑ پر تطبیق کرتا ہے۔ [[امام صادقؑ]] فرماتے ہیں: یہ آیت قائمؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، خدا کی قسم مضطر وہ ہے، جب مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز بجالاتا ہے اور اللہ کے حضور ہاتھ بلند کر کے دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول کرتا ہے، پریشانیوں کو دور کرتا ہے اور اسے زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیتا ہے۔<ref>قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۳ق، ج۲، ص۱۲۹.</ref>


[[بحار الانوار]] میں لکھا ہے کہ جب شیعہ ائمہؑ جب یہ دعا پڑھتے تھے تو اسے یوں پڑھتے تھے: <nowiki>{{عربی|«یا مَنْ یجیبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ».}}</nowiki><ref>مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۲، ص۱۰۳؛ ابن طاووس، مهج الدعوات، ۱۴۱۱ق، ص۳۴۲.</ref>
[[بحار الانوار]] میں لکھا ہے کہ جب [[شیعہ]] [[ائمہؑ]] جب یہ دعا پڑھتے تھے تو اسے یوں پڑھتے تھے: <nowiki>{{عربی|«یا مَنْ یجیبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ».}}</nowiki><ref>مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۲، ص۱۰۳؛ ابن طاووس، مهج الدعوات، ۱۴۱۱ق، ص۳۴۲.</ref>
===آیہ سیروا فی الارض (69)===
===آیہ سیروا فی الارض (69)===
{{تفصیلی مضمون|آیہ سیروا فی الارض}}
{{تفصیلی مضمون|آیہ سیروا فی الارض}}
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم