مندرجات کا رخ کریں

"سورہ طہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

3,293 بائٹ کا اضافہ ،  27 جولائی 2019ء
م
سطر 43: سطر 43:
** بنی‌اسرائیل پر نعمتوں کا نزول، [[سامری کا گوسالہ]]، بنی اسرائیل کی [[حضرت ہارون]] سے گفتگو، حضرت موسی کا حضرت ہارون پر اعتراض کرنا، حضرت موسی اور [[سامری]] کی گفتگو(آیہ‌ہای ۸۰-۹۷)۔
** بنی‌اسرائیل پر نعمتوں کا نزول، [[سامری کا گوسالہ]]، بنی اسرائیل کی [[حضرت ہارون]] سے گفتگو، حضرت موسی کا حضرت ہارون پر اعتراض کرنا، حضرت موسی اور [[سامری]] کی گفتگو(آیہ‌ہای ۸۰-۹۷)۔
* '''حضرت آدم کی داستان''': [[فرشتہ|فرشتوں]] کا حضرت آدم کے لئے سجدہ کرنا اور [[ابلیس]] کا سجدہ کرنے سے انکار، حضرت آدم کو ابلیس کے بارے میں خبردار کرنا، ابلیس کا وسوسہ اور شجرہ ممنوعہ کا تناول، بہشت سے زمین کی طرف [[ہبوط]](آیہ‌ہای ۱۱۵-۱۲۳)۔
* '''حضرت آدم کی داستان''': [[فرشتہ|فرشتوں]] کا حضرت آدم کے لئے سجدہ کرنا اور [[ابلیس]] کا سجدہ کرنے سے انکار، حضرت آدم کو ابلیس کے بارے میں خبردار کرنا، ابلیس کا وسوسہ اور شجرہ ممنوعہ کا تناول، بہشت سے زمین کی طرف [[ہبوط]](آیہ‌ہای ۱۱۵-۱۲۳)۔
==بعض آیتوں کی شأن نزول==
سورہ طہ کی ابتدائی آیات اور آیت نمبر 131 کی [[شأن نزول]] بیان کی گئی ہے۔
===عبادات میں اعتدال===
[[احادیث]] میں آیا ہے کہ [[وحی]] اور [[قرآن]] کے نزول کے بعد [[پیغمبر اسلامؐ]] بہت زیادہ [[عبادت]] کیا کرتے تھے، یہاں تک آپ عبادت کی حالت میں کھڑے رہتے تھے کہ آپ کے پاؤں ورم پڑ جاتے تھے؛ اسی سلسلے میں سوره طه کی ابتدائی آیت نازل ہوئیں اور پیغمبر اکرمؐ کو عبادت کی راہ میں زیادہ سختیاں جھیلنے سے منع فرماتے ہوئے عبادات اور [[دعا]] میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۱۵۶.</ref>
واحدی نیشابوری کی کتاب [[اسباب نزول القرآن]] میں بھی آیا ہے کہ [[ابوجہل]]، نضر بن حارث اور بعض [[قریش|کفار قریش]] پیمبر اکرمؐ اور مسلمانوں کو یہ طعنہ دیتے تھے کہ محمدؐ نے ہمارے دین کو ترک کرکے خود کو مشقت میں ڈال دیا ہے اور قرآن کا نزول [[اسلام|مسلمانوں]] کی سخصتی کا باعث بنا ہے۔ اسی سلسلے میں سورہ طہ کی یہ آیتیں نازل ہوئیں اور مسلمانوں اور پیغمبر اکرمؐ کو عبادت میں اعتدال کی رعایت کرنے اور میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔<ref>واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۱۲.</ref>
===پیغمبر اکرمؐ کو تسلی===
درباره سبب نزول آیه ۱۳۱ سوره طه «وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَ‌ةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ...؛ و زنهار به سوى آنچه اصنافى از ايشان را از آن برخوردار كرديم [و فقط] زيور زندگى دنياست تا ايشان را در آن بيازماييم، ديدگان خود مدوز...» از ابو رافع خادم [[رسول الله(ص)]] آمده است که: روزی مهمانی برای آن حضرت رسید و حضرت مرا نزد یک یهودی فرستاد که مقداری آرد برای تهیه غذا برای مهمان نسیه کنم و اینکه تا اول [[ماه رجب]] آن را پس می‌دهد؛ ولی یهودی گفت من با او معامله نمی‌کنم مگر اینکه گروی بدهد. ابو رافع می‌گوید وقتی خبر این برخورد را به پیامبر دادم، فرمود به خدای زمین و آسمان اگر می‌فروخت به جای این پیراهن یا زره به او طلا می‌دادم. بعد از این ماجرا بود که این آیه برای تسلی و غم‌زدایی از پیامبر نازل شد.<ref>واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۱۲.</ref>


== متن اور ترجمہ ==
== متن اور ترجمہ ==
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم