مندرجات کا رخ کریں

"سورہ انفال" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{زیر تعمیر}}
{{زیر تعمیر}}
{{سورہ||نام = انفال |ترتیب کتابت = 8|پارہ = 9 و 10|آیت = 75|مکی/ مدنی = مدنی|ترتیب نزول = 88|اگلی = [[سورہ توبہ|توبہ]] |پچھلی = [[سورہ اعراف|اعراف]] |لفظ = 1244|حرف = 5388|تصویر=سوره انفال.jpg}}
{{سورہ||نام = انفال |ترتیب کتابت = 8|پارہ = 9 و 10|آیت = 75|مکی/ مدنی = مدنی|ترتیب نزول = 88|اگلی = [[سورہ توبہ|توبہ]] |پچھلی = [[سورہ اعراف|اعراف]] |لفظ = 1244|حرف = 5388|تصویر=سوره انفال.jpg}}
'''سورہ انفال''' قرآن مجید کی آٹھویں، اور مدنی سورتوں میں سے ایک ہے جو نویں اور دسویں پارے میں واقع ہے۔اس سورت کی پہلی آیت میں [[انفال]] کا لفظ بروئے کار لانے اور انفال کے احکام بیان ہونے کی وجہ سے اسے انفال کا نام دیا گیا ہے۔ اس سورت میں انفال کے احکام اور عمومی ثروت، خمس، جہاد، مجاہدوں کی ذمہ داری، اسیروں سے نیک برتاؤ، جنگی تیاری کی ضرورت اور مؤمن کی نشانیوں کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
'''سورہ انفال''' قرآن مجید کی آٹھویں، اور [[مکی اور مدنی سورتیں|مدنی سورتوں]] میں سے ایک ہے جو نویں اور دسویں [[پارہ (قرآن)|پارے]] میں واقع ہے۔اس سورت کی پہلی آیت میں [[انفال]] کا لفظ بروئے کار لانے اور انفال کے احکام بیان ہونے کی وجہ سے اسے انفال کا نام دیا گیا ہے۔ اس سورت میں انفال کے احکام اور عمومی ثروت، [[خمس]]، [[جہاد]]، مجاہدوں کی ذمہ داری، اسیروں سے نیک برتاؤ، جنگی تیاری کی ضرورت اور مؤمن کی نشانیوں کی طرف اشارہ ہوا ہے۔


[[آیت صلح]] اور [[آیت نصر]] اس سورت کی مشہور آیات میں سے ہیں۔ اسی طرح [[آیت انفال]]، [[آیت خمس]] اور [[آیت اولو الارحام]] اس سورت کی [[آیات الاحکام]] میں سے ہیں۔ سورہ انفال کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں منقول ہے کہ جو بھی اس سورت کی تلاوت کرے گا کبھی بھی اس کے دل میں نفاق نہیں آئے گا۔
[[آیت صلح]] اور [[آیت نصر]] اس سورت کی مشہور آیات میں سے ہیں۔ اسی طرح [[آیت انفال]]، [[آیت خمس]] اور [[آیت اولو الارحام]] اس سورت کی [[آیات الاحکام]] میں سے ہیں۔ سورہ انفال کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں منقول ہے کہ جو بھی اس سورت کی تلاوت کرے گا کبھی بھی اس کے دل میں نفاق نہیں آئے گا۔
سطر 9: سطر 9:
'''نام'''
'''نام'''


اس سورت کو انفال کا نام دیا گیا ہے کیونکہ انفال جنگی غنائم اور عمومی اموال و ثروت کے معنی میں ہے اور اس سورت کی پہلی آیت میں دو مرتبہ استعمال ہوا ہے نیز اس کے احکام بیان کیا ہے۔<ref>صفوی، «سورہ انفال»، ص۶۹۷.</ref> اس سورت کا دوسرا نام بدر ہے؛ کیونکہ جنگ بدر ک بارے میں نازل ہوئی ہے۔<ref>سیوطی، الاتقان، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۱۹۷.</ref> بعض مفسروں کا کہنا ہے کہ یہ سورت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں کے آپس میں جنگ بدر کی غنیمت تقسیم کرنے میں اختلاف ہوا۔<ref>طبرسی‌، مجمع‌ البیان‌، ۱۳۹۰، ج۲، ص۷۹۵.</ref> سورت انفال کو سورۃ الجہاد کا نام بھی دیا گیا ہے؛ کیونکہ اس کے نزول کے بعد پیغمبر اکرم جنگوں میں مجاہدوں کو روحی حوالے سے تقویت دینے کے لئے اس کی تلاوت کا حکم دیتے تھے۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۹۹.</ref>
اس سورت کو انفال کا نام دیا گیا ہے کیونکہ انفال جنگی غنائم اور عمومی اموال و ثروت کے معنی میں ہے اور اس سورت کی پہلی آیت میں دو مرتبہ استعمال ہوا ہے نیز اس کے احکام بیان کیا ہے۔<ref>صفوی، «سورہ انفال»، ص۶۹۷.</ref> اس سورت کا دوسرا نام بدر ہے؛ کیونکہ جنگ بدر ک بارے میں نازل ہوئی ہے۔<ref>سیوطی، الاتقان، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۱۹۷.</ref> بعض مفسروں کا کہنا ہے کہ یہ سورت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں کے آپس میں جنگ بدر کی غنیمت تقسیم کرنے میں اختلاف ہوا۔<ref>طبرسی‌، مجمع‌ البیان‌، ۱۳۹۰، ج۲، ص۷۹۵.</ref> سورت انفال کو سورۃ الجہاد کا نام بھی دیا گیا ہے؛ کیونکہ اس کے نزول کے بعد [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] جنگوں میں مجاہدوں کو روحی حوالے سے تقویت دینے کے لئے اس کی تلاوت کا حکم دیتے تھے۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۹۹.</ref>


'''ترتیب اور محل نزول'''
'''ترتیب اور محل نزول'''


سورہ انفال مدنی سورتوں میں سے ہے۔{{نوٹ|30ویں سے 36ویں آیت تک کو مکی قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان آیات میں مکہ کے حالات کے بارے میں کہا گیا ہے؛ لیکن اس نظرئے کو درست نہیں جانا گیا ہے کیونکہ بہت ساری ایسی آیات ہیں جو مدینہ میں نازل ہوئی ہیں لیکن ہجرت سے پہلے کے واقعات کے بارے میں ہیں۔(<ref>حسینی‌زاده و خامه‌گر، «سوره انفال»، ص۲۴.</ref>)}} ترتیب نزول کے اعتبار سے پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی 88ویں سورت جبکہ موجود مصحف کی ترتیب کے مطابق آٹھویں سورت ہے اور نویں اور دسویں پارے میں واقع ہے۔<ref>معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۶.</ref> یہ سورت، سورہ بقرہ کے بعد اور سورہ آل عمران سے پہلے نازل ہوئی ہے اگرچہ بعض نے اسے چوتھی یا پانچویں سورت مدنی قرار دیا ہے۔<ref>حسینی‌زاده و خامه‌گر، «سوره انفال»، ص۲۴.</ref>
سورہ انفال مدنی سورتوں میں سے ہے۔{{نوٹ|30ویں سے 36ویں آیت تک کو مکی قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان آیات میں مکہ کے حالات کے بارے میں کہا گیا ہے؛ لیکن اس نظرئے کو درست نہیں جانا گیا ہے کیونکہ بہت ساری ایسی آیات ہیں جو مدینہ میں نازل ہوئی ہیں لیکن ہجرت سے پہلے کے واقعات کے بارے میں ہیں۔(<ref>حسینی‌زاده و خامه‌گر، «سوره انفال»، ص۲۴.</ref>)}} ترتیب نزول کے اعتبار سے پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی 88ویں [[سورہ|سورت]] جبکہ موجود مصحف کی ترتیب کے مطابق آٹھویں سورت ہے اور نویں اور دسویں پارے میں واقع ہے۔<ref>معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۶.</ref> یہ سورت، [[سورہ بقرہ]] کے بعد اور [[سورہ آل عمران]] سے پہلے نازل ہوئی ہے اگرچہ بعض نے اسے چوتھی یا پانچویں مدنی سورت قرار دیا ہے۔<ref>حسینی‌زاده و خامه‌گر، «سوره انفال»، ص۲۴.</ref>


'''آیات کی تعداد اور دیگر خصوصیات'''
'''آیات کی تعداد اور دیگر خصوصیات'''


سورہ انفال 75 آیات، 1244 کلمات اور 5388 حروف پر مشتمل ہے۔ حجم اور کمیت کے لحاظ سے [[قرآن]] مثانی اور متوسط سورتوں میں سے ہے اور قرآن مجید کی طولانی سورتوں میں سے ہے جو نصف پارے پر مشتمل ہے۔<ref>خرمشاهی، «سوره انفال»، ص۱۲۳۸.</ref> سورہ انفال اور سورہ توبہ کے درمیان بسم اللہ نہ آنے کی وجہ سے بعض نے ان دونوں سورتوں کو ایک سورت سمجھا ہے۔<ref>آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۰، ص۲۳۰.</ref> اور قرینتین کا نام دیا ہے۔<ref>سیوطی، الدرالمنثور، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۱۲۰.</ref>
سورہ انفال 75 آیات، 1244 کلمات اور 5388 حروف پر مشتمل ہے۔ حجم اور کمیت کے لحاظ سے [[قرآن]] مثانی اور متوسط سورتوں میں سے ہے اور [[قرآن کریم|قرآن مجید]] کی طولانی سورتوں میں سے ہے جو نصف پارے پر مشتمل ہے۔<ref>خرمشاهی، «سوره انفال»، ص۱۲۳۸.</ref> سورہ انفال اور سورہ توبہ کے درمیان [[بسم اللہ الرحمن الرحیم|بسم اللہ]] نہ آنے کی وجہ سے بعض نے ان دونوں سورتوں کو ایک سورت سمجھا ہے۔<ref>آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۰، ص۲۳۰.</ref> اور قرینتین کا نام دیا ہے۔<ref>سیوطی، الدرالمنثور، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۱۲۰.</ref>


==سورہ انفال==
==سورہ انفال==
سطر 50: سطر 50:


===مشرکوں کو معجزے کے ذریعے شکست===
===مشرکوں کو معجزے کے ذریعے شکست===
روایات کے مطابق، بدر کے دن [[جبرئیل]] نے پیغمبر اکرمؐ سے کہا کہ مٹھی بھر مٹی اٹھا لو اور دشمن کی طرف پھینک دو۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو پیغمبر اکرمؐ نے علیؑ سے مٹھی بھر کنکریاں دینے کا کہا، اور انہیں دشمن کی طرف پھینک دیا اور فرمایا: «یہ چہرے مسخ ہوں اور بدشکل ہوں»۔ احادیث میں آیا ہے کہ وہ ذرات دشمن کی آنکھوں اور منہ میں چلے گئے اور مسلمانوں نے ان پر حملہ کیا اور دشمن کو شکست دی۔ جب مشرکوں کو شکست ملی آیہ {{قرآن کا متن|«وَمَا رَ‌مَيْتَ إِذْ رَ‌مَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَ‌مَىٰ»}}<ref>سورہ انفال، آیہ 17</ref> نازل ہوئی۔ یعنی دشمن کی جانب کنکر پھینکنے والا تم نہیں تھے بلکہ وہ خدا تھا۔[[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]] نے اس کام کو معجزہ قرار دیا ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۸۱۴.</ref>
روایات کے مطابق، بدر کے دن [[جبرئیل]] نے پیغمبر اکرمؐ سے کہا کہ مٹھی بھر مٹی اٹھا لو اور دشمن کی طرف پھینک دو۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو پیغمبر اکرمؐ نے [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]] سے مٹھی بھر کنکریاں دینے کا کہا، اور انہیں دشمن کی طرف پھینک دیا اور فرمایا: «یہ چہرے مسخ ہوں اور بدشکل ہوں»۔ احادیث میں آیا ہے کہ وہ ذرات دشمن کی آنکھوں اور منہ میں چلے گئے اور [[اسلام|مسلمانوں]] نے ان پر حملہ کیا اور دشمن کو شکست دی۔ جب مشرکوں کو شکست ملی آیہ {{قرآن کا متن|«وَمَا رَ‌مَيْتَ إِذْ رَ‌مَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَ‌مَىٰ»}}<ref>سورہ انفال، آیہ 17</ref> نازل ہوئی۔ یعنی دشمن کی جانب کنکر پھینکنے والا تم نہیں تھے بلکہ وہ خدا تھا۔[[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]] نے اس کام کو [[معجزہ]] قرار دیا ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۸۱۴.</ref>


===اللہ اور رسول کے حق میں خیانت===
===اللہ اور رسول کے حق میں خیانت===
[[شیخ طوسی]]، [[جابر بن عبدالله انصاری]] کے نقل کے مطابق آیہ {{قرآن کا متن|«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّـهَ وَالرَّ‌سُولَ...»}}<ref> سورہ انفال، آيہ27.</ref> کے سبب نزول کے بارے  میں کہتے ہیں کہ یہ آیت منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جنہوں نے پیغمبر اکرمؐ کی آمد کے بارے میں ابوسفیان کو خبر دی اور اسی وجہ سے وہ کاروان سمیت مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھاگ گیا<ref>طوسی، التبیان، دار احیا التراث العربی، ج۵، ص۱۰۶.</ref> بعض نے اس آیت کو [[ابولبابہ انصاری]] کے بارے میں قرا دیا ہے جس نے مسلمانوں کا نبی قریظہ کے ساتھ جنگ میں ان کو پیغمبر اکرمؐ کا سعد بن معاذ کی حکمیت کے مطابق عمل کرنے کے بارے میں خبر دی تھی۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۸۲۳؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۳۸.</ref>
[[شیخ طوسی]]، [[جابر بن عبدالله انصاری]] کے نقل کے مطابق آیہ {{قرآن کا متن|«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّـهَ وَالرَّ‌سُولَ...»}}<ref> سورہ انفال، آيہ27.</ref> کے سبب نزول کے بارے  میں کہتے ہیں کہ یہ آیت منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جنہوں نے پیغمبر اکرمؐ کی آمد کے بارے میں ابوسفیان کو خبر دی اور اسی وجہ سے وہ کاروان سمیت مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھاگ گیا<ref>طوسی، التبیان، دار احیا التراث العربی، ج۵، ص۱۰۶.</ref> بعض نے اس آیت کو [[ابولبابہ انصاری]] کے بارے میں قرا دیا ہے جس نے مسلمانوں کا [[بنی قریظہ]] کے ساتھ جنگ میں ان کو پیغمبر اکرمؐ کا [[سعد بن معاذ]] کی حکمیت کے مطابق عمل کرنے کے بارے میں خبر دی تھی۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۸۲۳؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۳۸.</ref>
===جزیہ کے مقابلے میں جنگ بدر کے قیدیوں کی رہائی===
===جزیہ کے مقابلے میں جنگ بدر کے قیدیوں کی رہائی===
ابن عباس نے سورہ انفال کی 70ویں آیت کے سبب نزول کو خود، عقیل اور [[نوفل بن حرث]] قرار دیا ہے جب وہ جنگ بدر میں اسیر ہوئے تو اس وقت نازل ہوئی۔ اس نے 150 مثقال سونا مشرکوں کی لشکر کے لئے لے آیا تھا جسے مسلمانوں نے غنیمت میں لے لیا۔ ابن عباس کا کہنا ہے کہ رسول اللہؐ سے کہا کہ وہ سونا میری جان کی قیمت قرار دیا جائے؛ لیکن پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا وہ تم نے جنگ کے لیے لے آیا تھا اور اپنی اور عقیل کی جان کی قیمت خود ادا کرو۔ آپؐ سے کہا اسطرح تو عمر کے آخری لمحات تک بھیک مانگنا ہوگا۔ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا جنگ سے پہلے ام الفضل کے پاس کچھ سونا تم نے امانت رکھا ہے، لہذا فقیر نہیں ہونگے۔ ابن عباس کہتا ہے جس بات کے بارے میں کسی کو خبر نہیں تھی اس کے بارے میں پیغمر اکرمؐ کو علم ہونے سے پتہ چلا کہ وہ پیغمبر اور سچے ہیں اور یوں آپؐ پر ایمان لے آیا اور بعد میں اللہ تعالی نے اس سونے کے بدلے بہت سارا مال مجھے دیا اور اللہ تعالی سے مغفرت کا طلبکار ہوں۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۸۶۰؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۴۵.</ref>
[[عبد الله بن عباس|ابن عباس]] نے سورہ انفال کی 70ویں آیت کے سبب نزول کو خود، عقیل اور [[نوفل بن حرث]] قرار دیا ہے جب وہ جنگ بدر میں اسیر ہوئے تو اس وقت نازل ہوئی۔ اس نے 150 مثقال سونا مشرکوں کی لشکر کے لئے لے آیا تھا جسے مسلمانوں نے غنیمت میں لے لیا۔ ابن عباس کا کہنا ہے کہ [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] سے کہا کہ وہ سونا میری جان کی قیمت قرار دیا جائے؛ لیکن پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا وہ تم نے جنگ کے لیے لے آیا تھا اور اپنی اور [[عقیل بن ابی طالب|عقیل]] کی جان کی قیمت خود ادا کرو۔ آپؐ سے کہا اسطرح تو عمر کے آخری لمحات تک بھیک مانگنا ہوگا۔ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا جنگ سے پہلے ام الفضل کے پاس کچھ سونا تم نے امانت رکھا ہے، لہذا فقیر نہیں ہونگے۔ ابن عباس کہتا ہے جس بات کے بارے میں کسی کو خبر نہیں تھی اس کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کو علم ہونے سے پتہ چلا کہ وہ پیغمبر اور سچے ہیں اور یوں آپؐ پر [[ایمان]] لے آیا اور بعد میں [[توحید|اللہ تعالی]] نے اس سونے کے بدلے بہت سارا مال مجھے دیا اور اللہ تعالی سے مغفرت کا طلبکار ہوں۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۸۶۰؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۴۵.</ref>
==مشہور آیات==
==مشہور آیات==
[[ملف:آرم سپاه.png|تصغیر|سورہ انفال کی 60ویں آیت کا کچھ حصہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے آرم پر]]
[[ملف:آرم سپاه.png|تصغیر|سورہ انفال کی 60ویں آیت کا کچھ حصہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے آرم پر]]
سطر 67: سطر 67:
دوسری اور تیسری آیت میں مومنوں کی پانچ صفات ذکر ہوئی ہیں، وہ صفات جن کا ہونا، تمام نیک صفات ہونے کا مستلزم ہے اور ایمان کی حقیقت کا دارا ہونے کے باعث ہے اور نفس کو تقوی، اصلاح ذات بین اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کے لئے تیار کرتی ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۹، ص۱۱.</ref> اور یہ صفات مندرجہ ذیل ہیں:
دوسری اور تیسری آیت میں مومنوں کی پانچ صفات ذکر ہوئی ہیں، وہ صفات جن کا ہونا، تمام نیک صفات ہونے کا مستلزم ہے اور ایمان کی حقیقت کا دارا ہونے کے باعث ہے اور نفس کو تقوی، اصلاح ذات بین اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کے لئے تیار کرتی ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۹، ص۱۱.</ref> اور یہ صفات مندرجہ ذیل ہیں:
* [[ذکر خدا]] کے دوران دل میں خشیت الہی
* [[ذکر خدا]] کے دوران دل میں خشیت الہی
* قرآنی آیات کو سننے کی وجہ سے ایمان زیادہ ہونا
* [[آیت|قرآنی آیات]] کو سننے کی وجہ سے ایمان زیادہ ہونا
* [[توکل]]
* [[توکل]]
* [[نماز]] قائم کرنا
* [[نماز]] قائم کرنا
سطر 98: سطر 98:
</noinclude>
</noinclude>
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
سورہ انفال کی 62ویں آیت کو آیہ نصر کہا گیا ہے۔<ref>علامہ حلی، نہج الحق، ۱۴۰۷ق، ص۱۸۵.</ref>اس آیت میں اللہ تعالی نے رسول اکرمؐ سے پریشان نہ ہونے کا کہا ہے کیونکہ اللہ تعالی کا کام ان کے لئے کافی ہے اور اپنی مدد اور مومنوں کی مدد سے ان کی تقویت کرتا ہے۔<ref>خراسانی، «آیات نامدار»، ص۴۰۵.</ref> اہل سنت کے مآخذ سے ایک روایت میں ابوہریرہ سے منقول ہوا ہے کہ عرش پر لکھا گیا ہے۔ {{عربی|«لا اله الا الله وحده و لا شریک له، محمد عبدی و رسولی و ایدته بعلی بن ابی طالب»}}.<ref>متقی ہندی، کنزالعمال، ۱۴۱۳ق، ج۱۱، ص۶۲۴.</ref> یعنی اللہ کے سوا کوئی اور اللہ نہیں وہ واحد ہے اسکا کوئی شریک نہیں، محمد میرا بندہ اور رسول ہے جس کی علی بن ابی طالب کے ذریعے تقویت کی ہے۔
سورہ انفال کی 62ویں آیت کو آیہ نصر کہا گیا ہے۔<ref>علامہ حلی، نہج الحق، ۱۴۰۷ق، ص۱۸۵.</ref>اس آیت میں اللہ تعالی نے رسول اکرمؐ سے پریشان نہ ہونے کا کہا ہے کیونکہ اللہ تعالی کا کام ان کے لئے کافی ہے اور اپنی مدد اور مومنوں کی مدد سے ان کی تقویت کرتا ہے۔<ref>خراسانی، «آیات نامدار»، ص۴۰۵.</ref> اہل سنت کے مآخذ سے ایک روایت میں ابوہریرہ سے منقول ہوا ہے کہ عرش پر لکھا گیا ہے۔ {{عربی|«لا اله الا الله وحده و لا شریک له، محمد عبدی و رسولی و ایدته بعلی بن ابی طالب»}}.<ref>متقی ہندی، کنزالعمال، ۱۴۱۳ق، ج۱۱، ص۶۲۴.</ref> یعنی اللہ کے سوا کوئی اور اللہ نہیں وہ واحد ہے اسکا کوئی شریک نہیں، محمد میرا بندہ اور رسول ہے جس کی [[امام علی علیہ السلام|علی بن ابی طالب]] کے ذریعے تقویت کی ہے۔
==آیات الاحکام==
==آیات الاحکام==
[[فقہا]] نے سورہ انفال کی بعض آیات جیسے پہلی آیت انفال کا حکم ، 11ویں آیت کو پانی کا پاک کرنے والا ہونے کا حکم، 15، 57، 60، 66 اور 67ویں آیات جہاد اور اس کے احکام کو اور 41ویں آیت کو خمس کے احکام استنباط کرنے کے لئے استفادہ کیا ہے۔ وہ آیات جس میں کوئی شرعی حکم ہو یا شرعی حکم استباط کرنے کے کام آئے تو ایسی آیات کو آیات الاحکام کہا جاتا ہے۔<ref>معینی، «آیات الاحکام»، ص۱.</ref> مندرجہ ذیل جدول میں سورہ انفال کی بعض آیات الاحکام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
[[فقہا]] نے سورہ انفال کی بعض آیات جیسے پہلی آیت انفال کا حکم ، 11ویں آیت کو پانی کا پاک کرنے والا ہونے کا حکم، 15، 57، 60، 66 اور 67ویں آیات جہاد اور اس کے احکام کو اور 41ویں آیت کو خمس کے احکام استنباط کرنے کے لئے استفادہ کیا ہے۔ وہ آیات جس میں کوئی شرعی حکم ہو یا شرعی حکم استباط کرنے کے کام آئے تو ایسی آیات کو [[آیات احکام|آیات الاحکام]] کہا جاتا ہے۔<ref>معینی، «آیات الاحکام»، ص۱.</ref> مندرجہ ذیل جدول میں سورہ انفال کی بعض آیات الاحکام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
{| class="wikitable sortable"
{| class="wikitable sortable"
|-
|-
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,099

ترامیم