مندرجات کا رخ کریں

"امام علی نقی علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 46: سطر 46:
[[شیخ مفید]] اور دوسرے محدثین کی روایت کے مطابق آپؑ [[رجب المرجب|رجب]] سنہ 254 ہجری کو [[سامرا]] میں 20 سال اور 9 مہینے تک قیام کرنے کے بعد شہید ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد ص649۔</ref> بعض مآخذ میں آپؑ کی [[شہادت]] کی تاریخ 3 [[رجب]] نقل کی گئی ہے<ref> نوبختی، فرق الشیعہ، ص134۔</ref>، جبکہ دیگر مآخذ میں یہ تاریخ  25  یا  26  [[جمادی الثانی]] بیان کی گئی ہے۔<ref>اربلی، کشف الغمہ، ج4 ص7۔</ref> اس زمانے میں تیرہواں عباسی خلیفہ [[معتز عباسی|معتز]] برسر اقتدار تھا۔
[[شیخ مفید]] اور دوسرے محدثین کی روایت کے مطابق آپؑ [[رجب المرجب|رجب]] سنہ 254 ہجری کو [[سامرا]] میں 20 سال اور 9 مہینے تک قیام کرنے کے بعد شہید ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد ص649۔</ref> بعض مآخذ میں آپؑ کی [[شہادت]] کی تاریخ 3 [[رجب]] نقل کی گئی ہے<ref> نوبختی، فرق الشیعہ، ص134۔</ref>، جبکہ دیگر مآخذ میں یہ تاریخ  25  یا  26  [[جمادی الثانی]] بیان کی گئی ہے۔<ref>اربلی، کشف الغمہ، ج4 ص7۔</ref> اس زمانے میں تیرہواں عباسی خلیفہ [[معتز عباسی|معتز]] برسر اقتدار تھا۔


آپ اپنی 34 سالہ عہد امامت میں عباسی حکمرانوں "مأمون ، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز کے ہم عصر تھے۔ معتز کے حکم پر [[معتمد عباسی]] نے  آپ کو مسموم کرکے شہید کیا [جبکہ امام حسن عسکری(ع) کا قاتل بھی معتمد ہی ہے]۔ معتمد نے معتز کے حکم پر [[امام ہادی علیہ السلام]] کو شہید کیا اور [[امام حسن عسکری علیہ السلام]] کو معتمد عباسی نے اپنے دور حکومت میں شہید کیا اور یوں شاید معتمد خلافت اسلام کے دعویداروں میں واحد حکمران ہے جس نے  دو [[ائمہ]] [[اہل بیت]] [[رسول]](ص) کو قتل  کیا ہے گوکہ بعض نے کہا ہے کہ امام ہادی علیہ السلام کا قاتل [[متوکل عباسی]] تھا۔ <ref>بحار الانوار، ج 50، ص 206۔ منتخب التواریخ، ص 705۔ منتهی الامال، ج2، ص 258۔</ref> <br />
آپ اپنی 34 سالہ عہد امامت میں عباسی حکمرانوں "مأمون ، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز کے ہم عصر تھے۔ معتز کے حکم پر [[معتمد عباسی]] نے  آپ کو مسموم کرکے شہید کیا [جبکہ امام حسن عسکریؑ کا قاتل بھی معتمد ہی ہے]۔ معتمد نے معتز کے حکم پر [[امام ہادی علیہ السلام]] کو شہید کیا اور [[امام حسن عسکری علیہ السلام]] کو معتمد عباسی نے اپنے دور حکومت میں شہید کیا اور یوں شاید معتمد خلافت اسلام کے دعویداروں میں واحد حکمران ہے جس نے  دو [[ائمہ]] [[اہل بیت]] [[رسول]]ؐ کو قتل  کیا ہے گوکہ بعض نے کہا ہے کہ امام ہادی علیہ السلام کا قاتل [[متوکل عباسی]] تھا۔ <ref>بحار الانوار، ج 50، ص 206۔ منتخب التواریخ، ص 705۔ منتهی الامال، ج2، ص 258۔</ref> <br />


تاہم متوکل کے ہاتھوں امام(ع) کی شہادت کی روایت بحار کی درج ذیل  روایت سے متصادم ہے : متوکل نے اپنے وزیر سے کہا کہ والیوں کے اجلاس کے دن [[امام ہادی]](ع) کو  پائے پیادہ اس کے پاس لایا جائے۔ وزیر نے کہا: اس سے آپ کو نقصان ہوگا لہذا اس کام کو بھول جائیں۔ یا پھر حکم دیں کہ دوسرے والی اور امراء بھی پیدل آپ کی طرف آئیں۔ متوکل مان گیا۔ امام جب دربار میں پہنچے تو موسم گرم ہونے کی وجہ پسینے میں شرابور تھے۔ عباسی دربار کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ "میں نے امام(ع) کو محل کی دہلیز میں بٹھایا اور آپ کا چہرہ مبارک تولیے سے خشک کرکے عرض کیا کہ اپنے چچا زاد بھائی [[متوکل]] نے سب کو پیدل آنے کا کہا تھا لہذا اس سے ناراض نہ ہوں۔ [[امام ہادی علیہ السلام]] نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: <font color=green>{{حدیث|'''"تَمَتَّعُواْ فِي دَارِكُمْ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ ذَلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ"'''}}</font>(ترجمہ:اپنے گھروں میں بس اب تین دن تک مزے اڑالو، یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہے)۔<ref>سورہ ہود (11) آیت 65۔ ترجمہ: علی نقی نقوی (نقن)۔</ref> میں نے اپنے ایک شیعہ دوست کو ماجرا سنایا تو اس نے کہا: اگر [[امام ہادی]](ع) نے یہ بات کہی ہے تو متوکل تین دن یا مرے گا یا قتل ہوگا چنانچہ اپنا سازوسامان دربار سے نکال دو۔ مجھے یقین نہ آیا لیکن دور اندیشی میں کوئی نقصان بھی نہ تھا چنانچہ میں نے اپنا سب کچھ اپنے گھر منتقل کیا اور تین دن بعد رات کے وقت مارا گیا اور میرا سرمایہ بچ گیا اور میں امام ہادی(ع) کی خدمت میں پہنچا اور آپ کی ولایت صادقہ کو تسلیم کر کے شیعیان اہل بیت(ع) میں سے ہو  گیا۔<ref>محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 50، ص 147، شماره 32۔</ref>
تاہم متوکل کے ہاتھوں امامؑ کی شہادت کی روایت بحار کی درج ذیل  روایت سے متصادم ہے : متوکل نے اپنے وزیر سے کہا کہ والیوں کے اجلاس کے دن [[امام ہادی]]ؑ کو  پائے پیادہ اس کے پاس لایا جائے۔ وزیر نے کہا: اس سے آپ کو نقصان ہوگا لہذا اس کام کو بھول جائیں۔ یا پھر حکم دیں کہ دوسرے والی اور امراء بھی پیدل آپ کی طرف آئیں۔ متوکل مان گیا۔ امام جب دربار میں پہنچے تو موسم گرم ہونے کی وجہ پسینے میں شرابور تھے۔ عباسی دربار کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ "میں نے امامؑ کو محل کی دہلیز میں بٹھایا اور آپ کا چہرہ مبارک تولیے سے خشک کرکے عرض کیا کہ اپنے چچا زاد بھائی [[متوکل]] نے سب کو پیدل آنے کا کہا تھا لہذا اس سے ناراض نہ ہوں۔ [[امام ہادی علیہ السلام]] نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: <font color=green>{{حدیث|'''"تَمَتَّعُواْ فِي دَارِكُمْ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ ذَلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ"'''}}</font>(ترجمہ:اپنے گھروں میں بس اب تین دن تک مزے اڑالو، یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہے)۔<ref>سورہ ہود (11) آیت 65۔ ترجمہ: علی نقی نقوی (نقن)۔</ref> میں نے اپنے ایک شیعہ دوست کو ماجرا سنایا تو اس نے کہا: اگر [[امام ہادی]]ؑ نے یہ بات کہی ہے تو متوکل تین دن یا مرے گا یا قتل ہوگا چنانچہ اپنا سازوسامان دربار سے نکال دو۔ مجھے یقین نہ آیا لیکن دور اندیشی میں کوئی نقصان بھی نہ تھا چنانچہ میں نے اپنا سب کچھ اپنے گھر منتقل کیا اور تین دن بعد رات کے وقت مارا گیا اور میرا سرمایہ بچ گیا اور میں امام ہادیؑ کی خدمت میں پہنچا اور آپ کی ولایت صادقہ کو تسلیم کر کے شیعیان اہل بیتؑ میں سے ہو  گیا۔<ref>محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 50، ص 147، شماره 32۔</ref>


== زوجہ اور اولاد ==
== زوجہ اور اولاد ==
سطر 83: سطر 83:


=== دلائل امامت ===
=== دلائل امامت ===
[[طبرسی]] اور [[ابن شہر آشوب]] کے مطابق، امام ہادی علیہ السلام  کی امامت پر [[شیعہ|شیعیان آل رسول(ص)]] کا اتفاق رائے آپؑ کی امامت کی محکم اور ناقابل انکار دلیل ہے۔<ref>مسند الامام الہادی علیہ السلام، ص 20 ۔</ref> ان سب کے ساتھ،  [[کلینی]] اور ديگر محدثین نے آپؑ کی امامت کے لئے دوسری نصوص اور دلائل کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
[[طبرسی]] اور [[ابن شہر آشوب]] کے مطابق، امام ہادی علیہ السلام  کی امامت پر [[شیعہ|شیعیان آل رسولؐ]] کا اتفاق رائے آپؑ کی امامت کی محکم اور ناقابل انکار دلیل ہے۔<ref>مسند الامام الہادی علیہ السلام، ص 20 ۔</ref> ان سب کے ساتھ،  [[کلینی]] اور ديگر محدثین نے آپؑ کی امامت کے لئے دوسری نصوص اور دلائل کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔


[[روایات]] کے مطابق [[معتصم عباسی|معتصم]] نے [[امام جواد]]ؑ کو [[بغداد]] بلوایا تو آپؑ نے اس بلاوے کو اپنی جان کے لئے خطرہ اور عباسی خلیفہ کی طرف سے دھمکی، قرار دیا چنانچہ آپؑ نے امام ہادی علیہ السلام کو [[شیعہ|شیعیان اہل بیت]] کے درمیان اپنے جانشین کے طور پر پہچنوایا۔<ref>کلینی، کافی، ج1 ص381۔</ref> حتی کہ آپؑ نے ایک نصِّ مکتوب بھی [[مدینہ]] میں چھوڑ دی تا کہ اس سلسلے میں کوئی شک وشبہہ باقی نہ رہے۔<ref>کلینی، کافی، ج1 ص382۔</ref>  
[[روایات]] کے مطابق [[معتصم عباسی|معتصم]] نے [[امام جواد]]ؑ کو [[بغداد]] بلوایا تو آپؑ نے اس بلاوے کو اپنی جان کے لئے خطرہ اور عباسی خلیفہ کی طرف سے دھمکی، قرار دیا چنانچہ آپؑ نے امام ہادی علیہ السلام کو [[شیعہ|شیعیان اہل بیت]] کے درمیان اپنے جانشین کے طور پر پہچنوایا۔<ref>کلینی، کافی، ج1 ص381۔</ref> حتی کہ آپؑ نے ایک نصِّ مکتوب بھی [[مدینہ]] میں چھوڑ دی تا کہ اس سلسلے میں کوئی شک وشبہہ باقی نہ رہے۔<ref>کلینی، کافی، ج1 ص382۔</ref>  


اس کے علاوہ [[رسول اللہ]](ص) سے متعدد [[حدیث|احادیث]] منقول ہیں جن میں 12 [[ائمۂ شیعہ]] کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ [[حدیث|احادیث]] امام علی نقی الہادی علیہ السلام سمیت 12 آئمہؑ کی [[امامت]] و [[خلافت]] و [[ولایت]] کی تائید کرتی ہیں۔<ref>مفید، الاختصاص، ص211۔</ref>۔<ref>صافی، شیخ لطف اللہ، منتخب الاثر باب ہشتم ص97۔</ref>۔<ref>طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181۔</ref>۔<ref>عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص285۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]] کہتے ہیں کہ [[سورہ نساء]] کی آیت 59 ([[آیت اولو الامر]]) یعنی (<font color=green , font size=3px>{{حدیث|"اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم"}}</font>) نازل ہوئی تو [[رسول اللہ(ص)]] نے 12 آئمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں؛<ref>بحارالأنوار ج23 ص290۔</ref>۔<ref>اثبات الہداة ج3،‌ ص123۔</ref>۔<ref>ابن شہر آشوب، المناقب ج1، ص283۔</ref> [[امام علیؑ]] سے روایت ہے کہ [[ام سلمہ]] کے گھر میں [[سورہ احزاب]] کی آیت 33 ([[آیت تطہیر]]) یعنی (<font color=green , font size=3px>{{حدیث|"انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا"}}</font>) نازل ہوئی تو [[رسول اللہ(ص)|پیغمبر]] نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛<ref>مجلسی، بحارالأنوار ج36 ص337۔</ref>۔<ref>علی بن محمد خزاز قمى، كفايۃ الأثر في النص على الأئمۃ الإثنی عشر، ص157۔</ref> [[ابن عباس]] سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے [[رسول اللہ(ص)]] کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپ(ص) نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔<ref>سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، ج2، ص387 – 392، باب 76۔</ref>
اس کے علاوہ [[رسول اللہؐ]] سے متعدد [[حدیث|احادیث]] منقول ہیں جن میں 12 [[ائمۂ شیعہ]] کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ [[حدیث|احادیث]] امام علی نقی الہادی علیہ السلام سمیت 12 آئمہؑ کی [[امامت]] و [[خلافت]] و [[ولایت]] کی تائید کرتی ہیں۔<ref>مفید، الاختصاص، ص211۔</ref>۔<ref>صافی، شیخ لطف اللہ، منتخب الاثر باب ہشتم ص97۔</ref>۔<ref>طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181۔</ref>۔<ref>عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص285۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]] کہتے ہیں کہ [[سورہ نساء]] کی آیت 59 ([[آیت اولو الامر]]) یعنی (<font color=green , font size=3px>{{حدیث|"اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم"}}</font>) نازل ہوئی تو [[رسول اللہؐ]] نے 12 آئمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں؛<ref>بحارالأنوار ج23 ص290۔</ref>۔<ref>اثبات الہداة ج3،‌ ص123۔</ref>۔<ref>ابن شہر آشوب، المناقب ج1، ص283۔</ref> [[امام علیؑ]] سے روایت ہے کہ [[ام سلمہ]] کے گھر میں [[سورہ احزاب]] کی آیت 33 ([[آیت تطہیر]]) یعنی (<font color=green , font size=3px>{{حدیث|"انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا"}}</font>) نازل ہوئی تو [[رسول اللہؐ|پیغمبر]] نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛<ref>مجلسی، بحارالأنوار ج36 ص337۔</ref>۔<ref>علی بن محمد خزاز قمى، كفايۃ الأثر في النص على الأئمۃ الإثنی عشر، ص157۔</ref> [[ابن عباس]] سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے [[رسول اللہؐ]] کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔<ref>سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، ج2، ص387 – 392، باب 76۔</ref>


=== ہم عصر عباسی خلفاء ===
=== ہم عصر عباسی خلفاء ===
سطر 149: سطر 149:
  |sstyle =
  |sstyle =
}}
}}
[[متوکل]] نے سنہ 233 ہجری میں امامؑ کو [[مدینہ]] سے [[سامرا]] طلب کیا۔ [[ابن جوزی]] نے [[اہل بیت|خاندان رسالت(ص)]] کے دشمنوں کی طرف سے متوکل کے ہاں امامؑ کی بدگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: متوکل نے بدگمانیوں پر مبنی  خبروں کی بنیاد پر ـ جو امامؑ کی طرف عوام کے رجحان و میلان پر مبنی تھیں ـ امام ہادیؑ کو [[سامرا]] طلب کیا۔<ref>ابن جوزی، تذکرة الخواص، ج2 ص493۔</ref>
[[متوکل]] نے سنہ 233 ہجری میں امامؑ کو [[مدینہ]] سے [[سامرا]] طلب کیا۔ [[ابن جوزی]] نے [[اہل بیت|خاندان رسالتؐ]] کے دشمنوں کی طرف سے متوکل کے ہاں امامؑ کی بدگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: متوکل نے بدگمانیوں پر مبنی  خبروں کی بنیاد پر ـ جو امامؑ کی طرف عوام کے رجحان و میلان پر مبنی تھیں ـ امام ہادیؑ کو [[سامرا]] طلب کیا۔<ref>ابن جوزی، تذکرة الخواص، ج2 ص493۔</ref>


[[شیخ مفید]] لکھتے ہیں: امام ہادیؑ نے متوکل کو ایک خط کے ضمن میں بدخواہوں کی شکایات اور بدگوئیوں کی تردید کی اور متوکل نے جواب میں احترام آمیز انداز اپنا کر ایک خط لکھا اور آپؑ کو [[سامرا]] آنے کی دعوت دی۔<ref>مفید، الارشاد ص644۔</ref> [[کلینی]] نیز [[شیخ مفید]] نے متوکل کے خط کا متن بھی نقل کیا ہے۔
[[شیخ مفید]] لکھتے ہیں: امام ہادیؑ نے متوکل کو ایک خط کے ضمن میں بدخواہوں کی شکایات اور بدگوئیوں کی تردید کی اور متوکل نے جواب میں احترام آمیز انداز اپنا کر ایک خط لکھا اور آپؑ کو [[سامرا]] آنے کی دعوت دی۔<ref>مفید، الارشاد ص644۔</ref> [[کلینی]] نیز [[شیخ مفید]] نے متوکل کے خط کا متن بھی نقل کیا ہے۔
سطر 190: سطر 190:


==اسلامی معارف کی تشریح==
==اسلامی معارف کی تشریح==
یہ وہ زمانہ تھا جب [[رسول اللہ]](ص) کی [[بعثت]] کے اہداف و مقاصد اور امامؑ کا ہم عصر معاشرے اور حکمرانوں کے درمیان بڑا فاصلہ حائل ہوچکا تھا اور آپؑ عباسی گھٹن کے اس دور میں [[رسول اللہ]](ص) کے اہداف کے لئے کوشش کر رہے تھے اور اللہ کی عنایت خاصہ سے اس عجیب طوفان اور مبہم صورت حال میں کشتی ہدایت کو ساحل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور آپ نے  ہدایت و ارشاد اور ابلاغ و تبلیغ کے عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر اسلامی معارف و تعلیمات کی نشر و اشاعت میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مختلف روشوں اور مختلف فرقے اسلامی معاشرے کو گمراہ کرنے میں مصروف تھے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ گویا [[امامت]] کا نظام مغلوب ہوچکا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر آج امام ہادیؑ کے گرانقدر آثار ہمارے درمیان موجود ہیں تو یہ اس تصور کے بطلان کی دلیل ہے۔ جو روشیں امامؑ اس دور میں تبلیغ [[اسلام]] کی راہ میں بروئے کار لارہے تھے وہ بالکل منفرد اور اپنی مثال آپ تھیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب [[رسول اللہ]]ؐ کی [[بعثت]] کے اہداف و مقاصد اور امامؑ کا ہم عصر معاشرے اور حکمرانوں کے درمیان بڑا فاصلہ حائل ہوچکا تھا اور آپؑ عباسی گھٹن کے اس دور میں [[رسول اللہ]]ؐ کے اہداف کے لئے کوشش کر رہے تھے اور اللہ کی عنایت خاصہ سے اس عجیب طوفان اور مبہم صورت حال میں کشتی ہدایت کو ساحل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور آپ نے  ہدایت و ارشاد اور ابلاغ و تبلیغ کے عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر اسلامی معارف و تعلیمات کی نشر و اشاعت میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مختلف روشوں اور مختلف فرقے اسلامی معاشرے کو گمراہ کرنے میں مصروف تھے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ گویا [[امامت]] کا نظام مغلوب ہوچکا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر آج امام ہادیؑ کے گرانقدر آثار ہمارے درمیان موجود ہیں تو یہ اس تصور کے بطلان کی دلیل ہے۔ جو روشیں امامؑ اس دور میں تبلیغ [[اسلام]] کی راہ میں بروئے کار لارہے تھے وہ بالکل منفرد اور اپنی مثال آپ تھیں۔


===  قرآن کی بنیادی حیثیت ===
===  قرآن کی بنیادی حیثیت ===
سطر 440: سطر 440:
* الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن اسحاق، الكافي، صححه وقابلہ وعلق عليہ على اكبر الغفاري، دار الكتب الاسلاميہ ـتہران، طبع سوم، بہار 1367ہجری شمسی.
* الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن اسحاق، الكافي، صححه وقابلہ وعلق عليہ على اكبر الغفاري، دار الكتب الاسلاميہ ـتہران، طبع سوم، بہار 1367ہجری شمسی.
* الديلمي، الشيخ الحسن بن أبي الحسن، أعلام الدين في صفات المؤمنين، المحقق: موسسہ آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث ـ قم.
* الديلمي، الشيخ الحسن بن أبي الحسن، أعلام الدين في صفات المؤمنين، المحقق: موسسہ آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث ـ قم.
* ابن شعبہ الحرانى، حسن بن على، "تحف العقول عن آل الرسول(ص)"،تصحيح و تعليق، على اكبر الغفاري، جماعہ المدرسين بقم المشرفة (ايران)، الطبعہ الثانيہ 1363ہجری شمسی/1404ہجری قمری.
* ابن شعبہ الحرانى، حسن بن على، "تحف العقول عن آل الرسولؐ"،تصحيح و تعليق، على اكبر الغفاري، جماعہ المدرسين بقم المشرفة (ايران)، الطبعہ الثانيہ 1363ہجری شمسی/1404ہجری قمری.
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم