مندرجات کا رخ کریں

"احادیث طینت" کے نسخوں کے درمیان فرق

358 بائٹ کا ازالہ ،  گزشتہ کل بوقت 23:59
عدد انگلیسی
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(عدد انگلیسی)
سطر 21: سطر 21:


==اہمیت اور پس منظر==
==اہمیت اور پس منظر==
احادیث طینیت ان روایات کا مجموعہ ہیں جو انسانی تخلیق کے بنیادی مادے کی یکسانیت کی نفی کرتی ہیں۔ ان احادیث میں طینت علیین نامی خوش بودار اور خوشگوار مادے سے [[مومن]] کی تخلیق اور بدبودار اور ناگوار مادے سے [[کافر]] کی تخلیق کا ذکر ملتا ہے۔<ref>رضوانی و ذاکری، «روایات طینت و اختیار انسان»، ص۴۷-۴۸.</ref> ان احادیث کے مضامین میں انسانی مادہ تخلیق کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ بعض میں نور و ظلمت اور بعض میں [[بہشت]] و [[جہنم]] کا ذکر ملتا ہے۔ شیعہ حدیثی کتب میں سے [[المحاسن (کتاب)|المحاسن]]،<ref>برقی، المحاسن، ۱۳۷۱ھ، ج۱، ص۱۳۲-۱۳۵ و ۲۸۲-۲۸۳.</ref> [[بصائر الدرجات (کتاب)|بصائر الدرجات]]،<ref>صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۱۴-۱۸ و ۱۷۱.</ref> [[الکافی (کتاب)|الکافی]]،<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۲-۷.</ref> [[علل الشرائع (کتاب)|علل الشرایع]]<ref>صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ھ، ج۱، ص۸۲-۸۴ و۱۱۶-۱۱۷.</ref> اور [[بحار الانوار (کتاب)|بحار الانوار]]<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۵، ۱۵۲-۱۶۱.</ref> میں مختلف تعبیریں استعمال ہوئی ہیں۔ [[اہل سنت]] کے بعض منابع حدیثی میں بھی احادیث طینت کو نقل کیا گیا ہے۔<ref>طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ھ، ج۳، ص۱۵۰؛ ابن ابی‌ حاتم، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ھ، ج۲، ص۶۲۷؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ھ، ج۲، ص۱۵.</ref>  
احادیث طینیت ان روایات کا مجموعہ ہیں جو انسانی تخلیق کے بنیادی مادے کی یکسانیت کی نفی کرتی ہیں۔ ان احادیث میں طینت علیین نامی خوش بودار اور خوشگوار مادے سے [[مومن]] کی تخلیق اور بدبودار اور ناگوار مادے سے [[کافر]] کی تخلیق کا ذکر ملتا ہے۔<ref>رضوانی و ذاکری، «روایات طینت و اختیار انسان»، ص47-48۔</ref> ان احادیث کے مضامین میں انسانی مادہ تخلیق کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ بعض میں نور و ظلمت اور بعض میں [[بہشت]] و [[جہنم]] کا ذکر ملتا ہے۔ شیعہ حدیثی کتب میں سے [[المحاسن (کتاب)|المحاسن]]،<ref>برقی، المحاسن، 1371ھ، ج1، ص132-135 و 282-283۔</ref> [[بصائر الدرجات (کتاب)|بصائر الدرجات]]،<ref>صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص14-18 و 171۔</ref> [[الکافی (کتاب)|الکافی]]،<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص2-</ref> [[علل الشرائع (کتاب)|علل الشرایع]]<ref>صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج1، ص82-84 و116-117۔</ref> اور [[بحار الانوار (کتاب)|بحار الانوار]]<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج5، 152-161۔</ref> میں مختلف تعبیریں استعمال ہوئی ہیں۔ [[اہل سنت]] کے بعض منابع حدیثی میں بھی احادیث طینت کو نقل کیا گیا ہے۔<ref>طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج3، ص150؛ ابن ابی‌ حاتم، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج2، ص627؛ سیوطی، الدر المنثور، 1404ھ، ج2، ص15۔</ref>  


احادیث طینت میں بنیادی طور پر اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانوں کے لیے پہلے سے طے شدہ تقدیر وسرنوشت موجود ہے۔ یہ مطلب ان [[آیات]] اور [[روایات]] کے خلاف سمجھا جاتا ہے جو انسانوں کی تقدیر کو ان کے اعمال کا نتیجہ سمجھتی ہیں۔<ref>محمودی و حسینی،‌ «دیدگاہ علامہ طباطبایی پیرامون احادیث طینت در تبیین شعادت و شقاوت انسان»، ص۷۸.</ref> جیسا کہ سب سے پہلے یہ چیز بیان کی گئی ہے کہ مذکورہ احادیث کا بظاہر نظریہ جبر واختیار اور[[عدل الہی]] کے ساتھ تضاد پایا جاتا ہے۔<ref>شبر، مصابیح الانوار، ۱۳۷۱شمسی، ج۱، ص۳۵.</ref> چنانکہ اسی تضاد اور عدم مطابقت نے اس مسئلے کو درایۃ الاحادیث میں مشکل ترین موضوعات میں شمار کیا ہے۔<ref>امام خمینی، مصباح الہدایہ، ۱۳۷۳شمسی، ص۱۱۰.</ref>
احادیث طینت میں بنیادی طور پر اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانوں کے لیے پہلے سے طے شدہ تقدیر وسرنوشت موجود ہے۔ یہ مطلب ان [[آیات]] اور [[روایات]] کے خلاف سمجھا جاتا ہے جو انسانوں کی تقدیر کو ان کے اعمال کا نتیجہ سمجھتی ہیں۔<ref>محمودی و حسینی،‌ «دیدگاہ علامہ طباطبایی پیرامون احادیث طینت در تبیین شعادت و شقاوت انسان»، ص78۔</ref> جیسا کہ سب سے پہلے یہ چیز بیان کی گئی ہے کہ مذکورہ احادیث کا بظاہر نظریہ جبر واختیار اور[[عدل الہی]] کے ساتھ تضاد پایا جاتا ہے۔<ref>شبر، مصابیح الانوار، 1371شمسی، ج1، ص35۔</ref> چنانکہ اسی تضاد اور عدم مطابقت نے اس مسئلے کو درایۃ الاحادیث میں مشکل ترین موضوعات میں شمار کیا ہے۔<ref>امام خمینی، مصباح الہدایہ، 1373شمسی، ص110۔</ref>


احادیث طینت پر بحث کرنے والے اکثر علماء نے سب سے پہلے طینت کے معنی بیان کیے ہیں؛ آقا جمال خوانساری اپنی شرح احادیث طینت میں لکھتے ہیں کہ طینت سے مراد وہ جوہر ہے جس سے انسانی نفس کی تخلیق ہوئی ہے۔<ref>آقا جمال خوانساری، شرح احادیث طینت، ۱۳۵۹شمسی، ص۱۷.</ref> [[امام خمینی]] کے مطابق طینت، انسانی خلقت کا وہ اہم مادّہ ہے جو انسانی زندگی میں ان کے اعمال و رفتار میں متجلی ہوتا ہے۔<ref>امام خمینی، طلب و ارادہ، ۱۳۶۲شمسی، ص۱۶۰.</ref>
احادیث طینت پر بحث کرنے والے اکثر علماء نے سب سے پہلے طینت کے معنی بیان کیے ہیں؛ آقا جمال خوانساری اپنی شرح احادیث طینت میں لکھتے ہیں کہ طینت سے مراد وہ جوہر ہے جس سے انسانی نفس کی تخلیق ہوئی ہے۔<ref>آقا جمال خوانساری، شرح احادیث طینت، 1359شمسی، ص17۔</ref> [[امام خمینی]] کے مطابق طینت، انسانی خلقت کا وہ اہم مادّہ ہے جو انسانی زندگی میں ان کے اعمال و رفتار میں متجلی ہوتا ہے۔<ref>امام خمینی، طلب و ارادہ، 1362شمسی، ص160۔</ref>


==حدیث کے مندرجات==
==حدیث کے مندرجات==
سطر 38: سطر 38:
*تیسری قسم فکری پسماندہ لوگوں کی طینت ہے جن کو ’’تراب‘‘ سے پیدا کیا گیا ہے۔
*تیسری قسم فکری پسماندہ لوگوں کی طینت ہے جن کو ’’تراب‘‘ سے پیدا کیا گیا ہے۔


ان [[روایات]] کے مطابق [[ائمہ معصومینؑ]] اور [[شیعوں]] کی ایک ہی طینت ہونے کی وجہ سے ان کے دل ائمہؑ کی طرف مائل ہوتے ہیں اور کافروں کے دل [[اہل بیتؑ]] کے دشمنوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔<ref>رضوانی و ذاکری، «روایات طینت و اختیار انسان»، ص۴۷-۴۸؛ غلامی و ذاکری، «طینت و عدل الہی»، ص۱۱۲-۱۱۴.</ref>  
ان [[روایات]] کے مطابق [[ائمہ معصومینؑ]] اور [[شیعوں]] کی ایک ہی طینت ہونے کی وجہ سے ان کے دل ائمہؑ کی طرف مائل ہوتے ہیں اور کافروں کے دل [[اہل بیتؑ]] کے دشمنوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔<ref>رضوانی و ذاکری، «روایات طینت و اختیار انسان»، ص47-48؛ غلامی و ذاکری، «طینت و عدل الہی»، ص112-114۔</ref>  


'''مومنوں اور کافروں کی مخلوط طینت''': احادیث طینت کا ایک اور گروہ مومنوں اور کافروں کی مخلوط طینت پر دلالت کرتا ہے۔ ان روایات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے طینت علیین اور طینت سجین کو پیدا کرنے کے بعد ان دونوں کو آپس میں مخلوط کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مومن کبھی [[گناہ]] کرتا ہے اور کافر کبھی نیک کام کرتا ہے اور اسی بنا پر آخر کار مومن کی تمام برائیاں کافروں کے اعمال کی طرف پلٹ جاتی ہیں اور کافر کی تمام نیکیاں مؤمن کے اعمال کی طرف پلٹ جاتی ہیں۔<ref>کریمی و داوری، «تحلیل احادیث طینت از منظر فقہ الحدیث»، ص۶۷-۶۸.</ref>
'''مومنوں اور کافروں کی مخلوط طینت''': احادیث طینت کا ایک اور گروہ مومنوں اور کافروں کی مخلوط طینت پر دلالت کرتا ہے۔ ان روایات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے طینت علیین اور طینت سجین کو پیدا کرنے کے بعد ان دونوں کو آپس میں مخلوط کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مومن کبھی [[گناہ]] کرتا ہے اور کافر کبھی نیک کام کرتا ہے اور اسی بنا پر آخر کار مومن کی تمام برائیاں کافروں کے اعمال کی طرف پلٹ جاتی ہیں اور کافر کی تمام نیکیاں مؤمن کے اعمال کی طرف پلٹ جاتی ہیں۔<ref>کریمی و داوری، «تحلیل احادیث طینت از منظر فقہ الحدیث»، ص67-68۔</ref>


'''اصحاب یمین اور اصحاب شمال''': طینت کے مسئلہ میں اور بھی روایات موجود ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ اصحابِ یمین اور اصحابِ شمال کو ابتدائی طینت سے نکالا گیا ہے۔ اس بنا پر خدا نے طینت آدم کی تخلیق کے بعد اصحابِ یمین اور اصحابِ شمال کو اس طینت سے ذرات کی شکل میں نکال کر آگ میں داخل ہونے کا حکم دیا جسے اصحابِ یمین نے قبول کر کے اپنے آپ کو آگ میں ڈال دیا، لیکن اصحاب شمال نے نافرمانی کی۔<ref>رضوانی و ذاکری، «روایات طینت و اختیار انسان»، ص۴۹-۵۲.</ref>
'''اصحاب یمین اور اصحاب شمال''': طینت کے مسئلہ میں اور بھی روایات موجود ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ اصحابِ یمین اور اصحابِ شمال کو ابتدائی طینت سے نکالا گیا ہے۔ اس بنا پر خدا نے طینت آدم کی تخلیق کے بعد اصحابِ یمین اور اصحابِ شمال کو اس طینت سے ذرات کی شکل میں نکال کر آگ میں داخل ہونے کا حکم دیا جسے اصحابِ یمین نے قبول کر کے اپنے آپ کو آگ میں ڈال دیا، لیکن اصحاب شمال نے نافرمانی کی۔<ref>رضوانی و ذاکری، «روایات طینت و اختیار انسان»، ص49-52۔</ref>


ان روایات میں لوگوں کے ایمان و کفر یا انسانوں کی اطاعت و نافرمانی کی تشکیل میں انسان کی طینت کو کارگر قرار دیا گیا ہے اور مرتبہ طینت میں مکلف قرار پانے اور ان کے امتحان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ نیز امتحان الہی میں اطاعت اصحابِ یمین اور عصیان اصحابِ شمال کا ذکر بھی آیا ہے۔ مخلوقات سے خدا کی ربوبیت، [[رسول خدا(ص)]] کی [[نبوت]] اور اہل بیتؑ کی [[ولایت]] کا عہد لیا جانا ان روایات میں مندرج دیگر موضوعات میں سے ہیں۔<ref>غلامی و ذاکری، «طینت و عدل الہی»، ص۱۱۲-۱۱۴.</ref>
ان روایات میں لوگوں کے ایمان و کفر یا انسانوں کی اطاعت و نافرمانی کی تشکیل میں انسان کی طینت کو کارگر قرار دیا گیا ہے اور مرتبہ طینت میں مکلف قرار پانے اور ان کے امتحان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ نیز امتحان الہی میں اطاعت اصحابِ یمین اور عصیان اصحابِ شمال کا ذکر بھی آیا ہے۔ مخلوقات سے خدا کی ربوبیت، [[رسول خدا(ص)]] کی [[نبوت]] اور اہل بیتؑ کی [[ولایت]] کا عہد لیا جانا ان روایات میں مندرج دیگر موضوعات میں سے ہیں۔<ref>غلامی و ذاکری، «طینت و عدل الہی»، ص112-114۔</ref>


==احادیث کا سلسلہ سند اور اعتبار==
==احادیث کا سلسلہ سند اور اعتبار==
احادیث طینت کے سلسلہ سند اور اعتبار کے سلسلے میں مشہور رائے یہ ہے کہ یہ احادیث متواتر اور معتبر ہیں، البتہ سید مرتضی اور [[ابو الحسن شعرانی]] جیسے علماء نے مذکورہ احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے:
احادیث طینت کے سلسلہ سند اور اعتبار کے سلسلے میں مشہور رائے یہ ہے کہ یہ احادیث متواتر اور معتبر ہیں، البتہ سید مرتضی اور [[ابو الحسن شعرانی]] جیسے علماء نے مذکورہ احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے:


*مشہور شیعہ علماء جن میں [[شیخ حر عاملی]]، [[محدث جزائری]]، [[علامہ شبر]]، آقا جمال خوانساری شامل ہیں، احادیث طینت کو متواتر سمجھتے ہیں۔<ref>فدایی و موسوی، «تحلیل احادیث طینت و رابطہ آن با اختیار انسان»، ص۹۴-۹۵.</ref> شیخ حر عاملی احادیث طینت کی کثرت کو [[تواتر]] کی حد سے تجاوز کرنے کا سبب سمجھتے ہیں۔<ref>حر عاملی، الفصول المہمہ، ۱۴۱۸ھ، ج۱،‌ ص۴۲۰.</ref> محدث جزائری نے ان احادیث کو ضعیف سمجھنے والوں کے جواب میں کہا ہے کہ ہمارے [[فقہاء]] نے ان احادیث کو بہت سی سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے، اس لیے ان کے رد و انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔<ref>جزایری، الانوار النعمانیہ، ۱۴۲۹ھ، ج۱، ص۲۱۲.</ref>
*مشہور شیعہ علماء جن میں [[شیخ حر عاملی]]، [[محدث جزائری]]، [[علامہ شبر]]، آقا جمال خوانساری شامل ہیں، احادیث طینت کو متواتر سمجھتے ہیں۔<ref>فدایی و موسوی، «تحلیل احادیث طینت و رابطہ آن با اختیار انسان»، ص94-95۔</ref> شیخ حر عاملی احادیث طینت کی کثرت کو [[تواتر]] کی حد سے تجاوز کرنے کا سبب سمجھتے ہیں۔<ref>حر عاملی، الفصول المہمہ، 1418ھ، ج1،‌ ص420۔</ref> محدث جزائری نے ان احادیث کو ضعیف سمجھنے والوں کے جواب میں کہا ہے کہ ہمارے [[فقہاء]] نے ان احادیث کو بہت سی سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے، اس لیے ان کے رد و انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔<ref>جزایری، الانوار النعمانیہ، 1429ھ، ج1، ص212۔</ref>


*سید مرتضیٰ اور ابو الحسن شعرانی<ref>جزایری، الانوار النعمانیہ، ۱۴۲۹ھ، ج۱، ص۲۱۲.</ref> جیسے علماء ان روایات کے سلسلہ سند کو اس لیے ضعیف سمجھتے ہیں کہ یہ احادیث [[خبرواحد|خبر واحد]] ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مذکورہ روایات چونکہ مسلمہ عقلی مباحث اور [[آیات|آیات قرآنی]] کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں لہذا ان کو رد کیا جانا چاہیے۔<ref>صالح مازندرانی، شرح اصول کافی، ۱۳۸۲شمسی، ج۴، ص۸؛ شبر، مصابیح الانوار، ج۱، ص۱۱.</ref>
*سید مرتضیٰ اور ابو الحسن شعرانی<ref>جزایری، الانوار النعمانیہ، 1429ھ، ج1، ص212۔</ref> جیسے علماء ان روایات کے سلسلہ سند کو اس لیے ضعیف سمجھتے ہیں کہ یہ احادیث [[خبرواحد|خبر واحد]] ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مذکورہ روایات چونکہ مسلمہ عقلی مباحث اور [[آیات|آیات قرآنی]] کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں لہذا ان کو رد کیا جانا چاہیے۔<ref>صالح مازندرانی، شرح اصول کافی، 1382شمسی، ج4، ص8؛ شبر، مصابیح الانوار، ج1، ص11۔</ref>


==نظریات: مکمل مسترد کرنے سے لیکر تأویلی قبول کرنے تک==
==نظریات: مکمل مسترد کرنے سے لیکر تأویلی قبول کرنے تک==
علمائے حدیث اور شیعہ علماء نے ان احادیث کو رد کرنے یا قبول کرنے اور ان روایات کو دیگر دینی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کے بارے میں متعدد نظریات اپنائے ہیں؛ [[علامہ مجلسی]] نے [[مرآۃ العقول]]<ref>مجلسی، مراۃ العقول، ۱۴۰۴، ج۷، ص۱۵.</ref> میں پانچ قول نقل کیے ہیں اور [[سید عبد اللہ شبر]] نے [[مصابیح الانوار]]<ref>شبر، مصابیح الانوار، ۱۳۷۱شمسی، ج۱، ص۳۵-۳۹.</ref> میں نو قول نقل کیے ہیں۔ مذکورہ روایات کے رد کرنے، ان کے سلسلے میں سکوت اختیار کرنے اور نظریہ تاویل جیسے تین عمومی اقسام موجود ہیں:
علمائے حدیث اور شیعہ علماء نے ان احادیث کو رد کرنے یا قبول کرنے اور ان روایات کو دیگر دینی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کے بارے میں متعدد نظریات اپنائے ہیں؛ [[علامہ مجلسی]] نے [[مرآۃ العقول]]<ref>مجلسی، مراۃ العقول، 1404، ج7، ص15۔</ref> میں پانچ قول نقل کیے ہیں اور [[سید عبد اللہ شبر]] نے [[مصابیح الانوار]]<ref>شبر، مصابیح الانوار، 1371شمسی، ج1، ص35-39۔</ref> میں نو قول نقل کیے ہیں۔ مذکورہ روایات کے رد کرنے، ان کے سلسلے میں سکوت اختیار کرنے اور نظریہ تاویل جیسے تین عمومی اقسام موجود ہیں:


===تاویلی نظریات===
===تاویلی نظریات===
بہت سے شیعہ علماء نے احادیث طینت کے صدورکو قبول کرتے ہوئے ان احادیث کا عرفانی، فلسفیانہ اور کلامی تجزیے اور تفسیر کی ہے۔<ref> غلامی و ذاکری، «طینت و عدل الہی»، ص۱۱۶.</ref> بعض تاویلی نظریات یہ ہیں:
بہت سے شیعہ علماء نے احادیث طینت کے صدورکو قبول کرتے ہوئے ان احادیث کا عرفانی، فلسفیانہ اور کلامی تجزیے اور تفسیر کی ہے۔<ref> غلامی و ذاکری، «طینت و عدل الہی»، ص116۔</ref> بعض تاویلی نظریات یہ ہیں:


*علم الٰہی سے استناد: اس نظریے کے مطابق اختلافِ طینت ایمان اور کفر کے تابع ہے، اس کے برعکس نہیں؛ کیونکہ خدا اپنے علم کے مطابق جانتا ہے کہ کون ایمان لائے گا اور کون کافر ہوگا، اس لیے اس نے ان کی خلقت میں ان کے ساتھ اسی طرح برتاؤ کیا اور طالب خیر کو پاک طینت سے اور طالب شر کو ناپاک طینت سے خلق کیا ہے۔ ملا صالح مازندرانی اور سید عبد اللہ شبر اسی نظریے کے قائل ہیں۔<ref>مازندرانی، شرح اصول کافی، ۱۳۸۲ھ، ج۸، ص۵؛ شبر، مصابیح الانوار، ص۳۸.</ref> حسن بن سلیمان حلی کے مطابق، انسانوں کے مستقبل کے بارے میں خدا کے علم کی وجہ سے اس نے انہیں مختلف نوعیتوں کی بنیاد پر تخلیق کیا۔<ref>حلی، مختصر البصائر، ۱۴۲۱ھ، ص۳۸۴.</ref>
*علم الٰہی سے استناد: اس نظریے کے مطابق اختلافِ طینت ایمان اور کفر کے تابع ہے، اس کے برعکس نہیں؛ کیونکہ خدا اپنے علم کے مطابق جانتا ہے کہ کون ایمان لائے گا اور کون کافر ہوگا، اس لیے اس نے ان کی خلقت میں ان کے ساتھ اسی طرح برتاؤ کیا اور طالب خیر کو پاک طینت سے اور طالب شر کو ناپاک طینت سے خلق کیا ہے۔ ملا صالح مازندرانی اور سید عبد اللہ شبر اسی نظریے کے قائل ہیں۔<ref>مازندرانی، شرح اصول کافی، 1382ھ، ج8، ص5؛ شبر، مصابیح الانوار، ص38۔</ref> حسن بن سلیمان حلی کے مطابق، انسانوں کے مستقبل کے بارے میں خدا کے علم کی وجہ سے اس نے انہیں مختلف نوعیتوں کی بنیاد پر تخلیق کیا۔<ref>حلی، مختصر البصائر، 1421ھ، ص384۔</ref>


*عالم ذر میں اطاعت یا نافرمانی کا اثر: اس نظریے کے مطابق طینتوں میں اختلاف عالم ذر میں آزمائش کے نتیجے میں اطاعت و نافرمانی کے زیر اثر ہے۔ اس بنا پر خدا نے اطاعت کرنے والوں کے لیے نیک طینت اور نافرمانی کرنے والوں کے لیے بُری طینت بنائی ہے۔<ref>شبر، مصابیح الانوار، ص۳۸.</ref>
*عالم ذر میں اطاعت یا نافرمانی کا اثر: اس نظریے کے مطابق طینتوں میں اختلاف عالم ذر میں آزمائش کے نتیجے میں اطاعت و نافرمانی کے زیر اثر ہے۔ اس بنا پر خدا نے اطاعت کرنے والوں کے لیے نیک طینت اور نافرمانی کرنے والوں کے لیے بُری طینت بنائی ہے۔<ref>شبر، مصابیح الانوار، ص38۔</ref>


*طینت کا انسانی سعادت و شقاوت پر اجمالی اثر: [[علامہ طباطبائی]] کے نزدیک انسان کی سعادت و شقاوت کا براہ راست تعلق اس کی طینت سے ہے، لیکن مکمل اور علیت تامہ کی صورت میں نہیں۔ ان کی رائے کے مطابق تربیت انسان کے اخلاق و رفتار کی تشکیل میں کارگر ہے؛ اسی وجہ سے ان کے خلق و خو کی تخلیق میں طینت کا اثر یقینی نہیں ہے۔ اس بنا پر احادیث طینیت کو قبول کرنے اور انسان کے اختیار کے درمیان کوئی تعارض و تضاد نہیں ہے، بلکہ طینت علت ناقصہ اور ایک کمزور سبب کی حیثیت رکھتی ہے اور انسان کی سعادت و شقاوت اس کے اختیاری اعمال کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۸، ص۹۸-۹۹.</ref>
*طینت کا انسانی سعادت و شقاوت پر اجمالی اثر: [[علامہ طباطبائی]] کے نزدیک انسان کی سعادت و شقاوت کا براہ راست تعلق اس کی طینت سے ہے، لیکن مکمل اور علیت تامہ کی صورت میں نہیں۔ ان کی رائے کے مطابق تربیت انسان کے اخلاق و رفتار کی تشکیل میں کارگر ہے؛ اسی وجہ سے ان کے خلق و خو کی تخلیق میں طینت کا اثر یقینی نہیں ہے۔ اس بنا پر احادیث طینیت کو قبول کرنے اور انسان کے اختیار کے درمیان کوئی تعارض و تضاد نہیں ہے، بلکہ طینت علت ناقصہ اور ایک کمزور سبب کی حیثیت رکھتی ہے اور انسان کی سعادت و شقاوت اس کے اختیاری اعمال کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج8، ص98-99۔</ref>


===احادیث طینت کا رد===
===احادیث طینت کا رد===
[[ملف:Ahadith tinat.jpg|تصغیر|200px|کتاب "شرح احادیث طینت" کی تصویر، قلمی اثر: آقا جمال خوانساری]]
[[ملف:Ahadith tinat.jpg|تصغیر|200px|کتاب "شرح احادیث طینت" کی تصویر، قلمی اثر: آقا جمال خوانساری]]


*ابو الحسن شعرانی نے شرح اصول کافی مازندرانی میں لکھا ہے کہ احادیث طینت [[امامیہ|امامیہ مذہب]] کے [[عدل]] اور [[قاعدہ لطف]] جیسے اصولوں کے خلاف ہیں نیز ان روایات کے بھی خلاف ہیں جو باب فطرت میں بیان ہوئی ہیں۔{{نوٹ|اس نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے بعض معاصر مفکرین نے بعض دینی متون کا حوالہ دیتے ہوئے یہ عقیدہ اختیار کیا ہے کہ تمام انسانوں کے مابین فطریات مشترک ہونےکے ساتھ  ہر انسان کی اپنی انفرادی فطرت بھی ہو سکتی ہیں؛ جیسا کہ ہر انسان، اس امتحان کی وجہ سے جو اس نے [[عالم ذر]] میں دیا، اس کی ایک خاص طینت اور فطری خلقیات کا مالک ہے۔(برنجکار، «فطرت در احادیث»، ۱۳۸۴شمسی)}} اس لیے انہیں رد کر دینا چاہیے اور یہ استناد کے قابل نہیں ہیں۔<ref> مازندرانی، شرح اصول کافی، ۱۴۲۹ھ، ج۸، ص۴-۵.</ref>
*ابو الحسن شعرانی نے شرح اصول کافی مازندرانی میں لکھا ہے کہ احادیث طینت [[امامیہ|امامیہ مذہب]] کے [[عدل]] اور [[قاعدہ لطف]] جیسے اصولوں کے خلاف ہیں نیز ان روایات کے بھی خلاف ہیں جو باب فطرت میں بیان ہوئی ہیں۔{{نوٹ|اس نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے بعض معاصر مفکرین نے بعض دینی متون کا حوالہ دیتے ہوئے یہ عقیدہ اختیار کیا ہے کہ تمام انسانوں کے مابین فطریات مشترک ہونےکے ساتھ  ہر انسان کی اپنی انفرادی فطرت بھی ہو سکتی ہیں؛ جیسا کہ ہر انسان، اس امتحان کی وجہ سے جو اس نے [[عالم ذر]] میں دیا، اس کی ایک خاص طینت اور فطری خلقیات کا مالک ہے۔(برنجکار، «فطرت در احادیث»، 1384شمسی)}} اس لیے انہیں رد کر دینا چاہیے اور یہ استناد کے قابل نہیں ہیں۔<ref> مازندرانی، شرح اصول کافی، 1429ھ، ج8، ص4-</ref>


*بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ [[غالی|غالیوں]] نے [[ائمہؑ]] اور دوسرے انسانوں کی تخلیق کے درمیان فرق کو ظاہر کرنے کے لیے ان احادیث کو اپنی طرف سے گھڑی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سندی کمزوری کی وجہ سے ان کو رد کر دینا چاہیے۔<ref>مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، ۱۳۸۹شمسی، ص۷۰.</ref>
*بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ [[غالی|غالیوں]] نے [[ائمہؑ]] اور دوسرے انسانوں کی تخلیق کے درمیان فرق کو ظاہر کرنے کے لیے ان احادیث کو اپنی طرف سے گھڑی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سندی کمزوری کی وجہ سے ان کو رد کر دینا چاہیے۔<ref>مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، 1389شمسی، ص70۔</ref>


*بعض محققین کا خیال ہے کہ احادیث طینت تقیہ پر مبنی احادیث ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق چونکہ روایات کا ظاہر جبر پر دلالت کرتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ شیعہ ائمہؑ نے حکومت کے گھٹن ماحول میں شیعوں کی جان بچانے کے لیے یہ احادیث بیان کی ہوں۔<ref>شبر،‌ مصابیح الانوار، ۱۳۷۱شمسی، ج۱، ص۳۶.</ref>
*بعض محققین کا خیال ہے کہ احادیث طینت تقیہ پر مبنی احادیث ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق چونکہ روایات کا ظاہر جبر پر دلالت کرتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ شیعہ ائمہؑ نے حکومت کے گھٹن ماحول میں شیعوں کی جان بچانے کے لیے یہ احادیث بیان کی ہوں۔<ref>شبر،‌ مصابیح الانوار، 1371شمسی، ج1، ص36۔</ref>


===نظریہ سکوت===
===نظریہ سکوت===
[[علامہ مجلسی]] نے احادیث طینت متشابہ اور مشکل احادیث میں شمار کیا ہے، جن پر حد سے زیادہ بحث و تمحیص نہین کرنی چاہیے۔ ان کے نزدیک ہماری عقل ان احادیث کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس لیے ہم ان احادیث کے مندرجات کو تعبداً قبول کرتے ہیں اور ان کا تحلیل و تشریح خود ائمہؑ پر چھوڑ دیتے ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۵، ص۲۶۰.</ref> علوم حدیث کے دانشورعبد الہادی مسعودی کے مطابق، عقیدہ سے مربوط کچھ احادیث جیسے احادیث طینت، سعادت اور جبر و اختیار«صعب مستصعب»(بہت مشکل)احادیث میں سے ہیں، جن کو سمجھنے کے لیے عام فہم سے زیادہ فہم کی ضرورت ہے۔<ref>مسعودی، آسیب‌شناسی حدیث، ۱۳۸۹شمسی، ص۲۸۱.</ref>
[[علامہ مجلسی]] نے احادیث طینت متشابہ اور مشکل احادیث میں شمار کیا ہے، جن پر حد سے زیادہ بحث و تمحیص نہین کرنی چاہیے۔ ان کے نزدیک ہماری عقل ان احادیث کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس لیے ہم ان احادیث کے مندرجات کو تعبداً قبول کرتے ہیں اور ان کا تحلیل و تشریح خود ائمہؑ پر چھوڑ دیتے ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج5، ص260۔</ref> علوم حدیث کے دانشورعبد الہادی مسعودی کے مطابق، عقیدہ سے مربوط کچھ احادیث جیسے احادیث طینت، سعادت اور جبر و اختیار«صعب مستصعب»(بہت مشکل)احادیث میں سے ہیں، جن کو سمجھنے کے لیے عام فہم سے زیادہ فہم کی ضرورت ہے۔<ref>مسعودی، آسیب‌شناسی حدیث، 1389شمسی، ص281۔</ref>


==مونوگراف==
==مونوگراف==
*شرح احادیث طینت:‌آقا جمال خوانساری نے اس کتاب کو فارسی زبان میں تحریرکیا ہے۔ مصنف نے اس میں دس احادیث طینت کے بارے میں بحث کی ہے۔ اس کتاب کوعبد اللہ نورانی  نے "نہضت زنان مسلمان" نامی پبلشرز نے سنہ 1980ء میں شائع کیا ہے۔<ref>خوانساری، شرح احادیث طینت، ۱۳۵۹شمسی، ص۳.</ref> انہوں نے اس کتاب کی وجہ تصنیف کو احادیث طینت کی کج فہی بیان کی ہے اور ان احادیث کے صدور کو قبول کیا ہے۔<ref>خوانساری، شرح احادیث طینت، ۱۳۵۹شمسی، ص۸.</ref>
*شرح احادیث طینت:‌آقا جمال خوانساری نے اس کتاب کو فارسی زبان میں تحریرکیا ہے۔ مصنف نے اس میں دس احادیث طینت کے بارے میں بحث کی ہے۔ اس کتاب کوعبد اللہ نورانی  نے "نہضت زنان مسلمان" نامی پبلشرز نے سنہ 1980ء میں شائع کیا ہے۔<ref>خوانساری، شرح احادیث طینت، 1359شمسی، ص3۔</ref> انہوں نے اس کتاب کی وجہ تصنیف کو احادیث طینت کی کج فہی بیان کی ہے اور ان احادیث کے صدور کو قبول کیا ہے۔<ref>خوانساری، شرح احادیث طینت، 1359شمسی، ص8۔</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 88: سطر 88:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* ابن‏ ابى‌حاتم، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر القرآن العظیم، ریاض، مکتبۃ نزار مصطفى الباز، ۱۴۱۹ق.
* ابن‏ ابى‌حاتم، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر القرآن العظیم، ریاض، مکتبۃ نزار مصطفى الباز، 1419ق.
* آقا جمال خوانساری، محمد بن حسین، شرح احادیث طینت، تہران، نہضت زنان مسلمان، ۱۳۵۹ش.
* آقا جمال خوانساری، محمد بن حسین، شرح احادیث طینت، تہران، نہضت زنان مسلمان، 1359ش.
* آقا جمال خوانساری، محمد بن حسین، شرح آقا جمال خوانسارى بر غرر الحکم و درر الکلم‏، تہران، دانشگاہ تہران، ۱۳۶۶ش.
* آقا جمال خوانساری، محمد بن حسین، شرح آقا جمال خوانسارى بر غرر الحکم و درر الکلم‏، تہران، دانشگاہ تہران، 1366ش.
* امام خمینی، روح‌ اللہ، طلب و ارادہ، تہران، انتشارات علمی، ۱۳۶۲ش.
* امام خمینی، روح‌ اللہ، طلب و ارادہ، تہران، انتشارات علمی، 1362ش.
* امام خمینی، روح‌ اللہ، مصباح الہدایہ الی الخلافہ و الولایہ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۶ش.
* امام خمینی، روح‌ اللہ، مصباح الہدایہ الی الخلافہ و الولایہ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1386ش.
* برقى، احمد بن محمد، المحاسن، محقق جلال‌الدین محدث، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ق.
* برقى، احمد بن محمد، المحاسن، محقق جلال‌الدین محدث، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1371ق.
* برنجکار، رضا، «فطرت در احادیث»، مجلہ قبسات، شمارہ ۳۶، تابستان ۱۳۸۴.
* برنجکار، رضا، «فطرت در احادیث»، مجلہ قبسات، شمارہ 36، تابستان 1384.
* جزایری، سید نعمت اللہ، الانوار النعمانیہ، بیروت، دار القاری، ۱۴۲۹ق.
* جزایری، سید نعمت اللہ، الانوار النعمانیہ، بیروت، دار القاری، 1429ق.
* حرعاملی، محمد بن حسن، الفصول المہمۃ فی أصول الأئمۃ(تکملۃ الوسائل)، قم، مؤسسہ امام رضا، ۱۴۱۸ق.
* حرعاملی، محمد بن حسن، الفصول المہمۃ فی أصول الأئمۃ(تکملۃ الوسائل)، قم، مؤسسہ امام رضا، 1418ق.
* حلی، حسن بن سلیمان، مختصر البصائر، تحقیق مشتاق مظفر، قم، موسسہ نشر اسلامی، ۱۴۲۱ق.
* حلی، حسن بن سلیمان، مختصر البصائر، تحقیق مشتاق مظفر، قم، موسسہ نشر اسلامی، 1421ق.
* رضوانی، معصومہ و مہدی ذاکری، «روایات طینت و اختیار انسان»، در مجلہ پژوہش‌ہای فلسفی-کلامی، شمارہ ۶۹، ۱۳۹۵ش.
* رضوانی، معصومہ و مہدی ذاکری، «روایات طینت و اختیار انسان»، در مجلہ پژوہش‌ہای فلسفی-کلامی، شمارہ 69، 1395ش.
* ذہنی تہرانی، محمدجواد، ترجمہ علل الشرایع، قم، انتشارات مومنین، ۱۳۸۰ش.
* ذہنی تہرانی، محمدجواد، ترجمہ علل الشرایع، قم، انتشارات مومنین، 1380ش.
* سیوطى، عبدالرحمن بن ابى‏‌بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق.
* سیوطى، عبدالرحمن بن ابى‏‌بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1404ق.
* شبر، عبداللہ، مصابیح الأنوار فی حل مشکلات الأخبار، قم، بصیرتی، ۱۳۷۱ش.
* شبر، عبداللہ، مصابیح الأنوار فی حل مشکلات الأخبار، قم، بصیرتی، 1371ش.
* صدوھ، محمد بن علی، علل الشرایع، قم، کتابفروشی داوری، ۱۳۸۵ق.
* صدوھ، محمد بن علی، علل الشرایع، قم، کتابفروشی داوری، 1385ق.
* صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ع)، تحقیق محسن کوچہ باغی، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق.
* صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ع)، تحقیق محسن کوچہ باغی، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1404ق.
* طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق.
* طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1390ق.
* طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفہ، ۱۴۱۲ق.
* طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفہ، 1412ق.
* غلامی، مہدی و اصغر ذاکری، «طینت و عدل الہی»،در مجلہ تحقیقات کلامی، شمارہ۳، ۱۳۹۲ش.
* غلامی، مہدی و اصغر ذاکری، «طینت و عدل الہی»،در مجلہ تحقیقات کلامی، شمارہ3، 1392ش.
* فدایی اصفہانی، مرتضی و سید مجتبی موسوی، «تحلیل احادیث طینت و رابطہ آن با اختیار انسان» در پژوہش‌نامہ علوم حدیث تطبیقی، شمارہ ۵، ۱۳۹۵ش.
* فدایی اصفہانی، مرتضی و سید مجتبی موسوی، «تحلیل احادیث طینت و رابطہ آن با اختیار انسان» در پژوہش‌نامہ علوم حدیث تطبیقی، شمارہ 5، 1395ش.
* کریمی، محمود و روح‌اللہ داوری، «تحلیل احادیث طینت از منظر فقہ الحدیث»، در مجلہ حدیث‌پژوہی، شمارہ ۱۸، ۱۳۹۶ش.
* کریمی، محمود و روح‌اللہ داوری، «تحلیل احادیث طینت از منظر فقہ الحدیث»، در مجلہ حدیث‌پژوہی، شمارہ 18، 1396ش.
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ق.
* مازندرانى، محمدصالح بن احمد، شرح الکافی- الأصول و الروضۃ، تہران، المکتبۃ الاسلامیۃ، ۱۳۸۲ق.
* مازندرانى، محمدصالح بن احمد، شرح الکافی- الأصول و الروضۃ، تہران، المکتبۃ الاسلامیۃ، 1382ق.
* مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیا التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
* مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیا التراث العربی، 1403ق.
* مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول‏، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۴ق
* مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول‏، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1404ق
* محمودی، زہرا و محمد رنجبرحسینی، «دیدگاہ علامہ طباطبایی پیرامون احادیث طینت در تبیین سعادت و شقاوت انسان»، در مجلہ کتاب و سنت، شمارہ ۶، ۱۳۹۴ش.
* محمودی، زہرا و محمد رنجبرحسینی، «دیدگاہ علامہ طباطبایی پیرامون احادیث طینت در تبیین سعادت و شقاوت انسان»، در مجلہ کتاب و سنت، شمارہ 6، 1394ش.
* مدرسی طباطبایی، سید حسین، مکتب در فرآیند تکامل، تہران، نشر کویر، ۱۳۸۹ش.
* مدرسی طباطبایی، سید حسین، مکتب در فرآیند تکامل، تہران، نشر کویر، 1389ش.
* مسعودی، عبدالہادی، آسیب‌شناسی حدیث، قم، انتشارات زائر، ۱۳۸۹ش.
* مسعودی، عبدالہادی، آسیب‌شناسی حدیث، قم، انتشارات زائر، 1389ش.
{{پایان}}
{{پایان}}
confirmed، movedable
5,421

ترامیم