"آیت لا اکراہ فی الدین" کے نسخوں کے درمیان فرق
←مفسرین کے نظریات
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 60: | سطر 60: | ||
مفسرین آیہ {{عربی|لا اکراہ فی الدین}} کی مختلف تفسریں پیش کرتے ہیں: | مفسرین آیہ {{عربی|لا اکراہ فی الدین}} کی مختلف تفسریں پیش کرتے ہیں: | ||
پہلا گروہ کا خیال ہے کہ یہ آیت [[نسخ]] ہوئی ہے۔ میبدی<ref>خواجہ عبداللہ انصاری، کشف الاسرار، 1371ہجری شمسی، ج1، ص806۔</ref> اور [[ابوالفتوح رازی]]<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1371ہجری شمسی، ج3، ص414۔</ref> کہتے ہیں کہ یہ آیت [[آیہ قتال]] اور [[سورہ توبہ]] | پہلا گروہ کا خیال ہے کہ یہ آیت [[نسخ]] ہوئی ہے۔ میبدی<ref>خواجہ عبداللہ انصاری، کشف الاسرار، 1371ہجری شمسی، ج1، ص806۔</ref> اور [[ابوالفتوح رازی]]<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1371ہجری شمسی، ج3، ص414۔</ref> کہتے ہیں کہ یہ آیت [[آیہ قتال]] اور [[سورہ توبہ]] کی آیت نمبر 74 اور 75 کے ذریعے نسخ ہوئی ہے۔ | ||
دوسرا گروہ اس آیت کی [[تفسیر]] میں کہتے ہیں کہ دین قبول کرنے میں تھوڑی بہت مجبوری اور زبردستی قابل تصور ہے، مثلا راہ حق کو بیان کرنے اور اسے لوگوں تک پہنچانے میں زبردستی اور اجبار سے کام لیا جا سکتا ہے؛<ref>ثقفی تہرانی، تفسیر روان جاوید، 1389ھ، ج1، ص330؛ قمی، تفسیر قمی، 1367ہجری شمسی، ج1، ص384۔</ref> یا یہ کہ اگر کوئی شخص روحی اور معنوی اعتبار سے بالغ نظری تک پہنچ گیا ہو تو زبردستی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔<ref>صدرای شیرازی، تفسیر القرآن الکریم، 1366ہجری شمسی، ج4، ص193؛ </ref> | دوسرا گروہ اس آیت کی [[تفسیر]] میں کہتے ہیں کہ دین قبول کرنے میں تھوڑی بہت مجبوری اور زبردستی قابل تصور ہے، مثلا راہ حق کو بیان کرنے اور اسے لوگوں تک پہنچانے میں زبردستی اور اجبار سے کام لیا جا سکتا ہے؛<ref>ثقفی تہرانی، تفسیر روان جاوید، 1389ھ، ج1، ص330؛ قمی، تفسیر قمی، 1367ہجری شمسی، ج1، ص384۔</ref> یا یہ کہ اگر کوئی شخص روحی اور معنوی اعتبار سے بالغ نظری تک پہنچ گیا ہو تو زبردستی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔<ref>صدرای شیرازی، تفسیر القرآن الکریم، 1366ہجری شمسی، ج4، ص193؛ </ref> |