مندرجات کا رخ کریں

"آیت لا اکراہ فی الدین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  گزشتہ کل بوقت 20:35
 
سطر 81: سطر 81:
کہا جاتا ہے کہ [[شیعہ ائمہ معصومینؑ]] کی جانب سے اس [[آیت]] کی [[تفسیر]] میں بیان شدہ مطالب عقیدے کے انتخاب میں انسان کی تکوینی آزادی سے مربوط ہیں اور یہ مطالب [[کلام اسلامی|علم کلامی]] کے ابتدائی اور بنیادی مباحث میں سے ہیں جو [[مسلمانوں]] کے درمیان رائج ہیں۔<ref>فانی و رجبی، «موارد استدلال تفسیری-کلامی بہ آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص94و95۔</ref> [[متکلمین]] مختلف موضوعات کے بارے میں آیہ {{عربی|لا اکراہ فی الدین}} سے استناد کرتے ہیں:
کہا جاتا ہے کہ [[شیعہ ائمہ معصومینؑ]] کی جانب سے اس [[آیت]] کی [[تفسیر]] میں بیان شدہ مطالب عقیدے کے انتخاب میں انسان کی تکوینی آزادی سے مربوط ہیں اور یہ مطالب [[کلام اسلامی|علم کلامی]] کے ابتدائی اور بنیادی مباحث میں سے ہیں جو [[مسلمانوں]] کے درمیان رائج ہیں۔<ref>فانی و رجبی، «موارد استدلال تفسیری-کلامی بہ آیہ لا اکراہ فی الدین»، ص94و95۔</ref> [[متکلمین]] مختلف موضوعات کے بارے میں آیہ {{عربی|لا اکراہ فی الدین}} سے استناد کرتے ہیں:
* انبیاء کی عصمت میں اختیار کا کردار: علامہ حلی اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت کے مطابق [[انبیاء کی عصمت]] جو کہ وحی کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے ایک ضروری امر ہے، بھی آزادی اور اختیار سے ہے۔ اس تفسیر میں دین کا لفظ [[گناہ]] سے پرہیز کے معنی میں ہے۔<ref>علامہ حلی، أجوبۃ المسائل المہنائیۃ، 1401ھ، ص73و74۔</ref>
* انبیاء کی عصمت میں اختیار کا کردار: علامہ حلی اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت کے مطابق [[انبیاء کی عصمت]] جو کہ وحی کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے ایک ضروری امر ہے، بھی آزادی اور اختیار سے ہے۔ اس تفسیر میں دین کا لفظ [[گناہ]] سے پرہیز کے معنی میں ہے۔<ref>علامہ حلی، أجوبۃ المسائل المہنائیۃ، 1401ھ، ص73و74۔</ref>
* جبر اور اکراہ کا انکار: وہ [[متکلمین]] جو اعمال اور رفتار میں انسان کے مبجور ہونے کو رد کرتے ہیں، اس بات پر ان کے دلائل میں سے ایک آیہ {{عربی|لا اکراہ فی الدین}} ہے۔<ref>زنجانی، عقائد الإمامیۃ الأثنی عشریۃ، 1413ھ، ج2، ص133۔</ref>
* جبر اور اکراہ کا انکار: وہ [[متکلمین]] جو اعمال اور رفتار میں انسان کے مجبور ہونے کو رد کرتے ہیں، اس بات پر ان کے دلائل میں سے ایک آیہ {{عربی|لا اکراہ فی الدین}} ہے۔<ref>زنجانی، عقائد الإمامیۃ الأثنی عشریۃ، 1413ھ، ج2، ص133۔</ref>
* امتحان خداوندی: بعض [[متکلمین]] کا خیال ہے کہ دنیا انسان کے امتحان کی جگہ ہے اور امتحان اسی کی لی جاتی ہے جو ارادہ اور اختیار کا حامل ہو اسی بنا پر [[خدا]] نے انسان کو آزاد اور خودمختار خلق کیا ہے۔<ref>شوشتری، احقاق الحھ، 1409ھ، ج1،‌ ص414؛ علامہ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج2، ص348-350۔</ref>
* امتحان خداوندی: بعض [[متکلمین]] کا خیال ہے کہ دنیا انسان کے امتحان کی جگہ ہے اور امتحان اسی کی لی جاتی ہے جو ارادہ اور اختیار کا حامل ہو اسی بنا پر [[خدا]] نے انسان کو آزاد اور خودمختار خلق کیا ہے۔<ref>شوشتری، احقاق الحھ، 1409ھ، ج1،‌ ص414؛ علامہ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج2، ص348-350۔</ref>
* [[عقیدے کی آزادی]]: [[آیت‌اللہ سبحانی]] جیسے متکلمین کا ایک گروہ اس آیت سے یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ اسلام میں فکر اور عقیدے کی آزادی ہے اور کوئی شخص کسی کو عقیدہ اختیار کرنے میں مجبور نہیں کر سکتا ہے اور [[انبیاء]] کی ذمہ داری بھی فقط اور فقط راہنمائی اور ارشاد تھی۔ [[اسلام]] میں دیگر ادیان کے پیروکاروں کو دی گئی آزادی کی توجیہ بھی اسی مبناء پر کی جاتی ہے۔<ref>سبحانی، مفاہیم القرآن، 1404ھ، ج2، ص404و405۔</ref>
* [[عقیدے کی آزادی]]: [[آیت‌اللہ سبحانی]] جیسے متکلمین کا ایک گروہ اس آیت سے یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ اسلام میں فکر اور عقیدے کی آزادی ہے اور کوئی شخص کسی کو عقیدہ اختیار کرنے میں مجبور نہیں کر سکتا ہے اور [[انبیاء]] کی ذمہ داری بھی فقط اور فقط راہنمائی اور ارشاد تھی۔ [[اسلام]] میں دیگر ادیان کے پیروکاروں کو دی گئی آزادی کی توجیہ بھی اسی مبناء پر کی جاتی ہے۔<ref>سبحانی، مفاہیم القرآن، 1404ھ، ج2، ص404و405۔</ref>
confirmed، templateeditor
8,851

ترامیم