مندرجات کا رخ کریں

"الناس نیام فاذا ماتوا انتبہوا" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 3: سطر 3:
[[نہج البلاغہ]] میں امام علیؑ کا کلام «اہل دنیا اس کاروان کی مانند ہیں جنہیں لے جایا جا رہا ہے حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں»<ref>سید رضی، نہج البلاغۃ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، حکمت 64، ص 479۔</ref> کو حدیث «{{عربی|النَّاسُ نِیَامٌ ...}}» کے ساتھ ہم‌ معنی اور مترادف جانا گیا ہے۔<ref>«[http://qurantehran.ir/1398/11/24/در-محضر-استاد-500 در محضر استاد - جلسہ 108]»، مؤسسہ قرآن و عترت علی بن موسی الرضاؑ۔</ref> لفظ «اِنْتِباہ» اصل میں کسی کو آگاہ کرنے کے معنی میں آتا ہے لیکن اس حدیث میں بیدار ہونے کے معنی میں آیا ہے۔<ref>محقق، «[https://www.cgie.org.ir/fa/news/181310/درسہایی-از-نہج‌البلاغہ---دکتر-مہدی-محقق---بخش-دوم درسہایی از نہج‌البلاغہ]»، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی۔</ref> اسلامی عرفان کی منظوم کتاب [[گلشن راز|گلشن راز]]<ref>شبستری، گلشن راز، 1382ہجری شمسی، ص26۔</ref> میں مِصرَع «تو در خوابی و این دیدن خیال است» یعنی تم سوئے ہوئے ہو اور یہ جو تمہیں نظر آرہا ہے یہ صرف خواب و خیال کے سوا کچھ نہیں ہے، کو اس حدیث کا اقتباس شمار کیا جاتا ہے۔<ref>سبزواری خراسانی، شرح گلشن راز، 1386ہجری شمسی، ص188۔</ref>
[[نہج البلاغہ]] میں امام علیؑ کا کلام «اہل دنیا اس کاروان کی مانند ہیں جنہیں لے جایا جا رہا ہے حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں»<ref>سید رضی، نہج البلاغۃ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، حکمت 64، ص 479۔</ref> کو حدیث «{{عربی|النَّاسُ نِیَامٌ ...}}» کے ساتھ ہم‌ معنی اور مترادف جانا گیا ہے۔<ref>«[http://qurantehran.ir/1398/11/24/در-محضر-استاد-500 در محضر استاد - جلسہ 108]»، مؤسسہ قرآن و عترت علی بن موسی الرضاؑ۔</ref> لفظ «اِنْتِباہ» اصل میں کسی کو آگاہ کرنے کے معنی میں آتا ہے لیکن اس حدیث میں بیدار ہونے کے معنی میں آیا ہے۔<ref>محقق، «[https://www.cgie.org.ir/fa/news/181310/درسہایی-از-نہج‌البلاغہ---دکتر-مہدی-محقق---بخش-دوم درسہایی از نہج‌البلاغہ]»، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی۔</ref> اسلامی عرفان کی منظوم کتاب [[گلشن راز|گلشن راز]]<ref>شبستری، گلشن راز، 1382ہجری شمسی، ص26۔</ref> میں مِصرَع «تو در خوابی و این دیدن خیال است» یعنی تم سوئے ہوئے ہو اور یہ جو تمہیں نظر آرہا ہے یہ صرف خواب و خیال کے سوا کچھ نہیں ہے، کو اس حدیث کا اقتباس شمار کیا جاتا ہے۔<ref>سبزواری خراسانی، شرح گلشن راز، 1386ہجری شمسی، ص188۔</ref>


{{جعبہ نقل قول|قال خَیْرُ الْوَرَی عَلَیْہِ سَلَام‏ // إِنَّمَا النَّاس ہِجْعٌ و نِیام<br>فإذا جائہم و إن کَرِہُوا // سَکْرَۃُ الْمَوْت بعدہا انْتَبَہُوا{{نوٹ|سرور کائنات فرماتے ہیں: لوگ سوئے ہوئے ہیں اور جب وہ نہ چاہتے ہوئے بھی [[موت]] کی سختی میں مبتلا ہوتے ہیں، تو وہ بیدار اور آگاہ ہونگے۔}}<br>
{{جعبہ نقل قول|{{عربی|قال خَیْرُ الْوَرَی عَلَیْہِ سَلَام‏ // إِنَّمَا النَّاس ہِجْعٌ و نِیام<br>فإذا جائہم و إن کَرِہُوا // سَکْرَۃُ الْمَوْت بعدہا انْتَبَہُوا}}{{نوٹ|سرور کائنات فرماتے ہیں: لوگ سوئے ہوئے ہیں اور جب وہ نہ چاہتے ہوئے بھی [[موت]] کی سختی میں مبتلا ہوتے ہیں، تو وہ بیدار اور آگاہ ہونگے۔}}<br>
آدمی‌زادہ در مَبادی حال// پی نفس و ہوا رود ہمہ سال{{نوٹ|انسان جب سے پیدا ہوا ہے تمام عمر نفسانی خوہشات کے پیچھے بھاگتا ہے۔}}<br><ref>جامی، «[https://ganjoor.net/jami/7ourang/7-1/sd1/sh149 بخش 149: در معنی قولہ علیہ السلام الناس نیام فاذا ماتوا انتبہوا]»، ہفت اورنگ، سلسلۃالذہب، دفتر اول، سایت گنجور۔</ref>|عرض=27%|رنگ پس‌زمینہ=#d3f2f2|عنوان=جامی <small>(وفات 817ق)</small>|تراز=چپ}}
آدمی‌زادہ در مَبادی حال// پی نفس و ہوا رود ہمہ سال{{نوٹ|انسان جب سے پیدا ہوا ہے تمام عمر نفسانی خوہشات کے پیچھے بھاگتا ہے۔}}<br><ref>جامی، «[https://ganjoor.net/jami/7ourang/7-1/sd1/sh149 بخش 149: در معنی قولہ علیہ السلام الناس نیام فاذا ماتوا انتبہوا]»، ہفت اورنگ، سلسلۃالذہب، دفتر اول، سایت گنجور۔</ref>|عرض=17%|رنگ پس‌زمینہ=#d3f2f2|عنوان=جامی <small>(وفات 817ق)</small>|تراز=چپ}}


بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ حدیث «{{عربی|النَّاسُ نِیَامٌ ...}}» جس طرح مادی بدن کی [[موت]] کی طرف اشارہ ہے اسی طرح روحانی و عرفانی موت کی طرف بھی اشارہ ہے جو انسان کو اس مادی زندگی کے دوران حاصل ہوتی ہے۔<ref>رحمتی، «[https://www.cgie.org.ir/fa/news/273316/شہسواران-غیب-انشاءاللہ-رحمتی شہسواران غیب]»، مرکز دائرہ المعارف بزرگ اسلامی۔</ref> اسی بنا پر بعض لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ اس حدیث میں یہ وصیت کی گئی ہے کہ ہوشیار رہیں یہ بیداری کہیں تمہیں حقیقی موت کے بعد نصیب نہ ہو۔<ref>جام، کنوز الحکمۃ، 1387ہجری شمسی، ص230۔</ref> شیعہ عالم دین اور فلسفی [[ملا صدرا]] [[موت]] کو عدم اور نیستی سے تعبیر کرنے کے ادعا کو اس حدیث کے ذریعے رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ موت ایک قسم کی بیداری ہے نہ عدم اور نیستی۔‏<ref>ملاصدرا، شرح أصول الکافی، 1383ہجری شمسی، ج2، ص59۔</ref>
بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ حدیث «{{عربی|النَّاسُ نِیَامٌ ...}}» جس طرح مادی بدن کی [[موت]] کی طرف اشارہ ہے اسی طرح روحانی و عرفانی موت کی طرف بھی اشارہ ہے جو انسان کو اس مادی زندگی کے دوران حاصل ہوتی ہے۔<ref>رحمتی، «[https://www.cgie.org.ir/fa/news/273316/شہسواران-غیب-انشاءاللہ-رحمتی شہسواران غیب]»، مرکز دائرہ المعارف بزرگ اسلامی۔</ref> اسی بنا پر بعض لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ اس حدیث میں یہ وصیت کی گئی ہے کہ ہوشیار رہیں یہ بیداری کہیں تمہیں حقیقی موت کے بعد نصیب نہ ہو۔<ref>جام، کنوز الحکمۃ، 1387ہجری شمسی، ص230۔</ref> شیعہ عالم دین اور فلسفی [[ملا صدرا]] [[موت]] کو عدم اور نیستی سے تعبیر کرنے کے ادعا کو اس حدیث کے ذریعے رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ موت ایک قسم کی بیداری ہے نہ عدم اور نیستی۔‏<ref>ملاصدرا، شرح أصول الکافی، 1383ہجری شمسی، ج2، ص59۔</ref>
confirmed، templateeditor
8,099

ترامیم