مندرجات کا رخ کریں

"الناس نیام فاذا ماتوا انتبہوا" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''النَّاسُ نِیَامٌ فَإِذَا مَاتُوا انْتَبَہُوا''' (لوگ سوئے ہوئے ہیں جب مر جائیں گے تو بیدار ہونگے) ایک مشہور حدیث ہے<ref>سمعانی، روح الأرواح فی شرح أسماء الملک الفتاح، 1384ہجری شمسی، ص701۔</ref> جو [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]]<ref>ورام بن أبی فراس، مجموعۃ ورام، 1410ھ، ج1، ص150؛ سمعانی، روح الأرواح فی شرح أسماء الملک الفتاح، 1384ہجری شمسی، ص701۔</ref> اور [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علیؑ]]<ref>سید الرضی، خصائص الأئمۃ علیہم السلام، 1406ھ، ص112۔</ref> سے نقل ہوئی ہے۔ اس حدیث کی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اس دنیا میں مال و متاع کے مالک ہیں لیکن جب ان کو موت آتی ہے تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی چیز کے مالک نہیں تھے۔<ref>جوادی آملی، «[https://www.aparat.com/v/wyM9s بہ سوی معبود]»، آپارات۔</ref>
'''{{عربی|النَّاسُ نِیَامٌ فَإِذَا مَاتُوا انْتَبَهُوا}}''' (لوگ سوئے ہوئے ہیں جب مر جائیں گے تو بیدار ہونگے) ایک مشہور حدیث ہے<ref>سمعانی، روح الأرواح فی شرح أسماء الملک الفتاح، 1384ہجری شمسی، ص701۔</ref> جو [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]]<ref>ورام بن أبی فراس، مجموعۃ ورام، 1410ھ، ج1، ص150؛ سمعانی، روح الأرواح فی شرح أسماء الملک الفتاح، 1384ہجری شمسی، ص701۔</ref> اور [[امام علی علیہ‌ السلام|امام علیؑ]]<ref>سید الرضی، خصائص الأئمۃ علیہم السلام، 1406ھ، ص112۔</ref> سے نقل ہوئی ہے۔ اس حدیث کی تشریح میں کہا گیا ہے کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اس دنیا میں مال و متاع کے مالک ہیں لیکن جب ان کو موت آتی ہے تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔<ref>جوادی آملی، «[https://www.aparat.com/v/wyM9s بہ سوی معبود]»، آپارات۔</ref>


[[نہج البلاغہ]] میں امام علیؑ کا کلام «اہل دنیا اس کاروان کی طرح ہیں جو انہیں لے جا رہے ہیں حالانکہ یہ لوگ سوئے ہوئے ہیں»<ref>سید رضی، نہج البلاغۃ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، حکمت 64، ص 479۔</ref> کو اس حدیث «الناس نِیام...» کے ساتھ ہم‌ معنی اور مترادف جانا گیا ہے۔<ref>«[http://qurantehran.ir/1398/11/24/در-محضر-استاد-500 در محضر استاد - جلسہ 108]»، مؤسسہ قرآن و عترت علی بن موسی الرضاؑ۔</ref> لفظ «اِنْتِباہ» اصل میں کسی کو آگاہ کرنے کے معنی میں آتا ہے لیکن اس حدیث میں بیدار ہونے کے معنی میں آیا ہے۔<ref>محقھ، «[https://www.cgie.org.ir/fa/news/181310/درسہایی-از-نہج‌البلاغہ---دکتر-مہدی-محقق---بخش-دوم درسہایی از نہج‌البلاغہ]»، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی۔</ref> کتاب [[گلشن راز|گلشن راز]]<ref>شبستری، گلشن راز، 1382ہجری شمسی، ص26۔</ref> جو اسلامی عرفان کی ایک منظوم کتاب ہے میں مِصرَعِ «تو در خوابی و این دیدن خیال است» یعنی تم سوئے ہوئے ہو اور یہ جو تمہیں نظر آرہا ہے یہ صرف خواب و خیال کے سوا کچھ نہیں ہے، کو اس حدیث کا اقتباس شمار کیا جاتا ہے۔<ref>سبزواری خراسانی، شرح گلشن راز، 1386ہجری شمسی، ص188۔</ref>
[[نہج البلاغہ]] میں امام علیؑ کا کلام «اہل دنیا اس کاروان کی مانند ہیں جنہیں لے جایا جا رہا ہے حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں»<ref>سید رضی، نہج البلاغۃ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، حکمت 64، ص 479۔</ref> کو حدیث «{{عربی|النَّاسُ نِیَامٌ ...}}» کے ساتھ ہم‌ معنی اور مترادف جانا گیا ہے۔<ref>«[http://qurantehran.ir/1398/11/24/در-محضر-استاد-500 در محضر استاد - جلسہ 108]»، مؤسسہ قرآن و عترت علی بن موسی الرضاؑ۔</ref> لفظ «اِنْتِباہ» اصل میں کسی کو آگاہ کرنے کے معنی میں آتا ہے لیکن اس حدیث میں بیدار ہونے کے معنی میں آیا ہے۔<ref>محقق، «[https://www.cgie.org.ir/fa/news/181310/درسہایی-از-نہج‌البلاغہ---دکتر-مہدی-محقق---بخش-دوم درسہایی از نہج‌البلاغہ]»، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی۔</ref> اسلامی عرفان کی منظوم کتاب [[گلشن راز|گلشن راز]]<ref>شبستری، گلشن راز، 1382ہجری شمسی، ص26۔</ref> میں مِصرَع «تو در خوابی و این دیدن خیال است» یعنی تم سوئے ہوئے ہو اور یہ جو تمہیں نظر آرہا ہے یہ صرف خواب و خیال کے سوا کچھ نہیں ہے، کو اس حدیث کا اقتباس شمار کیا جاتا ہے۔<ref>سبزواری خراسانی، شرح گلشن راز، 1386ہجری شمسی، ص188۔</ref>


{{جعبہ نقل قول|قال خَیْرُ الْوَرَی عَلَیْہِ سَلَام‏<br>
{{جعبہ نقل قول|قال خَیْرُ الْوَرَی عَلَیْہِ سَلَام‏<br>
إِنَّمَا النَّاس ہِجْعٌ و نِیام<br>
إِنَّمَا النَّاس ہِجْعٌ و نِیام<br>
فإذا جائہم و إن کَرِہُوا<br>
فإذا جائہم و إن کَرِہُوا<br>
سَکْرَۃُ الْمَوْت بعدہا انْتَبَہُوا{{نوٹ|مخلوقات میں سے سب سے افضل شخصیت جن پر درود و سلام ہو نے فرمایا: لوگ سوئے ہوئے ہیں اور جب [[موت]] کی سختی میں گرفتار ہونگے اگرچہ وہ اسے پسند نہ بھی کریں پھر بھی یہ ان تک پہنچ کر ہی رہے گی، تو اس وقت وہ بیدار اور آگاہ ہونگے۔}}<br>
سَکْرَۃُ الْمَوْت بعدہا انْتَبَہُوا{{نوٹ|سرور کائنات فرماتے ہیں: لوگ سوئے ہوئے ہیں اور جب وہ نہ چاہتے ہوئے بھی [[موت]] کی سختی میں مبتلا ہوتے ہیں، تو وہ بیدار اور آگاہ ہونگے۔}}<br>
آدمی‌زادہ در مَبادی حال<br>
آدمی‌زادہ در مَبادی حال<br>
پی نفس و ہوا رود ہمہ سال<ref>جامی، «[https://ganjoor۔net/jami/7ourang/7-1/sd1/sh149 بخش 149: در معنی قولہ علیہ السلام الناس نیام فاذا ماتوا انتبہوا]»، ہفت اورنگ، سلسلۃالذہب، دفتر اول، سایت گنجور۔</ref>|عرض=27%|رنگ پس‌زمینہ=#d3f2f2|عنوان=جامی <small>(وفات 817ق)</small>|تراز=چپ}}
پی نفس و ہوا رود ہمہ سال{{نوٹ|انسان جب سے پیدا ہوا ہے تمام عمر نفسانی خوہشات کے پیچھے بھاگتا ہے۔}}<br><ref>جامی، «[https://ganjoor.net/jami/7ourang/7-1/sd1/sh149 بخش 149: در معنی قولہ علیہ السلام الناس نیام فاذا ماتوا انتبہوا]»، ہفت اورنگ، سلسلۃالذہب، دفتر اول، سایت گنجور۔</ref>|عرض=27%|رنگ پس‌زمینہ=#d3f2f2|عنوان=جامی <small>(وفات 817ق)</small>|تراز=چپ}}


بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ حدیث «الناس نِیام...» جس طرح مادی بدن کی [[موت]] کی طرف اشارہ ہے اسی طرح روحانی و عرفانی موت کی طرف بھی اشارہ ہے جو انسان کو اس مادی زندگی کے دوران حاصل ہوتی ہے۔<ref>رحمتی، «[https://www.cgie.org.ir/fa/news/273316/شہسواران-غیب-انشاءاللہ-رحمتی شہسواران غیب]»، مرکز دائرہ المعارف بزرگ اسلامی۔</ref> اسی بنا پر بعض لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ اس حدیث میں یہ وصیت کی گئی ہے کہ ہوشیار ہو جاؤ یہ بیداری کہیں تمہیں حقیقی موت کے بعد نصیب نہ ہو۔<ref>جام، کنوز الحکمۃ، 1387ہجری شمسی، ص230۔</ref> شیعہ عالم دین اور فلسفی [[ملا صدرا]] اس حدیث کے ذریعے [[موت]] کے بارے میں عدم اور نیستی ہونے کے ادعا کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ موت ایک قسم کی بیداری ہے نہ عدم اور نیستی۔‏<ref>ملاصدرا، شرح أصول الکافی، 1383ہجری شمسی، ج2، ص59۔</ref>
بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ حدیث «{{عربی|النَّاسُ نِیَامٌ ...}}» جس طرح مادی بدن کی [[موت]] کی طرف اشارہ ہے اسی طرح روحانی و عرفانی موت کی طرف بھی اشارہ ہے جو انسان کو اس مادی زندگی کے دوران حاصل ہوتی ہے۔<ref>رحمتی، «[https://www.cgie.org.ir/fa/news/273316/شہسواران-غیب-انشاءاللہ-رحمتی شہسواران غیب]»، مرکز دائرہ المعارف بزرگ اسلامی۔</ref> اسی بنا پر بعض لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ اس حدیث میں یہ وصیت کی گئی ہے کہ ہوشیار رہیں یہ بیداری کہیں تمہیں حقیقی موت کے بعد نصیب نہ ہو۔<ref>جام، کنوز الحکمۃ، 1387ہجری شمسی، ص230۔</ref> شیعہ عالم دین اور فلسفی [[ملا صدرا]] [[موت]] کو عدم اور نیستی سے تعبیر کرنے کے ادعا کو اس حدیث کے ذریعے رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ موت ایک قسم کی بیداری ہے نہ عدم اور نیستی۔‏<ref>ملاصدرا، شرح أصول الکافی، 1383ہجری شمسی، ج2، ص59۔</ref>


[[مسلمان]] متکلم اور عارف [[غزالی]] (450 ـ 505ھ) اس حدیث کو ایک مثال کے ضمن میں توضیح دیتے ہیں: ایک بچہ ماں کے پیٹ میں تھا اور وہاں سے خارج ہوتا ہے تاکہ نئے عالم اور نئی جگہوں کو دیکھ سکے۔ جب یہ بچہ ماں کے پیٹ سے خارج ہوتا ہے اور دنیا کی وسعت کا مشاہدہ کرتا ہے تو کیا یہ شائستہ ہے کہ یہ بچہ دوبارہ ماں کے پیٹ میں واپس جانے کی تمنا کرے؟ غزالی اس بات کے معتقد ہیں کہ دنیا اور [[آخرت]] کی مثال بھی اسی طرح ہے۔ جو شخص اس دنیا سے آخرت کی طرف چلا جاتا ہے اور جب آخر کی وسعت کا مشاہدہ کرتا ہے تو پھر اس دنیا میں واپس آنے کی تمنا کرنا سزاوار نہیں ہے۔<ref>غزالی، مجموعۃ رسائل الإمام الغزالی، 1996م، ص506</ref>
[[مسلمان]] متکلم اور عارف [[غزالی]] (450 ـ 505ھ) ایک مثال کے ضمن میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہیں: ایک بچہ ماں کے پیٹ سے ایک نئے عالم اور نئی جگہ پر آتا ہے۔ جب یہ بچہ ماں کے پیٹ سے خارج ہوتا ہے اور دنیا کی وسعت کا مشاہدہ کرتا ہے تو کیا یہ شائستہ ہے کہ یہ بچہ دوبارہ ماں کے پیٹ میں واپس جانے کی تمنا کرے؟ غزالی اس بات کے معتقد ہیں کہ دنیا اور [[آخرت]] کی مثال بھی اسی طرح ہے۔ جو شخص اس دنیا سے آخرت کی طرف چلا جاتا ہے اور جب آخر کی وسعت کا مشاہدہ کرتا ہے تو پھر اس دنیا میں واپس آنے کی تمنا کرنا سزاوار نہیں ہے۔<ref>غزالی، مجموعۃ رسائل الإمام الغزالی، 1996م، ص506</ref>
[[ملف:سنگ_قبر_آنه‌ماری_شیمل_در_قبرستان_بُن_آلمان.jpg|تصغیر|قبرستان بُن [[جرمنی]] میں جرمنی کے مستشرق [[آنہ ماری شیمل]] کی قبر پر حدیث «الناس نیام ...» ]]
[[ملف:سنگ_قبر_آنه‌ماری_شیمل_در_قبرستان_بُن_آلمان.jpg|تصغیر|قبرستان بُن [[جرمنی]] میں جرمنی کے مستشرق [[آنہ ماری شیمل]] کی قبر پر حدیث «الناس نیام ...» ]]


==تفسیر حدیث==
==تفسیر حدیث==
شیعہ عالم دین اور [[مجتہد]] [[عبد اللہ جوادی آملی|آیت اللہ جوادی آملی]] حدیث «الناس نِیام...» کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہت سارے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں مال و متاع کے مالک ہیں؛ لیکن یہ لوگ موت کے وقت سمجھ جاتے ہیں کہ وہ تو کسی چیز کے مالک نہیں تھے۔ جس طرح سویا ہوا انسان خواب میں بہت کچھ دیکھتا ہے اور جب بیدار ہوتا ہے تو ان میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتا۔<ref>جوادی آملی، «[https://www.aparat.com/v/wyM9s بہ سوی معبود]»، آپارات۔</ref>
شیعہ [[مجتہد]] [[عبد اللہ جوادی آملی|آیت اللہ جوادی آملی]] حدیث «{{عربی|النَّاسُ نِیَامٌ ...}}» کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہت سارے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں مال و متاع کے مالک ہیں؛ لیکن یہ لوگ موت کے وقت سمجھ جاتے ہیں کہ وہ تو کسی چیز کے مالک نہیں تھے۔ جس طرح سویا ہوا انسان خواب میں بہت کچھ دیکھتا ہے اور جب بیدار ہوتا ہے تو ان میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتا۔<ref>جوادی آملی، «[https://www.aparat.com/v/wyM9s بہ سوی معبود]»، آپارات۔</ref>


ساتویں صدی ہجری کے [[مسلمان]] عارف نَسَفی اپنی کتاب انسان کامل میں اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس طرح خواب میں دیکھنے والی چیزوں کا کوئی دوام نہیں ہے اسی طرح اس دنیا میں موجود چیزوں میں بھی کوئی پائیداری اور ثبات نہیں نہیں ہے۔<ref>نسفی، الإنسان الکامل، 1386ہجری شمسی، ص400۔</ref> بعض محققین اس نکتے کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ انسان اس دنیا میں انجام دئے گئے اعمال کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور موت کے بعد جب «اشیاء کی اصل حقیقت» آشکار ہو جاتی ہے تو لوگ اس وقت اپنے اعمال کی حقیقت سے آگاہ جاتے ہیں۔<ref>حسینی ہمدانی، درخشان پرتوی از اصول کافی، 1363ہجری شمسی، ج4، ص114۔</ref>
ساتویں صدی ہجری کے [[مسلمان]] عارف نَسَفی اپنی کتاب انسان کامل میں اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس طرح خواب میں دیکھنے والی چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں اسی طرح اس دنیا میں موجود چیزوں میں بھی کوئی پائیداری اور ثبات نہیں نہیں ہے۔<ref>نسفی، الإنسان الکامل، 1386ہجری شمسی، ص400۔</ref> بعض محققین اس نکتے کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ انسان اس دنیا میں انجام دئے گئے اعمال کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور موت کے بعد جب «اشیاء کی اصل حقیقت» آشکار ہو جاتی ہے تو لوگ اس وقت اپنے اعمال کی حقیقت سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔<ref>حسینی ہمدانی، درخشان پرتوی از اصول کافی، 1363ہجری شمسی، ج4، ص114۔</ref>


[[ملاصدرا]] معتقد ہیں کہ جو کچھ انسان خواب میں دیکھتا ہے وہ اس دنیا میں موجود اشیاء کی مثالیں ہیں۔ اسی طرح جو کچھ انسان اس دنیا میں دیکھتا ہے وہ آخرت میں موجود حقائق کی مثالیں ہیں۔ آخرت کے حقائق انسان پر آشکار اور نمایاں نہیں ہوتے سوائے مثالوں کے ضمن میں جن کی تعبیر اور تشریح کی ضرورت ہوتی ہے۔<ref>ملاصدرا، شرح أصول الکافی، 1383ہجری شمسی، ج1، ص325۔</ref> کتاب [[مخزن العرفان در تفسیر قرآن (کتاب)|تفسیر مخزن العرفان]] کے مصنف کا بھی عقیدہ ہے کہ جو کچھ اس دنیا میں دیکھتے ہیں وہ ان حقائق کے باہر کے چھلکے یا خول ہیں اور انسان موت کے بعد ان حقائق کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں۔<ref>بانو امین، مخزن العرفان در تفسیر قرآن، 1361ہجری شمسی، ج3، ص41۔</ref>
[[ملاصدرا]] معتقد ہیں کہ جو کچھ انسان خواب میں دیکھتا ہے وہ اس دنیا میں موجود اشیاء کی مثالیں ہیں۔ اسی طرح جو کچھ انسان اس دنیا میں دیکھتا ہے وہ آخرت میں موجود حقائق کی مثالیں ہیں۔ آخرت کے حقائق انسان پر آشکار اور نمایاں نہیں ہوتے سوائے مثالوں کے ضمن میں جن کی تعبیر اور تشریح کی ضرورت ہوتی ہے۔<ref>ملاصدرا، شرح أصول الکافی، 1383ہجری شمسی، ج1، ص325۔</ref> کتاب [[مخزن العرفان در تفسیر قرآن (کتاب)|تفسیر مخزن العرفان]] کے مصنف کا بھی عقیدہ ہے کہ جو کچھ اس دنیا میں دیکھتے ہیں وہ ان حقائق کے چھلکے یا خول ہیں اور انسان موت کے بعد ان حقائق کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں۔<ref>بانو امین، مخزن العرفان در تفسیر قرآن، 1361ہجری شمسی، ج3، ص41۔</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 43: سطر 43:
*شبستری، محمود بن عبدالکریم، گلشن راز، تصحیح: محمد حماصیان، کرمان، خدمات فرہنگی کرمان، 1382ہجری شمسی۔
*شبستری، محمود بن عبدالکریم، گلشن راز، تصحیح: محمد حماصیان، کرمان، خدمات فرہنگی کرمان، 1382ہجری شمسی۔
*غزالی، محمد، مجموعۃ رسائل الإمام الغزالی، بیروت، دار الفکر، 1996م۔
*غزالی، محمد، مجموعۃ رسائل الإمام الغزالی، بیروت، دار الفکر، 1996م۔
*محقھ، مہدی، «[https://www۔cgie۔org۔ir/fa/news/181310/درسہایی-از-نہج‌البلاغہ---دکتر-مہدی-محقق---بخش-دوم درسہایی از نہج‌البلاغہ]»، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تاریخ درج مطلب: 30 آبان 1396ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 8 شہریور 1403ہجری شمسی۔
*محقق، مہدی، «[https://www۔cgie۔org۔ir/fa/news/181310/درسہایی-از-نہج‌البلاغہ---دکتر-مہدی-محقق---بخش-دوم درسہایی از نہج‌البلاغہ]»، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تاریخ درج مطلب: 30 آبان 1396ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 8 شہریور 1403ہجری شمسی۔
*ملاصدرا، محمد بن ابراہیم، شرح أصول الکافی، تحقیق و تصحیح: محمد خواجوی، تہران، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
*ملاصدرا، محمد بن ابراہیم، شرح أصول الکافی، تحقیق و تصحیح: محمد خواجوی، تہران، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
*نسفی، عزیزالدین بن محمد، الانسان الکامل، مقدمہ: ہانری کربن، مصحح ماریژان مولہ، مترجم، سید ضیاءالدین دہشیری، تہران، طہوری، 1386ہجری شمسی۔
*نسفی، عزیزالدین بن محمد، الانسان الکامل، مقدمہ: ہانری کربن، مصحح ماریژان مولہ، مترجم، سید ضیاءالدین دہشیری، تہران، طہوری، 1386ہجری شمسی۔
confirmed، templateeditor
8,099

ترامیم