مندرجات کا رخ کریں

"خطبہ شقشقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 22: سطر 22:
نہج البلاغہ کے مکمل تراجم اور شرحوں میں اس خطبے کی شرح کے علاوہ فارسی اور عربی زبان میں خطبہ شقشقیہ کی خصوصی شرحیں بھی موجود ہیں، ان میں [[محمدرضا حکیمی]] کی کتاب شرحُ الْخُطبۃ الشِّقشِقیہ اور علی اصغر رضوانی کی کتاب "آہی سوزان" کا نام لیا جا سکتا ہے۔
نہج البلاغہ کے مکمل تراجم اور شرحوں میں اس خطبے کی شرح کے علاوہ فارسی اور عربی زبان میں خطبہ شقشقیہ کی خصوصی شرحیں بھی موجود ہیں، ان میں [[محمدرضا حکیمی]] کی کتاب شرحُ الْخُطبۃ الشِّقشِقیہ اور علی اصغر رضوانی کی کتاب "آہی سوزان" کا نام لیا جا سکتا ہے۔
==اہمیت اور تعارف==
==اہمیت اور تعارف==
خطبہ شِقشِقیّہ [[نہج البلاغہ کے خطبوں کی فہرست|نہج البلاغہ]] کے مشہور خطبوں میں سے ایک ہے<ref>شیخ مفید، الجَمَل، 1371ش، ص126۔</ref> جسے [[شیعہ]] اور [[اہل سنت و جماعت|اہل سنت]] دونوں منابع میں نقل کیا گیا ہے۔<ref>حکیمی، شرح الخطبۃ الشقشقیۃ، 1402ق، ص126۔</ref> اس خطبے کو نہج البلاغہ کے اہم ترین خطبوں میں شمار کیا گیا ہے؛ چونکہ اس میں [[خلافت|پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی]] جیسے اہم مسئلے پر صراحت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام(ع)، 1386ہجری شمسی، ج1، ص318۔</ref> چونکہ [[امام علی علیہ‌السلام|امام علی‌ؑ]] نے اس خطبے میں خلفائے ثلاثہ کی خلافت پر سوال اٹھایا ہے اس بنا پر اس خطبے کو [[نہج البلاغہ|نہج‌ البلاغہ]] کے بحث برانگیز خطبوں میں شمار کیا گیا ہے؛<ref>ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج1، ص251۔</ref> کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی اور خلافت کے مسئلے پر امام علیؑ کے واضح موقف کی بنا اہل‌ سنت کے اندر اس خطبے کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات پیدا ہونے کا باعث بنا ہے<ref>مکارم شیرازی، پیام امام(ع)، 1386ش، ج1، ص318۔</ref> یہاں تک کہ بعض اہل سنت نے نہ صرف اس خطبے بلکہ خود نہج‌ البلاغہ کے معتبر ہونے کا انکار کیا ہے۔<ref>حکیمی، شرح الخطبۃ الشقشقیۃ، 1402ق، ص126۔</ref>
خطبہ شِقشِقیّہ [[نہج البلاغہ کے خطبوں کی فہرست|نہج البلاغہ]] کے مشہور خطبوں میں سے ایک ہے<ref>شیخ مفید، الجَمَل، 1371ش، ص126۔</ref> جسے [[شیعہ]] اور [[اہل سنت و جماعت|اہل سنت]] دونوں منابع میں نقل کیا گیا ہے۔<ref>حکیمی، شرح الخطبۃ الشقشقیۃ، 1402ق، ص126۔</ref> اس خطبے کو نہج البلاغہ کے اہم ترین خطبوں میں شمار کیا گیا ہے؛ چونکہ اس میں [[خلافت|پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی]] جیسے اہم مسئلے پر صراحت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام(ع)، 1386ہجری شمسی، ج1، ص318۔</ref> چونکہ [[امام علی علیہ‌السلام|امام علی‌ؑ]] نے اس خطبے میں خلفائے ثلاثہ کی خلافت پر سوال اٹھایا ہے اس بنا پر اس خطبے کو [[نہج البلاغہ|نہج‌ البلاغہ]] کے غور طلب خطبوں میں شمار کیا گیا ہے؛<ref>ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج1، ص251۔</ref> کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی اور خلافت کے مسئلے پر امام علیؑ کا واضح موقف اس خطبے کے بارے میں اہل‌ سنت کے اندر شکوک و شبہات پیدا ہونے کا باعث بنا ہے<ref>مکارم شیرازی، پیام امام(ع)، 1386ش، ج1، ص318۔</ref> یہاں تک کہ بعض اہل سنت نے نہ صرف اس خطبے کا بلکہ خود نہج‌ البلاغہ کے معتبر ہونے کا انکار کیا ہے۔<ref>حکیمی، شرح الخطبۃ الشقشقیۃ، 1402ق، ص126۔</ref>


اس خطبے میں [[خلفائے ثلاثہ]] کی خلافت کی تاریخ امام علیؑ کی زبانی بیان ہوئی ہے۔ اس خطبے کے اہم اور بنیادی موضوعات میں مسئلہ خلافت، خلفائے ثلاثہ کے دور کی سیاسی حالات، [[25 سالہ خاموشی|امام کی 25 سالہ خاموشی]] کی وجوہات، خلافت کو قبول کرنے کے محرکات، امام کے دور کے سیاسی گروہ اور ان کے دین سے انحراف کے اسباب۔<ref>ملاحظہ کریں: نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ق، خطبہ 3، ص48-50۔</ref> اس خطبہ کو امام علیؑ کے کلام کے ایک حصے ({{عربی|تِلْکَ شِقْشِقَۃٌ ہَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ}}) کے اعتبار سے خطبہ شِقشِقیہ (شِقشِقہ یعنی آگ کا وہ شعلہ جو دل سے بلند ہوتا ہے)<ref>مکارم شیرازی، پیام امام(ع)، 1386ش، ج1، ص318۔</ref> اور اس خطبے کے پہلے جملے ({{عربی|واللّہِ لَقَدْ تَقَمَّصَہا فلان}}) کی مناسبت سے «مُقَمِّصہ» (تَقَمُّص یعنی کپڑا پہننا) کہا جاتا ہے۔<ref>بیہقی، معارج نہج البلاغہ، 1409ق، بخش2، ص80۔</ref>  
اس خطبے میں امام علیؑ کی زبانی [[خلفائے ثلاثہ]] کی خلافت کی تاریخ بیان ہوئی ہے۔ اس خطبے کے اہم اور بنیادی موضوعات میں مسئلہ خلافت، خلفائے ثلاثہ کے دور کی سیاسی حالات، [[25 سالہ خاموشی|امام کی 25 سالہ خاموشی]] کی وجوہات، خلافت کو قبول کرنے کے محرکات، امام کے دور کے سیاسی گروہ اور ان کے دین سے انحراف کے اسباب۔<ref>ملاحظہ کریں: نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ق، خطبہ 3، ص48-50۔</ref> اس خطبہ کو اس کے ({{عربی|تِلْکَ شِقْشِقَۃٌ ہَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ}}) والے جملے کے اعتبار سے خطبہ شِقشِقیہ (شِقشِقہ یعنی آگ کا وہ شعلہ جو دل سے بلند ہوتا ہے)<ref>مکارم شیرازی، پیام امام(ع)، 1386ش، ج1، ص318۔</ref> اور اس خطبے کے پہلے جملے ({{عربی|واللّہِ لَقَدْ تَقَمَّصَہا فلان}}) کی مناسبت سے «مُقَمِّصہ» (تَقَمُّص یعنی کپڑا پہننا) کہا جاتا ہے۔<ref>بیہقی، معارج نہج البلاغہ، 1409ق، بخش2، ص80۔</ref>  


[[عبد اللہ بن عباس|ابن‌عباس]] کی روایت کے مطابق امام علیؑ نے اس خطبے کو ایک چٹھی موصول ہونے پر ختم کیا پھر اسے جاری نہیں رکھا۔ اس روایت کے مطابق ابن‌ عباس کو اس خطبے کے ادھورے رہنے پر جتنا افسوس ہوا اتنای افسوس ان کی پوری زندگی میں کسی اور چیز کے ختم ہونے پر نہیں ہوا۔<ref>نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ق، خطبہ 3، ص50۔</ref> [[مصادر نہج البلاغۃ و اسانیدہ (کتاب)|مصادر نہج البلاغۃ و اسانیدہ]] کے مصنف [[سید عبد الزہراء الحسینی الخطیب]] اس بات کے معتقد ہیں کہ جس شخص نے امام علیؑ کے کلام کو قطع کیا وہ ایک جاہل یا منافق شخص تھا جس نے امام علیؑ کو اپنا مقصود بیان کرنے نہیں دیا۔<ref>الحسینی الخطیب، مصادر نہج البلاغۃ و اسانیدہ، 1409ق، ج1، ص335۔</ref>
[[عبد اللہ بن عباس|ابن‌عباس]] کی روایت کے مطابق امام علیؑ نے اس خطبے کو ایک چٹھی موصول ہونے پر ختم کیا پھر اسے جاری نہیں رکھا۔ اس روایت کے مطابق ابن‌ عباس کو اس خطبے کے ادھورے رہنے پر جتنا افسوس ہوا اتنا افسوس ان کی پوری زندگی میں کسی اور چیز کے ختم ہونے پر نہیں ہوا تھا۔<ref>نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ق، خطبہ 3، ص50۔</ref> [[مصادر نہج البلاغۃ و اسانیدہ (کتاب)|مصادر نہج البلاغۃ و اسانیدہ]] کے مصنف [[سید عبد الزہراء الحسینی الخطیب]] اس بات کے معتقد ہیں کہ جس شخص نے امام علیؑ کے کلام کو قطع کیا وہ ایک جاہل یا منافق شخص تھا جس نے امام علیؑ کو اپنا مقصود بیان کرنے نہیں دیا۔<ref>الحسینی الخطیب، مصادر نہج البلاغۃ و اسانیدہ، 1409ق، ج1، ص335۔</ref>
{| class="wikitable" style="float:left"
{| class="wikitable" style="float:left"
|-
|-
سطر 60: سطر 60:
| تراز منبع = چپ
| تراز منبع = چپ
}}
}}
==سند==
==سند==
خطبہ شقشقیہ مختلف حدیثی کتابوں میں ذکر ہوا ہے۔<ref>اس خطبے کے مآخذ سے آشنائی کے لئے ملاحظہ کریں: دشتی، اسناد و مدارک نہج البلاغہ، 1378ش، ص61-63۔</ref> اس خطبے کے متعدد اسناد کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض محققین نے اسے قابل اعتماد<ref>ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج1، ص252۔</ref> اور بعض نے [[حدیث متواتر|متواتر]] قرار دیا ہے۔<ref>ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج1، ص251۔</ref> ان تمام باتوں کے باوجود [[ابن‌ میثم بحرانی|ابن‌ میثم بَحرانی]] (نہج‌ البلاغہ کے شارح) کے مطابق اگرچہ خلفائے ثلاثہ پر امام علیؑ کی شکایت [[تواتر معنوی]] کے ذریعے ثابت شدہ ہے، لیکن اس کے باوجود  اس خطبے کے الفاظ کی [[تواتر لفظی]] کا ادعا نہیں کیا جا سکتا ہے۔<ref>ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج1، ص252۔</ref>   
خطبہ شقشقیہ مختلف حدیثی کتابوں میں ذکر ہوا ہے۔<ref>اس خطبے کے مآخذ سے آشنائی کے لئے ملاحظہ کریں: دشتی، اسناد و مدارک نہج البلاغہ، 1378ش، ص61-63۔</ref> اس خطبے کے متعدد اسناد کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض محققین نے اسے قابل اعتماد<ref>ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج1، ص252۔</ref> اور بعض نے [[حدیث متواتر|متواتر]] قرار دیا ہے۔<ref>ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج1، ص251۔</ref> ان تمام باتوں کے باوجود [[ابن‌ میثم بحرانی|ابن‌ میثم بَحرانی]] (نہج‌ البلاغہ کے شارح) کے مطابق اگرچہ خلفائے ثلاثہ پر امام علیؑ کی شکایت [[تواتر معنوی]] کے ذریعے ثابت شدہ ہے، لیکن اس کے باوجود  اس خطبے کے الفاظ کی [[تواتر لفظی]] کا ادعا نہیں کیا جا سکتا ہے۔<ref>ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، 1404ق، ج1، ص252۔</ref>   
confirmed، templateeditor
8,854

ترامیم