مندرجات کا رخ کریں

"خطبہ شقشقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 114: سطر 114:
|عرض=
|عرض=
|أَمَا وَ اللَّہِ لَقَدْ تَقَمَّصَہَا فُلَانٌ وَ إِنَّہُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْہَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَى يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ  
|أَمَا وَ اللَّہِ لَقَدْ تَقَمَّصَہَا فُلَانٌ وَ إِنَّہُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْہَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَى يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ  
|خدا کی قسم ! فلان (ابوبکر) نے پیراہنِ خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں وہ (کوہ ُ بلند ہوں ) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا۔
|خدا کی قسم ! فلان (ابوبکر) نے پیراہنِ خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ خلافت میں میرا وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں وہ (کوہ ُ بلند ہوں ) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مار سکتا۔
|فَسَدَلْتُ دُونَہَا ثَوْباً وَ طَوَيْتُ عَنْہَا كَشْحاً  
|فَسَدَلْتُ دُونَہَا ثَوْباً وَ طَوَيْتُ عَنْہَا كَشْحاً  
|(اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی
|(اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی
|وَ طَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَۃٍ عَمْيَاءَ يَہْرَمُ فِيہَا الْكَبِيرُ وَ يَشِيبُ فِيہَا الصَّغِيرُ وَ يَكْدَحُ فِيہَا مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّہ۔
|وَ طَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَۃٍ عَمْيَاءَ يَہْرَمُ فِيہَا الْكَبِيرُ وَ يَشِيبُ فِيہَا الصَّغِيرُ وَ يَكْدَحُ فِيہَا مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّہ۔
|اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سنِ رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
|اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
|فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى ہَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَيْنِ قَذًى وَ فِي الْحَلْقِ شَجًا
|فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى ہَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَيْنِ قَذًى وَ فِي الْحَلْقِ شَجًا
|مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج)  كے پھندے لگے ہوئے تھے۔
|مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج)  كے پھندے لگے ہوئے تھے۔
سطر 154: سطر 154:
|اور تم ا س دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے۔
|اور تم ا س دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے۔
|قَالُوا وَ قَامَ إِلَيْہِ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ السَّوَادِ عِنْدَ بُلُوغِہِ إِلَى ہَذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِہِ فَنَاوَلَہُ كِتَاباً قِيلَ إِنَّ فِيہِ مَسَائِلَ كَانَ يُرِيدُ الْإِجَابَۃَ عَنْہَا فَأَقْبَلَ يَنْظُرُ فِيہِ [فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَتِہِ] قَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوِ اطَّرَدَتْ خُطْبَتُكَ مِنْ حَيْثُ أَفْضَيْتَ ۔ فَقَالَ : ہَيْہَاتَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ  
|قَالُوا وَ قَامَ إِلَيْہِ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ السَّوَادِ عِنْدَ بُلُوغِہِ إِلَى ہَذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِہِ فَنَاوَلَہُ كِتَاباً قِيلَ إِنَّ فِيہِ مَسَائِلَ كَانَ يُرِيدُ الْإِجَابَۃَ عَنْہَا فَأَقْبَلَ يَنْظُرُ فِيہِ [فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَتِہِ] قَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوِ اطَّرَدَتْ خُطْبَتُكَ مِنْ حَيْثُ أَفْضَيْتَ ۔ فَقَالَ : ہَيْہَاتَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ  
| جب بایت یہاں تک پہنچی تو عراق کا ایک شخص کھڑا ہوا اور ایک خط امام تک پہنچا دیا اور آپ اس خط کو پڑھنے میں مصروف ہوگئے اس کے بعد ابن عباس نے کہا اے کاش یا امیر المؤمنین جہاں پر بات ختم ہوئی تھی وہیں سے دوبارہ شروع کرتے تو آپ نے فرمایا
| جب بات یہاں تک پہنچی تو عراق کا ایک شخص کھڑا ہوا اور ایک خط امام تک پہنچا دیا اور آپ اس خط کو پڑھنے میں مصروف ہوگئے اس کے بعد ابن عباس نے کہا اے کاش یا امیر المؤمنین جہاں پر بات ختم ہوئی تھی وہیں سے دوبارہ شروع کرتے تو آپ نے فرمایا
|تِلْكَ شِقْشِقَۃٌ ہَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ ۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَوَاللَّہِ مَا أَسَفْتُ عَلَى كَلَامٍ قَطُّ كَأَسَفِي عَلَى ہَذَا الْكَلَامِ أَلَّا يَكُونَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عليہ السلام) بَلَغَ مِنْہُ حَيْثُ أَرَادَ ۔
|تِلْكَ شِقْشِقَۃٌ ہَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ ۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَوَاللَّہِ مَا أَسَفْتُ عَلَى كَلَامٍ قَطُّ كَأَسَفِي عَلَى ہَذَا الْكَلَامِ أَلَّا يَكُونَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عليہ السلام) بَلَغَ مِنْہُ حَيْثُ أَرَادَ ۔
|ہیہات اے ابن عباس، یہ اندرونی آگ تھی جو شعلہ ور ہوئی پھر خاموش ہو گئی! ابن عباس کہتا ہے: خدا کی قسم امیر المؤمنین کے اس نامکمل کلام کی طرح کسی بات پر مجھے افسوس نہیں ہوا کہ اس اعلی صفات کے مالک انسان کو اپنا درد دل یوں ختم کرنا پڑا ۔  
|ہیہات اے ابن عباس، یہ اندرونی آگ تھی جو شعلہ ور ہوئی پھر خاموش ہو گئی! ابن عباس کہتا ہے: خدا کی قسم امیر المؤمنین کے اس نامکمل کلام کی طرح کسی بات پر مجھے افسوس نہیں ہوا کہ اس اعلی صفات کے مالک انسان کو اپنا درد دل یوں ختم کرنا پڑا ۔  
confirmed، templateeditor
8,854

ترامیم