مندرجات کا رخ کریں

"غسل جنابت" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(لینک دھی)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 6: سطر 6:
==جنابت==
==جنابت==
{{اصلی|جنابت}}
{{اصلی|جنابت}}
غسلِ جنابت [[اسلام]] میں واجب غسلوں میں سے ایک ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص493.</ref> اس غسل اور اس کے احکام کے بارے میں حدیثی،<ref>ملاحظہ ہو: حر عاملی، وسائل الشیعه، مؤسسة آل البیت، ج2، ص273 به بعد.</ref> فقہی<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص521.</ref> کتابوں اور مراجع کی توضیح المسائل<ref>بنی‌هاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1381ش، ج1، ص208.</ref> میں بحث ہوتی ہے۔
غسلِ جنابت [[اسلام]] میں واجب غسلوں میں سے ایک ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص493۔</ref> اس غسل اور اس کے احکام کے بارے میں حدیثی،<ref>ملاحظہ ہو: حر عاملی، وسائل الشیعہ، مؤسسۃ آل البیت، ج2، ص273 کے بعد۔</ref> فقہی<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص521۔</ref> کتابوں اور مراجع کی توضیح المسائل<ref>بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، 1381شمسی، ج1، ص208۔</ref> میں بحث ہوتی ہے۔


[[منی]] خارج ہونے (بیداری میں ہو یا نیند میں ہو) یا [[جماع|ہمبستری]] (حتی اگر منی خارج نہ ہو) کرنے سے انسان جُنُب ہوتا ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص496-499.</ref> فقہا کے فتوے کے مطابق جس شخص پر غسل جنابت واجب ہو اس پر بعض اعمال [[حرام]] یا [[مکروہ]] ہوتی ہیں اور غسل کرنے کے بعد وہ حرام اور کراہت کا حکم ختم ہوتا ہے۔<ref>ملاحظہ ہو: طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص507.</ref> مثال کے طور پر [[نماز]] پڑھنا، [[مسجد]] میں ٹھہرنا، [[عزائم|واجب سجدہ والی سورتوں]] کو پڑھنا، [[قرآن کریم|قرآن]] کے متن کو چھونا اور [[چودہ معصومین|چودہ معصومینؑ]] کے ناموں کو مَس کرنا جنابت والے شخص پر حرام ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ص507-509.</ref> اسی طرح کھانا، پینا، قرآن کی سات سے زیادہ آیتوں کی تلاوت کرنا، قرآن کے جلد کو چَھونا اور [[سکرات موت|جان کنی]] میں مبتلا انسان کے پاس جانا وغیرہ مکروہ ہیں۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص520.</ref> البتہ ان میں سے بعض کی کراہت وضو کرنے سے بھی ختم ہوتی ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص520.</ref>
[[منی]] خارج ہونے (بیداری میں ہو یا نیند میں ہو) یا [[جماع|ہمبستری]] (حتی اگر منی خارج نہ ہو) کرنے سے انسان جُنُب ہوتا ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص496-499۔</ref> فقہا کے فتوے کے مطابق جس شخص پر غسل جنابت واجب ہو اس پر بعض اعمال [[حرام]] یا [[مکروہ]] ہوتی ہیں اور غسل کرنے کے بعد وہ حرام اور کراہت کا حکم ختم ہوتا ہے۔<ref>ملاحظہ ہو: طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص507۔</ref> مثال کے طور پر [[نماز]] پڑھنا، [[مسجد]] میں ٹھہرنا، [[عزائم|واجب سجدہ والی سورتوں]] کو پڑھنا، [[قرآن کریم|قرآن]] کے متن کو چھونا اور [[چودہ معصومین|چودہ معصومینؑ]] کے ناموں کو مَس کرنا جنابت والے شخص پر حرام ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ص507-509۔</ref> اسی طرح کھانا، پینا، قرآن کی سات سے زیادہ آیتوں کی تلاوت کرنا، قرآن کے جلد کو چَھونا اور [[سکرات موت|جان کنی]] میں مبتلا انسان کے پاس جانا وغیرہ مکروہ ہیں۔<ref>طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص520۔</ref> البتہ ان میں سے بعض کی کراہت وضو کرنے سے بھی ختم ہوتی ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص520۔</ref>


==جنابت کے فورا بعد غسل کرنا==
==جنابت کے فورا بعد غسل کرنا==
[[مجتہد|مجتہدین]] کے [[فتوا]] کے مطابق غسل جنابت [[واجب غیری]] (کسی اور عبادت کی وجہ سے واجب ہوا ہے)؛<ref>نجفی، جواهر الکلام، 1362ش، ج1، ص46.</ref> یعنی غسل بذات خود واجب نہیں بلکہ [[مستحب]] ہے<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص521.</ref> لیکن نماز جیسی بعض عبادتوں کے لئے واجب ہوتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص521.</ref> فقہا کا یہ بھی کہنا ہے کہ غسل جنابت کو جلدی انجام دینا واجب نہیں بلکہ [[واجب موسع]] (جس واجب کا وقت وسیع ہوتا ہے) ہے؛ اس لئے جس [[عبادت]] کے لئے یہ غسل واجب ہوتا ہے اس عبادت کے وقت تک تاخیر کر سکتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌ادریس، موسوعة ابن‌ادریس الحلی، 1387ش، ج7، ص111.</ref>
[[مجتہد|مجتہدین]] کے [[فتوا]] کے مطابق غسل جنابت [[واجب غیری]] (کسی اور عبادت کی وجہ سے واجب ہوا ہے)؛<ref>نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج1، ص46۔</ref> یعنی غسل بذات خود واجب نہیں بلکہ [[مستحب]] ہے<ref>طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص521۔</ref> لیکن نماز جیسی بعض عبادتوں کے لئے واجب ہوتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص521۔</ref> فقہا کا یہ بھی کہنا ہے کہ غسل جنابت کو جلدی انجام دینا واجب نہیں بلکہ [[واجب موسع]] (جس واجب کا وقت وسیع ہوتا ہے) ہے؛ اس لئے جس [[عبادت]] کے لئے یہ غسل واجب ہوتا ہے اس عبادت کے وقت تک تاخیر کر سکتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌ادریس، موسوعۃ ابن‌ادریس الحلی، 1387شمسی، ج7، ص111۔</ref>
==روزے کی صحت غسل جنابت پر موقوف==
==روزے کی صحت غسل جنابت پر موقوف==
{{اصلی|جنابت پر باقی رہنا}}
{{اصلی|جنابت پر باقی رہنا}}
اگر کسی شخص پر [[رمضان المبارک]] میں غسل جنابت واجب ہوجائے تو روزے کے لئے صبح کی [[اذان]] سے پہلے [[غسل]] کرنا چاہیے؛ اور جس پر غسل [[واجب]] ہوا ہو جان بوجھ کر اذان سے پہلے غسل بجا نہ لائے تو اس کا [[روزہ]] باطل ہے اور اس پر قضا اور [[کفارہ]] دونوں واجب ہونگے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1420ق، ج3، ص563.</ref>
اگر کسی شخص پر [[رمضان المبارک]] میں غسل جنابت واجب ہوجائے تو روزے کے لئے صبح کی [[اذان]] سے پہلے [[غسل]] کرنا چاہیے؛ اور جس پر غسل [[واجب]] ہوا ہو جان بوجھ کر اذان سے پہلے غسل بجا نہ لائے تو اس کا [[روزہ]] باطل ہے اور اس پر قضا اور [[کفارہ]] دونوں واجب ہونگے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1420ھ، ج3، ص563۔</ref>


==غسل جنابت کا طریقہ==
==غسل جنابت کا طریقہ==
{{اصلی|غسل}}
{{اصلی|غسل}}
دوسرے غسلوں کی طرف غسل جنابت کو بھی دو طریقے یعنی ترتیبی یا ارتماسی طریقے سے انجام دیا جاسکتا ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص522-523.</ref>
دوسرے غسلوں کی طرف غسل جنابت کو بھی دو طریقے یعنی ترتیبی یا ارتماسی طریقے سے انجام دیا جاسکتا ہے۔<ref>طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص522-523۔</ref>


==احکام==
==احکام==
*اگر جنابت صرف [[منی]] خارج ہونے سے ہو تو مشہور قول کے مطابق غسل سے پہلے [[استبراء]] کرنا مستحب ہے۔<ref> جواہر الکلام، ج3، ص108</ref>
*اگر جنابت صرف [[منی]] خارج ہونے سے ہو تو مشہور قول کے مطابق غسل سے پہلے [[استبراء]] کرنا مستحب ہے۔<ref> جواہر الکلام، ج3، ص108</ref>
غسل ترتیبی میں پہلے سر اور گردن، پھر بدن کے دائیں طرف اور اس کے بعد بائیں طرف دھوئے جاتے ہیں۔<ref>حکیم، مستمسک العروه، 1968م، ج3، ص79.</ref> غسل ارتماسی میں پورے بدن کو ایک ہی دفعہ پانی میں ڈبویا جاتا ہے اور ارتماسی میں سارا بدن ایک ہی دفعے میں پانی کے نیچے آنا ضروری ہے۔<ref>حکیم، مستمسک العروه، 1968م، ج3، ص85-86.</ref>
غسل ترتیبی میں پہلے سر اور گردن، پھر بدن کے دائیں طرف اور اس کے بعد بائیں طرف دھوئے جاتے ہیں۔<ref>حکیم، مستمسک العروہ، 1968م، ج3، ص79۔</ref> غسل ارتماسی میں پورے بدن کو ایک ہی دفعہ پانی میں ڈبویا جاتا ہے اور ارتماسی میں سارا بدن ایک ہی دفعے میں پانی کے نیچے آنا ضروری ہے۔<ref>حکیم، مستمسک العروہ، 1968ء، ج3، ص85-86۔</ref>
===غسل جنابت کے آداب===
===غسل جنابت کے آداب===
*اگر غسل جنابت منی نکلنے کی وجہ سے واجب ہوا ہو تو فقہا کے فتوے کے مطابق غسل سے پہلے چھوٹا پیشاب کرنا مستحب ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، 1362ش، ج3، ص108.</ref>
*اگر غسل جنابت منی نکلنے کی وجہ سے واجب ہوا ہو تو فقہا کے فتوے کے مطابق غسل سے پہلے چھوٹا پیشاب کرنا مستحب ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج3، ص108۔</ref>
*غسل سے پہلے ہاتھ دھونا، منہ میں کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا اور غسل کے دوران [[بسم الله الرحمن الرحیم|بسم‌اللّه]]  اور ماثور دعائیں پڑھنا مستحب ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص541-542.</ref>
*غسل سے پہلے ہاتھ دھونا، منہ میں کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا اور غسل کے دوران [[بسم اللہ الرحمن الرحیم|بسم‌اللّہ]]  اور ماثور دعائیں پڑھنا مستحب ہے۔<ref> طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص541-542۔</ref>
==غسل جنابت کا وضو کے لئے کافی ہونا==
==غسل جنابت کا وضو کے لئے کافی ہونا==
فقہا کے فتوے کے مطابق غسل جنابت وضو کے لئے کافی ہے<ref>شیخ طوسی، الخلاف، مؤسسه نشر اسلامی، ج1، ص131؛ نجفی، جواهر الکلام، 1363ش، ج3، ص240.</ref> اور مشہور قول کے مطابق غسل جنابت کے بعد وضو کرنا جائز نہیں ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام،1362ش، ج3، ص240.</ref> لیکن [[علامہ حلی]] کے مطابق [[شیخ طوسی]] دوسرے علما کے برخلاف غسل جنابت کے ساتھ وضو کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔<ref>علامه حلی، مختلف الشیعه، 1412ق، ج1، ص340.</ref>  
فقہا کے فتوے کے مطابق غسل جنابت وضو کے لئے کافی ہے<ref>شیخ طوسی، الخلاف، مؤسسہ نشر اسلامی، ج1، ص131؛ نجفی، جواہر الکلام، 1363شمسی، ج3، ص240۔</ref> اور مشہور قول کے مطابق غسل جنابت کے بعد وضو کرنا جائز نہیں ہے۔<ref>نجفی، جواہر الکلام،1362شمسی، ج3، ص240۔</ref> لیکن [[علامہ حلی]] کے مطابق [[شیخ طوسی]] دوسرے علما کے برخلاف غسل جنابت کے ساتھ وضو کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔<ref>علامہ حلی، مختلف الشیعہ، 1412ھ، ج1، ص340۔</ref>  


*اگر غسل جنابت کے دوران کوئی [[حدث اصغر]] ([[مبطلات وضو]] میں سے کوئی ایک) سرزد ہوجائے؛ مثلا پیشاب نکلے یا ریح خارج ہوجائے تو غسل صحیح ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ اگر غسل صحیح ہو تو اس صورت میں یہ غسل وضو کے لئے کافی ہونے میں اختلاف ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص547.</ref>[[سید محمد کاظم طباطبایی یزدی|سید محمد کاظم طباطبایی یزدی]] کے فتوے کے مطابق غسل باطل نہیں ہوتا ہے لیکن وضو کرنا ہوگا۔<ref> طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ق، ج1، ص547.</ref>
*اگر غسل جنابت کے دوران کوئی [[حدث اصغر]] ([[مبطلات وضو]] میں سے کوئی ایک) سرزد ہوجائے؛ مثلا پیشاب نکلے یا ریح خارج ہوجائے تو غسل صحیح ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ اگر غسل صحیح ہو تو اس صورت میں یہ غسل وضو کے لئے کافی ہونے میں اختلاف ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص547۔</ref>[[سید محمد کاظم طباطبایی یزدی|سید محمد کاظم طباطبایی یزدی]] کے فتوے کے مطابق غسل باطل نہیں ہوتا ہے لیکن وضو کرنا ہوگا۔<ref> طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص547۔</ref>


==غسل جنابت کا فلسفہ==
==غسل جنابت کا فلسفہ==
[[علل الشرائع (کتاب)|عِلَل الشرایع]] میں منقول [[حدیث|روایات]] کے مطابق غسل جنابت واجب ہونے کا فلسفہ بدن کو نجاست سے پاک اور صاف کرنا ہے کیونکہ جنابت تمام بدن سے خارج ہوتا ہے اسی لئے پورے بدن کو دھویا جاتا ہے۔<ref> صدوق، علل الشرایع، المكتبة الحيدرية ومطبعتها في النجف، ج1، ص281.</ref> [[تفسیر نمونہ]] میں کہا گیا ہے کہ: دانشوروں کی تحقیق کے مطابق انسانی بدن میں دو طرح کے نباتاتی اعصاب ہیں جو بدن کو کنٹرول کرتے ہیں جب انسان انزال (ارگاسم) کے مرحلے میں پہنچتا ہے تو وہ دونوں اعصاب بگڑ جاتے ہیں اور بدن پر پانی ڈالنے سے وہ اعصاب اپنی جگہ آجاتے ہیں اور انزال کے اثرات چونکہ پورے بدن پر ظاہر ہوتے ہیں اسی لئے جنابت میں پورے بدن کو دھونے کا حکم ہوا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374ش، ج4، ص292-294.</ref>  
[[علل الشرائع (کتاب)|عِلَل الشرایع]] میں منقول [[حدیث|روایات]] کے مطابق غسل جنابت واجب ہونے کا فلسفہ بدن کو نجاست سے پاک اور صاف کرنا ہے کیونکہ جنابت تمام بدن سے خارج ہوتا ہے اسی لئے پورے بدن کو دھویا جاتا ہے۔<ref> صدوق، علل الشرایع، المكتبۃ الحيدريۃ ومطبعتہا في النجف، ج1، ص281۔</ref> [[تفسیر نمونہ]] میں کہا گیا ہے کہ: دانشوروں کی تحقیق کے مطابق انسانی بدن میں دو طرح کے نباتاتی اعصاب ہیں جو بدن کو کنٹرول کرتے ہیں جب انسان انزال (ارگاسم) کے مرحلے میں پہنچتا ہے تو وہ دونوں اعصاب بگڑ جاتے ہیں اور بدن پر پانی ڈالنے سے وہ اعصاب اپنی جگہ آجاتے ہیں اور انزال کے اثرات چونکہ پورے بدن پر ظاہر ہوتے ہیں اسی لئے جنابت میں پورے بدن کو دھونے کا حکم ہوا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج4، ص292-294۔</ref>  
 


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 40: سطر 39:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
*ابن‌ادریس، موسوعة ابن‌ادریس الحلی، قم، دلیل ما، 1387ش.
*ابن‌ادریس، موسوعۃ ابن‌ادریس الحلی، قم، دلیل ما، 1387ہجری شمسی۔
*بنی‌هاشمی خمینی، محمدحسن، توضیح المسائل، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1381ش.
*بنی‌ہاشمی خمینی، محمدحسن، توضیح المسائل، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1381ہجری شمسی۔
*حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسة آل البیت علیهم السلام لإحیاء التراث، بی‌تا.
*حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث، بی‌تا۔
*حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی، نجف، بی‌نا، 1968م.
*حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، نجف، بی‌نا، 1968م۔
*شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب الخلاف، قم، مؤسسه نشر اسلامی، بی‌تا.
*شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب الخلاف، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، بی‌تا۔
*صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، المکتبة الحیدریة ومطبعتها فی النجف، بی‌تا.
*صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، المکتبۃ الحیدریۃ ومطبعتہا فی النجف، بی‌تا۔
*طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروة الوثقی (ج1)، قم، مؤسسة النشر الإسلامی، الطبعة الاولی، 1417ق.
*طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی (ج1)، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، الطبعۃ الاولی، 1417ھ۔
*طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروة الوثقی (ج3)، قم، مؤسسة النشر الإسلامی، الطبعة الاولی، 1420ق.
*طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی (ج3)، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، الطبعۃ الاولی، 1420ھ۔
*علامه حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعة فی احکام الشریعه، به کوشش مرکزالابحاث والدراسات الاسلامیة، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، 1412ق.
*علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعۃ فی احکام الشریعہ، بہ کوشش مرکزالابحاث والدراسات الاسلامیۃ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ اول، 1412ھ۔
*مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دارالکتب الاسلامیه، چاپ: سی و دوم، 1374ش
*مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ: سی و دوم، 1374ہجری شمسی۔
*نجفی، محمدحسن، جواهر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ هفتم، 1362ش.
*نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,901

ترامیم