مندرجات کا رخ کریں

"عصمت" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 12: سطر 12:


==اہمیت اور مقام==
==اہمیت اور مقام==
شیعہ ماہر الہیات کلامی کتابوں کے مؤلف [[سید علی حسینی میلانی]] کے مطابق، عصمت کا مسئلہ ان اہم عقیدتی اور کلامی مسائل میں سے ایک ہے جسے ہر اسلامی فرقے نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے بیان کیا ہے۔ عصمت کا معصوم کے قول اور فعل کی حجیت کے ساتھ تعلق نے اس بحث کی اہمیت اور حساسیت کو بڑھا دیا ہے۔ ان کے بقول، [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] چونکہ وہ مسلم حکمرانوں کی عصمت پر عقیدہ نہیں رکھتے ہیں اس لیے وہ عصمت کے مسئلے پر نبوت کے عنوان کے ذیل میں بحث کرتے ہیں؛ لیکن شیعہ تمام [[انبیاء]] اور [[شیعہ ائمہ]] کو معصوم سمجھتے ہیں اسی لیے وہ نبوت اور امامت کے ذیل میں اس پر گفتگو کرتے ہیں۔
شیعہ ماہر الہیات اور کلامی کتابوں کے مؤلف [[سید علی حسینی میلانی]] کے مطابق، عصمت کا مسئلہ ان اہم عقیدتی اور کلامی مسائل میں سے ایک ہے جسے ہر اسلامی فرقے نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے بیان کیا ہے۔ عصمت کا معصوم کے قول اور فعل کی حجیت کے ساتھ تعلق نے اس بحث کی اہمیت اور حساسیت کو بڑھا دیا ہے۔ ان کے بقول، [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] چونکہ وہ مسلم حکمرانوں کی عصمت پر عقیدہ نہیں رکھتے ہیں اس لیے وہ عصمت کے مسئلے پر [[نبوت]] کے عنوان کے ذیل میں بحث کرتے ہیں؛ لیکن شیعہ تمام [[انبیاء]] اور [[شیعہ ائمہ]] کو معصوم سمجھتے ہیں اسی لیے وہ نبوت اور [[امامت]] کے ذیل میں اس پر گفتگو کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عصمت مسلمانوں کے مشترک موضوعات میں سے ایک ہے؛ اگرچہ مصادق اور تفصیلات میں باہم بہت کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے۔<ref>حسینی میلانی، جَواہرُ الکلام فی معرفۃِ الامامۃِ و الامام، 1389شمسی، ج2، ص38-39۔</ref>
ان کا کہنا ہے کہ عصمت مسلمانوں کے مشترک موضوعات میں سے ایک ہے؛ اگرچہ مصداق اور تفصیلات میں باہم بہت کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے۔<ref>حسینی میلانی، جَواہرُ الکلام فی معرفۃِ الامامۃِ و الامام، 1389شمسی، ج2، ص38-39۔</ref>


کلام اسلامی کی کتابوں میں عصمت پر بحث عصمت انبیاء، عصمت ائمہ اور فرشتوں کے ذیل میں ہوتی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں:‌ طوسی، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّق بالاعتقاد، 1496ھ، ص260، 350؛ علامہ حلی، کشفُ‌المراد، 1382شمسی، ص155، 184؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، 1372شمسی، ص90، 114۔</ref> تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی [[آیہ تطہیر]] کے ذیل میں عصمت پر بحث ہوئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج2، ص13-134 و ج5،‌ ص78-80، ج11، ص162-164؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص3-410؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج17، ص297-305.
کلام اسلامی کی کتابوں میں عصمت پر بحث [[عصمت انبیاء]]، [[عصمت ائمہ]] اور [[عصمت فرشتہ|فرشتوں]] کے ذیل میں ہوتی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں:‌ طوسی، الاقتصاد فیما یَتَعَلَّق بالاعتقاد، 1496ھ، ص260، 350؛ علامہ حلی، کشفُ‌المراد، 1382شمسی، ص155، 184؛ فیاض لاہیجی، سرمایہ ایمان، 1372شمسی، ص90، 114۔</ref> تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی [[آیہ تطہیر]] کے ذیل میں عصمت پر بحث ہوئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج2، ص13-134 و ج5،‌ ص78-80، ج11، ص162-164؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص3-410؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج17، ص297-305.
</ref>
</ref>
علم [[اصول فقہ]] میں اہل سنت کے علمائے علم اصول نے اجماع کی حجیت کو امت کی عصمت سے جوڑا ہے؛ کیونکہ ان کی نظر میں امتِ اسلامی پیغمبر اکرمؐ کی جانشین ہے اور دینی امور میں ہر قسم کے خطا، سہو اور جھوٹ سے مبرا ہے۔ ان کے مقابلے میں شیعہ علما اجماع کی حجیت کا معیار امام کی عصمت سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ان کی نظر میں امام پیغمبر کا جانشین ہوتا ہے اور ان کی طرح سے معصوم ہوتا ہے اور اجماع اس لئے حجت ہے کہ وہ معصوم کے قول کو کشف کرتا ہے۔<ref>ضیائی‌فر، «تأثیر دیدگاہ‌ہای کلامی بر اصول فقہ»، ص323۔</ref>
علم [[اصول فقہ]] میں اہل سنت کے علمائے علم اصول نے اجماع کی حجیت کو امت کی عصمت سے جوڑا ہے؛ کیونکہ ان کی نظر میں امتِ اسلامی [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کی جانشین ہے اور دینی امور میں ہر قسم کے خطا، سہو اور جھوٹ سے مبرا ہے۔ ان کے مقابلے میں شیعہ علما اجماع کی حجیت کا معیار امام کی عصمت سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ان کی نظر میں امام پیغمبر کا جانشین ہوتا ہے اور ان کی طرح سے معصوم ہوتا ہے اور اجماع اس لئے حجت ہے کہ وہ معصوم کے قول کو کشف کرتا ہے۔<ref>ضیائی‌فر، «تأثیر دیدگاہ‌ہای کلامی بر اصول فقہ»، ص323۔</ref>


عصمت کے بارے میں [[مسیحیت]] اور [[یہودیت]] جیسے ادیان میں بھی بحث ہوتی ہے اور عیسائی حضرت عیسیؑ کے علاوہ کتاب مقدس لکھنے والے اور کیتھولیک کلیسا کے پاپ کو بھی معصوم سمجھتے ہیں؛ البتہ پاپ کی عصمت پر صرف کیتھولیک آئین کا عقیدہ ہے۔<ref>حسینی، «[http://www.intizar.ir/article/34/عصمت-دیدگاه-اهل-کتاب-یهودیان-مسیحیان عصمت از دیدگاہ اہل کتاب (یہودیان و مسیحیان)]»، وبگاہ آیندہ روشن۔</ref>
عصمت کے بارے میں [[مسیحیت]] اور [[یہودیت]] جیسے ادیان میں بھی بحث ہوتی ہے اور عیسائی [[حضرت عیسیؑ]] کے علاوہ [[انجیل|کتاب مقدس]] لکھنے والے اور کیتھولیک کلیسا کے پاپ کو بھی معصوم سمجھتے ہیں؛ البتہ پاپ کی عصمت پر صرف کیتھولیک آئین کا عقیدہ ہے۔<ref>حسینی، «[http://www.intizar.ir/article/34/عصمت-دیدگاه-اهل-کتاب-یهودیان-مسیحیان عصمت از دیدگاہ اہل کتاب (یہودیان و مسیحیان)]»، وبگاہ آیندہ روشن۔</ref>


===تعریف اور معنی===
===تعریف اور معنی===
سطر 29: سطر 29:
*'''فیلسوف کی تعریف''': مسلم حکما عصمت کو ایک نفسانی ملَکَہ{{یادداشت|نفسانی ایک حالت کا نام ہے جو انسان کی روح میں داخل ہوتی ہے اور پھر ختم نہیں ہوتی ہے۔(جرجانی، التعریفات، 1412ھ، ص101)}} سے تعریف کرتے ہیں جس کے ہوتے ہوئے صاحبِ عصمت سے گناہ سرزد نہیں ہوتا ہے۔<ref>طوسی، تلخیص‌المحصل، 1405ھ، ص369؛ جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ھ، ج8، ص281؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص162؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص197؛ مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، 1395شمسی، ص285-286۔</ref>
*'''فیلسوف کی تعریف''': مسلم حکما عصمت کو ایک نفسانی ملَکَہ{{یادداشت|نفسانی ایک حالت کا نام ہے جو انسان کی روح میں داخل ہوتی ہے اور پھر ختم نہیں ہوتی ہے۔(جرجانی، التعریفات، 1412ھ، ص101)}} سے تعریف کرتے ہیں جس کے ہوتے ہوئے صاحبِ عصمت سے گناہ سرزد نہیں ہوتا ہے۔<ref>طوسی، تلخیص‌المحصل، 1405ھ، ص369؛ جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ھ، ج8، ص281؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص162؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص197؛ مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، 1395شمسی، ص285-286۔</ref>


شیعہ معاصر مفسر اور متکلم [[جعفر سبحانی|آیت اللہ سبحانی]] عصمت کی تعریف میں گناہ سے عصمت اور خطا سے عصمت میں فرق کے قائل ہیں اور ایک طرح سے عدلیہ اور حکما کی تعریف کو ملایا ہے۔ اور وہ گناہ سے عصمت کو تقوی الہی کا اعلی ترین درجہ اور ملکہ نفسانی اور درونی طاقت سمجھتے ہیں جس کی وجہ معصوم شخص گناہ سے اجتناب بلکہ اس کے بارے میں سوچنے سے بھی اجتناب کرتا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص12-14؛ سبحانی، الالہیات، 1412ھ، ج3، ص158-159۔</ref> آپ خطا اور سہو سے عصمت کو غفلت سے عاری علم سمجھتا ہے جو اللہ کے لطف کے زیر سایہ ہے جس کی وجہ سے چیزوں کی حقیقی تصویر معصوم کے فکر و ذہن میں آجاتی ہے اور اس وجہ سے وہ خطا اور اشتباہ سے محفوظ رہتا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص20۔</ref>
شیعہ معاصر مفسر اور متکلم [[جعفر سبحانی|آیت اللہ سبحانی]] عصمت کی تعریف میں گناہ سے عصمت اور خطا سے عصمت میں فرق کے قائل ہیں اور ایک طرح سے عدلیہ اور حکما کی تعریف کو ملایا ہے۔ اور وہ گناہ سے عصمت کو [[تقوا|تقوی الہی]] کا اعلی ترین درجہ اور ملکہ نفسانی اور درونی طاقت سمجھتے ہیں جس کی وجہ معصوم شخص گناہ سے اجتناب بلکہ اس کے بارے میں سوچنے سے بھی اجتناب کرتا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص12-14؛ سبحانی، الالہیات، 1412ھ، ج3، ص158-159۔</ref> آپ خطا اور سہو سے عصمت کو غفلت سے عاری علم سمجھتا ہے جو اللہ کے لطف کے زیر سایہ ہے جس کی وجہ سے چیزوں کی حقیقی تصویر معصوم کے فکر و ذہن میں آجاتی ہے اور اس وجہ سے وہ خطا اور اشتباہ سے محفوظ رہتا ہے۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص20۔</ref>


لغوی اعتبار سے عصمت "ع ص م" کے مادے سے اسم مصدر ہے جس کے معنی مصونیت اور محفوظ رہنا۔.<ref> ملاحظہ کریں: ابن‌فارس، مُعجَمُ مَقاییسِ اللّغۃ، مکتب الاعلامِ الاسلامی، ج4، ص331؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، دار قلم، ص569؛ جوہری،‌ الصِّحاح، 1407ھ، ج5، ص1986؛‌ ابن‌منظور، لسان‌العرب، دار صادر، ج12، ص403-404. </ref>
لغوی اعتبار سے عصمت "ع ص م" کے مادے سے اسم مصدر ہے جس کے معنی مصونیت اور محفوظ رہنا۔.<ref> ملاحظہ کریں: ابن‌فارس، مُعجَمُ مَقاییسِ اللّغۃ، مکتب الاعلامِ الاسلامی، ج4، ص331؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، دار قلم، ص569؛ جوہری،‌ الصِّحاح، 1407ھ، ج5، ص1986؛‌ ابن‌منظور، لسان‌العرب، دار صادر، ج12، ص403-404. </ref>


==عصمت کا سرچشمہ==
==عصمت کا سرچشمہ==
عصمت کا سرچشمہ اور معصوم کو گناہ اور خطا سے بچانے کے عامل کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں معصوم پر اللہ کا لطف، گناہ کے آثار کے بارے میں معصوم کا مخصوص علم اور معصوم کا ارادہ اور انتخاب شامل ہیں۔ البتہ بعض معاصر محققین کا خیال ہے کہ عصمت کسی ایک عامل کا مرہون منت نہی ہے بلکہ بعض فطری عوامل جیسے، وراثت، سماج اور خاندان، اور بعض انسانی عوامل جیسے شعور اور آگاہی، ارادہ اور انتخاب، عقل اور نفسانی ملکہ، اور خداوند متعال کے خاص  لطف و کرم کا نتیجہ ہے۔<ref>قدردان قراملکی، کلام فلسفی، 1383شمسی، ص388-390۔</ref>
عصمت کا سرچشمہ اور معصوم کو گناہ اور خطا سے بچانے کے عامل کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں معصوم پر [[اللہ]] کا لطف، گناہ کے آثار کے بارے میں معصوم کا مخصوص علم اور معصوم کا ارادہ اور انتخاب شامل ہیں۔ البتہ بعض معاصر محققین کا خیال ہے کہ عصمت کسی ایک عامل کا مرہون منت نہی ہے بلکہ بعض فطری عوامل جیسے، وراثت، سماج اور خاندان، اور بعض انسانی عوامل جیسے شعور اور آگاہی، ارادہ اور انتخاب، عقل اور نفسانی ملکہ، اور خداوند متعال کے خاص  لطف و کرم کا نتیجہ ہے۔<ref>قدردان قراملکی، کلام فلسفی، 1383شمسی، ص388-390۔</ref>


===لطف الہی===
===لطف الہی===
[[شیخ مفید]] اور [[سید مرتضی|سیدِ مرتضی]] عصمت کو معصومین کے حق میں اللہ کا لطف سمجھتے ہیں۔<ref>مفید، تصحیحُ الاعتقاداتِ الامامیہ، 1414ھ، ص128؛ سیدِ مرتضی، الذخیرہ، 1411ھ، ص189۔</ref> [[علامہ حلی]] چار اسباب اور عوامل کو اس لطف کا منشا قرار دیتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
[[شیخ مفید]] اور [[سید مرتضی|سیدِ مرتضی]] عصمت کو معصومین کے حق میں [[قاعدہ لطف|اللہ کا لطف]] سمجھتے ہیں۔<ref>مفید، تصحیحُ الاعتقاداتِ الامامیہ، 1414ھ، ص128؛ سیدِ مرتضی، الذخیرہ، 1411ھ، ص189۔</ref> [[علامہ حلی]] چار اسباب اور عوامل کو اس لطف کا منشا قرار دیتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
#معصوم شخص جسمانی یا روحانی اعتبار سے کچھ ایسی خصوصیات کا حامل ہے جو باعث بنتا ہے کہ اس میں گناہ سے اجتناب کا ملکہ ایجاد ہوتا ہے؛
#معصوم شخص جسمانی یا روحانی اعتبار سے کچھ ایسی خصوصیات کا حامل ہے جو باعث بنتا ہے کہ اس میں گناہ سے اجتناب کا ملکہ ایجاد ہوتا ہے؛
#معصوم شخص کیلئے گناہوں کے برے اثرات اور خداوند متعال کی اطاعت اور بندگی کی قدروقیمت سے مکمل آگاہی حاصل ہونا؛
#معصوم شخص کیلئے گناہوں کے برے اثرات اور خداوند متعال کی اطاعت اور بندگی کی قدروقیمت سے مکمل آگاہی حاصل ہونا؛
#وحی یا الہام کے ذریعے گناہ کی حقیقت اور اطاعت کے بارے میں بینش اور آگاہی میں وسعت آجاتی ہے (وحی یا الہام کے ذریعے علم کی تائید اور اس پر تاکید)؛
#[[وحی]] یا [[الہام]] کے ذریعے گناہ کی حقیقت اور اطاعت کے بارے میں بینش اور آگاہی میں وسعت آجاتی ہے (وحی یا الہام کے ذریعے علم کی تائید اور اس پر تاکید)؛
#معصوم شخص نہ فقط [[واجب|واجبات]] بلکہ ترک اولی پر بھی مورد مؤاخذہ قرار پاتا ہے ۔<ref>علامہ حلی، کشف‌المراد، 1382شمسی، ص186۔</ref>
#معصوم شخص نہ فقط [[واجب|واجبات]] بلکہ [[ترک اولی]] پر بھی مورد مؤاخذہ قرار پاتا ہے ۔<ref>علامہ حلی، کشف‌المراد، 1382شمسی، ص186۔</ref>


===مخصوص علم===
===مخصوص علم===
بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ عصمت کا سرچشمہ یہ ہے کہ معصوم شخص گناہ کے اثرات اور اطاعت کے پاداش کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلہیہ، 1422ھ، ص224؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج5، ص79، ج11، ص162-163، ج17، ص291؛ سبحانی، الالہیات، 1412ھ، ج4، ص159-161۔</ref>  
بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ عصمت کا سرچشمہ یہ ہے کہ معصوم شخص گناہ کے اثرات اور اطاعت کے پاداش کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلہیہ، 1422ھ، ص224؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج5، ص79، ج11، ص162-163، ج17، ص291؛ سبحانی، الالہیات، 1412ھ، ج4، ص159-161۔</ref>  
علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ معصومین خدادادی علم کے مالک ہیں اس لئے مضبوط ارادے کے مالک ہیں جس کے ہوتے ہوئے گناہ کی طرف نہیں جاتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص163۔</ref> یہ علم باقی علوم کی طرح سیکھنے سے حاصل نہیں ہوتا اور خواہشتا اور دیگر طاقتوں سے شکست بھی نہیں کھاتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج5، ص79۔</ref>
[[علامہ طباطبائی]] کہتے ہیں کہ معصومین خدا داد علم کے مالک ہیں اس لئے مضبوط ارادے کے مالک ہیں جس کے ہوتے ہوئے گناہ کی طرف نہیں جاتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص163۔</ref> یہ علم باقی علوم کی طرح سیکھنے سے حاصل نہیں ہوتا اور خواہشات اور دیگر طاقتوں سے شکست بھی نہیں کھاتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج5، ص79۔</ref>


===علم و ارادہ===
===علم و ارادہ===
سطر 51: سطر 51:


==عصمت اور اختیار==
==عصمت اور اختیار==
لبنانی شیعہ مرجع تقلید سید محمد حسین فضل اللہ کا ماننا ہے کہ عصمت ایک جبری حقیقت ہے<ref>ر. ک. فضل‌اللہ، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، 1419 ھ، ج‏4، ص 155–156۔</ref> لیکن معاصر ماہر الہیات علی ربانی گلپایگانی کے مطابق متکلمین اور حکما اس بات پر متفق ہیں کہ عصمت معصوم کے اختیار اور مرضی کے ساتھ سازگار ہے اور معصوم گناہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387شمسی، ص217۔</ref> عقل کی رو سے اگر عصمت معصوم کا مجبور ہونے کے معنی میں ہو تو اس صورت میں معصوم شخص کی بندگی اور گناہ کا ترک کرنا تعریف و تمجید کے مستحق نہیں ہوگا اور ان کو امر یا نہی کرنا اور جزا و سزا دینا غیر معقول ہوگا۔<ref>علامہ حلی، کشف‌المراد، 1382شمسی، ص186؛ فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلہیّہ، 1422ھ، ص243؛ جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ھ، ج8، ص281۔</ref>
لبنانی شیعہ [[مرجع تقلید]] سید محمد حسین فضل اللہ کا ماننا ہے کہ عصمت ایک جبری حقیقت ہے<ref>ر. ک. فضل‌اللہ، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، 1419 ھ، ج‏4، ص 155–156۔</ref> لیکن معاصر ماہر الہیات علی ربانی گلپایگانی کے مطابق متکلمین اور حکما اس بات پر متفق ہیں کہ عصمت معصوم کے اختیار اور مرضی کے ساتھ سازگار ہے اور معصوم گناہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، امامت در بینش اسلامی، 1387شمسی، ص217۔</ref> عقل کی رو سے اگر عصمت معصوم کا مجبور ہونے کے معنی میں ہو تو اس صورت میں معصوم شخص کی بندگی اور گناہ کا ترک کرنا تعریف و تمجید کے مستحق نہیں ہوگا اور ان کو امر یا نہی کرنا اور جزا و سزا دینا غیر معقول ہوگا۔<ref>علامہ حلی، کشف‌المراد، 1382شمسی، ص186؛ فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلہیّہ، 1422ھ، ص243؛ جرجانی، شرح‌المواقف، 1325ھ، ج8، ص281۔</ref>


معاصر فلسفی اور مفسر قرآن [[عبداللہ جوادی آملی]] کا بھی خیال ہے کہ جبری عصمت، معصوم کا لوگوں پر حجت ہونے اور اللہ کی طرف سے ان کی پیروی واجب ہونے کے ساتھ متصادم ہے اور اگر گناہ کا ارتکاب فطری طور پر ناممکن ہے تو اطاعت فطری طور پر ضروری ہے، اور ایسی صورت میں اس کی اطاعت پر شرعی حکم نہیں آسکتا ہے اور پھر ڈرانے یا بشارت دینے اور جزا و سزا کے وعدوں کے لئے بھی گنجائش نہیں رہتی ہے۔<ref>جوادی آملی، سیرہ پیامبر اکرم ص در قرآن (ج9)، 1385شمسی، ص24۔</ref>
معاصر فلسفی اور مفسر قرآن [[عبداللہ جوادی آملی]] کا بھی خیال ہے کہ جبری عصمت، معصوم کا لوگوں پر حجت ہونے اور اللہ کی طرف سے ان کی پیروی واجب ہونے کے ساتھ متصادم ہے اور اگر گناہ کا ارتکاب فطری طور پر ناممکن ہے تو اطاعت فطری طور پر ضروری ہے، اور ایسی صورت میں اس کی اطاعت پر شرعی حکم نہیں آسکتا ہے اور پھر ڈرانے یا بشارت دینے اور جزا و سزا کے وعدوں کے لئے بھی گنجائش نہیں رہتی ہے۔<ref>جوادی آملی، سیرہ پیامبر اکرم ص در قرآن (ج9)، 1385شمسی، ص24۔</ref>
سطر 61: سطر 61:
==عصمت انبیا==
==عصمت انبیا==
{{اصلی|عصمت انبیا}}
{{اصلی|عصمت انبیا}}
وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیا کی عصمت تمام ادیان الہی کے متفقہ مشترک اصولوں میں سے سمجھی جاتی ہے؛<ref>انواری، نور عصمت بر سیمای نبوت، 1397شمسی، ص52۔</ref> اگرچہ اس کی ماہیت اور مرتبوں کے بارے میں مختلف ادیان کے پیروکار اور مذاہب اسلامی کے دانشوروں کے مابین اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔<ref>صادقی اردکانی، عصمت، 1388شمسی، ص19۔</ref>
وحی کے دریافت اور ابلاغ میں انبیا کی عصمت تمام [[ادیان الہی]] کے متفقہ مشترک اصولوں میں سے سمجھی جاتی ہے؛<ref>انواری، نور عصمت بر سیمای نبوت، 1397شمسی، ص52۔</ref> اگرچہ اس کی ماہیت اور مرتبوں کے بارے میں مختلف ادیان کے پیروکار اور مذاہب اسلامی کے دانشوروں کے مابین اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔<ref>صادقی اردکانی، عصمت، 1388شمسی، ص19۔</ref>


مسلمان متکلمین عصمت کے بارے میں تین چیزوں پر سب متفق ہیں: 1_ نبوت سے پہلے اور اس کے بعد [[شرک]] اور [[کفر]] سے معصوم ہونا؛ 2_ وحی کی دریافت اس کی حفاظت اور اس کو لوگوں تک پہنچانے میں معصوم ہیں؛ 3_ نبوت کے بعد عمدی گناہ سے معصوم ہونا۔ البتہ تین چیزوں کے بارے میں اختلاف بھی ہے: نبوت کے بعد سہوی اور خطائی گناہ سے معصوم ہونا، 2_ نبوت سے پہلے عمدی اور سہوی گناہ سے معصوم ہونا؛ 3_ اجتماعی اور فردی زندگی میں انبیاء کی عصمت۔
[[مسلمان]] متکلمین عصمت کے بارے میں تین چیزوں پر سب متفق ہیں: 1_ نبوت سے پہلے اور اس کے بعد [[شرک]] اور [[کفر]] سے معصوم ہونا؛ 2_ وحی کی دریافت اس کی حفاظت اور اس کو لوگوں تک پہنچانے میں معصوم ہیں؛ 3_ نبوت کے بعد عمدی گناہ سے معصوم ہونا۔ البتہ تین چیزوں کے بارے میں اختلاف بھی ہے: نبوت کے بعد سہوی اور خطائی گناہ سے معصوم ہونا، 2_ نبوت سے پہلے عمدی اور سہوی گناہ سے معصوم ہونا؛ 3_ اجتماعی اور فردی زندگی میں [[عصمت انبیاء|انبیاء کی عصمت]]۔


جس  شیعہ اور سنی مشہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ انبیا وحی کے وصول، حفظ اور ابلاغ میں کسی قسم کے گناہ یا خطا کا عمدی<ref>جرجانی، شرح المواقف، ص263</ref> اور سہوی <ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ج5، ص50</ref> ارتکاب نہیں کرتے ہیں۔ عصمت کے اس درجے میں [[نبوت|انبیا]] کے جو چیز خداوند متعال سے وحی کی شکل میں دریافت کرتے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور خدا کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خدا اپنی رسالت کیلئے ایسے فرد کا انتخاب کرے جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ کسی قسم کے خیانت کا ارتکاب نہیں کریں گے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، ص153و154</ref>
جس  شیعہ اور سنی مشہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ انبیا وحی کے وصول، حفظ اور ابلاغ میں کسی قسم کے گناہ یا خطا کا عمدی<ref>جرجانی، شرح المواقف، ص263</ref> اور سہوی <ref>تفتازانی، شرح المقاصد، ج5، ص50</ref> ارتکاب نہیں کرتے ہیں۔ عصمت کے اس درجے میں [[نبوت|انبیا]] کے جو چیز خداوند متعال سے وحی کی شکل میں دریافت کرتے ہیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور خدا کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خدا اپنی رسالت کیلئے ایسے فرد کا انتخاب کرے جس کے بارے میں یقین ہو کہ وہ کسی قسم کے خیانت کا ارتکاب نہیں کریں گے۔<ref>مصباح یزدی، راہ و راہنما شناسی، ص153و154</ref>
سطر 100: سطر 100:
ایک مصری مصنف، احمد امین کا خیال ہے کہ معصومیت انسانی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتی ہے؛ کیونکہ انسان میں مختلف شہوانی اور نفسانی قوتیں ہیں جو اچھی چیزوں کی بھی خواہش رکھتی ہیں اور بری چیزوں کی بھی۔ اگر یہ خواہشات اس سے چھین لی جائیں تو گویا اس سے اس کی انسانیت چھین لی گئی ہے۔ لہٰذا، کوئی بھی انسان [[گناہ|معصیت]] سے محفوظ نہیں، یہاں تک کہ [[انبیاء کرامؑ]]۔<ref>امین، ضُحَی‌الاسلام،‌ 2003م، ج3، ص229-230۔</ref>  
ایک مصری مصنف، احمد امین کا خیال ہے کہ معصومیت انسانی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتی ہے؛ کیونکہ انسان میں مختلف شہوانی اور نفسانی قوتیں ہیں جو اچھی چیزوں کی بھی خواہش رکھتی ہیں اور بری چیزوں کی بھی۔ اگر یہ خواہشات اس سے چھین لی جائیں تو گویا اس سے اس کی انسانیت چھین لی گئی ہے۔ لہٰذا، کوئی بھی انسان [[گناہ|معصیت]] سے محفوظ نہیں، یہاں تک کہ [[انبیاء کرامؑ]]۔<ref>امین، ضُحَی‌الاسلام،‌ 2003م، ج3، ص229-230۔</ref>  


عبداللہ جوادی آملی|آیت اللہ جوادی آملی]] اس شبہ کے جواب میں انسان کے نفس جو کہ اس کا گوہر ہے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کے گوہر (نفس) اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس میں عصمت کی چوٹی پر چڑھنے کی صلاحیت موجود ہے؛ کیونکہ انسانی روح اپنے عروج کے سفر میں غلطی، بھولپن، غفلت اور جہالت سے محفوظ رہنے کی صلاحیت پا لیتی ہے۔ ان کی نظر میں، اگر کسی کا نفس روح خالص عقل اور صحیح اور کامل کشف و شہود کی وادی میں داخل ہوجائے تو وہ صرف حق اور سچ کو سمجھے گا اور کسی شک، غلطی، بھول چوک اور کوتاہی سے بچ جائے گا۔ لہذا ایسا شخص جس نے مادہ، وہم اور تخیل کی دنیا سے نکل کر حقائق کے منبع تک پہنچ گیا ہو، اس کا معصوم ہونا ممکن ہے۔<ref>جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص201-203۔</ref>  
[[عبد اللہ جوادی آملی|آیت اللہ جوادی آملی]] اس شبہ کے جواب میں انسان کے نفس جو کہ اس کا گوہر ہے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کے گوہر (نفس) اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس میں عصمت کی چوٹی پر چڑھنے کی صلاحیت موجود ہے؛ کیونکہ انسانی روح اپنے عروج کے سفر میں غلطی، بھولپن، غفلت اور جہالت سے محفوظ رہنے کی صلاحیت پا لیتی ہے۔ ان کی نظر میں، اگر کسی کا نفس روح خالص عقل اور صحیح اور کامل کشف و شہود کی وادی میں داخل ہوجائے تو وہ صرف حق اور سچ کو سمجھے گا اور کسی شک، غلطی، بھول چوک اور کوتاہی سے بچ جائے گا۔ لہذا ایسا شخص جس نے مادہ، وہم اور تخیل کی دنیا سے نکل کر حقائق کے منبع تک پہنچ گیا ہو، اس کا معصوم ہونا ممکن ہے۔<ref>جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، 1392شمسی، ص201-203۔</ref>  


*'''عصمت کے نظرئے کا آغاز'''
*'''عصمت کے نظرئے کا آغاز'''
ایک گروہ کے مطابق، ابتدائی اسلامی مآخذ میں عصمت کا تصور موجود نہیں تھا اور یہ ایک بدعت ہے جو اہل کتاب، قدیم ایران، تصوف یا زرتشت کی آکر اسلامی تعلیمات مین شامل ہوگئی ہے۔<ref>ملاحظہ ہو: شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص79-85۔</ref><br> جواب میں کہا گیا ہے کہ انبیاء کی عصمت کا نظریہ صدر اسلام سے ہی مسلمانوں کے مابین رائج تھا اور اس کی جڑیں قرآن اور حضرت محمدؐ کی تعلیمات میں موجود ہیں۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص80-82۔</ref> اہل کتاب عصمت کے نظریہ کے موجود نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ تورات میں پیغمبروںؑ کی طرف بدترین گناہ کی نسبت دی گئی ہے۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص80-81۔</ref> ابھی تصوف ایجاد نہیں ہوا تھا اس وقت سے شیعوں کے درمیان عصمت کا نظریہ رائج تھا اسی لئے عصمت کا سرچمشہ تصوف نہیں ہوسکتا ہے۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص83۔</ref> اگر فرض کریں کہ عصمت کا نظریہ اسلام اور زرتشت کا مشترک عقیدہ ہے تو بھی اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایک نے دوسرے سے لیا ہو؛ بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ تمام ادیانِ الہی حقیقت میں مشترک ہیں اور اصول میں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص86۔</ref>
ایک گروہ کے مطابق، ابتدائی اسلامی مآخذ میں عصمت کا تصور موجود نہیں تھا اور یہ ایک [[بدعت]] ہے جو [[اہل کتاب]]، قدیم ایران، [[تصوف]] یا [[زرتشت]] کی آکر اسلامی تعلیمات مین شامل ہوگئی ہے۔<ref>ملاحظہ ہو: شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص79-85۔</ref><br> جواب میں کہا گیا ہے کہ انبیاء کی عصمت کا نظریہ صدر اسلام سے ہی مسلمانوں کے مابین رائج تھا اور اس کی جڑیں قرآن اور حضرت محمدؐ کی تعلیمات میں موجود ہیں۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص80-82۔</ref> اہل کتاب عصمت کے نظریہ کے موجود نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ تورات میں پیغمبروںؑ کی طرف بدترین گناہ کی نسبت دی گئی ہے۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص80-81۔</ref> ابھی تصوف ایجاد نہیں ہوا تھا اس وقت سے شیعوں کے درمیان عصمت کا نظریہ رائج تھا اسی لئے عصمت کا سرچمشہ تصوف نہیں ہوسکتا ہے۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص83۔</ref> اگر فرض کریں کہ عصمت کا نظریہ اسلام اور زرتشت کا مشترک عقیدہ ہے تو بھی اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایک نے دوسرے سے لیا ہو؛ بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ تمام ادیانِ الہی حقیقت میں مشترک ہیں اور اصول میں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوہشی در عصمت معصومان(ع)، 1388، ص86۔</ref>


*'''مبینہ معصوموں کے رویے سے عدم مطابقت'''
*'''مبینہ معصوموں کے رویے سے عدم مطابقت'''
سطر 111: سطر 111:
اس اشکال کے جواب میں امامیہ علما کی طرف سے متعدد جوابات دئے گئے ہیں:
اس اشکال کے جواب میں امامیہ علما کی طرف سے متعدد جوابات دئے گئے ہیں:


#معصومین کا استغفار معصومین اللہ کی عظمت کی اعلی معرفت کی وجہ سے ہو۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص210؛ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفۃ سيد الساجدين، ج‏2، ص472؛ خمینی، شرح چہل حدیث، 1380شمسی، ص70؛ خمینی، جہاد اکبر، 1378شمسی، ص57؛ جوادی آملی، تفسیر موضوعی قرآن،1378شمسی، ج3، ص267۔</ref>
#معصومین کا استغفار معصومین [[اللہ]] کی عظمت کی اعلی معرفت کی وجہ سے ہو۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص210؛ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفۃ سيد الساجدين، ج‏2، ص472؛ خمینی، شرح چہل حدیث، 1380شمسی، ص70؛ خمینی، جہاد اکبر، 1378شمسی، ص57؛ جوادی آملی، تفسیر موضوعی قرآن،1378شمسی، ج3، ص267۔</ref>


#معصوم کا استغفار کسی گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ معصوم جس اعلی درجے پر فائز ہے اسے اپنے لئے گناہ سمجھتا ہے۔<ref>اربلی، کشف الغمۃ، 1381ھ، ج2، ص253-255؛ خواجہ نصیرالدین طوسی، اوصاف الاشراف، 1373شمسی، ص26؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص210؛ خمینی، صحیفہ امام، ج20، ص269؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج6، ص367؛ سبحانی، الفکر الخالد، 1425ھ، ج1، صص432-437؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج20، ص134؛ مصباح یزدی، «چرایی اعتراف معصومان بہ قصور و کوتاہی»، ص8-10۔</ref>
#معصوم کا استغفار کسی گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ معصوم جس اعلی درجے پر فائز ہے اسے اپنے لئے گناہ سمجھتا ہے۔<ref>اربلی، کشف الغمۃ، 1381ھ، ج2، ص253-255؛ خواجہ نصیرالدین طوسی، اوصاف الاشراف، 1373شمسی، ص26؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج25، ص210؛ خمینی، صحیفہ امام، ج20، ص269؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج6، ص367؛ سبحانی، الفکر الخالد، 1425ھ، ج1، صص432-437؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج20، ص134؛ مصباح یزدی، «چرایی اعتراف معصومان بہ قصور و کوتاہی»، ص8-10۔</ref>
سطر 119: سطر 119:
#ان کا استغفار گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ امت کے گناہ کی وجہ سے ہے اور پیغمبر و امام کی شفاعت کے پہلو سے۔<ref>کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفۃ سيد الساجدين، ج‏2، ص472؛ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج9، ص87۔</ref>
#ان کا استغفار گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ امت کے گناہ کی وجہ سے ہے اور پیغمبر و امام کی شفاعت کے پہلو سے۔<ref>کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفۃ سيد الساجدين، ج‏2، ص472؛ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج9، ص87۔</ref>


#معصوم دوسروں کو گناہ کا اقرار اور توبہ کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔<ref>مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج11، ص308؛‌ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفۃ سيد الساجدين، ج‏2، ص472۔</ref>
#معصوم دوسروں کو گناہ کا اقرار اور [[توبہ]] کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔<ref>مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج11، ص308؛‌ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفۃ سيد الساجدين، ج‏2، ص472۔</ref>




confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم