مندرجات کا رخ کریں

"عصمت" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 94: سطر 94:


[[ناصر مکارم شیرازی|آیت‌الله مکارم شیرازی]] نے ملائکہ میں عصمت کے حوالے سے کہا ہے کہ اگرچہ فرشتوں میں گناہ، شہوت اور غصہ جیسی چیزوں کے محرکات نہیں ہیں یا بہت ہی کمزور ہیں لیکن وہ بھی فاعلِ مختار ہیں اور مخالفت کی قدرت رکھتے ہیں۔ لہذا گناہ کی قدرت رکھنے کے باوجود معصوم اور پاک ہیں۔ بعض روایات میں بعض فرشتوں کی طرف سے اللہ کی اطاعت میں سستی یا ان کی تنبیہ کرنے کو ترک اولی پر حمل کیا گیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)،۱۳۸۶ش، ج۱،‌ ص۱۶۷-۱۶۸.</ref>
[[ناصر مکارم شیرازی|آیت‌الله مکارم شیرازی]] نے ملائکہ میں عصمت کے حوالے سے کہا ہے کہ اگرچہ فرشتوں میں گناہ، شہوت اور غصہ جیسی چیزوں کے محرکات نہیں ہیں یا بہت ہی کمزور ہیں لیکن وہ بھی فاعلِ مختار ہیں اور مخالفت کی قدرت رکھتے ہیں۔ لہذا گناہ کی قدرت رکھنے کے باوجود معصوم اور پاک ہیں۔ بعض روایات میں بعض فرشتوں کی طرف سے اللہ کی اطاعت میں سستی یا ان کی تنبیہ کرنے کو ترک اولی پر حمل کیا گیا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)،۱۳۸۶ش، ج۱،‌ ص۱۶۷-۱۶۸.</ref>
== اعتراضات اور ان کے جواب ==
*'''انسانی فطرت کے ساتھ معصومیت کی عدم مطابقت'''
ایک مصری مصنف، احمد امین کا خیال ہے کہ معصومیت انسانی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتی ہے؛ کیونکہ انسان میں مختلف شہوانی اور نفسانی قوتیں ہیں جو اچھی چیزوں کی بھی خواہش رکھتی ہیں اور بری چیزوں کی بھی۔ اگر یہ خواہشات اس سے چھین لی جائیں تو گویا اس سے اس کی انسانیت چھین لی گئی ہے۔ لہٰذا، کوئی بھی انسان [[گناہ|معصیت]] سے محفوظ نہیں، یہاں تک کہ [[انبیاء کرامؑ]]۔<ref>امین، ضُحَی‌الاسلام،‌ ۲۰۰۳م، ج۳، ص۲۲۹-۲۳۰.</ref>
عبداللہ جوادی آملی|آیت اللہ جوادی آملی]] اس شبہ کے جواب میں انسان کے نفس جو کہ اس کا گوہر ہے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کے گوہر (نفس) اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس میں عصمت کی چوٹی پر چڑھنے کی صلاحیت موجود ہے؛ کیونکہ انسانی روح اپنے عروج کے سفر میں غلطی، بھولپن، غفلت اور جہالت سے محفوظ رہنے کی صلاحیت پا لیتی ہے۔ ان کی نظر میں، اگر کسی کا نفس روح خالص عقل اور صحیح اور کامل کشف و شہود کی وادی میں داخل ہوجائے تو وہ صرف حق اور سچ کو سمجھے گا اور کسی شک، غلطی، بھول چوک اور کوتاہی سے بچ جائے گا۔ لہذا ایسا شخص جس نے مادہ، وہم اور تخیل کی دنیا سے نکل کر حقائق کے منبع تک پہنچ گیا ہو، اس کا معصوم ہونا ممکن ہے۔<ref>جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، ۱۳۹۲ش، ص۲۰۱-۲۰۳.</ref>
*'''عصمت کے نظرئے کا آغاز'''
ایک گروہ کے مطابق، ابتدائی اسلامی مآخذ میں عصمت کا تصور موجود نہیں تھا اور یہ ایک بدعت ہے جو اہل کتاب، قدیم ایران، تصوف یا زرتشت کی آکر اسلامی تعلیمات مین شامل ہوگئی ہے۔<ref>ملاحظہ ہو: شریفی و یوسفیان، پژوهشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸، ص۷۹-۸۵.</ref><br> جواب میں کہا گیا ہے کہ انبیاء کی عصمت کا نظریہ صدر اسلام سے ہی مسلمانوں کے مابین رائج تھا اور اس کی جڑیں قرآن اور حضرت محمدؐ کی تعلیمات میں موجود ہیں۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوهشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸، ص۸۰-۸۲.</ref> اہل کتاب عصمت کے نظریہ کے موجود نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ تورات میں پیغمبروںؑ کی طرف بدترین گناہ کی نسبت دی گئی ہے۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوهشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸، ص۸۰-۸۱.</ref> ابھی تصوف ایجاد نہیں ہوا تھا اس وقت سے شیعوں کے درمیان عصمت کا نظریہ رائج تھا اسی لئے عصمت کا سرچمشہ تصوف نہیں ہوسکتا ہے۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوهشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸، ص۸۳.</ref> اگر فرض کریں کہ عصمت کا نظریہ اسلام اور زرتشت کا مشترک عقیدہ ہے تو بھی اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایک نے دوسرے سے لیا ہو؛ بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ تمام ادیانِ الہی حقیقت میں مشترک ہیں اور اصول میں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔<ref>شریفی و یوسفیان، پژوهشی در عصمت معصومان(ع)، ۱۳۸۸، ص۸۶.</ref>
*'''مبینہ معصوموں کے رویے سے عدم مطابقت'''
{{اصلی|استغفار معصومین}}
بعض کا خیال ہے کہ عصمت ایک ایسا نظریہ ہے جو انبیاء اور ائمہ کے بارے میں ان کے طرز عمل سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ بہت سے معاملات میں، وہ اپنے آپ کو گنہگار کے طور پر تعارف کرتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں خود کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ ان کو معصوم سمجھنا ایک ایسی چیز ہے جو ان کو ہی قبول نہیں تھی۔<ref>فخر رازی، عصمة الانبیاء، ۱۴۰۹ق، ص۱۳۶؛ آلوسی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۴ق، ج۱۲، ص۲۶؛ قفاری، اصول مذهب الشیعة الامامیة، ۱۴۳۱ق، ج۲، ص۷۹۴-۷۹۶؛ دهلوی، تحفه اثنی عشریه، مکتبة الحقیقة، ص۴۶۳.</ref>
اس اشکال کے جواب میں امامیہ علما کی طرف سے متعدد جوابات دئے گئے ہیں:
#معصومین کا استغفار معصومین اللہ کی عظمت کی اعلی معرفت کی وجہ سے ہو۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۵، ص۲۱۰؛ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج‏۲، ص۴۷۲؛ خمینی، شرح چهل حدیث، ۱۳۸۰ش، ص۷۰؛ خمینی، جهاد اکبر، ۱۳۷۸ش، ص۵۷؛ جوادی آملی، تفسیر موضوعی قرآن،۱۳۷۸ش، ج۳، ص۲۶۷.</ref>
#معصوم کا استغفار کسی گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ معصوم جس اعلی درجے پر فائز ہے اسے اپنے لئے گناہ سمجھتا ہے۔<ref>اربلی، کشف الغمة، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۲۵۳-۲۵۵؛ خواجه نصیرالدین طوسی، اوصاف الاشراف، ۱۳۷۳ش، ص۲۶؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۵، ص۲۱۰؛ خمینی، صحیفه امام، ج۲۰، ص۲۶۹؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۶، ص۳۶۷؛ سبحانی، الفکر الخالد، ۱۴۲۵ق، ج۱، صص۴۳۲-۴۳۷؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج۲۰، ص۱۳۴؛ مصباح یزدی، «چرایی اعتراف معصومان به قصور و کوتاهی»، ص۸-۱۰.</ref>
#معصومین سیر و سلوک کے ذریعے جس مرتبے پر پہنچتے ہیں اس سے نچلے مرتبے کی نسبت استغفار کرتے ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۵، ص۲۱۰؛ مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۱۳؛ خمینی، شرح چهل حدیث، ۱۳۸۰ش، ص۳۴۳؛ مصباح یزدی، «چرایی اعتراف معصومان به قصور و کوتاهی»، ص۱۱-۱۴؛ ناییجی، آداب راز و نياز به درگاه بى نياز، ۱۳۸۱ش، ص۳۴۷.</ref>
#ان کا استغفار گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ امت کے گناہ کی وجہ سے ہے اور پیغمبر و امام کی شفاعت کے پہلو سے۔<ref>کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج‏۲، ص۴۷۲؛ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج۹، ص۸۷.</ref>
#معصوم دوسروں کو گناہ کا اقرار اور توبہ کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔<ref>مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۱، ص۳۰۸؛‌ کبیر مدنی شیرازی، رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج‏۲، ص۴۷۲.</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم