مندرجات کا رخ کریں

"عصمت" کے نسخوں کے درمیان فرق

29,802 بائٹ کا ازالہ ،  5 مارچ
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 42: سطر 42:
# معصوم شخص نہ فقط [[واجب|واجبات]] بلکہ ترک اولی پر بھی مورد مؤاخذہ قرار پاتا ہے ۔<ref>علامه حلی، کشف‌المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۶.</ref>
# معصوم شخص نہ فقط [[واجب|واجبات]] بلکہ ترک اولی پر بھی مورد مؤاخذہ قرار پاتا ہے ۔<ref>علامه حلی، کشف‌المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۶.</ref>


===علم ویژه===
===مخصوص علم===
بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ عصمت کا سرچشمہ یہ ہے کہ معصوم شخص گناہ کے اثرات اور اطاعت کے پاداش کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلهیه، ۱۴۲۲ق، ص۲۲۴؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۷۹، ج۱۱، ص۱۶۲-۱۶۳، ج۱۷، ص۲۹۱؛ سبحانی، الالهیات، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۵۹-۱۶۱.</ref>  
بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ عصمت کا سرچشمہ یہ ہے کہ معصوم شخص گناہ کے اثرات اور اطاعت کے پاداش کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، اللَّوامع الاِلهیه، ۱۴۲۲ق، ص۲۲۴؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۷۹، ج۱۱، ص۱۶۲-۱۶۳، ج۱۷، ص۲۹۱؛ سبحانی، الالهیات، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۵۹-۱۶۱.</ref>  
علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ معصومین خدادادی علم کے مالک ہیں اس لئے مضبوط ارادے کے مالک ہیں جس کے ہوتے ہوئے گناہ کی طرف نہیں جاتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۱۶۳.</ref> یہ علم باقی علوم کی طرح سیکھنے سے حاصل نہیں ہوتا اور خواہشتا اور دیگر طاقتوں سے شکست بھی نہیں کھاتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۷۹.</ref>
علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ معصومین خدادادی علم کے مالک ہیں اس لئے مضبوط ارادے کے مالک ہیں جس کے ہوتے ہوئے گناہ کی طرف نہیں جاتے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۱۶۳.</ref> یہ علم باقی علوم کی طرح سیکھنے سے حاصل نہیں ہوتا اور خواہشتا اور دیگر طاقتوں سے شکست بھی نہیں کھاتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۷۹.</ref>
سطر 69: سطر 69:


انبیاء کی عصمت کے مخالفین نے دو طرح کی آیتوں سے استناد کیا ہے جن میں سے بعض آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ہیں اور بعض آیات بعض پیغمبروں کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۵۱، ۵۲؛ سبحانی، عصمة الانبیاء فی القرآن الکریم، ۱۴۲۰ق، ص۶۹، ۷۰، ۹۱-۲۲۹؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، ۱۳۹۲ش، ص۲۴۶-۲۸۶؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۷، ص۱۰۱-۱۶۰.</ref> ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ تمام آیات متشابہ کو آیات محکم کے ذریعے تاویل اور تفسیر ہونی چاہئے<ref>میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ ۱۳۹۴ش، ص۱۰۲و۱۰۳.</ref> اور جو آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ان آیتوں کو ترک اولی پر حمل کیا جاتا ہے۔<ref>میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ ۱۳۹۴ش، ص۱۰۱-۱۰۲.</ref>
انبیاء کی عصمت کے مخالفین نے دو طرح کی آیتوں سے استناد کیا ہے جن میں سے بعض آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ہیں اور بعض آیات بعض پیغمبروں کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔<ref>سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۵۱، ۵۲؛ سبحانی، عصمة الانبیاء فی القرآن الکریم، ۱۴۲۰ق، ص۶۹، ۷۰، ۹۱-۲۲۹؛ جوادی آملی، وحی و نبوت در قرآن، ۱۳۹۲ش، ص۲۴۶-۲۸۶؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۷، ص۱۰۱-۱۶۰.</ref> ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ تمام آیات متشابہ کو آیات محکم کے ذریعے تاویل اور تفسیر ہونی چاہئے<ref>میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ ۱۳۹۴ش، ص۱۰۲و۱۰۳.</ref> اور جو آیتیں تمام انبیاء کی عصمت سے سازگار نہیں ان آیتوں کو ترک اولی پر حمل کیا جاتا ہے۔<ref>میلانی، عصمت از منظر فریقین،‌ ۱۳۹۴ش، ص۱۰۱-۱۰۲.</ref>
*'''احکام شرعی پر عمل کرنے میں عصمت''': مشہور شیعہ متکلمین کے مطابق  انبیا کے کرام [[واجب|واجبات]] کو انجام دینے اور [[حرام|محرمات]] کو ترک کرنے کے حوالے سے کسی قسم کی خطا اور نافرمانی کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔<ref>مفید، النکت الاعتقادیہ، ص۳۵؛ حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص۳۹۴</ref>
*'''احکام شرعی کے مصادیق کی تشخیص میں عصمت''': احکام شرعی کے موضوعات ایسے اعمال اور رفتار کو کہا جاتا ہے جس کے بارے میں کوئی نہ کوئی حکم خدا کی جانب سے صادر ہوا ہو۔ جیسے [[نماز]] جو کہ واجب ہے اور [[غیبت]] جو کہ [[حرام]] ہے۔ عصمت کے اس درجے مراد یہ ہے کہ [[نبوت|انبیا]] کے احکام کے موضوعات کی تشخیص اگرچہ عمدا کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا لیکن آیا بھول چوک میں بھی کسی گناہ یا خطا کا مرتکب نہیں ہوتا ہے یا نہیں؟
عصمت کے اس مرتبے میں اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے [[اشاعرہ]] اور [[معتزلہ]] معتقد ہیں کہ [[نبوت|انبیا]] کے احکام کے موضوعات کی تشخیص اور الہی قوانین کو ان کے خارجی مصادیق پر تطبیق کرنے میں ممکن ہے غلطی کا شکار ہو۔ شیعہ علماء میں سے [[کلام امامیہ|شیخ صدوق]] عصمت کے اس درجے میں عصمت عمدی کے قائل ہیں لیکن بھول چوک اور غلطی سے بھی پاک ہونے کو معصومین کے بارے میں غلو سے تعبیر کرتے ہیں جو غالیوں اور مفوضہ سے مخصوص ہے۔<ref>صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ،ج۱، ص۳۶۰</ref> لیکن شیعہ مشہور علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اس درجے میں بھی  انبیا کے حتی بھول چوک اور غلطی سے بھی کسی گناہ یا خطا کا مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔<ref>مفید، عدم سہو النبی، ص۲۹و۳۰</ref>
*'''روزمرہ زندگی میں عصمت''': اس سے مراد وہ مباح اعمال ہیں جو دین کے ساتھ کوئی ربط نہیں رکھتا اور ان کے بارے میں دین میں کوئی الزامی حکم نہیں پایا جاتا۔ روزمرہ زندگی کے امور میں غلطی اور اشتباہ کا شکار ہونا اس قدر نہ ہو کہ جس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے اور لوگ اس نبی یا رسول کے بارے میں بے اعتمادی کا شکار ہوجائے، تو نہ فقط ایسے غلطیوں اور اشتباہات سے منزہ ہونے کے بارے میں کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ دینی مآخذ میں ایسے غلطیوں اور اشتباہات کا [[نبوت|انبیا]] کے سے سرزد ہونے پر روایات بھی موجود ہیں۔<ref>کلینی، اصول کافی،ج۱، ص۲۵-۳۱</ref>
===عصمت انبیا کی ضرورت===
[[نبوت|انبیا]] کی عصمت کے مختلف درجات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر درجے کے حوالے سے ان کی عصمت کی ضرورت کو بیان کیا جا سکتا ہے:
وحی کے دریافت اور ابلاغ کے حوالے سے  انبیا کو عصمت کا حامل ہونا چاہئے کہ اگر انبیا  کے اس حوالے سے گناہ اور غلطی سے محفوظ نہ ہوں تو کیا ضمانت  ہے کہ جو پیغام انبیا خدا کی طرف سے لوگوں تک پہنجاتے ہیں اس میں بھی غلطی اور خطا یا خیانت نہ کی ہو۔ پس وحی کی اہمیت اور اس کی افادیت صرف اس صورت میں ہے کہ اس کے صادر ہونے سے لے کر لوگوں تک پہنچنے تک ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہو ورنہ لوگوں کا اعتماد اس پر باقی نہیں رہتا یوں خداوندعالم کا انبیاء کو بھیجنے کا ہدف پورا نہیں ہوگا۔<ref>مصباح یزدی، آموزش عقائد، ص۱۹۳-۱۹۴</ref>
باقی مرتبوں میں [[نبوت|انبیا]] کی عصمت اس لئے ضروری ہے اگر ان موارد میں انیباء ہر قسم کی عمدی اور سہوی گناہ اور غلطی سے منزہ نہ ہوں تو لوگوں کا اعتماد ان سے اٹھ جاتا ہے یوں ان کے بھیجنے کا ہدف پورا نہیں ہوتا ہے۔
===عصمتِ  انبیا پر دلیل===
انبیا کی عصمت کے اثبات میں مسلم دانشورں کا اختلاف ہے۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ انبیا کی عصمت کے مراتب میں سے ہر مرتبہ جداگانہ دلیل کا تقاضا کرتا ہے۔ بعض مراتب عقلی دلائل کے ذریعے ثابت کئے جاتے ہیں  لیکن بعض مراتب صرف اور صرف آیات و روایات کے ذریعے ہی قابل اثبات ہیں ۔ بنابراین ہر مرتبے کیلئے جداگانہ دلیل کا ذکر کرتے ہیں:
* '''کفر اور شرکت سے عصمت حتی نبوت سے پہلے''': اس مرتبے پر یہ دلیل یہ ہے کہ انبیا کی باتوں پر یقین اور اطمینان صرف اور صرف اس صورت میں پیدا ہو سکتی ہی جب یہ حضرات حتی مقام نبوت اور رسالت پر فائز ہونے سے پہلے بھی کسی قسم یک کفر اور شرک میں مبتلا نہ ہوئے ہوں۔<ref>طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲، ص۱۳۸؛ شریف مرتضی، تنزیہ الانبیاء کے، ص۵</ref>
* '''وحی کی دریافت اور ابلاغ میں عصمت''': اس مرتبے پر عقلی دلیل قائم کی جا سکتی ہے کیونکہ اگر اس حوالے سے کسی غلطی یا خطا اور اشتباہ کا احتمال موجود ہو تو انبیا کے بھیجنے کا ہدف اور مقصد ختم ہو جاتا ہے جو کہ ایک محال چیز ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و راہنما شناسی، ص۱۵۳و۱۵۴</ref> اس حوالے سے قرآن کریم میں یوں ارشاد ہے:
{{حدیث|'''وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَینَا بَعْضَ الْأَقَاوِیلِ* لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیمِینِ* ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِینَ.الحاقه}}
(ترجمہ :اور اگر یہ ہماری طرف کسی بات کی نسبت دیتا تو ہم اسکے سیدھے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامتے پھر اسکے شہ رگ کو کاٹ دیتے)۔
* '''احکام شرعی پر عمل کرنے میں عصمت''': انبیاء کے اقوال اور گفتار پر اطمینان حاصل ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ خود یہ حضرات ان فرامین پر جنہیں وہ خدا کی طرف نسبت دیتے ہیں کس حد تک عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اگر اس حوالے سے نبی عصمت کا حامل نہ ہو تو حتی غلطی اور بھول چوک میں بھی کسی حکم پر عمل پیرا نہ ہو تو لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے جس سے ہدف حاصل نیہں ہوگا۔<ref>حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص۳۹۴</ref>
*'''احکام کے موضوعات کی تشخیص میں عصمت''': اس پر دلیل یہ ہے کہ عاقل لوگ حتی اس آدمی پر اعتماد نہیں کرتا جو بھول چوک اور غلطی سے کسی خطا کا مرتکب ہو چہ جائیکہ عمدا غلطی کا شکار ہو اور جان بوجھ کر کسی چیز کی تشخیص میں غلطی کرے۔<ref>مفید، عدم سہو النبی، ص۲۹و۳۰</ref>
* '''روزمرہ زندگی کے امور میں عصمت''':اس مرتبے میں اگر غلطی اور اشتباہ اس قدر زیادہ نہ ہو جس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے، تو اس پر نہ کوئی عقلی دلیل قائم کی جاسکتی ہے اور نہ کسی آیت اور روایت اس بارے میں موجود ہے۔ لیکن اگر اس قدر زیادہ ہو کہ لوگوں کا اعتماد اٹھ جانے کا خطرہ ہو اور لوگ دینی امور میں بھی ان پر اعتماد نہ کرے تو اس صورت میں درج بالا دلائل اس حوالے سے بھی کفایت کرتی ہے۔
==عصمت ائمہ==


==عصمت ائمہ==
==عصمت ائمہ==
سطر 110: سطر 77:


شیعوں کی نظر میں [[حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها|حضرت فاطمهؑ]] بھی عصمت کے مقام پر فائز ہیں۔<ref>سید مرتضی، الشافی فی الامامة، ۱۴۱۰ق، ج۴، ص۹۵.</ref> ان کی عصمت کے لئے آیه تطهیر اور [[حدیث بضعه|حدیث بَضْعَه]] سے استناد کیا جاتا ہے۔<ref> سید مرتضی، الشافی فی الامامة، ۱۴۱۰ق، ج۴، ص۹۵.</ref>
شیعوں کی نظر میں [[حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها|حضرت فاطمهؑ]] بھی عصمت کے مقام پر فائز ہیں۔<ref>سید مرتضی، الشافی فی الامامة، ۱۴۱۰ق، ج۴، ص۹۵.</ref> ان کی عصمت کے لئے آیه تطهیر اور [[حدیث بضعه|حدیث بَضْعَه]] سے استناد کیا جاتا ہے۔<ref> سید مرتضی، الشافی فی الامامة، ۱۴۱۰ق، ج۴، ص۹۵.</ref>
===ائمہ کی عصمت کا دائرہ===
ایک کلی تقسیم بندی کے ذریعے اماموں کی عصمت کو عصمت علمی اور عصمت عملی میں تقسیم کر سکتے ہیں:
* عصمت عملی؛ یہ قسم معصوم کے کردار اور رفتار سے مربوط ہے اس بارے میں عصمت درج ذیل امور کو شامل ہوتی ہے:
# معصوم نہ کسی [[واجب]] کو ترک کرتا ہے اور نہ کسی [[حرام]] کا مرتکب ہوتا ہے۔
# معصوم کسی [[استحباب|مستحب]] کام کو ترک نہیں کرتا اور کسی [[مکروہ]] کام کو انجام نہیں دیتا۔
* عصمت علمی؛ عصمت کا یہ قسم ایسے امور کے بارے میں علم و آگاہی اور معرفت و شناخت سے مربوط ہے جن کا شمار معصوم کے وظائف اور ذمہ درایوں میں ہوتا ہے. اس حصے میں درج ذیل امور شامل ہیں:
# دینی معارف میں کسی خطا کا مرتکب نہیں ہوتا، کیونکہ امام کی ذمہ داری لوگوں کی ہدایت ہے اور اگر خود دینی معارف میں خطا کا مرتکب ہو تو ہدایت کیسے کر سکتا ہے؟!۔
# لوگوں کے اجتماعی اور سیاسی مصالح اور مفاسد کی تشخیص میں معصوم ہے اور کسی غلطی کا شکار نہیں ہوتا۔
# احکام شرعی کے موضوعات کی شناخت میں کوئی غلطی کا شکار نہیں ہوتا۔ مثلا اس بات کی تشخیص میں کہ یہ مایع پانی ہے یا شراب، خطا نہیں کرتا۔ <ref> ربانی گلپایگانی، تقریرات درس امامت، مدرسه فقاهت</ref>
===ضرورت===
چونکہ [[امامت|امام]] [[نبوت|نبی]] کا جانشین اور وصی ہوا کرتا ہے اس بنا پر پیغمبر کے بعد دینی تعلیمات اور شرعی احکام کے بارے میں وہ مرجع کی حثیت رکھتا ہے اس بنا پر ضروری ہے کہ امام معصوم ہو اور ہر قسم کی غلطی اور گناہ سے محفوظ ہو تاکہ لوگ ان کی باتوں پر اعتماد کرے ورنہ لوگوں کا اعتماد اس سے اٹھ جائے گا اس صورت میں امام کے تعیین کا ہدف ختم ہو جائے گا جو کہ حکیم سے محال ہے۔
==دلائل عصمت==
===دلائل عقلی===
:'''برہان تسلسل''':
:یہ دلیل بیان کرتی ہے کہ امام کا وجود  خدا کی جانب سے اس معنا میں [[قاعده لطف|لطف]] ہے کہ دیگر افراد معصوم نہیں ہیں لہذا درست امر کی تشخیص کیلئے وہ امام کی طرف رجوع کریں ۔اگر امام معصوم نہ ہو اور وہ خطا کا مرتکب ہو تو ایک ایک دوسرا امام ہونا چاہئے جو اسے خطا سے بچائے اسی طرح اگر وہ بھی معصوم نہ ہو تو کسی دوسرے امام  کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔اس طرح یہ لا متناہی سلسلہ جاری رہے گا اور کسی وقت بھی خطا کا احتمال برطرف نہیں ہو گا ۔ <ref>شریف مرتضی، الشافی فی الامامہ، ج۱، ص۲۸۹ و۲۹۰</ref>
:'''دین کی حفاظت اور وضاحت''':
:یہ دلیل چند مقدموں پر مشتمل ہے :
#قرار ہے کہ جو دین [[پیامبر اسلام(ص)]] لے کر آئیں وہ روز [[قیامت]] تک باقی رہے اور اس پر عمل کرنا واجب و ضروری اور اس سے تخلف کرنا حرام ہے ۔
#تحریف سے بچاؤ کیلئے ایک '''علمی مرجع''' کی ضرورت ہے کہ جو دین کی تعلیمات اور احکامات سے درست آگاہی رکھتا ہو اور وہ انہیں مکلفین کیلئے بیان کرے اور ان تک دینی تعلیمات کو پہنچائے ۔اس طرح دین میں تحریف اور تغیر و تبدل سے بچنا ممکن ہے ۔
#وہ علمی مرجع  [[قرآن|کتاب خدا]] اور [[تواتر|متواتر]] [[سنت نبوی|سنت]]  نہیں ہو سکتے ہیں ؛ کیونکہ  قرآن کریم کی بہت سی آیات [[محکم و متشابہ|متشابہ]] ہیں کہ جن میں سے اکثر اپنے معنائے حقیقی کی وضاحت میں ایک علمی مرجع کی محتاج ہیں نیز ایسے بہت سے مسائل ہیں کہ جنکا تذکرہ نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی سنت متواترہ اس پر قائم ہے ۔
# وہ علمی مرجع  [[اجماع]] بھی نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سے شرعی مسائل میں اجماع حاصل نہیں ہے اور ان مسائل میں خود اجماع کی حجیت مخدوش ہے ۔
#وہ علمی مرجع  [[تمثیل|قیاس فقہی]] بھی نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ شیعہ مکتب فکر کے نزدیک قیاس حجیت نہیں رکھتا ہے ۔
#اب صرف ایک راہ حل بچتا ہے کہ وہ علمی مرجع امام کا وجود ہو جو  رسول کا جانشین ہو اور شریعت کا محافظ اور بیان کرنے والا ہو ۔
:اس شخص کو معصوم ہونا چاہئے ورنہ تغیر و تبدل اور شریعت میں تحریف کا احتمال ہمیشہ موجود رہے گا۔اس احتمال کے موجود ہوتے ہوئے دین کی تبیین اور دین میں تحریف کا احتمال باقی رہے گا ۔ یہ بات بعثت [[نبوت|انبیا]] کے کے ساتھ سازگار نہیں ہے ۔پس اس لئے امام کا معصوم ہونا ضروری ہے ۔<ref>بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام،ص۱۷۸- ۱۷۹</ref>
* '''قیاس استثنائی''': یہ دلیل ایک  قیاس استثنائی کی صورت میں بیان کی جاتی ہے :
اگر امام، معصوم نہ ہو تو  دو حالتوں سے باہر نہیں ہے اور دونوں فرض باطل ہیں ۔پس اس بنا پر امام کا معصوم نہ ہونا بھی باطل ہو گا ۔
:'''توضیح''':
تمام  مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ امام کے دستورات کی پیروی کریں ۔اگر امام معصوم نہ ہو اور وہ گناہ یا خطا کا مرتکب ہو ۔پس اس صورت میں مکلف کا عمل دو حال سے خارج نہیں ہے :
*امام کے غیر معصوم ہونے کی صورت میں جب وہ امام کی پیروی کرے گا تو اس نے ظلم اور گناہ میں امام کی ہمراہی کی ہے  ۔جبکہ  [[قرآن]] نے اسے حکم دیا تھا ظلم و گنا میں کسی کی ہمراہی نہ کرے <ref>[[سورہ مائدہ]]، آیت۲</ref>
*اگر وہ امام کی پیروی نہ کرے تو اسصورت میں وجود امام کے ہدف اور خدا کی طرف سے  امام کی اطاعت کرنے کے حکم کی مخالفت کی ہے ۔<ref>[[سورہ نساء]]، آیت۵۹؛ خواجہ نصیر الدین، تجرید الاعتقاد، ص۲۲۲؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ج۵، ص۲۴۹</ref>
===دلائل نقلی===
=====قرآن کریم=====
* '''آیت ابتلائے ابراہیمؑ'''
{{اصلی|آیت ابتلاء}}
{{حدیث|وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّی جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّیتِی قَالَ لاَ ینَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ.بقرہ124}} ترجمہ:(اور وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم کا ان کے پروردگار نے چند باتوں کے ساتھ امتحان لیا۔ اور جب انہوں نے پوری کر دکھائیں ارشاد ہوا۔ میں تمہیں تمام انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا اور میری اولاد (میں سے بھی(؟ ارشاد ہوا: میرا عہدہ (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔
*یہ [[آیت]] اس وقت کی طرف اشارہ کرتی ہے جب حضرت ابراہیم الہی امتحانات میں کامیاب ہوئے ۔اُس وقت وہ نبوت کے منصب پر فائز تھے اور [[اولوالعزم [[نبوت|انبیا]] کے]] میں سے تھے ۔ان امتحانات میں کامیاب ہونے کے بعد [[امامت]] کے منصب پر فائز ہوئے ۔
[[شیعہ]] [[متکلمین]] نے اس آیت سے درج ذیل طریقہ سے استدلال کیا ہے :
جو شخص ظلم کرتا ہے وہ ظالم ہے کیونکہ اس نے حدود [[توحید|الہی]] کو توڑا ہے: {{حدیث|...وَمَن یتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ.بقرہ229}} (اور جو لوگ خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں سے آگے بڑھتے ہیں وہی لوگ ظالم ہیں۔)
* جس نے ظم کیا اسے امامت کا منصب نہیں ملے گا: {{حدیث|...قَالَ لاَ ینَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ}}</font>(ارشاد ہوا: میرا عہدہ (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔)
*اس [[آیت]] میں اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ،دوسروں پر ظلم کرنے والے اور [[خدا]] کے حق میں ظلم کرنے والے  شامل ہیں ۔یہانتک کہ جس نے اپنی زندگی میں ایک لحظہ بھی ظلم کیا ہو گا وہ بھی اس آیت میں شامل ہو گا ۔
پس اس بنا پر جس نے ظلم کیا ہو گا وہ معصوم نہیں ہو گا اور ظالم کو [[امامت]] کا عہدہ نہیں ملے گا ۔<ref>شریف مرتضی، الشافی، ج۳، ص۱۴۱</ref>
* '''آیت اولی الامر'''
{{اصلی|آیت اولی الامر}}
عصمت کے اثبات کیلئے اس آیت سے دو طرح استدلال کیا گیا ہے :
:پہلی صورت:
:جب بھی [[توحید|خدا]] کسی شرط و شروط کے بغیر کسی کی اطاعت کرنے کا حکم دے تو وہ معصوم شخص ہو گا ۔چونکہ اگر کوئی معصوم نہ ہو اور وہ دوسروں کو اطاعت کا حکم دے تو اسکی اطاعت کرنی چاہئے (چونکہ اللہ نے اسکی اطاعت کا حکم دیا ہے) اور اطاعت نہیں کرنا چاہئے (کیونکہ کیونکہ مخلوق خدا کی اس وقت تک اطاعت کی جا سکتی جب تک خدا کی نا فرمانی نہ ہوتی ہو ) ۔پس اس صورت میں اجتماع نقیضین لازم آتا ہے کہ جو محال ہے ۔<ref>مظفر، ج۲، ص۱۷</ref>
:'''دوسری صورت''' :
:اس آیت میں اولی الامر کا عطف رسول پر کیا گیا ہے ؛پس رسول اور اولی الامر کی اطاعت ایک فعل '''اطیعوا'''سے طلب کی گئی ہے۔رسول کی اطاعت کی شرط  و بند کے بغیر چاہی گئی ہے اس بنا پر اولی الامر کی اطاعت بھی کسی شرط و شروط کے بغیر [[حکم شرعی|واجب]] ہے ۔اولی الامر معصوم ہو تو اسکی اطاعت میں کسی قسم کا اشکال نہیں ہے ۔<ref>طبرسی، ج۲، ص۶۴</ref>
* '''آیت تطہیر'''
{{اصلی|آیت تطہیر}}
{{حدیث|انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا.احزاب 33}}
بعض شیعہ اور اہل سنے منابع میں مذکور ہے کہ [[رسول اللہ]] نے اس [[آیت]] کی توضیح میں فرمایا: میں اور میری [[اہل بیت]] گناہ سے پاک ہیں۔<ref>دلائل‏ النبوة،ج‏۱،ص:۱۷۱؛ إمتاع‏الأسماع،ج‏۳،ص:۲۰۸ {{حدیث| فأنا و أهل بیتی مطهرون من الذنوب‏}} </ref> نیز حضرت علی(ع) نے [[فدک]] کے واقعے میں اس آیت کے ذریعے  [[حضرت زہرا(س)]] کے گناہ سے پاک ہونے کو ثابت کیا ۔<ref>كامل بہائی، عماد طبری، ص:۲۵۶</ref>
اس آیت سے عصمت پر استدلال کرنا چند مقدمات پر موقوف ہے :
:پہلا مقدمہ: خداوند نے صرف [[اہل بیت]] کی پاکیزگی کا ارادہ کیا ہے .
:دوسرا مقدمہ: خدا کا [[ارادۂ تشریعی]] بعض افراد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔
:تیسرا مقدمہ:  جب  ارادۂ تشریعی کسی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے تو خدا نے  [[ارادۂ تکوینی]] کے ساتھ خود کچھ افراد کی پاکیزگی کا ارادہ کیا ہے ۔
:چوتھا مقدمہ: [[توحید|خدا]] کا اراده تکوینی کا متحقق ہونا یقینی ہے اور اس کا تخلف ممکن نہیں ہے ۔
:پانچواں مقدمہ: اس آیت میں پاکیزگی کسی شرط کے بغیر مطلق ذکر ہوئی ہے لہذا ہر قسم کی نجاست اور پلیدگی سے پاک ہونا ضروری ہے ۔
:چھٹا مقدمہ: [[مسلمانوں]] میں سے صرف [[شیعہ]] حضرات [[رسول اللہ]] سے منسوب افراد : [[حضرت فاطمہ]] اور [[آئمہ طاہرین]] کی عصمت کے دعویدار ہیں ۔انکے علاوہ کوئی اور طائفہ خاندان رسالت کے کسی فرد کی عصمت کے مدعی نہیں ہیں ۔
:پس اس بنا پر یہ آیت شیعوں کے آئمہ کی عصمت اور انکے گناہوں سے پاک ہونے کو بیان کرتی ہے ۔<ref>طباطبائی، ج۱۶، ص۳۱۰-۳۱۲</ref>
=====روایات=====
* '''حدیث ثقلین'''
:<font color=blue>{{حدیث|: قال رسول اللہ (ص): انی قد تَرَکتُ فِیکمْ ما ان أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بعدی الثَّقَلَینِ أَحَدُهُمَا أَکبَرُ مِنَ الآخَرِ کتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إلی الأَرْضِ وعترتی أَهْلُ بیتی الا وانهما لَنْ یفْتَرِقَا حتی یرِدَا عَلَی الْحَوْضَ.}}</font>
:[[رسول خدا]] (ص) نے فرمایا :میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔اگر تم ان سے تمسک کئے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ۔ان دوںوں میں سے ہر ایک دوسری سے زیادہ بڑی ہے: [[اللہ]] کی کتاب کہ جو آسمان سے زمین کی طرف ایک رسی ہے اور دوسری میری عترت اور [[اہل بیت]] ہے ۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگی یہانتک کہ وہ مجھ سے حوض کوثر پر ملاقات کریں گیں۔<ref>ابن حنبل، ج۳، ص۵۹، ح۱۱۵۷۸،</ref>
:یہ روایت چند جہات سے اہل بیت کی عصمت ثابت کرتی ہے :
:*اس روایت میں [[رسول اللہ]] نے اہل بیت کی اطاعت میں کسی شرط کا لحاظ کئے بغیر مطلق تمام مسلمانوں کو انکی اطاعت کا حکم دیا ہے ۔کسی شخص کی مطلق اطاعت کا حکم دینا اس شخص کے معصوم ہونے کا بیانگر ہے کیونکہ خدا کا کسی ایسے شخص کی اطاعت کا حکم دینا محال ہے کہ  جس شخص کے گفتار و اقوال میں خطا،اشتباہ کا امکان ہو کیونکہ عین ممکن ہے کہ ایسا شخص اللہ اور اسکے رسول کی مخالفت  کا مرتکب ہو جائے ۔
:*اس روایت میں [[قرآن]] اور اہل بیت کے درمیان جدائی اور قرآن اور اہل بیت کے درمیان مخالفت کے نہ ہونے کا حکم بیان ہوا ہے ۔جب اہل بیت گناہ یا اشتباہ کے مرتکب ہونگے اسی لحظے  [[اہل بیت]]  قرآن سے جدا ہو جائیں گے ۔قرآن سے انکا جدا ہونے کا اعتقاد رسول خدا کی تکذیب پر منتہی ہوگا ۔اس بنا پر یہ جملہ انکی عصمت کو بیان کرتا ہے ۔
:*اس روایت میں کتاب [[خدا]] اور اہل بیت سے تمسک گمراہی سے نجات کا سبب بیان ہوا ہے ؛پس جسطرح قرآن کی اطاعت ہدایت کا سبب گمراہی سے نجات کا سبب ہو گا اسی طرح اہل بیت کی پیروی بھی ہدایت کا سبب اور گمراہی سے نجات کا سبب ہو گی ۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب وہ گناہ اور خطا سے پاک اور معصوم ہوں ۔<ref>[http://www.valiasr-aj.com/fa/page.php?bank=maghalat&id=163#13 عصمت ائمہ از دیدگاه عقل و نقل]</ref>
:* {{حدیث|'''علی مع الحق و الحق مع علی'''}}
:عبد الرحمن بن أبی سعد اپنے والد سے نقل کرتا ہے کہ ہم مہاجر و انصار کی ایک جماعت کے ساتھ [[رسول خدا]] کے پاس بیٹھے تھے کہ علی وہاں آئے ۔[[رسول خدا]] نے فرمایا:کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں بہترین شخص سے آگاہ کروں؟سب نے کہا کیوں نہیں ۔تو آپ نے فرمایا:تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں اور وہ اچھی خوشبو سے استفادہ کریں گے ۔ خدا متقی اشخاص کو دوست رکھتا ہے ۔راوی کہتا ہے : اسی دوران علی ہمارے پاس سے گزر گئے ؛ رسول نے فرمایا : یہ حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے ۔ <ref>أبو یعلی، ج۲، ص۳۱۸، ح۱۰۵۲</ref><ref>عسقلانی، ج۱۶، ص۱۴۷</ref>
:یہ روایت [[حضرت علی]] کی عصمت کی تصریح کرتی ہے کیونکہ:
:ہمیشہ حق کی ہمراہی اور کردار اور گفتار میں خطا کا نہ ہونا عصمت کے معنا کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ۔[[رسول خدا]] گواہی دے رہے ہیں کہ علی تمام حالات میں حق کے ساتھ ہے اور کبھی وہ حق سے جدا نہیں ہونگے ۔یہ گواہی دینا اس بات کی علامت ہے کہ آپ ہر طرح کے گناہ اور خطا سے پاک وپاکیزہ ہیں کیونکہ انسان کا کردار اور  گفتار ہمیشہ حق کے ساتھ نہیں ہے اور خطا و اشتباہ کا امکان اس میں موجود ہے جبکہ رسول اللہ نے حق علی کے ساتھ کہہ کر اسکی تائید کر دی کہ وہ کبھی خطا و نسیان و گناہ کا شکار نہیں ہونگے۔حضرت علی(ع) ہمیشہ حق کے ساتھ ہے اور کبھی اس سے جدا نہیں ہو گا اس بنا پر حضرت علی عصمت کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے ورنہ قول رسول کی تکذیب لازم آتی ہے ۔
:* '''روایت امیرالمومنین(ع)'''
:پیامبر اسلام(ص) نے فرمایا: <font color=blue>{{حدیث|مَنْ سَرَّهُ أَنْ ینْظُرَ إِلَی الْقَضِیبِ الْیاقُوتِ الْأَحْمَرِ الَّذِی غَرَسَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِیدِهِ وَیکونَ مُتَمَسِّکاً بِهِ فَلْیتَوَلَّ عَلِیاً وَالْأَئِمَّةَ مِنْ وُلْدِهِ فَإِنَّهُمْ خِیرَةُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَصَفْوَتُهُ وَهُمُ الْمَعْصُومُونَ مِنْ کلِّ ذَنْبٍ وَخَطِیئَةٍ.}}</font>
:جو شخص بھی اس بات پر  خوشحال ہو کہ وہ ایسے سرخ یاقوت کے ٹکڑے کو دیکھے کہ جسے  اللہ نے اپنے ہاتھوں سے خلق کیا اور وہ اس سے متمسک رہے تو اسے چاہئے کہ وہ [[امام علی|علی]] اور اسکی اولاد میں سے [[ائمہ طاہرین|ائمہ]] کو دوست رکھے کیونکہ وہ خدا کی بہترین مخلوق ہیں اور وہ ہر طرح کے گناہ اور خطا سے معصوم ہیں ۔<ref>صدوق، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۵۷</ref>
:یہ روایت بھی [[شیعہ]] آئمہ کی عصمت پر دلالت کرتی ہے ۔


==فرشتوں کی عصمت==
==فرشتوں کی عصمت==
<font color=green>{{حدیث|عَلَیها مَلائِکةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا یعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ یفْعَلُونَ ما یؤْمَرُونَ.(6) تحریم}}</font> ترجمہ:اس پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو تُندخو اور درشت مزا ج ہیں انہیں جس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔
<font color=green>{{حدیث|عَلَیها مَلائِکةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا یعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ یفْعَلُونَ ما یؤْمَرُونَ.(6) تحریم}}</font> ترجمہ:اس پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو تُندخو اور درشت مزا ج ہیں انہیں جس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم