"مغیرة بن اخنس ثقفی" کے نسخوں کے درمیان فرق
عدد انگلیسی
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (عدد انگلیسی) |
||
سطر 32: | سطر 32: | ||
==تعارف== | ==تعارف== | ||
مُغیرۃ بن اَخنَس بن شریق ثقفی [[نہج البلاغہ]] کے خطبہ 135 میں امام علیؑ کے کلام کا مخاطب قرار پایا ہے۔<ref>نہجالبلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبۀ | مُغیرۃ بن اَخنَس بن شریق ثقفی [[نہج البلاغہ]] کے خطبہ 135 میں امام علیؑ کے کلام کا مخاطب قرار پایا ہے۔<ref>نہجالبلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبۀ 135، ص193۔</ref> وہ [[عثمان بن عفان|عثمان بن عَفّان]] کا چچا زاد بھائی اور ان کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا۔<ref> ابنعبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1444۔</ref> بعض تاریخی منابع کے مطابق عثمان کے حکومتی عامل مروان بن حکم([[سنہ 2 ہجری|2ھ]]-[[سنہ 65 ہجری|65ھ]]) نے مغیرہ کو بحرین{{نوٹ| بحرین خلیج فارس کے جنوب مغرب میں ایک علاقہ ہے جو ملک بحرین سے بڑے علاقے کو شامل تھا۔(خسروی، «بحرین»، ص132۔)}} کا حکومتی عامل مقرر کیا۔<ref> بلاذری، جمل من انساب الاشراف، 1417ھ، ج13، ص437۔</ref> مصری سوانح حیات نویس خیرالدین زِرِکْلی نے انہیں اصحاب پیغمبرؐ اور عصر آنحضرتؐ کے شعرا میں سے شمار کیا ہے۔<ref>زرکلی، الاعلام، 1989ء، ج7، ص276۔</ref> | ||
===قریبی رشتہ دار=== | ===قریبی رشتہ دار=== | ||
مغیرہ کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا۔<ref>شیخ صدوق، | مغیرہ کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا۔<ref>شیخ صدوق، الخصال، 1416ھ، ج1، ص227-228۔</ref> ان کا والد [[اخنس بن شریق|اخنَس بن شَریق]] (متوفیٰ: [[سنہ 13 ہجری|13ھ]]) تھا اور وہ [[مشرکین]] کا سرکردہ تھا۔ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد اعلان کیا گیا کہ اس نے [[اسلام]] قبول کیا ہے اور رسول خداؐ نے [[مال غنیمت]] میں سے کچھ اسے عطا کیا۔<ref>ابنابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج8، ص301-302۔</ref> تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ اخنس قبیلہ بنی زہرہ کا حلیف تھا اور انہیں [[غزوہ بدر|جنگ بدر]] میں [[مسلمانوں]] کے ساتھ بر سر پیکار ہونے سے روک لیا۔<ref>بلاذری، جمل من انساب الاشراف، 1417ھ، ج13، ص437۔</ref> بعض مفسرین کے مطابق [[سورہ بقرہ کی آیت نمبر 205]] اخنس کی مذمت میں نازل ہوئی ہے۔<ref>قمی مشہدی، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، 1367ہجری شمسی، ج2، ص303۔</ref> کتاب [[الطبقات الکبری]] میں مغیرہ کے دونوں پوتے یعقوب بن عتبۃ بن مغیرہ (متوفی: [[سنہ 128 ہجری|128ھ]]) اور عثمان بن محمد بن مغیرہ (متوفی: [[سنہ 130ہجری|130ھ]]) مدینہ میں دوسری صدی ہجری کے فقیہ کے عنوان سے تذکرہ ملتا ہے۔<ref>ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج5، ص394-395۔</ref> | ||
===امام علیؑ کے ساتھ جنگ میں مغیرہ کے رشتہ داروں کا قتل=== | ===امام علیؑ کے ساتھ جنگ میں مغیرہ کے رشتہ داروں کا قتل=== | ||
مغیرہ کا بیٹا عبد اللہ اور بھتیجا عبد اللہ بن ابی عثمان [[جنگ جمل]] میں امام علیؑ کے مقابلے میں آئے اور اسی جنگ میں مارے گئے۔<ref>شیخ مفید، الإرشاد، | مغیرہ کا بیٹا عبد اللہ اور بھتیجا عبد اللہ بن ابی عثمان [[جنگ جمل]] میں امام علیؑ کے مقابلے میں آئے اور اسی جنگ میں مارے گئے۔<ref>شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ، ج1، ص255-256۔</ref> مورخین کے مطابق مغیرہ کا بھائی ابوالحکم بھی [[جنگ احد]] میں امام علیؑ کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔<ref>ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج 2، ص 33۔</ref> | ||
==امام علیؑ کے ساتھ تلخ کلامی== | ==امام علیؑ کے ساتھ تلخ کلامی== | ||
کتاب "الفتوح" کی گزارش کے مطابق عثمان کے دور حکومت میں [[امام علیؑ]] اور مغیرۃ ابن اخنس کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ اس گزارش کے مطابق امام علیؑ کی عثمانی طرز حکومت پر تنقید کی وجہ سے عثمان ناراض تھا۔ مغیرہ اور زید بن ثابت دونوں امام علیؑ کے پاس آئے۔ زید نے امام علیؑ کی تعریف و تمجید اور [[رسول خداؐ]] کے پاس آپؑ کے مقام و مرتبے کو بیان کرنے کے ضمن میں کہا کہ آپ عثمان کو تنقید کا نشانہ بنانے سے باز آجائیں۔ امام علیؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم! میں نہ اس (عثمان) پر اعتراض کرنے کو پسند کرتا ہوں اور نہ ہی اس کی حالت کو رد کرتا ہوں، مگر یہ کہ جب وہ حق الہی کا ادا کرنے سے باز آجائے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ میں اس کے بارے میں حقیقت کے سوا کچھ اور بولوں۔ خدا کی قسم! اس کی تنقید کرنے سے حتی الامکان پرہیز کروں گا۔" | کتاب "الفتوح" کی گزارش کے مطابق عثمان کے دور حکومت میں [[امام علیؑ]] اور مغیرۃ ابن اخنس کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ اس گزارش کے مطابق امام علیؑ کی عثمانی طرز حکومت پر تنقید کی وجہ سے عثمان ناراض تھا۔ مغیرہ اور زید بن ثابت دونوں امام علیؑ کے پاس آئے۔ زید نے امام علیؑ کی تعریف و تمجید اور [[رسول خداؐ]] کے پاس آپؑ کے مقام و مرتبے کو بیان کرنے کے ضمن میں کہا کہ آپ عثمان کو تنقید کا نشانہ بنانے سے باز آجائیں۔ امام علیؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم! میں نہ اس (عثمان) پر اعتراض کرنے کو پسند کرتا ہوں اور نہ ہی اس کی حالت کو رد کرتا ہوں، مگر یہ کہ جب وہ حق الہی کا ادا کرنے سے باز آجائے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ میں اس کے بارے میں حقیقت کے سوا کچھ اور بولوں۔ خدا کی قسم! اس کی تنقید کرنے سے حتی الامکان پرہیز کروں گا۔" | ||
مغیرۃ نے جواباً کہا: "اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپؑ عثمان کے بارے میں کچھ کہنے سے باز آجائیں، بصورت دیگر آپ کو باز آنے پر مجبور کیا جائے گا۔ کیونکہ اس (عثمان) کے پاس آپ سے زیادہ طاقت ہے، عثمان نے آپ کے احترام کا پاس رکھتے ہوئے یہ گروہ بھیجا تاکہ ان کو آپ پر گواہ رکھا جائے۔ امام علیؑ مغیرۃ کی باتیں سن کر جلال میں آئے اور کہا: "اے ملعون کے بیٹے! اے بے اولاد اور ابتر آدمی! تم مجھے جواب دینا چاہتے ہو (یعنی مجھے عثمان کے بارے میں بات کرنے سے روکو گے؟) خدا کی قسم! خدا اس شخص کو عزت نہیں دے گا جس کے تم جیسا شخص مددگار ہو اور جس کا تم ہاتھ پکڑو گے وہ کھڑا نہیں ہوپائے گا۔ یہاں سے باہر نکل جاو! خدا تم سے خیر کو دور رکھے۔ تو جو چاہو کوشش کرو۔ تم خدا کی گرفت سے نہیں بچ پاؤگے، اگر تم جو کچھ کر سکتے ہو اس سے دستبردار ہوجاؤ"۔ | مغیرۃ نے جواباً کہا: "اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپؑ عثمان کے بارے میں کچھ کہنے سے باز آجائیں، بصورت دیگر آپ کو باز آنے پر مجبور کیا جائے گا۔ کیونکہ اس (عثمان) کے پاس آپ سے زیادہ طاقت ہے، عثمان نے آپ کے احترام کا پاس رکھتے ہوئے یہ گروہ بھیجا تاکہ ان کو آپ پر گواہ رکھا جائے۔ امام علیؑ مغیرۃ کی باتیں سن کر جلال میں آئے اور کہا: "اے ملعون کے بیٹے! اے بے اولاد اور ابتر آدمی! تم مجھے جواب دینا چاہتے ہو (یعنی مجھے عثمان کے بارے میں بات کرنے سے روکو گے؟) خدا کی قسم! خدا اس شخص کو عزت نہیں دے گا جس کے تم جیسا شخص مددگار ہو اور جس کا تم ہاتھ پکڑو گے وہ کھڑا نہیں ہوپائے گا۔ یہاں سے باہر نکل جاو! خدا تم سے خیر کو دور رکھے۔ تو جو چاہو کوشش کرو۔ تم خدا کی گرفت سے نہیں بچ پاؤگے، اگر تم جو کچھ کر سکتے ہو اس سے دستبردار ہوجاؤ"۔ | ||
مغیرہ یہ باتیں سن کر خاموش ہو گیا؛ لیکن زید بن ثابت نے کہا: خدا کی قسم! ہم آپ کے پاس آپ کے خلاف گواہی دینے کے لیے نہیں آئے ہیں اور نہ ہی آپ پر کٹ حجتی کے لیے؛ بلکہ اجر الہی کی نیت سے ہم آپ کے تعلقات کو بہتر بنانے اور اپنے مابین اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرنے آئے ہیں۔" امام علیؑ نے زید اور اس کی قوم کے حق میں [[دعا]] کی۔ بعد از آں؛ وہ لوگ اٹھے اور عثمان کے پاس جاکر اپنی ملاقات کی خبر اسے دی۔<ref>ابناعثم کوفی، الفتوح، | مغیرہ یہ باتیں سن کر خاموش ہو گیا؛ لیکن زید بن ثابت نے کہا: خدا کی قسم! ہم آپ کے پاس آپ کے خلاف گواہی دینے کے لیے نہیں آئے ہیں اور نہ ہی آپ پر کٹ حجتی کے لیے؛ بلکہ اجر الہی کی نیت سے ہم آپ کے تعلقات کو بہتر بنانے اور اپنے مابین اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرنے آئے ہیں۔" امام علیؑ نے زید اور اس کی قوم کے حق میں [[دعا]] کی۔ بعد از آں؛ وہ لوگ اٹھے اور عثمان کے پاس جاکر اپنی ملاقات کی خبر اسے دی۔<ref>ابناعثم کوفی، الفتوح، ج2، 1411ھ، ص380۔</ref> | ||
===نہج البلاغہ میں اس ماجرا کا بیان=== | ===نہج البلاغہ میں اس ماجرا کا بیان=== | ||
[[نہج البلاغہ]] میں یہ ماجرا اس طرح نقل ہوا ہے کہ امام علیؑ اور عثمان کے مابین کسی بات پر بحث ہوئی۔ مغیرۃ نے عثمان سے کہا: میں علی کو جواب دیتا ہوں، اس طرح ان کے درمیان الفاظ کا تبادلہ ہوا۔<ref>نہجالبلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبۀ | [[نہج البلاغہ]] میں یہ ماجرا اس طرح نقل ہوا ہے کہ امام علیؑ اور عثمان کے مابین کسی بات پر بحث ہوئی۔ مغیرۃ نے عثمان سے کہا: میں علی کو جواب دیتا ہوں، اس طرح ان کے درمیان الفاظ کا تبادلہ ہوا۔<ref>نہجالبلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبۀ 135، ص193۔</ref> {{نوٹ|یہ ماجرا تصحیح صبحی صالح میں خطبہ نمبر135، [[مصباح السالکین (کتاب)|شرح ابن میثم]] میں خطبہ نمبر 134، [[تنبیہ الغافلین و تذکرہ العارفین]] میں خطبہ نمبر 159 اور [[فی ضلال نہج البلاغۃ]] میں خطبہ نمبر 133 میں آیا ہے۔(ابنمیثم، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج3، ص163؛ نہج البلاغہ، تصحیح فتحاللہ کاشانی، خطبۀ 43، ج1، ص636؛ مغنیہ، فی ظلال نہجالبلاغہ، 1979ء، ج2، ص285۔)}} اس کے باوجود [[ابن ابی الحدید |ابن ابی الحدید]] نے [[شرح نہج البلاغہ (ابنابیالحدید)|شرح نہج البلاغہ]] میں اس خطبے کو "الفتوح" والی نقل کو صحیح تر جانا ہے۔ ابنابیالحدید یہ وضاحت بھی بیان کرتے ہیں کہ امام علیؑ کے کلام میں یہ جملہ "ملعون کے بیٹے" اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مغیرۃ کا باپ [[منافق]] تھا اور لفظ "الابتر" اس کے بیٹوں کی گمراہی پر دلالت کرتا ہے؛ کیونکہ مغیرۃ بے اولاد نہیں تھا۔<ref>ابنابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج8، ص302-303۔</ref> نیز جملہ "بے ریشہ و شاخہ درخت" [[سورہ ابراہیم]] آیت 26 کی طرف اشارہ ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمومنین(ع)، 1386ہجری شمسی، ج5، ص496۔</ref> | ||
==واقعہ قتل عثمان میں مغیرہ کی موت== | ==واقعہ قتل عثمان میں مغیرہ کی موت== | ||
کہتے ہیں کہ مغیرۃ بن اخنس [[سنہ 35 ہجری|35ھ]] میں قتل عثمان کے واقعے میں مارے جانے والے افراد میں سے ہے۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، | کہتے ہیں کہ مغیرۃ بن اخنس [[سنہ 35 ہجری|35ھ]] میں قتل عثمان کے واقعے میں مارے جانے والے افراد میں سے ہے۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج4، ص382۔</ref> اسی سال جن مسلمانوں نے عثمان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا؛ اس کے گھر کو محاصرے میں لیا۔<ref>ابناثیر، الکامل فی التاریخ، دار صادر، ج3، ص172-179۔</ref> مورخین کے مطابق جس وقت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تھا مغیرۃ [[مکہ]] میں [[مناسک حج]] انجام دینے میں مشغول تھا۔ وہ حج کے بعد فورا [[مدینہ]] پہنچا تاکہ خلیفہ کا دفاع کیا جاسکے۔<ref>ابناثیر، الکامل فی التاریخ، دار صادر، ج3، ص 175۔</ref> مغیرۃ نے رجز پڑھتے ہوئے جنگ شروع کی۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج 4، ص 389؛ ابناثیر، الکامل فی التاریخ، دار صادر، ج3، ص 175۔</ref> بعض تاریخی نقل کے مطابق مغیرۃ [[عبد اللہ بن بدیل|عبداللہ بن بُدَیل]] کے ہاتھوں قتل ہوا۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج4، ص382۔</ref> نیز منقول ہے کہ مغیرۃ کا قاتل مدینہ کی گلی کوچوں میں اپنے کیے پر فخر کرتا ہوا پھرتا تھا۔<ref>بلاذری، جمل من انساب الاشراف، 1417ھ، ج13، ص437۔</ref> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== | ||
سطر 58: | سطر 58: | ||
==مآخذ== | ==مآخذ== | ||
{{مآخذ}} | {{مآخذ}} | ||
* نہج البلاغۃ، تصحیح صبحی صالح، قم، مؤسسۃ دارالہجرۃ، | * نہج البلاغۃ، تصحیح صبحی صالح، قم، مؤسسۃ دارالہجرۃ، 1414ھ۔ | ||
* نہج البلاغہ، تصحیح فتحاللہ کاشانی (تنبیہ الغافیلن و تذکرۃ العارفین)، تہران، پیام حق، | * نہج البلاغہ، تصحیح فتحاللہ کاشانی (تنبیہ الغافیلن و تذکرۃ العارفین)، تہران، پیام حق، 1378ہجری شمسی۔ | ||
* ابناثیر، علی بن محمد، الکامل فیالتاریخ، بیروت، دار صادر، | * ابناثیر، علی بن محمد، الکامل فیالتاریخ، بیروت، دار صادر، 1385-1386ھ/1965-1966ہجری شمسی۔ | ||
* ابناعثم کوفی، محمد بن علی، الفتوح،بیروت، دار الأضواء، | * ابناعثم کوفی، محمد بن علی، الفتوح،بیروت، دار الأضواء، 1411ھ۔ | ||
* ابنسعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، | * ابنسعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1410ھ۔ | ||
* ابنعبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الإستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، بیروت، دار الجیل، | * ابنعبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الإستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، بیروت، دار الجیل، 1412ھ/1992ء۔ | ||
* ابنمیثم، میثم بن علی، شرح نہج البلاغۃ، تہران، دفتر نشر الکتاب، | * ابنمیثم، میثم بن علی، شرح نہج البلاغۃ، تہران، دفتر نشر الکتاب، 1404ھ۔ | ||
* بَلَاذُری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف بیروت، دار الفکر، | * بَلَاذُری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف بیروت، دار الفکر، 1417ھ/1996ء۔ | ||
* خسروی، خسرو، «بحرین»، در دانشنامہ جہان اسلام، | * خسروی، خسرو، «بحرین»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج2، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، 1393ہجری شمسی۔ | ||
* زرکلی، خیرالدین، الأعلام، دارالعلم للملایین، بیروت، | * زرکلی، خیرالدین، الأعلام، دارالعلم للملایین، بیروت، 1989ء۔ | ||
* شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، قم، جماعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، | * شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، قم، جماعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1416ھ۔ | ||
* شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، | * شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔ | ||
* طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری (تاریخ الأمم و الملوک)، بیروت، بینا، بیتا۔ | * طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری (تاریخ الأمم و الملوک)، بیروت، بینا، بیتا۔ | ||
* قمی مشہدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، | * قمی مشہدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1367ہجری شمسی/1990ء۔ | ||
* مغنیہ، محمدجواد، فی ظلال نہج البلاغۃ، بیروت، دار العلم للملایین، | * مغنیہ، محمدجواد، فی ظلال نہج البلاغۃ، بیروت، دار العلم للملایین، 1979ء۔ | ||
* مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، | * مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، 1413ھ۔ | ||
* مکارم شیرازی، ناصر، پیام امیرالمومنین(ع)، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، | * مکارم شیرازی، ناصر، پیام امیرالمومنین(ع)، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1386ہجری شمسی۔ | ||
{{خاتمہ}} | {{خاتمہ}} | ||