مندرجات کا رخ کریں

"محمد بن حنفیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

عدد انگلیسی
م (Text replacement - "<div class="reflist4" style="height: 220px; overflow: auto; padding: 3px" >↵{{حوالہ جات}}↵</div>" to "{{حوالہ جات}}")
(عدد انگلیسی)
سطر 5: سطر 5:
  | عنوان تصویر  =  
  | عنوان تصویر  =  
  | نام          =محمد بن علی ابن ابی طالب
  | نام          =محمد بن علی ابن ابی طالب
  | وجہ شہرت    =فرزند امام، قیام مختار
  | وجہ شہرت    =فرزند امام، [[قیام مختار]]
  | کنیت        =ابوالقاسم
  | کنیت        =ابوالقاسم
  | القاب        =  مہدی (کیسانیہ کے مطابق)
  | القاب        =  مہدی (کیسانیہ کے مطابق)
سطر 20: سطر 20:
  | شریک حیات    =  
  | شریک حیات    =  
  | اولاد        =
  | اولاد        =
  |مشہور اقارب  =حضرت علیؑ
  |مشہور اقارب  =[[حضرت علیؑ]]
  |اصحاب        =
  |اصحاب        =
  |خدمات        =
  |خدمات        =
سطر 32: سطر 32:


==نام، نسب اور ولادت==
==نام، نسب اور ولادت==
آپ کی والدہ خولہ بنت جعفر بن قیس <ref> أنساب الأشراف، ج۲، ص۲۰۰.</ref> کا تعلق قبیلہ بنی حنفیہ سے تھا، اس وجہ سے آپ حنفیہ کے نام سے مشہور ہو‎ئے۔ بعض محققین کے مطابق آپ کی ماں کنیز تھیں اور [[ابوبکر]] کی [[خلافت]] کے دوران [[بنی اسد]] کے [[بنی حنفیہ]] پر حملے کے دوران اسیر ہو‎ئیں اور [[امام علی علیہ السلام]] نے انہیں خرید کر آزاد کیا اور پھر ان سے شادی کی۔
آپ کی والدہ خولہ بنت جعفر بن قیس <ref> أنساب الأشراف، ج2، ص200.</ref> کا تعلق قبیلہ بنی حنفیہ سے تھا، اس وجہ سے آپ حنفیہ کے نام سے مشہور ہو‎ئے۔ بعض محققین کے مطابق آپ کی ماں کنیز تھیں اور [[ابوبکر]] کی [[خلافت]] کے دوران [[بنی اسد]] کے [[بنی حنفیہ]] پر حملے کے دوران اسیر ہو‎ئیں اور [[امام علی علیہ السلام]] نے انہیں خرید کر آزاد کیا اور پھر ان سے شادی کی۔


چونکہ آپ کی وفات سنہ 81 ھ میں ہو‎ئی اور اس وقت عمر 65 سال تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سنہ 16 ھ میں متولد ہو‎ئے ہیں۔<ref> الطبقات الکبری، ج۵، ص:۸۷.</ref>
چونکہ آپ کی وفات سنہ 81 ھ میں ہو‎ئی اور اس وقت عمر 65 سال تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سنہ 16 ھ میں متولد ہو‎ئے ہیں۔<ref> الطبقات الکبری، ج5، ص:87.</ref>


بعض مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ [[رسول خدا (ص)]] نے اپنی وفات سے پہلے حضرت علی (ع) سے فرمایا: اگر خولہ کے یہاں بیٹے کی ولادت ہو تو اس کا نام میرے نام اور میری کنیت پر رکھنا۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ص۲۰۰-۲۰۱.</ref>
بعض مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ [[رسول خدا (ص)]] نے اپنی وفات سے پہلے حضرت علی (ع) سے فرمایا: اگر خولہ کے یہاں بیٹے کی ولادت ہو تو اس کا نام میرے نام اور میری کنیت پر رکھنا۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، 1417ق، ج2،‌ص200-201.</ref>


==نقل حدیث میں آپ کا مقام==
==نقل حدیث میں آپ کا مقام==
آپ  نے اپنے والد حضرت [[علیؑ]]، [[عمر بن خطاب|عُمَر بن خَطّاب]]، [[ابو ہریرہ]]، [[عثمان بن عفان|عثمان]]، [[عمار یاسر|عمار بن یاسر]] اور [[معاویہ]] وغیرہ سے [[احادیث]] نقل کی ہیں۔۔<ref> شمس الدين الذہبی، تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام، ج2 ص994۔</ref>
آپ  نے اپنے والد حضرت [[علیؑ]]، [[عمر بن خطاب|عُمَر بن خَطّاب]]، [[ابو ہریرہ]]، [[عثمان بن عفان|عثمان]]، [[عمار یاسر|عمار بن یاسر]] اور [[معاویہ]] وغیرہ سے [[احادیث]] نقل کی ہیں۔۔<ref> شمس الدين الذہبی، تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام، ج2 ص994۔</ref>
آپ سے آپ کے بیٹے [[عبداللہ بن محمد حنفیہ|عبد اللّہ]]، [[حسن بن محمد حنفیہ|حسن]]، [[ابراہیم بن محمد حنفیہ|ابراہیم]]، [[عون بن محمد حنفیہ|عون]] اور کچھ دوسرے لوگ جیسے [[سالم بن ابی جعد]]، [[منذر ثوری]]، [[امام باقرؑ]]، [[عبداللہ بن محمد عقیل]]، [[عمرو بن دینار]]، [[محمد بن قیس]]، [[عبد الاعلی بن عامر]] وغیرہ نے احادیث نقل کی ہیں۔<ref> صابری، ج۲، ص۵۱.</ref>
آپ سے آپ کے بیٹے [[عبداللہ بن محمد حنفیہ|عبد اللّہ]]، [[حسن بن محمد حنفیہ|حسن]]، [[ابراہیم بن محمد حنفیہ|ابراہیم]]، [[عون بن محمد حنفیہ|عون]] اور کچھ دوسرے لوگ جیسے [[سالم بن ابی جعد]]، [[منذر ثوری]]، [[امام باقرؑ]]، [[عبداللہ بن محمد عقیل]]، [[عمرو بن دینار]]، [[محمد بن قیس]]، [[عبد الاعلی بن عامر]] وغیرہ نے احادیث نقل کی ہیں۔<ref> صابری، ج2، ص51.</ref>


آپ نے [[مدینہ]] میں وسیع پیمانے پر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اسی مکتب سے بہت سارے نظریات رواج پایے۔ یہاں تک کہ مدینے میں آپ کے درس تدریس کو [[بصرہ]] میں [[حسن بصری]] کے علمی حلقے سے مقایسہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ جس طرح وہ مجمع [[معتزلہ]] کے عقاید کا سرچشمہ اور [[تصوف|صوفیوں]] اور زاہدوں کے مسلک کے نام سے متعارف ہوا، اس حلقے کے شاگردوں کو بھی کلامی نظریات کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس حلقے سے ابن حنفیہ کے دو بیٹے عبد اللہ جن کا لقب ابو القاسم تھا اور حسن جن کا لقب ابو محمد تھا، نکلے اور ابو ہاشم، معتزلی نظریات کا واسطہ بنا اور ابو محمد [[مرجئہ]] کا بانی بنا۔<ref> صابری، ج۲، ص۵۴.</ref>
آپ نے [[مدینہ]] میں وسیع پیمانے پر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اسی مکتب سے بہت سارے نظریات رواج پایے۔ یہاں تک کہ مدینے میں آپ کے درس تدریس کو [[بصرہ]] میں [[حسن بصری]] کے علمی حلقے سے مقایسہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ جس طرح وہ مجمع [[معتزلہ]] کے عقاید کا سرچشمہ اور [[تصوف|صوفیوں]] اور زاہدوں کے مسلک کے نام سے متعارف ہوا، اس حلقے کے شاگردوں کو بھی کلامی نظریات کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس حلقے سے ابن حنفیہ کے دو بیٹے عبد اللہ جن کا لقب ابو القاسم تھا اور حسن جن کا لقب ابو محمد تھا، نکلے اور ابو ہاشم، معتزلی نظریات کا واسطہ بنا اور ابو محمد [[مرجئہ]] کا بانی بنا۔<ref> صابری، ج2، ص54.</ref>


==وثاقت==
==وثاقت==
[[رجال کشی|رجال]] [[کشی]] میں حضرت علی علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہو‎ئی ہے جس میں محمد نام کے چار افراد  کو  اللہ کی نافرمانی کی رکاٹ بننے کا ذکر ہوا ہے؛ ان چار محمد میں سے پہلا [[محمد بن جعفرطیار]]، دوسرا [[محمد بن ابی بکر]]، تیسرا محمد بن حنفیہ اور چوتھا [[محمد بن ابی حذیفہ]] ہے.<ref> کشی، ص۷۰.</ref> ہیں۔ [[عبداللہ مامقانی|مامقانی]] اس حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہو‎ئے محمد ابن حنفیہ کی عدالت اور وثاقت کو ثابت کرتا ہے۔<ref> تنقیح المقال، ج۳، ص۱۱۱.</ref>
[[رجال کشی|رجال]] [[کشی]] میں حضرت علی علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہو‎ئی ہے جس میں محمد نام کے چار افراد  کو  اللہ کی نافرمانی کی رکاٹ بننے کا ذکر ہوا ہے؛ ان چار محمد میں سے پہلا [[محمد بن جعفرطیار]]، دوسرا [[محمد بن ابی بکر]]، تیسرا محمد بن حنفیہ اور چوتھا [[محمد بن ابی حذیفہ]] ہے.<ref> کشی، ص70.</ref> ہیں۔ [[عبداللہ مامقانی|مامقانی]] اس حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہو‎ئے محمد ابن حنفیہ کی عدالت اور وثاقت کو ثابت کرتا ہے۔<ref> تنقیح المقال، ج3، ص111.</ref>


==سیاسی موقف==
==سیاسی موقف==
محمد بن حنفیہ سیاسی اعتبار سے باہمی مسالمت آمیز رو‎یہ اختیار کرتے تھے۔ اسی موقف کی وجہ سے [[علی علیہ السلام|امیر المؤمنین علیہ السلام]] کی [[شہادت]] کے بعد [[مدینہ]] میں اپنے بھا‎ئی [[امام حسن علیہ السلام]] کے ساتھ رہے اور [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] کے ولی عہد کے عنوان سے [[یزید بن معاویہ|یزید]] کی بھی بیعت کی اور یزید کے خلیفہ بننے کے بعد بھی اس کی خلافت کی مخالفت نہیں کی۔
محمد بن حنفیہ سیاسی اعتبار سے باہمی مسالمت آمیز رو‎یہ اختیار کرتے تھے۔ اسی موقف کی وجہ سے [[علی علیہ السلام|امیر المؤمنین علیہ السلام]] کی [[شہادت]] کے بعد [[مدینہ]] میں اپنے بھا‎ئی [[امام حسن علیہ السلام]] کے ساتھ رہے اور [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] کے ولی عہد کے عنوان سے [[یزید بن معاویہ|یزید]] کی بھی بیعت کی اور یزید کے خلیفہ بننے کے بعد بھی اس کی خلافت کی مخالفت نہیں کی۔


آپ نے بعد میں بھی نظام خلافت کے ساتھ مسالمت آمیز رابطہ جاری رکھا۔ سنہ 76 ھ کو [[عبدالملک بن مروان]] سے ملنے [[دمشق]] چلے گئے۔ بعض نے عبد الملک سے رابطے کی وجہ ابن زبیر کی طرف سے بدسلوکی قرار دی ہے۔ [[عبداللہ بن زبیر]] نے انہیں زمزم کے چھوٹے سے کمرے میں بند کیا اور [[مختار ثقفی]] کے ساتھیوں نے اس سے نجات دلائی۔<ref> صابری، ج۲، ص۵۲ و ۵۳.</ref>
آپ نے بعد میں بھی نظام خلافت کے ساتھ مسالمت آمیز رابطہ جاری رکھا۔ سنہ 76 ھ کو [[عبدالملک بن مروان]] سے ملنے [[دمشق]] چلے گئے۔ بعض نے عبد الملک سے رابطے کی وجہ ابن زبیر کی طرف سے بدسلوکی قرار دی ہے۔ [[عبداللہ بن زبیر]] نے انہیں زمزم کے چھوٹے سے کمرے میں بند کیا اور [[مختار ثقفی]] کے ساتھیوں نے اس سے نجات دلائی۔<ref> صابری، ج2، ص52 و 53.</ref>


مختار کو قتل کرنے کے بعد ابن زبیر نے محمد حنفیہ سے دوبارہ [[بیعت]] طلب کی اور چاہتا تھا ان پر اور ان کے قریبی لوگوں پر حملہ کرے۔ اس وقت  مسند [[خلافت]] پر براجمان [[عبد الملک ابن مروان]] کی طرف سے محمد ابن حنفیہ کو ایک خط موصول ہوا جس میں محمد اور اس کے چاہنے والوں کو [[شام]] آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ محمد اور اس کے دوست احباب شام کی طرف چلے گئے لیکن [[مدین|مَدین]] پہنچے تو ان کو خبر ملی کہ عبد الملک ابن مروان نے عمرو بن سعید سے <small>(جو کہ ابن حنفیہ کے دوستوں میں سے تھا</small>) بے وفا‎ئی کی ہے اس وجہ سے وہ لوگ سفر سے پشیمان ہو‎ئے اور «[[ایلہ|أیلہ]]» میں رک گئے جو کہ [[بحیرہ احمر]] کے کنارے، [[حجاز]] کے آخر میں شام کے بارڈر پر ایک شہر ہے۔ وہاں سے واپس [[مکہ]] لوٹے اور [[ابوطالب کی گھاٹی|شعب ابوطالب]] میں سکونت اختیار کی پھر وہاں سے [[طا‎ئف]] چلے گئے۔ جب تک حجاج نے ابن زبیر کو مکہ میں محاصرے میں رکھا محمد حنفیہ طا‌‎ئف میں رہے۔ اس کے بعد پھر شعب ابو طالب واپس آ‎ئے۔ حجاج نے ان سے عبد الملک کے لئے بیعت طلب کی لیکن انہوں نے بیعت کرنے سے انکار کیا۔ ابن زبیر مرنے کے بعد محمد بن حنفیہ نے عبد الملک کو ایک خط لکھا اور اس سے امان مانگا اور عبد الملک نے اسے امان دیا۔<ref> دیکھ‎ئے: نوبختی، ص ۸۶-۸۷.</ref>
مختار کو قتل کرنے کے بعد ابن زبیر نے محمد حنفیہ سے دوبارہ [[بیعت]] طلب کی اور چاہتا تھا ان پر اور ان کے قریبی لوگوں پر حملہ کرے۔ اس وقت  مسند [[خلافت]] پر براجمان [[عبد الملک ابن مروان]] کی طرف سے محمد ابن حنفیہ کو ایک خط موصول ہوا جس میں محمد اور اس کے چاہنے والوں کو [[شام]] آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ محمد اور اس کے دوست احباب شام کی طرف چلے گئے لیکن [[مدین|مَدین]] پہنچے تو ان کو خبر ملی کہ عبد الملک ابن مروان نے عمرو بن سعید سے <small>(جو کہ ابن حنفیہ کے دوستوں میں سے تھا</small>) بے وفا‎ئی کی ہے اس وجہ سے وہ لوگ سفر سے پشیمان ہو‎ئے اور «[[ایلہ|أیلہ]]» میں رک گئے جو کہ [[بحیرہ احمر]] کے کنارے، [[حجاز]] کے آخر میں شام کے بارڈر پر ایک شہر ہے۔ وہاں سے واپس [[مکہ]] لوٹے اور [[ابوطالب کی گھاٹی|شعب ابوطالب]] میں سکونت اختیار کی پھر وہاں سے [[طا‎ئف]] چلے گئے۔ جب تک حجاج نے ابن زبیر کو مکہ میں محاصرے میں رکھا محمد حنفیہ طا‌‎ئف میں رہے۔ اس کے بعد پھر شعب ابو طالب واپس آ‎ئے۔ حجاج نے ان سے عبد الملک کے لئے بیعت طلب کی لیکن انہوں نے بیعت کرنے سے انکار کیا۔ ابن زبیر مرنے کے بعد محمد بن حنفیہ نے عبد الملک کو ایک خط لکھا اور اس سے امان مانگا اور عبد الملک نے اسے امان دیا۔<ref> دیکھ‎ئے: نوبختی، ص 86-87.</ref>


==نمایاں کاکردگی ==
==نمایاں کاکردگی ==


===جنگوں میں شرکت===
===جنگوں میں شرکت===
* [[سنہ 36 ہجری]] میں [[جنگ جمل]] واقع ہو‎ئی۔ اس دن محمد حملہ کرنے سے رک گئے اور پرچم کو خود امام علی علیہ السلام نے سنبھالا اور جمل والوں کی فوج کو پسپا کرنے کے بعد پھر پرچم محمد کے حوالے کیا اور ان سے کہا: «دوبارہ حملہ کرکے اپنی گزشتہ کوتاہی کی اصلاح کرو» اور آپ نے [[خزیمہ بن ثابت]] (<small>ذو الشّہادتین</small>) اور بعض دوسرے [[انصار]]، جن میں سے بہت سارے [[جنگ بدر|بدر]] کے جنگجو تھے، ان کی مدد سے دشمن پر پے درپے حملہ کیا اور دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔<ref> مدرس وحید، ج۲، ص۳۵۷؛ نک: ری ‌شہری، ج۱، ص۱۸۳.</ref>
* [[سنہ 36 ہجری]] میں [[جنگ جمل]] واقع ہو‎ئی۔ اس دن محمد حملہ کرنے سے رک گئے اور پرچم کو خود امام علی علیہ السلام نے سنبھالا اور جمل والوں کی فوج کو پسپا کرنے کے بعد پھر پرچم محمد کے حوالے کیا اور ان سے کہا: «دوبارہ حملہ کرکے اپنی گزشتہ کوتاہی کی اصلاح کرو» اور آپ نے [[خزیمہ بن ثابت]] (<small>ذو الشّہادتین</small>) اور بعض دوسرے [[انصار]]، جن میں سے بہت سارے [[جنگ بدر|بدر]] کے جنگجو تھے، ان کی مدد سے دشمن پر پے درپے حملہ کیا اور دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔<ref> مدرس وحید، ج2، ص357؛ نک: ری ‌شہری، ج1، ص183.</ref>


* [[جنگ صفین]] میں محمد لشکر کے سرداروں میں سے تھے۔<ref> ابن شهر آشوب، مناقب آل أبی طالب علیهم السلام، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۱۶۸.</ref> [[علامہ مجلسی]] نے جنگ صفین میں ان کی موجودگی کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے۔<ref> مجلسی،‌ بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۳۴۹.</ref> محمد بن جنفیہ نے اپنے بابا سے اپنے اور حسنین کے درمیان امتیازی سلوک کی شکایت کی۔  حضرت علی (ع) نے ان کو چوما اور فرمایا: میرے عزیز بیٹے، تم میرے بیٹے ہو اور وہ دونوں [[حسنین]] [[رسول خدا (ص)]] کے فرزند ہیں۔ کیا مجھے ان کا خیال نہیں رکھنا چاہیے؟ محمد نے جواب دیا: بے شک بابا، میری جان آپ پر اور ان دونوں پر فدا ہو۔<ref> مجلسی،‌ بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۳۴۹.</ref>  
* [[جنگ صفین]] میں محمد لشکر کے سرداروں میں سے تھے۔<ref> ابن شهر آشوب، مناقب آل أبی طالب علیهم السلام، 1379ق، ج3، ص168.</ref> [[علامہ مجلسی]] نے جنگ صفین میں ان کی موجودگی کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے۔<ref> مجلسی،‌ بحار الانوار، 1403ق، ج45، ص349.</ref> محمد بن جنفیہ نے اپنے بابا سے اپنے اور حسنین کے درمیان امتیازی سلوک کی شکایت کی۔  حضرت علی (ع) نے ان کو چوما اور فرمایا: میرے عزیز بیٹے، تم میرے بیٹے ہو اور وہ دونوں [[حسنین]] [[رسول خدا (ص)]] کے فرزند ہیں۔ کیا مجھے ان کا خیال نہیں رکھنا چاہیے؟ محمد نے جواب دیا: بے شک بابا، میری جان آپ پر اور ان دونوں پر فدا ہو۔<ref> مجلسی،‌ بحار الانوار، 1403ق، ج45، ص349.</ref>  


* [[جنگ نہروان]]، محمد جنگ نہروان میں بھی شریک رہے اور بعض اوقات لشکر کے پرچم دار بھی رہے۔<ref> حمیری، قرب الإسناد، ۱۴۱۳ق، ص۲۷.</ref>
* [[جنگ نہروان]]، محمد جنگ نہروان میں بھی شریک رہے اور بعض اوقات لشکر کے پرچم دار بھی رہے۔<ref> حمیری، قرب الإسناد، 1413ق، ص27.</ref>


===کربلا میں غیر موجودگی===
===کربلا میں غیر موجودگی===
شیعہ علما اور [[علم رجال|رجال‌]]  کے ماہرین نے محمد بن حنفیہ کی [[واقعہ کربلا]] میں غیر موجودگی کے دفاع میں کچھ دلایل پیش کیے ہیں۔ ان کے بقول محمد حنفیہ کا شرکت نہ کرنا [[امام حسین علیہ السلام]] کی نافرمانی یا مخالفت کی وجہ سے نہیں تھا اور امام کے ساتھ نہ آنے میں ان کی کچھ جا‎ئز وجوہات تھیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:
شیعہ علما اور [[علم رجال|رجال‌]]  کے ماہرین نے محمد بن حنفیہ کی [[واقعہ کربلا]] میں غیر موجودگی کے دفاع میں کچھ دلایل پیش کیے ہیں۔ ان کے بقول محمد حنفیہ کا [[امام حسین علیہ السلام]] کے ہمراہ نہ جانا آپؑ کی نافرمانی یا مخالفت کی وجہ سے نہیں تھا ان کی کچھ جا‎ئز وجوہات تھیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:


* امام علیہ السلام کے [[مدینہ]] اور [[مکہ]] سے نکلتے وقت ان کی بیماری
* امام علیہ السلام کے [[مدینہ]] اور [[مکہ]] سے نکلتے وقت محمد بن حنفیہ کی بیماری
ان دلائل میں سے ایک جسے [[علامہ مجلسی]] نے [[علامہ حلی]] کے مہنا بن سنان کے جواب سے نقل کیا ہے۔ وہ دلیل امام علیہ السلام کے مدینے سے نکلتے ہو‎ئے وقت محمد حنفیہ کی بیماری پیش کیا ہے۔<ref> بحار الانوار، ج۴۲،ص۱۱۰</ref> مقرم نے ابن نما حلی کے حوالے سے  ان کی بیماری آنکھوں کا درد بیان کیا ہے۔<ref> المقرم، ص۱۳۵</ref>
ان دلائل میں سے ایک جسے [[علامہ مجلسی]] نے [[علامہ حلی]] کے مہنا بن سنان کے جواب سے نقل کیا ہے۔ وہ دلیل امام علیہ السلام کے مدینے سے نکلتے ہو‎ئے وقت محمد حنفیہ کی بیماری پیش کیا ہے۔<ref> بحار الانوار، ج42،ص110</ref> مقرم نے ابن نما حلی کے حوالے سے  ان کی بیماری آنکھوں کا درد بیان کیا ہے۔<ref> المقرم، ص135</ref>
* امام علیہ السلام کی طرف سے مدینہ میں رہنے پر مامور ہونا
* امام علیہ السلام کی طرف سے مدینہ میں رہنے پر مامور ہونا
ابن اعثم کوفی نقل کرتے ہیں: جب امام علیہ السلام مدینہ چھوڑ رہے تھے اور محمد بن حنفیہ امام (ع) کو مدینہ میں رہنے پر قانع نہ کر سکے تو اس وقت امام نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:
ابن اعثم کوفی نقل کرتے ہیں: جب امام علیہ السلام مدینہ چھوڑ رہے تھے اور محمد بن حنفیہ امام (ع) کو مدینہ میں رہنے پر قانع نہ کر سکے تو اس وقت امام نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:
::تمہارے مدینہ میں رکنے میں کو‎ئی حرج نہیں ہے۔ آپ ان لوگوں کے درمیان میرے مامور ہوں گے اور تمام حالات سے مجھے باخبر کریں۔<ref> ابن ‌اعثم،‌ ہمان،‌ ص۲۳</ref>
::تمہارے مدینہ میں رکنے میں کو‎ئی حرج نہیں ہے۔ آپ ان لوگوں کے درمیان میرے مامور ہوں گے اور تمام حالات سے مجھے باخبر کریں۔<ref> ابن ‌اعثم،‌ ہمان،‌ ص23</ref>
* امام حسین (ع) کی ہمراہی اور قیام میں شرکت کے سلسلہ میں امام کی طرف سے مکلف نہ ہونا۔
* امام حسین (ع) کی ہمراہی اور قیام میں شرکت کے سلسلہ میں امام کی طرف سے مکلف نہ ہونا۔


[[تنقیح المقال]] کے مصنف کا کہنا ہے کہ چونکہ [[امام حسینؑ]] نے‌ [[مدینہ]] یا‌ مکہ‌ میں کسی کو بھی اپنے ساتھ آنے کا حکم نہیں دیا۔ اس لئے محمد بن حنفیہ کا امام علیہ السلام کے ساتھ نہ آنے سے ان کی عدالت پر انگلی نہیں اٹھتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: امام حسین علیہ السلام جب [[حجاز]] سے [[عراق]] کی جانب روانہ ہو‎ئے تو جانتے تھے کہ [[شہادت]] نصیب ہونی ہے لیکن ظاہری طور پر جنگ کے قصد سے نہیں نکلے تاکہ تمام لوگوں پر [[جہاد]] کے عنوان سے امام کے ساتھ جانا [[واجب|واجب]] نہ ہو جا‎ئے؛ بلکہ اپنی ذمہ داری کے تحت، یعنی لوگوں کی طرف سے دعوت دی ہو‎ئی ظاہری رہبری اور پیشوا‎ئی کو اپنے ہاتھ لینے کی نیت سے نکلے۔ اس صورت میں دوسروں پر واجب نہیں کہ وہ امام کے ہمراہ چلیں اور اگر کو‎ئی ساتھ نہ چلے تو [[گناہگار|گناہ]] کا مرتکب نہیں ہوا ہے بلکہ گناہ گار وہ شخص ہے جس نے [[عاشورا]] کے دن [[کربلا]] میں امام (ع) کو دشمن کے نرغے میں دیکھتے ہو‎ئے امام کا ساتھ نہیں دیا اور امام کی مدد نہیں کی۔
[[تنقیح المقال]] کے مصنف کا کہنا ہے کہ چونکہ [[امام حسینؑ]] نے‌ [[مدینہ]] یا‌ مکہ‌ میں کسی کو بھی اپنے ساتھ آنے کا حکم نہیں دیا۔ اس لئے محمد بن حنفیہ کا امام علیہ السلام کے ساتھ نہ آنے سے ان کی عدالت پر انگلی نہیں اٹھتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: امام حسین علیہ السلام جب [[حجاز]] سے [[عراق]] کی جانب روانہ ہو‎ئے تو جانتے تھے کہ [[شہادت]] نصیب ہونی ہے لیکن ظاہری طور پر جنگ کے قصد سے نہیں نکلے تاکہ تمام لوگوں پر [[جہاد]] کے عنوان سے امام کے ساتھ جانا [[واجب|واجب]] نہ ہو جا‎ئے؛ بلکہ اپنی ذمہ داری کے تحت، یعنی لوگوں کی طرف سے دعوت دی ہو‎ئی ظاہری رہبری اور پیشوا‎ئی کو اپنے ہاتھ لینے کی نیت سے نکلے۔ اس صورت میں دوسروں پر واجب نہیں کہ وہ امام کے ہمراہ چلیں اور اگر کو‎ئی ساتھ نہ چلے تو [[گناہگار|گناہ]] کا مرتکب نہیں ہوا ہے بلکہ گناہ گار وہ شخص ہے جس نے [[عاشورا]] کے دن [[کربلا]] میں امام (ع) کو دشمن کے نرغے میں دیکھتے ہو‎ئے امام کا ساتھ نہیں دیا اور امام کی مدد نہیں کی۔


لیکن جو لوگ حجاز میں تھے اور امام علیہ السلام کے ساتھ نہیں آ‎ئے وہ شروع سے ہی امام کے ساتھ آنے پر مکلف نہیں تھے۔ اور امام کے ساتھ نہ آنا فسق اور گناہ کا باعث نہیں ہے۔ [[عبداللہ مامقانی|مامقانی]] ان تمہیدی باتوں کے بعد کہتے ہیں: « اسی لئے، کچھ صالح اور اچھے لوگ حجاز میں تھے جن کے لئے شہادت کا شرف نصیب نہیں ہوا لیکن ان کی عدالت میں کسی ایک کو بھی شک نہیں تھا۔ پس محمد حنفیہ اور [[عبداللہ بن جعفر|عبداللّہ بن جعفر]] کا امام کے ساتھ نہ آنا نافرمانی یا انحراف کی وجہ سے نہیں تھا۔<ref> مامقانی،‌ عبداللّہ.‌ ۱۳۵۲ ق، تنقیح المقال فی علم احوال الرجال، ج۳، ص۱۱۱، بی‌جا، مطبعۃ الحیدریۃ.</ref>» [[اثبات الہداۃ]] میں بھی ایک [[حدیث]] امام صادق علیہ السلام سے نقل ہو‎ئی ہے: [[حمزہ بن حمران]] کہتے ہیں: امام حسین (ع) کے مدینہ سے نکلنے اور ابن حنفیہ کے ساتھ نہ جانے کے بارے میں امام سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: اے حمزہ، تمہیں ایک حدیث بتاتا ہوں تاکہ اس کے بعد پھر کبھی یہ سوال نہ کر سکو، جب امام علیہ السلام مدینہ سے نکلے تو ایک کاغذ مانگا اور اس پر لکھا:  
لیکن جو لوگ حجاز میں تھے اور امام علیہ السلام کے ساتھ نہیں آ‎ئے وہ شروع سے ہی امام کے ساتھ آنے پر مکلف نہیں تھے۔ اور امام کے ساتھ نہ آنا فسق اور گناہ کا باعث نہیں ہے۔ [[عبداللہ مامقانی|مامقانی]] ان تمہیدی باتوں کے بعد کہتے ہیں: « اسی لئے، کچھ صالح اور اچھے لوگ حجاز میں تھے جن کے لئے شہادت کا شرف نصیب نہیں ہوا لیکن ان کی عدالت میں کسی ایک کو بھی شک نہیں تھا۔ پس محمد حنفیہ اور [[عبداللہ بن جعفر|عبداللّہ بن جعفر]] کا امام کے ساتھ نہ آنا نافرمانی یا انحراف کی وجہ سے نہیں تھا۔<ref> مامقانی،‌ عبداللّہ.‌ 1352 ق، تنقیح المقال فی علم احوال الرجال، ج3، ص111، بی‌جا، مطبعۃ الحیدریۃ.</ref>» [[اثبات الہداۃ]] میں بھی ایک [[حدیث]] امام صادق علیہ السلام سے نقل ہو‎ئی ہے: [[حمزہ بن حمران]] کہتے ہیں: امام حسین (ع) کے مدینہ سے نکلنے اور ابن حنفیہ کے ساتھ نہ جانے کے بارے میں امام سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: اے حمزہ، تمہیں ایک حدیث بتاتا ہوں تاکہ اس کے بعد پھر کبھی یہ سوال نہ کر سکو، جب امام علیہ السلام مدینہ سے نکلے تو ایک کاغذ مانگا اور اس پر لکھا:  
:::«<small>بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ حسین بن علی بن ابی طالب کی طرف سے [[بنی ہاشم]] کے نام: اما بعد، جو بھی میرے ساتھ چلے گا وہ [[شہید]] ہوگا اور جو بھی یہ کام نہیں کرے گا کامیاب نہیں ہوگا۔ والسلام»</small><ref> حر عاملی،اثبات الہداہ، ج۴، ص۴۲</ref>
:::«<small>بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ حسین بن علی بن ابی طالب کی طرف سے [[بنی ہاشم]] کے نام: اما بعد، جو بھی میرے ساتھ چلے گا وہ [[شہید]] ہوگا اور جو بھی یہ کام نہیں کرے گا کامیاب نہیں ہوگا۔ والسلام»</small><ref> حر عاملی،اثبات الہداہ، ج4، ص42</ref>


علامہ مجلسی، امام علیہ السلام کے اسے جملے کے بارے میں فرماتے ہیں: اس جملے کا ظاہر تو مذمت بتاتا ہے لیکن یہ احتمال بھی دیا جا سکتا ہے کہ امام نے دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ آنے یا نہ آنے میں اختیار دیا ہے اور چونکہ ساتھ آنا ایک واجب کام نہیں بلکہ اختیاری تھا اس لئے ساتھ نہ آنا گناہ شمار نہیں ہوگا۔<ref> بحار، ج۴۲، ص ۸۱.</ref>
علامہ مجلسی، امام علیہ السلام کے اسے جملے کے بارے میں فرماتے ہیں: اس جملے کا ظاہر تو مذمت بتاتا ہے لیکن یہ احتمال بھی دیا جا سکتا ہے کہ امام نے دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ آنے یا نہ آنے میں اختیار دیا ہے اور چونکہ ساتھ آنا ایک واجب کام نہیں بلکہ اختیاری تھا اس لئے ساتھ نہ آنا گناہ شمار نہیں ہوگا۔<ref> بحار، ج42، ص 81.</ref>


[[حسین بن علیؑ]] کو [[یزید بن معاویہ|یزید]] کی [[بیعت]] پر مجبور کرنے اور امام کے انکار کے بعد محمد حنفیہ نے اپنے بھایی کی جان بچانے کی خاطر آپ کو [[مکہ]] جانے اور وہاں پر بھی خطرہ ہوا تو وہاں سے [[یمن|یمَن]] اور یمن میں بھی خطرہ کا احساس کیا تو صحراوں اور کوہستانوں میں پناہ لینے کی تجویز پیش کی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کی تجویز کی تعریف کی اور فرمایا: بھا‎ئی، آپ کو اجازت ہے کہ [[مدینہ النبی|مدینہ]] میں میرے مامور کی حیثیت سے رہیں اور دشمنوں کے امور سے مجھے باخبر رکھیں۔<ref> قمی، ص۹۸.</ref>
[[حسین بن علیؑ]] کو [[یزید بن معاویہ|یزید]] کی [[بیعت]] پر مجبور کرنے اور امام کے انکار کے بعد محمد حنفیہ نے اپنے بھایی کی جان بچانے کی خاطر آپ کو [[مکہ]] جانے اور وہاں پر بھی خطرہ ہوا تو وہاں سے [[یمن|یمَن]] اور یمن میں بھی خطرہ کا احساس کیا تو صحراوں اور کوہستانوں میں پناہ لینے کی تجویز پیش کی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کی تجویز کی تعریف کی اور فرمایا: بھا‎ئی، آپ کو اجازت ہے کہ [[مدینہ النبی|مدینہ]] میں میرے مامور کی حیثیت سے رہیں اور دشمنوں کے امور سے مجھے باخبر رکھیں۔<ref> قمی، ص98.</ref>


===امام سجادؑ سے بحث ===
===امام سجادؑ سے بحث ===
محمد بن حنفیہ نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد [[امام سجاد علیہ السلام]] کو ایک خط لکھا اور اس میں اپنی امامت قبول کرنے کی درخواست کی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ امام (ع) نے پہلے دو اماموں کے برخلاف اپنے بعد کسی کو امام معین نہیں کیا ہے اور وہ [[علی علیہ السلام]] کے بلا فصل فرزند ہیں۔ عمر اور زیادہ احادیث نقل کرنے کے اعتبار سے انہیں زین العابدین پر برتری حاصل ہے۔<ref> صفار، بصائر الدرجات، ص۵۲۲؛ ابن بابویہ، ص۶۲-۶۰؛ کلینی، ج۱، ص۳۴۸</ref> امام سجاد (ع) نے اپنے چچا کے جواب میں ان کو جہالت سے دوری اور اللہ تعالی سے ڈرنے کی نصیحت کی اور لکھا:
محمد بن حنفیہ نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد [[امام سجاد علیہ السلام]] کو ایک خط لکھا اور اس میں اپنی امامت قبول کرنے کی درخواست کی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ امام (ع) نے پہلے دو اماموں کے برخلاف اپنے بعد کسی کو امام معین نہیں کیا ہے اور وہ [[علی علیہ السلام]] کے بلا فصل فرزند ہیں۔ عمر اور زیادہ احادیث نقل کرنے کے اعتبار سے انہیں زین العابدین پر برتری حاصل ہے۔<ref> صفار، بصائر الدرجات، ص522؛ ابن بابویہ، ص62-60؛ کلینی، ج1، ص348</ref> امام سجاد (ع) نے اپنے چچا کے جواب میں ان کو جہالت سے دوری اور اللہ تعالی سے ڈرنے کی نصیحت کی اور لکھا:
:: میرے والد نے [[عراق]] کے سفر سے پہلے میری امامت کی وصیت کی تھی اور اپنی [[شہادت|شہادت]] سے کچھ لمحے پہلے بھی مجھ سے عہد لیا ہے۔
:: میرے والد نے [[عراق]] کے سفر سے پہلے میری امامت کی وصیت کی تھی اور اپنی [[شہادت|شہادت]] سے کچھ لمحے پہلے بھی مجھ سے عہد لیا ہے۔


امام سجادؑ نے محمد حنفیہ کو دعوت دی کہ [[حجر الاسود]] جاکر وہاں اپنا مسئلہ حل کرینگے۔ حجر اسود ہم میں سے جس کی [[امامت]] کی گواہی دے وہی [[امام]] ہے۔ وہاں جا کر پہلے محمد نے اللہ کے حضور گریہ و زاری کے بعد دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کی درخواست کی لیکن کو‎ئی جواب نہیں ملا۔ پھر امام سجاد نے دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کا مطالبہ کیا تو حجر اسود سے آواز آ‎ئی اور علی بن الحسین کی امامت کی گواہی دی اور محمد حنفیہ نے بھی آپ کی امامت کو قبول کیا۔<ref> دیکھیے: صفار، ص۵۰۲؛ ابن بابویہ، ص۶۲-۶۰؛ کلینی، ج۱، ص۳۴۸</ref> بعض علماء نے اس منازعہ کے نمائشی ہونے کا احتمال دیا ہے تا کہ ضعفائے شیعہ محمد کی طرف مائل نہ ہوں۔<ref> الخرائج و الجرائج، ج۱، ص۲۵۸ و بحار الانوار، ج۴۶، ص ۳۰</ref>
امام سجادؑ نے محمد حنفیہ کو دعوت دی کہ [[حجر الاسود]] جاکر وہاں اپنا مسئلہ حل کرینگے۔ حجر اسود ہم میں سے جس کی [[امامت]] کی گواہی دے وہی [[امام]] ہے۔ وہاں جا کر پہلے محمد نے اللہ کے حضور گریہ و زاری کے بعد دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کی درخواست کی لیکن کو‎ئی جواب نہیں ملا۔ پھر امام سجاد نے دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کا مطالبہ کیا تو حجر اسود سے آواز آ‎ئی اور علی بن الحسین کی امامت کی گواہی دی اور محمد حنفیہ نے بھی آپ کی امامت کو قبول کیا۔<ref> دیکھیے: صفار، ص502؛ ابن بابویہ، ص62-60؛ کلینی، ج1، ص348</ref> بعض علماء نے اس منازعہ کے نمائشی ہونے کا احتمال دیا ہے تا کہ ضعفائے شیعہ محمد کی طرف مائل نہ ہوں۔<ref> الخرائج و الجرائج، ج1، ص258 و بحار الانوار، ج46، ص 30</ref>


[[امام صادق علیہ السلام]] سے ایک [[روایت|حدیث]] میں نقل ہوا ہے کہ محمد حنفیہ امام سجاد کی امامت پر عقیدہ رکھتے تھے<ref> الإمامۃ و التبصرۃ من الحیرۃ، ص۶۰</ref> اور [[قطب الدین راوندی]] نے ابن حنفیہ کے خادم [[ابو خالد کابلی]] سے نقل کیا ہے جس میں اس نے ابن حنفیہ سے امام سجاد کی امامت کے بارے میں سوال کیا تو محمد نے جواب میں کہا: میرے اور تمہارے اور تمام مسلمانوں کے امام [[امام سجاد|علی بن الحسین علیہ السلام]] ہیں۔<ref> قطب راوندی، ج۱، ص۲۶۲-۲۶۱</ref>
[[امام صادق علیہ السلام]] سے ایک [[روایت|حدیث]] میں نقل ہوا ہے کہ محمد حنفیہ امام سجاد کی امامت پر عقیدہ رکھتے تھے<ref> الإمامۃ و التبصرۃ من الحیرۃ، ص60</ref> اور [[قطب الدین راوندی]] نے ابن حنفیہ کے خادم [[ابو خالد کابلی]] سے نقل کیا ہے جس میں اس نے ابن حنفیہ سے امام سجاد کی امامت کے بارے میں سوال کیا تو محمد نے جواب میں کہا: میرے اور تمہارے اور تمام مسلمانوں کے امام [[امام سجاد|علی بن الحسین علیہ السلام]] ہیں۔<ref> قطب راوندی، ج1، ص262-261</ref>


===عبداللہ بن زبیر کی مخالفت===
===عبداللہ بن زبیر کی مخالفت===
 
جب [[مختار ثقفی|مختار]] نے [[کوفہ]] پر قبضہ کیا تو لوگوں کو محمد بن حنفیہ کی طرف دعوت دی۔ اس وقت [[مکہ]] و [[مدینہ]] پر [[عبداللہ بن زبیر|عبد اللّہ بن زبیر]] مسلط تھا۔ اس نے اس خوف سے کہ کہیں لوگ محمد بن حنفیہ کی طرف نہ جا‎ئیں۔ ان سے اور [[عبد اللہ بن عباس]] سے اپنی بیعت کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے اس کی بیعت نہیں کی۔ اسی وجہ سے ابن زبیر نے انہیں [[زمزم]] کے حجرے میں قید کر دیا اور قتل کی دھمکی دی۔ محمد بن حنفیہ اور ابن عباس نے مختار سے مدد کا مطالبہ کرکے خط لکھا۔ مختار نے خط پڑھنے کے بعد [[ظبیان بن عمارہ]] کو چار سو آدمی، چار لاکھ درہم اور بہت سارے لوگوں کے ساتھ مکہ بھیجا اور انہیں آزاد کرایا۔<ref> أخبار الدولۃ العباسیۃ، ص 99 - 100 </ref> محمد حنفیہ وہاں سے [[شعب ابی طالب]] چلے گئے اور مختار کے قتل ہونے تک وہیں پر رہے۔<ref> نوبختی، ص85 و 86.</ref>
جب [[مختار ثقفی|مختار]] نے [[کوفہ]] پر قبضہ کیا تو لوگوں کو محمد بن حنفیہ کی طرف دعوت دی۔ اس وقت [[مکہ]] و [[مدینہ]] پر [[عبداللہ بن زبیر|عبد اللّہ بن زبیر]] مسلط تھا۔ اس نے اس خوف سے کہ کہیں لوگ محمد بن حنفیہ کی طرف نہ جا‎ئیں۔ ان سے اور [[عبد اللہ بن عباس]] سے اپنی بیعت کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے اس کی بیعت نہیں کی۔ اسی وجہ سے ابن زبیر نے انہیں [[زمزم]] کے حجرے میں قید کر دیا اور قتل کی دھمکی دی۔ محمد بن حنفیہ اور ابن عباس نے مختار سے مدد کا مطالبہ کرکے خط لکھا۔ مختار نے خط پڑھنے کے بعد [[ظبیان بن عمارہ]] کو چار سو آدمی، چار لاکھ درہم اور بہت سارے لوگوں کے ساتھ مکہ بھیجا اور انہیں آزاد کرایا۔<ref> أخبار الدولۃ العباسیۃ، ص ۹۹ - ۱۰۰ </ref> محمد حنفیہ وہاں سے [[شعب ابی طالب]] چلے گئے اور مختار کے قتل ہونے تک وہیں پر رہے۔<ref> نوبختی، ص۸۵ و ۸۶.</ref>


==کیسانیہ==
==کیسانیہ==
 
[[کیسانیوں]] کے مطابق محمد بن حنفیہ نے حسین بن علی کی شہادت کے بعد [[مختار ثقفی|مختار]] کو عراقیوں [[کوفہ]] و [[بصرہ]] کا حاکم بنا دیا اور ان سے امام حسین کے قاتلوں سے خونخواہی کا مطالبہ کیا۔ [[امام حسین علیہ السلام]] کی شہادت کے کچھ مدت بعد کیسانیہ نے قیام کیا اور محمد بن حنفیہ کی امامت کے قا‎ئل ہوگئے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انہوں نے دین کے اسرار، علم تاویل اور باطنی علوم کو [[امام حسن]] اور [[امام حسین]] سے کسب کیا ہے۔ بعض لوگ ان کو شریعت کے ارکان جیسے [[نماز]] اور [[روزہ]] سے تاویل کرتے ہو‎ئے حلول اور [[تناسخ]] کے قا‎ئل تھے، کیسانیہ کے تمام فرقے محمد بن حنفیہ کی امامت اور اللہ تعالی کے لئے [[بداء]] کے صحیح ہونے میں متفق تھے۔ اس فرقے کو مختاریہ بھی کہا گیا ہے۔<ref> نوبختی، ص87.</ref>
[[کیسانیوں]] کے مطابق محمد بن حنفیہ نے حسین بن علی کی شہادت کے بعد [[مختار ثقفی|مختار]] کو عراقیوں [[کوفہ]] و [[بصرہ]] کا حاکم بنا دیا اور ان سے امام حسین کے قاتلوں سے خونخواہی کا مطالبہ کیا۔ [[امام حسین علیہ السلام]] کی شہادت کے کچھ مدت بعد کیسانیہ نے قیام کیا اور محمد بن حنفیہ کی امامت کے قا‎ئل ہوگئے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انہوں نے دین کے اسرار، علم تاویل اور باطنی علوم کو [[امام حسن]] اور [[امام حسین]] سے کسب کیا ہے۔ بعض لوگ ان کو شریعت کے ارکان جیسے [[نماز]] اور [[روزہ]] سے تاویل کرتے ہو‎ئے حلول اور [[تناسخ]] کے قا‎ئل تھے، کیسانیہ کے تمام فرقے محمد بن حنفیہ کی امامت اور اللہ تعالی کے لئے [[بداء]] کے صحیح ہونے میں متفق تھے۔ اس فرقے کو مختاریہ بھی کہا گیا ہے۔<ref> نوبختی، ص۸۷.</ref>


===مختار سے رابطہ===
===مختار سے رابطہ===
 
محمد بن حنفیہ اور مختار کے باہمی رابطے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے؛ بعض کا کہنا ہے کہ ان کو مختار پر کو‎ئی اعتقاد نہیں تھا اور انہوں نے مختار کو اپنی نمایندگی نہیں دی تھی، بعض لوگ مختار کو ان کا نمایندہ سمجھتے ہیں اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مختار ان کی طرف سے مامور تو نہیں تھا لیکن مختار کے کاموں پر محمد حنفیہ ضمنی طور پر راضی تھے۔<ref> دیکھئے: تاریخ سیاسی صدر اسلام، ص 214 و 215؛ نوبختی، ج2، ص 52 و 53.</ref>
محمد بن حنفیہ اور مختار کے باہمی رابطے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے؛ بعض کا کہنا ہے کہ ان کو مختار پر کو‎ئی اعتقاد نہیں تھا اور انہوں نے مختار کو اپنی نمایندگی نہیں دی تھی، بعض لوگ مختار کو ان کا نمایندہ سمجھتے ہیں اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مختار ان کی طرف سے مامور تو نہیں تھا لیکن مختار کے کاموں پر محمد حنفیہ ضمنی طور پر راضی تھے۔<ref> دیکھئے: تاریخ سیاسی صدر اسلام، ص ۲۱۴ و ۲۱۵؛ نوبختی، ج۲، ص ۵۲ و ۵۳.</ref>


===ان کے مہدی ہونے کا عقیدہ===
===ان کے مہدی ہونے کا عقیدہ===
اسلامی مذاہب و فرق کے بعض محققین کا کہنا ہے کہ محمد حنفیہ [[اسلام]] میں اولین شخص ہیں جنہیں [[مہدی]] کا نام دیا گیا۔<ref> صابری، ج۲، ص۵۵.</ref> ان کی مہدی ہونے کا عقیدہ رکھنے والوں کا دعوا ہے کہ آپ [[کوہ رضوی]] میں سکونت پذیر ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے ان کے فرج کا حکم آنے تک دودھ اور شہد کی دو نہروں سے کھاتے اور سیراب ہوتے ہیں۔<ref> اشعری، مقالات الاسلامیین، تحقیق: محمد محیی‎ الدین عبد الحمید، ج۱، ص۹۰ و ۹۱؛ بغدادی، الفرق بین الفرق،  قاہرہ، مکتبۃ محمد صبیح و اولادہ، ص۳۹، ۴۱ و ۴۳.</ref> [[سید ابوالقاسم خویی|آیت اللہ خویی]] نے محمد بن حنفیہ کو کیسانیہ سے مبرا سمجھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کیسانیہ محمد حنفیہ کے بعد وجود میں آ‎ئے ہیں۔<ref> معجم الرجال، ج ۱۸، ص ۱۰۳-۱۰۲</ref>
اسلامی مذاہب و فرق کے بعض محققین کا کہنا ہے کہ محمد حنفیہ [[اسلام]] میں اولین شخص ہیں جنہیں [[مہدی]] کا نام دیا گیا۔<ref> صابری، ج2، ص55.</ref> ان کی مہدی ہونے کا عقیدہ رکھنے والوں کا دعوا ہے کہ آپ [[کوہ رضوی]] میں سکونت پذیر ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے ان کے فرج کا حکم آنے تک دودھ اور شہد کی دو نہروں سے کھاتے اور سیراب ہوتے ہیں۔<ref> اشعری، مقالات الاسلامیین، تحقیق: محمد محیی‎ الدین عبد الحمید، ج1، ص90 و 91؛ بغدادی، الفرق بین الفرق،  قاہرہ، مکتبۃ محمد صبیح و اولادہ، ص39، 41 و 43.</ref> [[سید ابوالقاسم خویی|آیت اللہ خویی]] نے محمد بن حنفیہ کو کیسانیہ سے مبرا سمجھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کیسانیہ محمد حنفیہ کے بعد وجود میں آ‎ئے ہیں۔<ref> معجم الرجال، ج 18، ص 103-102</ref>


==وفات اور محل دفن==
==وفات اور محل دفن==
[[شیخ طوسی]] نے [[کشی]] کے حوالے سے [[امام باقر علیہ السلام]] سے ایک روایت نقل کی ہے۔ جس میں امام (ع) فرماتے ہیں:
[[شیخ طوسی]] نے [[کشی]] کے حوالے سے [[امام باقر علیہ السلام]] سے ایک روایت نقل کی ہے۔ جس میں امام (ع) فرماتے ہیں:
: محمد بن حنفیہ کی بیماری کے دوران میں اس کے پاس تھا میں نے خود ان کی آنکھیں بند کیں، انہیں [[غسل]] دیا، ان پر [[نماز]] پڑھی اور دفن کیا۔<ref> رجال کشی، ص۳۱۵</ref> البتہ غیر شیعہ منابع میں ذکر ہوا ہے کہ (تیسرے خلیفہ کے بیٹے) ابان بن عثمان نے ان کی [[نماز جنازہ]] پڑھی۔<ref> تہذیب الکمال، ج۱۰، ص ۲۸۵.</ref>
: محمد بن حنفیہ کی بیماری کے دوران میں اس کے پاس تھا میں نے خود ان کی آنکھیں بند کیں، انہیں [[غسل]] دیا، ان پر [[نماز]] پڑھی اور دفن کیا۔<ref> رجال کشی، ص315</ref> البتہ غیر شیعہ منابع میں ذکر ہوا ہے کہ (تیسرے خلیفہ کے بیٹے) ابان بن عثمان نے ان کی [[نماز جنازہ]] پڑھی۔<ref> تہذیب الکمال، ج10، ص 285.</ref>


محمد ابن حنفیہ کہاں دفن ہو‎ئے ان کے محل دفن میں اختلاف ہے؛ [[سید محسن امین عاملی]] نے تین جگہوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایلہ، طا‌‎ئف اور [[مدینہ]] میں [[قبرستان بقیع]]<ref> اعیان الشیعہ، ج۱۴، ص ۲۷۰.</ref> لیکن قوی احتمال یہ ہے آپ نے مدینہ میں وفات پائی ہے۔<ref> تہذیب‌ الکمال، ج۱۰ص ۲۸۵؛ ریحانۃ‌الادب، ج۷، ص۴۸۴.</ref>
محمد ابن حنفیہ کہاں دفن ہو‎ئے ان کے محل دفن میں اختلاف ہے؛ [[سید محسن امین عاملی]] نے تین جگہوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایلہ، طا‌‎ئف اور [[مدینہ]] میں [[قبرستان بقیع]]<ref> اعیان الشیعہ، ج14، ص 270.</ref> لیکن قوی احتمال یہ ہے آپ نے مدینہ میں وفات پائی ہے۔<ref> تہذیب‌ الکمال، ج10ص 285؛ ریحانۃ‌الادب، ج7، ص484.</ref>


ایران میں مزار: جزیرہ خارق اور رودبار کے علاقے میں موجود مزارات کی نسبت محمد بن حنفیہ کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ ان کے محل وفات کو دیکھتے ہوئے ان مزارات کا ان سے انتساب بعید معلوم ہوتا ہے۔
ایران میں مزار: جزیرہ خارق اور رودبار کے علاقے میں موجود مزارات کی نسبت محمد بن حنفیہ کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ ان کے محل وفات کو دیکھتے ہوئے ان مزارات کا ان سے انتساب بعید معلوم ہوتا ہے۔


==متعلقہ صفحات==
==متعلقہ مضامین==
{{ستون آ|2}}
{{ستون آ|2}}
*[[کیسانیہ]]
*[[کیسانیہ]]
سطر 124: سطر 120:


==مآخذ==
==مآخذ==
{{ستون آ|2}}
{{مآخذ}}
*ابن بابویہ، علی بن حسین، الإمامۃ و التبصرۃ من الحیرۃ، مدرسہ الامام المہدی(عج)، قم، ۱۳۶۳ش.
*ابن بابویہ، علی بن حسین، الإمامۃ و التبصرۃ من الحیرۃ، مدرسہ الامام المہدی(عج)، قم، 1363ہجری شمسی۔
*ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، تحقیق محمد و مصطفی عبد القادر عطا، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۲م.
*ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، تحقیق محمد و مصطفی عبد القادر عطا، دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1417ھ/1992ء۔
*ابن خلکان، احمد بن محمد بن ابی بکر، وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان، تحقیق احسان عباس، دار الثقافہ، بیروت، ۱۹۶۸م.
*ابن خلکان، احمد بن محمد بن ابی بکر، وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان، تحقیق احسان عباس، دار الثقافہ، بیروت، 1968ء۔
*ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، محقق: محمد عبد القادر عطا، ‌دار الکتب العلمیہ، بیروت.
*ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، محقق: محمد عبد القادر عطا، ‌دار الکتب العلمیہ، بیروت۔
*ابن فلیچ، علاءالدین مغلطای بن قلیچ بن عبداللہ بکچری حنفی، اکمال تہذیب الکمال، انتشارات فاروق الحدیثیہ الطبع و النشر، قاہرہ، ۱۴۲۲ق.
*ابن فلیچ، علاءالدین مغلطای بن قلیچ بن عبداللہ بکچری حنفی، اکمال تہذیب الکمال، انتشارات فاروق الحدیثیہ الطبع و النشر، قاہرہ، 1422ھ۔
*اشعری، علی بن اسماعیل، مقالات الاسلامیین، تحقیق: محمد محیی‎الدین عبد الحمید، قاہرہ، مکتبۃ النہضۃ المصریۃ، ۱۳۶۹ق.
*اشعری، علی بن اسماعیل، مقالات الاسلامیین، تحقیق: محمد محیی‎الدین عبد الحمید، قاہرہ، مکتبۃ النہضۃ المصریۃ، 1369ق.
*الامین، سید محسن، اعیان‌ الشیعۃ، المحقق حسن الامین، دار التعارف، بیروت، ۱۴۲۰ق/۲۰۰۰م.
*الامین، سید محسن، اعیان‌ الشیعۃ، المحقق حسن الامین، دار التعارف، بیروت، 1420ھ/2000ء۔
*بغدادی، عبد القاہر بن طاہر تمیمی، قاہرہ، مکتبۃ محمد صبیح و اولادہ، بی‎تا.
*بغدادی، عبد القاہر بن طاہر تمیمی، قاہرہ، مکتبۃ محمد صبیح و اولادہ، بی‎تا.
*بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، طبعۃ الأولی، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م.
*بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، طبعۃ الأولی، 1417ق/1996ء۔
*راوندی، قطب، الخرائج و الجرائج، مدرسہ امام مہدی، قم، ۱۴۰۹ق، چاپ اول.
*راوندی، قطب، الخرائج و الجرائج، مدرسہ امام مہدی، قم، 1409ھ، چاپ اول.
* ذہبی، شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز، تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام (ت بشار)، دار الغرب الإسلامی، الطبعۃ: الأولى، 2003 م
* ذہبی، شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز، تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام (ت بشار)، دار الغرب الإسلامی، الطبعۃ: الأولى، 2003ء۔
*شریف الرضی، محمد بن حسین، شرح نہج البلاغۃ، شارح: احمد مدرس وحید، ناشر: احمد مدرس وحید، قم.
*شریف الرضی، محمد بن حسین، شرح نہج البلاغۃ، شارح: احمد مدرس وحید، ناشر: احمد مدرس وحید، قم۔
*صابری، حسین، تاریخ فرق اسلامی، سمت، تہران، ۱۳۸۸ش.
*صابری، حسین، تاریخ فرق اسلامی، سمت، تہران، 1388ہجری شمسی۔
*صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ص)، مصحح: محسن کوچہ باغی، مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی، قم.
*صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ص)، مصحح: محسن کوچہ باغی، مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی، قم۔
*قطب راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، الخرائج و الجرائح، مؤسسۃ الإمام المہدی علیہ‌السلام، قم.
*قطب راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، الخرائج و الجرائح، مؤسسۃ الإمام المہدی علیہ‌السلام، قم۔
*قمی، عباس، در کربلا چہ گذشت؟ ترجمہ نفس المہموم، محقق: محمد باقر کمرہ‌ای، انتشارات مسجد مقدس جمکران، قم، ۱۳۸۱ش.
*قمی، عباس، در کربلا چہ گذشت؟ ترجمہ نفس المہموم، محقق: محمد باقر کمرہ‌ای، انتشارات مسجد مقدس جمکران، قم، 1381ہجری شمسی۔
*کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، مصحح: محمد آخوندی و علی اکبر غفاری، دار الکتب الاسلامیہ، تہران.
*کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، مصحح: محمد آخوندی و علی اکبر غفاری، دار الکتب الاسلامیہ، تہران.
*محمدی ری شہری، محمد، دانش نامہ امیرالمومنین علیہ‌السلام بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ، ترجمہ عبدالہادی مسعودی، دارالحدیث، قم، ۱۴۲۸ق/۱۳۸۶ش.
*محمدی ری شہری، محمد، دانش نامہ امیرالمومنین علیہ‌السلام بر پایہ قرآن، حدیث و تاریخ، ترجمہ عبدالہادی مسعودی، دارالحدیث، قم، 1428ھ/1386ہجری شمسی۔
*مدرس، میرزا محمد علی، ریحانۃ الادب، ناشر کتابفروشی خیام، چاپ سوم، ۱۳۶۹ش.
*مدرس، میرزا محمد علی، ریحانۃ الادب، ناشر کتابفروشی خیام، چاپ سوم، 1369ہجری شمسی۔
*مؤلف مجہول (قرن ۳)، أخبار الدولۃ العباسیۃ و فیہ أخبار العباس و ولدہ، تحقیق عبد العزیز الدوری و عبد الجبار المطلبی، بیروت، دارالطلیعۃ، ۱۳۹۱ش.
*مؤلف مجہول (قرن 3)، أخبار الدولۃ العباسیۃ و فیہ أخبار العباس و ولدہ، تحقیق عبد العزیز الدوری و عبد الجبار المطلبی، بیروت، دارالطلیعۃ، 1391ہجری شمسی۔
*نوبختی، حسن بن موسی، ترجمہ فرق الشیعہ نوبختی با دو مقدمہ: زندگی نامہ نوبختی و کتاب‌ ہای فرق الشیعہ: نگاہی بہ شیعہ و دیگر فرقہ‌ہای اسلام تا پایان قرن سوم ہجری، مترجم: محمد جواد مشکور، بنیاد فرہنگ ایران، تہران، ۱۳۵۳ش.
*نوبختی، حسن بن موسی، ترجمہ فرق الشیعہ نوبختی با دو مقدمہ: زندگی نامہ نوبختی و کتاب‌ ہای فرق الشیعہ: نگاہی بہ شیعہ و دیگر فرقہ‌ہای اسلام تا پایان قرن سوم ہجری، مترجم: محمد جواد مشکور، بنیاد فرہنگ ایران، تہران، 1353ہجری شمسی۔
*چلونگر، محمد علی، محمد بن حنفیہ و قیام کربلا، مجلہ روش شناسی علوم انسانی، زمستان۱۳۸۱ش، شمارہ ۳۳.
*چلونگر، محمد علی، محمد بن حنفیہ و قیام کربلا، مجلہ روش شناسی علوم انسانی، زمستان1381ش، شمارہ 33۔
{{ستون خ}}
{{خاتمہ}}


{{اصحاب امام حسین}}
{{اصحاب امام حسین}}
confirmed، movedable
4,996

ترامیم