مندرجات کا رخ کریں

"محمد بن امام علی نقیؑ" کے نسخوں کے درمیان فرق

عدد انگلیسی، اصلاح نشانی وب
(عدد انگلیسی، اصلاح نشانی وب)
 
سطر 8: سطر 8:
  | کنیت        = ابو جعفر
  | کنیت        = ابو جعفر
  | لقب      = سید محمد
  | لقب      = سید محمد
  | تاریخ پیدائش  = ۲۲۸ ق [[صریا]] ([[مدینہ]])
  | تاریخ پیدائش  = 228 ق [[صریا]] ([[مدینہ]])
  | جائے پیدائش  =  
  | جائے پیدائش  =  
  | وفات        =  
  | وفات        =  
سطر 31: سطر 31:


[[7 جولائی]] 2016ء کو شام کے وقت سید محمدؑ کا روضہ ایک دہشت گردانہ حملے کا شکار ہوا۔
[[7 جولائی]] 2016ء کو شام کے وقت سید محمدؑ کا روضہ ایک دہشت گردانہ حملے کا شکار ہوا۔
==زندگی‌ نامہ==
==زندگی‌ نامہ==
سید محمد [[امام ہادیؑ]] کے فرزند ارجمند ہیں۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۱۱-۳۱۲۔</ref> کہا جاتا ہے کہ آپ کی والدہ کا نام [[حدیث (مادر امام حسن عسکری)|حدیث]] یا سلیل تھا۔<ref> بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۲۔</ref> آپ کی پیدائش سنہ 228ھ کو [[مدینہ]] کے قریب [[صریا]] نامی جگہے پر ہوئی۔<ref>بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۲۔</ref> سنہ 233ھ کو [[متوکل عباسی]] کے حکم پر جب امام ہادیؑ کو سامرا احضار کیا گیا تو سید محمد صریا ہی میں رہے۔<ref> بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۲۔</ref> آپ کس سنہ ہجری کو [[سامرا]] اپنے والد گرامی کے پاس چلے گئے اس بارے میں کوئی دقیق معلومات میسر نہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ سنہ 252ھ کو سامرا سے مدینہ کی طرف چل نکلے<ref> بداوی، سبع الجزیرہ،  مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۴۔</ref> اور جب [[بلد (شہر)|بلد]] نامی جگہے پر پہنچے تو بیماری کی وجہ سے فوت ہوگئے اور وہیں پر دفن ہوئے۔<ref>ابن صوفی، المجدی فی انساب الطالبیین، ۱۴۲۲ق، ص۳۲۵۔</ref>
سید محمد [[امام ہادیؑ]] کے فرزند ارجمند ہیں۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص311-312۔</ref> کہا جاتا ہے کہ آپ کی والدہ کا نام [[حدیث (مادر امام حسن عسکری)|حدیث]] یا سلیل تھا۔<ref> بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص2۔</ref> آپ کی پیدائش سنہ 228ھ کو [[مدینہ]] کے قریب [[صریا]] نامی جگہے پر ہوئی۔<ref>بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص2۔</ref> سنہ 233ھ کو [[متوکل عباسی]] کے حکم پر جب امام ہادیؑ کو سامرا احضار کیا گیا تو سید محمد صریا ہی میں رہے۔<ref> بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص2۔</ref> آپ کس سنہ ہجری کو [[سامرا]] اپنے والد گرامی کے پاس چلے گئے اس بارے میں کوئی دقیق معلومات میسر نہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ سنہ 252ھ کو سامرا سے مدینہ کی طرف چل نکلے<ref> بداوی، سبع الجزیرہ،  مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص4۔</ref> اور جب [[بلد (شہر)|بلد]] نامی جگہے پر پہنچے تو بیماری کی وجہ سے فوت ہوگئے اور وہیں پر دفن ہوئے۔<ref>ابن صوفی، المجدی فی انساب الطالبیین، 1422ق، ص325۔</ref>


سید محمد کی کنیت ابوجعفر اور ابوعلی تھی۔<ref> حرزالدین، مراقد المعارف، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۲۶۲۔</ref> اسی طرح آپ سید محمد بعاج،<ref> ملاحظہ کریں: حرزالدین، مراقد المعارف، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۲۶۲۔</ref> سَبع الدُّجَیل اور سَبع الجزیرہ کے القاب سے بھی ملقب تھے۔<ref>بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۲۔</ref>
سید محمد کی کنیت ابوجعفر اور ابوعلی تھی۔<ref> حرزالدین، مراقد المعارف، 1371ش، ج2، ص262۔</ref> اسی طرح آپ سید محمد بعاج،<ref> ملاحظہ کریں: حرزالدین، مراقد المعارف، 1371ش، ج2، ص262۔</ref> سَبع الدُّجَیل اور سَبع الجزیرہ کے القاب سے بھی ملقب تھے۔<ref>بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص2۔</ref>


=== اولاد ===
=== اولاد ===
چودہویں صدی ہجری کے مورخ [[شیخ عباس قمی]] نے سید حسن براقی (متوفی 1332ھ) سے نقل کیا ہے کہ آپ کی نسل آپ کے پوتے شمس‌الدین محمد (متوفی 832 یا 833ھ) کے ذریعے آگے چلی۔<ref>قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۸۹۳۔</ref> شمس‌الدین کا نسب چار واسطوں سے سید محمد کے فرزند علی تک پہنچتا ہے اور چونکہ وہ [[بخارا]] میں متولد اور وہیں پر جوان ہوئے تھے میرسلطان بُخاری کے نام سے مشہور تھے اور ان کی اولاد بخاریوں کے نام سے معروف تھے۔<ref>حسینی مدنی، تحفۃ الازہار، التراث المکتوب، ج۳، ص۴۶۱-۴۶۲۔</ref> وہاں سے وہ بلاد روم چلے گئے اور شہر بروسا میں مقیم ہوئے اور وہیں پر مدفون ہیں۔<ref>حسینی مدنی، تحفۃ الازہار، التراث المکتوب، ج۳، ص۴۶۱-۴۶۲۔</ref> شیخ عباس قمی اسی طرح سید حسن براقی سے نقل کرتے ہیں کہ سید محمد بَعاج بھی سید محمد کی اواد میں سے تھے۔<ref>قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۸۹۳۔</ref> کہا جاتا ہے کہ سادات آل بعاج جو میسان، ذی‌قار، واسط، [[قادسیہ]]، [[بغداد]] اور [[نجف اشرف]]<ref> بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۱۰۔</ref> اسی طرح ایران کے شہر خوزستان وغیرہ میں آباد ہیں، بھی سید محمد کے فرزند علی اور احمد کی اولاد ہیں۔<ref>حرزالدین، مراقد المعارف، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۲۶۲(پانویس۲)۔</ref>
چودہویں صدی ہجری کے مورخ [[شیخ عباس قمی]] نے سید حسن براقی (متوفی 1332ھ) سے نقل کیا ہے کہ آپ کی نسل آپ کے پوتے شمس‌الدین محمد (متوفی 832 یا 833ھ) کے ذریعے آگے چلی۔<ref>قمی، منتہی الآمال، 1379ش، ج3، ص1893۔</ref> شمس‌الدین کا نسب چار واسطوں سے سید محمد کے فرزند علی تک پہنچتا ہے اور چونکہ وہ [[بخارا]] میں متولد اور وہیں پر جوان ہوئے تھے میرسلطان بُخاری کے نام سے مشہور تھے اور ان کی اولاد بخاریوں کے نام سے معروف تھے۔<ref>حسینی مدنی، تحفۃ الازہار، التراث المکتوب، ج3، ص461-462۔</ref> وہاں سے وہ بلاد روم چلے گئے اور شہر بروسا میں مقیم ہوئے اور وہیں پر مدفون ہیں۔<ref>حسینی مدنی، تحفۃ الازہار، التراث المکتوب، ج3، ص461-462۔</ref> شیخ عباس قمی اسی طرح سید حسن براقی سے نقل کرتے ہیں کہ سید محمد بَعاج بھی سید محمد کی اواد میں سے تھے۔<ref>قمی، منتہی الآمال، 1379ش، ج3، ص1893۔</ref> کہا جاتا ہے کہ سادات آل بعاج جو میسان، ذی‌قار، واسط، [[قادسیہ]]، [[بغداد]] اور [[نجف اشرف]]<ref> بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص10۔</ref> اسی طرح ایران کے شہر خوزستان وغیرہ میں آباد ہیں، بھی سید محمد کے فرزند علی اور احمد کی اولاد ہیں۔<ref>حرزالدین، مراقد المعارف، 1371ش، ج2، ص262(پانویس2)۔</ref>


==مقام و منزلت==
==مقام و منزلت==
شیعہ محقق [[باقر شریف قرشی]](متوفی 1433ھ) کے مطابق سید محمد کے اخلاق اور ادب نے ان کو دوسروں سے ممتاز بنایا تھا۔<ref>قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔</ref> اسی بنا پر بعض [[شیعہ]] حضرات کا خیال تھا ک [[امام ہادیؑ]] کے بعد [[امامت]] کا منصب سید محمد کو ملے گا۔<ref>قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۸۹۱؛ قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔</ref> سید محمد ہمیشہ اپنے بھائی [[امام حسن عسکریؑ]] کے ساتھ ہوا کرتے تھے<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ص۲۱۔</ref> اور باقر شریف قرشی کے مطابق امام حسن عسکریؑ نے سید محمد کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے ذمے لئے تھے۔<ref> قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔</ref> [[شیخ عباس قمی]] کے نقل کے مطابق امام حسن عسکریؑ نے سید محمد کی موت پر اپنے گریبان چاک کئے اور اس کام پر آپ پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں [[حضرت موسی]] کا اپنے بھائی [[حضرت ہارون]] کی موت پر گریبان چاک کرنے کے ساتھ استناد کرتے تھے۔<ref> قمی، سفینۃ البحار، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۴۱۰؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۰، ص۵۔</ref>
شیعہ محقق [[باقر شریف قرشی]](متوفی 1433ھ) کے مطابق سید محمد کے اخلاق اور ادب نے ان کو دوسروں سے ممتاز بنایا تھا۔<ref>قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، 1433ق، ج34، ص26۔</ref> اسی بنا پر بعض [[شیعہ]] حضرات کا خیال تھا ک [[امام ہادیؑ]] کے بعد [[امامت]] کا منصب سید محمد کو ملے گا۔<ref>قمی، منتہی الآمال، 1379ش، ج3، ص1891؛ قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، 1433ق، ج34، ص26۔</ref> سید محمد ہمیشہ اپنے بھائی [[امام حسن عسکریؑ]] کے ساتھ ہوا کرتے تھے<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ص21۔</ref> اور باقر شریف قرشی کے مطابق امام حسن عسکریؑ نے سید محمد کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے ذمے لئے تھے۔<ref> قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، 1433ق، ج34، ص26۔</ref> [[شیخ عباس قمی]] کے نقل کے مطابق امام حسن عسکریؑ نے سید محمد کی موت پر اپنے گریبان چاک کئے اور اس کام پر آپ پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں [[حضرت موسی]] کا اپنے بھائی [[حضرت ہارون]] کی موت پر گریبان چاک کرنے کے ساتھ استناد کرتے تھے۔<ref> قمی، سفینۃ البحار، 1414ق، ج2، ص410؛ امین، اعیان الشیعہ، 1403ق، ج10، ص5۔</ref>


تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مورخین [[سعد بن عبداللہ اشعری]] اور [[حسن بن موسی نوبختی]] کے مطابق شیعوں کی ایک جماعت نے امام ہادیؑ کی شہادت کے بعد سید محمد کی وفات سے انکار کرتے ہوئے ان کی امامت کے قائل ہو گئے اور سید محمد کو اپنے والد گرامی کا جانشین اور [[مہدی موعود]] قرار دیتے تھے؛ کیونکہ ان کے بقول امام ہادیؑ نے امامت کے لئے ان کی معرفی کی تھی اور چونکہ امام کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا جائز نہیں اور [[بداء]] حاصل نہیں ہوا ہے پس حقیقت میں وہ ان کی موت نہیں ہوئی ہے اور ان کے والد امام ہادیؑ سے ان کو لوگوں کے گزند سے محفوظ کرنے کے لئے ان کو چھپایا ہے۔<ref> اشعری قمی، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۱۰۱؛ نوبختی، فرق الشیعہ، ۱۴۰۴ق، ص۹۴۔</ref> یہ لوگ مذکورہ تمام باتوں پر عقیدہ رکھتے تھے حالانکہ سید محمد امام ہادیؑ کی زندگی میں ہی اس دنیا سے چلے گئے تھے<ref> اشعری، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۱۰۱۔</ref> اور امام ہادیؑ نے سید محمد کے وفات کے دن آپ کی خدمت میں تلسیت کے لئے آنے والے لوگوں کے سامنے [[امام حسن عسکریؑ]] کی امامت کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۵۰، ص۲۴۶۔</ref> ایک حدیث کے مطابق اس وقت آپ کی خدمت میں [[آل ابی‌ طالب]]، [[بنی‌ ہاشم]] اور [[قریش]] وغیرہ کے 150 سے بھی زیادہ لوگ موجود تھے۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۵۰، ص۲۴۵۔</ref>
تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مورخین [[سعد بن عبداللہ اشعری]] اور [[حسن بن موسی نوبختی]] کے مطابق شیعوں کی ایک جماعت نے امام ہادیؑ کی شہادت کے بعد سید محمد کی وفات سے انکار کرتے ہوئے ان کی امامت کے قائل ہو گئے اور سید محمد کو اپنے والد گرامی کا جانشین اور [[مہدی موعود]] قرار دیتے تھے؛ کیونکہ ان کے بقول امام ہادیؑ نے امامت کے لئے ان کی معرفی کی تھی اور چونکہ امام کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا جائز نہیں اور [[بداء]] حاصل نہیں ہوا ہے پس حقیقت میں وہ ان کی موت نہیں ہوئی ہے اور ان کے والد امام ہادیؑ سے ان کو لوگوں کے گزند سے محفوظ کرنے کے لئے ان کو چھپایا ہے۔<ref> اشعری قمی، المقالات و الفرق، 1360ش، ص101؛ نوبختی، فرق الشیعہ، 1404ق، ص94۔</ref> یہ لوگ مذکورہ تمام باتوں پر عقیدہ رکھتے تھے حالانکہ سید محمد امام ہادیؑ کی زندگی میں ہی اس دنیا سے چلے گئے تھے<ref> اشعری، المقالات و الفرق، 1360ش، ص101۔</ref> اور امام ہادیؑ نے سید محمد کے وفات کے دن آپ کی خدمت میں تلسیت کے لئے آنے والے لوگوں کے سامنے [[امام حسن عسکریؑ]] کی امامت کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، 1363ش، ج‏50، ص246۔</ref> ایک حدیث کے مطابق اس وقت آپ کی خدمت میں [[آل ابی‌ طالب]]، [[بنی‌ ہاشم]] اور [[قریش]] وغیرہ کے 150 سے بھی زیادہ لوگ موجود تھے۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، 1363ش، ج‏50، ص245۔</ref>


[[شیعہ]] [[محدث]] میرزا حسین نوری (متوفی 1320ھ) کے مطابق سید محمد کے کرامات [[متواتر]] طور پر اور [[اہل سنت]] کے یہاں بھی مشہور ہیں؛ اسی بنا پر [[عراق]] کے لوگ ان کے نام کی [[قسم]] کھانے سے خوف محسوس کرتے ہیں، اگر کسی شخص پر کسی چیز کے چرائے جانے کی تہمت لگائی جاتی تو اس چیز کو متعلقہ شخص کو دے دیتے ہیں لیکن سید محمد کی قسم نہیں کھاتے ہیں۔<ref>نوری، نجم الثاقب، ۱۳۸۴ق، ج۱، ص۲۷۲۔</ref> بعض منابع میں سید محمد سے بعض [[کرامت]] نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ یہ کہ محمد علی اردوبادی (1312-1380ھ) نے اپنی کتاب "حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ" میں ان کی تقریبا 60 کرامات کا ذکر کیا ہے۔<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۵۰ بہ بعد۔</ref>
[[شیعہ]] [[محدث]] میرزا حسین نوری (متوفی 1320ھ) کے مطابق سید محمد کے کرامات [[متواتر]] طور پر اور [[اہل سنت]] کے یہاں بھی مشہور ہیں؛ اسی بنا پر [[عراق]] کے لوگ ان کے نام کی [[قسم]] کھانے سے خوف محسوس کرتے ہیں، اگر کسی شخص پر کسی چیز کے چرائے جانے کی تہمت لگائی جاتی تو اس چیز کو متعلقہ شخص کو دے دیتے ہیں لیکن سید محمد کی قسم نہیں کھاتے ہیں۔<ref>نوری، نجم الثاقب، 1384ق، ج1، ص272۔</ref> بعض منابع میں سید محمد سے بعض [[کرامت]] نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ یہ کہ محمد علی اردوبادی (1312-1380ھ) نے اپنی کتاب "حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ" میں ان کی تقریبا 60 کرامات کا ذکر کیا ہے۔<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، 1427ق، ص50 بہ بعد۔</ref>


== روضہ==
== روضہ==
[[ملف:Seyyed mohammad2.jpg|تصغیر|سنہ 2016ء میں داعش کے حملے میں سید محمد کے روضے کو نقصان پہنچا]]
[[ملف:Seyyed mohammad2.jpg|تصغیر|سنہ 2016ء میں داعش کے حملے میں سید محمد کے روضے کو نقصان پہنچا]]
سید محمد کا روضہ عراق کے شہر بلد میں [[کاظمین]] کے شمال میں 85 کیلومیٹر اور سامراء کے جنوب میں 50 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ روضہ [[عراق]] کے شیعوں کے یہاں مورد احترام زیارتگاہوں میں سے ایک ہے۔ جو لوگ سامراء میں [[حرم عسکریین]] کی زیارت کے لئے جاتے ہیں وہ سید محمد کے زوضے کا بھی ضرور [[زیارت]] کرتے ہیں۔<ref>[https://qom.haj.ir/%D8%A7%D9%85%D8%A7%DA%A9%D9%86/%D8%A7%D9%85%D8%A7%DA%A9%D9%86-%DA%A9%D8%A7%D8%B8%D9%85%DB%8C%D9%86-%D9%88-%D8%B3%D8%A7%D9%85%D8%B1%D8%A7/%D8%B3%D9%8A%D8%AF-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%B9 «سید محمد»۔]</ref>
سید محمد کا روضہ عراق کے شہر بلد میں [[کاظمین]] کے شمال میں 85 کیلومیٹر اور سامراء کے جنوب میں 50 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ روضہ [[عراق]] کے شیعوں کے یہاں مورد احترام زیارتگاہوں میں سے ایک ہے۔ جو لوگ سامراء میں [[حرم عسکریین]] کی زیارت کے لئے جاتے ہیں وہ سید محمد کے زوضے کا بھی ضرور [[زیارت]] کرتے ہیں۔<ref>[https://qom.haj.ir/اماکن/اماکن-کاظمین-و-سامرا/سيد-محمد-ع «سید محمد»۔]</ref>


حرم سید محمد کی ابتدائی تعمیر کے بارے میں دقیق معلومات میسر نہیں؛ لیکن سنہ 1379 سے 1384ھ تک میں آپ کے مرقد کی تعمیراتی کاموں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تعمیر چوتھی صدی ہجری میں [[آل بویہ]] کے حکمران [[عضدالدولہ دیلمی]] کے دور میں ہوئی تھی۔<ref> فقیہ بحر العلوم و خامہ‌ یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج۱، ص۵۲۰۔</ref> دوسری بار اس کی تعمیر دسویں صدی ہجری میں فتح بغداد کے بعد [[شاہ اسماعیل صفوی]] کے حکم سے ہوئی ہے۔<ref> فقیہ بحر العلوم و خامہ‌یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج۱، ص۵۲۱-۵۲۰۔</ref> سنہ 1189ھ میں بھی آپ کے روضے کی تعمیر کے بارے میں حکایت ہوئی ہے۔<ref> فقیہ بحرالعلوم و خامہ‌یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج۱، ص۵۲۱-۵۲۰۔</ref>  
حرم سید محمد کی ابتدائی تعمیر کے بارے میں دقیق معلومات میسر نہیں؛ لیکن سنہ 1379 سے 1384ھ تک میں آپ کے مرقد کی تعمیراتی کاموں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تعمیر چوتھی صدی ہجری میں [[آل بویہ]] کے حکمران [[عضدالدولہ دیلمی]] کے دور میں ہوئی تھی۔<ref> فقیہ بحر العلوم و خامہ‌ یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج1، ص520۔</ref> دوسری بار اس کی تعمیر دسویں صدی ہجری میں فتح بغداد کے بعد [[شاہ اسماعیل صفوی]] کے حکم سے ہوئی ہے۔<ref> فقیہ بحر العلوم و خامہ‌یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج1، ص521-520۔</ref> سنہ 1189ھ میں بھی آپ کے روضے کی تعمیر کے بارے میں حکایت ہوئی ہے۔<ref> فقیہ بحرالعلوم و خامہ‌یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج1، ص521-520۔</ref>  


اسی طرح زین‌ العابدین بن محمد سلماسی (متوفی 1266ھ) جو [[سید محمد مہدی بحر العلوم|سید بحر العلوم]] کے شاگرد رہے ہیں نے سنہ 1208 ھ میں امیر حسین خان سردار کے حکم سے سید محمد کے مرقد پر گچ اور اینٹ سے ایک عمارت اور زائرین کے لئے ایک زائر سرا تعمیر کروایا۔<ref> بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۸۔</ref> سنہ 1244ھ کو ملا محمد صالح قزوینی حائری نے پرانی عمارتوں کو خراب کر کے نئی عمارتیں بنانا شروع کیا جو سنہ 1250ھ میں اختتام کو مکمل ہوئی۔<ref> فقیہ بحرالعلوم و خامہ‌یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج۱، ص۵۲۱۔</ref> اسی طرح [[میرزای شیرازی]] (1230-1312ھ) نے سامرا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد اور میرزا محمد تہرانی عسکری نے بھی حرم سید محمد کی تعمیراتی امور انجام دئے اور اس میں نئے کمروں کا اضافہ کیا۔<ref> فقیہ بحرالعلوم و خامہ‌یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج۱، ص۵۲۱۔</ref> [[آقا بزرگ تہرانی]] کے مطابق [[میرزا حسین نوری]] (1254-1320ھ) نے بھی سنہ 1317ھ میں اس کی تعمیر کی ہیں۔<ref> آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۸ق، ج۱۷، ص۲۸۹۔</ref>
اسی طرح زین‌ العابدین بن محمد سلماسی (متوفی 1266ھ) جو [[سید محمد مہدی بحر العلوم|سید بحر العلوم]] کے شاگرد رہے ہیں نے سنہ 1208 ھ میں امیر حسین خان سردار کے حکم سے سید محمد کے مرقد پر گچ اور اینٹ سے ایک عمارت اور زائرین کے لئے ایک زائر سرا تعمیر کروایا۔<ref> بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص8۔</ref> سنہ 1244ھ کو ملا محمد صالح قزوینی حائری نے پرانی عمارتوں کو خراب کر کے نئی عمارتیں بنانا شروع کیا جو سنہ 1250ھ میں اختتام کو مکمل ہوئی۔<ref> فقیہ بحرالعلوم و خامہ‌یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج1، ص521۔</ref> اسی طرح [[میرزای شیرازی]] (1230-1312ھ) نے سامرا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد اور میرزا محمد تہرانی عسکری نے بھی حرم سید محمد کی تعمیراتی امور انجام دئے اور اس میں نئے کمروں کا اضافہ کیا۔<ref> فقیہ بحرالعلوم و خامہ‌یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج1، ص521۔</ref> [[آقا بزرگ تہرانی]] کے مطابق [[میرزا حسین نوری]] (1254-1320ھ) نے بھی سنہ 1317ھ میں اس کی تعمیر کی ہیں۔<ref> آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ق، ج17، ص289۔</ref>


[[شیعہ]] [[مرجع تقلید]] [[آقا حسین قمی]] کے فرزند سید محمد طباطبایی نے اپنے والد کی [[مرجعیت]] کے دور میں حرم سید محمد کے لئے جمع شدہ اموال سے سنہ 1379-1384ھ میں جدید تعمیرات انجام دیئے جس میں 150 مربع میٹر پر مشتمل صحن، گنبد، مینار اور [[ضریح]] نصب کیا گیا۔<ref> فقیہ بحر العلوم و خامہ‌ یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج۱، ص۵۲۲۔</ref>  
[[شیعہ]] [[مرجع تقلید]] [[آقا حسین قمی]] کے فرزند سید محمد طباطبایی نے اپنے والد کی [[مرجعیت]] کے دور میں حرم سید محمد کے لئے جمع شدہ اموال سے سنہ 1379-1384ھ میں جدید تعمیرات انجام دیئے جس میں 150 مربع میٹر پر مشتمل صحن، گنبد، مینار اور [[ضریح]] نصب کیا گیا۔<ref> فقیہ بحر العلوم و خامہ‌ یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج1، ص522۔</ref>  


عتبات عالیات کی تعمیراتی کمیٹی نے سنہ 1392ش میں سید محمد کے مرقد کی تعمیر شروع کی۔<ref>[https://atabat.org/fa/news/50 «چند طرح بازسازی حرم امام زادہ سید محمد آمادہ بہرہ‌برداری»]</ref> اگرچہ [[7 جولائی]] 2016ء کو حرم سید محمد پر [[داعش]] کے حملے میں حرم کے بعض حصوں کو نقصان پهنچا،<ref>[https://al-aalem.com/news/28088 «الصور: إحباط محاولۃ تفجير مرقد (سيد محمد) في بلد۔۔ و مقتل ثلاثۃ انتحاريين أمام بوابۃ دخول الزائرين»]</ref> لیکن اس کی تعمیر سنہ 2019ء کے بہار تک جاری رہی۔<ref>[https://atabat.org/fa/news/50 «چند طرح بازسازی حرم امام زادہ سید محمد آمادہ بہرہ‌ برداری»]</ref>
عتبات عالیات کی تعمیراتی کمیٹی نے سنہ 1392ش میں سید محمد کے مرقد کی تعمیر شروع کی۔<ref>[https://atabat.org/fa/news/50 «چند طرح بازسازی حرم امام زادہ سید محمد آمادہ بہرہ‌برداری»]</ref> اگرچہ [[7 جولائی]] 2016ء کو حرم سید محمد پر [[داعش]] کے حملے میں حرم کے بعض حصوں کو نقصان پهنچا،<ref>[https://al-aalem.com/news/28088 «الصور: إحباط محاولۃ تفجير مرقد (سيد محمد) في بلد۔۔ و مقتل ثلاثۃ انتحاريين أمام بوابۃ دخول الزائرين»]</ref> لیکن اس کی تعمیر سنہ 2019ء کے بہار تک جاری رہی۔<ref>[https://atabat.org/fa/news/50 «چند طرح بازسازی حرم امام زادہ سید محمد آمادہ بہرہ‌ برداری»]</ref>
سطر 60: سطر 61:
==مونو گرافی==
==مونو گرافی==
سید محمد کے بارے میں لکھی گئی کتابوں<ref>[https://www۔imamreza.net/old/arb/imamreza.php?print=1912 «السيّد محمّد بن الإمام الہادي عليہ‌السّلام»]</ref> میں سے بعض درج ذیل ہیں:
سید محمد کے بارے میں لکھی گئی کتابوں<ref>[https://www۔imamreza.net/old/arb/imamreza.php?print=1912 «السيّد محمّد بن الإمام الہادي عليہ‌السّلام»]</ref> میں سے بعض درج ذیل ہیں:
*"حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ" جسے [[محمد علی اردوبادی غروی|محمد علی اُردوبادی]] (1312-1380ھ) نے عربی زبان میں تألیف کی ہیں۔ اس کتاب کا فارسی میں ترجمہ "ستارہ دُجَیل" کے نام سے ہوا ہے۔ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلے حصے میں سید محمد اور آپ کے مرقد<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۵۰۔</ref> کی معرفی کی گئی ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں آپ سے متعلق بعض کرامات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔<ref>اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۵۰ بہ بعد۔</ref> اردوبادی نے کتاب کے پہلے حصے میں [[حسن بن موسی نوبختی]] کی جانب سے سید محمد سے منسوب فرقے کی بحث کے ذیل میں [[سامرا]] میں آپ کی موت واقع ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے<ref> نوبختی، فرق الشیعہ، ۱۴۰۴ق، ص۹۴۔</ref> شہر بلد میں آپ کے مزار کی شہرت کو روز روشن کی طرح قرار دیا ہے۔<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۳۵۔</ref>
*"حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ" جسے [[محمد علی اردوبادی غروی|محمد علی اُردوبادی]] (1312-1380ھ) نے عربی زبان میں تألیف کی ہیں۔ اس کتاب کا فارسی میں ترجمہ "ستارہ دُجَیل" کے نام سے ہوا ہے۔ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلے حصے میں سید محمد اور آپ کے مرقد<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، 1427ق، ص50۔</ref> کی معرفی کی گئی ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں آپ سے متعلق بعض کرامات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔<ref>اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، 1427ق، ص50 بہ بعد۔</ref> اردوبادی نے کتاب کے پہلے حصے میں [[حسن بن موسی نوبختی]] کی جانب سے سید محمد سے منسوب فرقے کی بحث کے ذیل میں [[سامرا]] میں آپ کی موت واقع ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے<ref> نوبختی، فرق الشیعہ، 1404ق، ص94۔</ref> شہر بلد میں آپ کے مزار کی شہرت کو روز روشن کی طرح قرار دیا ہے۔<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، 1427ق، ص35۔</ref>
*"رسالہ ای در کرامات سید محمد بن علی الہادی" جس کے مصنف جابر آل عبدالغفار کشمیری (متوفی 1320ھ) ہیں۔ [[آقا بزرگ تہرانی]] صاحب کتاب شناس شیعہ (متوفی 1389ھ) اس کتاب  کو [[میرزا حسین نوری]] کی درخواست پر لکھی گئی ہے۔<ref> آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۸ق، ج۱۷، ص۲۸۹۔</ref>
*"رسالہ ای در کرامات سید محمد بن علی الہادی" جس کے مصنف جابر آل عبدالغفار کشمیری (متوفی 1320ھ) ہیں۔ [[آقا بزرگ تہرانی]] صاحب کتاب شناس شیعہ (متوفی 1389ھ) اس کتاب  کو [[میرزا حسین نوری]] کی درخواست پر لکھی گئی ہے۔<ref> آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ق، ج17، ص289۔</ref>
*"رسالۃ فی کرامات السید محمد ابن الامام علی الہادی" جس کے مصنف ہاشم محمد علی بلداوی (متوفی 1305ھ) ہیں جنہوں نے اس کتاب کی تدوین میں سید قاسم بلداوی کی کتاب "الفضائل الفاخر" سے استفادہ کیا ہے۔<ref> آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۸ق، ج۱۷، ص۲۸۹-۲۹۰۔</ref>
*"رسالۃ فی کرامات السید محمد ابن الامام علی الہادی" جس کے مصنف ہاشم محمد علی بلداوی (متوفی 1305ھ) ہیں جنہوں نے اس کتاب کی تدوین میں سید قاسم بلداوی کی کتاب "الفضائل الفاخر" سے استفادہ کیا ہے۔<ref> آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ق، ج17، ص289-290۔</ref>


== متعلقہ صفحات ==
== متعلقہ مضامین ==
*[[امام ہادی علیہ السلام]]
*[[امام ہادی علیہ السلام]]


سطر 72: سطر 73:
== مآخذ ==
== مآخذ ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* احسان مقدس، راهنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، نشر مشعر
* احسان مقدس، راهنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، نشر مشعر۔
* رجائی، مهدی، المعقبون، من آل ابی‌ طالب، موسسہ عاشورا، قم، ۱۳۸۵ش
* اشعری قمی، المقالات و الفرق، تصحیح محمد جواد مشکور، مرکز انتشارات علمی و فرهنگی، 1361ہجری شمسی۔
* طوسی، محمد بن حسن، الغیبہ، قم، دار المعارف الإسلامیة، ۱۴۱۱ق
* رجائی، مهدی، المعقبون، من آل ابی‌ طالب، موسسہ عاشورا، قم، 1385ہجری شمسی۔
* قرشی، باقر شریف، زندگانی امام حسن عسکریؑ‏، ترجمہ سید حسن اسلامی‏، قم‏، جامعہ مدرسین‏، ۱۳۷۵ش‏
* طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، تحقیق علی اکبر غفاری بیروت، دار المعرفہ، 1399ھ۔
* کلینی، محمد بن یعقوب ،اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تهران، دارالکنب الاسلامیہ، ۱۳۸۸ق
* طوسی، محمد بن حسن، الغیبہ، قم، دار المعارف الإسلامیة، 1411ھ۔
* مجلسی، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، تهران‏، اسلامیة،۱۳۶۳ش
* قرشی، باقر شریف، زندگانی امام حسن عسکریؑ‏، ترجمہ سید حسن اسلامی‏، قم‏، جامعہ مدرسین‏، 1375ہجری شمسی۔
* مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، ۱۴۱۳ق
* کلینی، محمد بن یعقوب ،اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تهران، دارالکنب الاسلامیہ، 1388ھ۔
* طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، تحقیق علی اکبر غفاری بیروت، دار المعرفہ، ۱۳۹۹ق
* مجلسی، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، تهران‏، اسلامیة،1363ہجری شمسی۔
* اشعری قمی، المقالات و الفرق، تصحیح محمد جواد مشکور، مرکز انتشارات علمی و فرهنگی، ۱۳۶۱ش
* مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، 1413ھ۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
{{سانچہ:امام علی نقی}}
{{سانچہ:امام علی نقی}}


confirmed، movedable
5,562

ترامیم