مندرجات کا رخ کریں

"ائمہ معصومین علیہم السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 83: سطر 83:
امام حسنؑ [[اصحاب کساء|اصحاب کِساء]]<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۸ و۵۲-۵۵.</ref> اور [[مباہلہ| نجران کے نصرانیوں سے مباہلے]] میں شریک<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳، ج۱، ص۱۶۸.</ref> پیغمبر اکرمؑ کی اہل بیتؑ میں سے ایک ہیں جن کی شان میں [[آیہ تطہیر]] نازل ہوئی۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۹-۱۳۹.</ref>
امام حسنؑ [[اصحاب کساء|اصحاب کِساء]]<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۸ و۵۲-۵۵.</ref> اور [[مباہلہ| نجران کے نصرانیوں سے مباہلے]] میں شریک<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳، ج۱، ص۱۶۸.</ref> پیغمبر اکرمؑ کی اہل بیتؑ میں سے ایک ہیں جن کی شان میں [[آیہ تطہیر]] نازل ہوئی۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۹-۱۳۹.</ref>


===تیسرے امام===
=== امام حسینؑ ===
{{اصلی|امام حسین علیہ السلام|ثار اللہ}}
{{اصلی|امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ}}
[[امام حسین]] (سید الشہداء) علیہ السلام [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کے دوسرے بیٹے ہیں جن کی والدہ ماجدہ [[حضرت فاطمہ|فاطمہ]] بنت [[رسول اللہ|رسول]]ؐ ہیں۔ آپؑ [[سنہ 4 ہجری]] کو [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے۔ آپؑ اپنے بھائی [[امام حسن مجتبی]]ؑ کی شہادت کے بعد امر خدا سے اور [[امام حسن مجتبی|آپؑ]] کی وصیت کے مطابق، منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے۔<ref>طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص207۔</ref>
حسین بن علیؑ جو [[ابا عبد اللہ (کنیت)|ابا عبداللہ]] سے مشہور ہیں شیعوں کے تیسرے امام، [[امیر المؤمنین|امام علیؑ]] اور حضرت فاطمہؑ کے دوسرے بیٹے ہیں۔ آپؑ [[سنہ 4 ہجری]] کو [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے۔ آپؑ اپنے بھائی [[امام حسن مجتبی]]ؑ کی شہادت کے بعد پیغمبر اکرم اور امام علیؑ کی تصریح اور [[امام حسن مجتبی|امام حسنؑ]] کی وصیت کے مطابق، منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷.</ref>


[[امام حسین علیہ السلام]] کے دس سالہ دور امامت کا زيادہ تر عرصہ [[معاویہ]] کے دور خلافت میں گذرا سوائے آخری چھ مہینوں کے۔ آپؑ نے یہ عرصہ نہایت دشوار اور ناخوشگوار اور گھٹن بھرے حالات میں بسر کیا۔ کیونکہ ایک طرف سے دینی قوانین و ضوابط غیر معتبر ہوچکے تھے اور حکومت کی خواہشات نے خدا اور [[رسول اللہ|رسولؐ]] کے احکام کی جگہ لی تھی؛ تو دوسری طرف سے معاویہ اور اس کے کارگزار [[اہل بیت]] اور [[شیعہ|شیعیان اہل بیت]] کو نقصان پہنچانے اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] اور آل [[امیرالمؤمنین|علی]] کا نام مٹانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا تو دوسری طرف سے [[معاویہ]] نے اپنے بیٹے [[یزید بن معاویہ|یزید]] کی خلافت کی بنیادیں استوار کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا تھا اور مسلمانوں کی ایک جماعت [[یزید]] کی بے راہرویوں کی وجہ سے معاویہ کی ان کوششوں سے خوش نہیں تھی۔ معاویہ نے ان مخالفتوں کو سرکوب کرنے اور نئی مخالفتوں کا سد باب کرنے کے لئے مزید تشدد آمیز روشوں کا سہارا لیا تھا۔<ref>طباطبائی، شیعه در اسلام، صص208-207۔</ref>
[[امام حسین علیہ السلام]] نے دس سال امامت کی۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۱۵.</ref> آپ کی امامت کے آخری چھ مہینوں کے علاوہ باقی عرصہ [[معاویہ]] کے دور خلافت میں گزرا۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۸.</ref>
معاویہ سنہ 60 ہجری میں مرگیا اور اس کا بیٹا یزید اس کی جگہ تخت نشین ہوا۔ <ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۲؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۲۲.</ref> یزید نے مدینہ کے گورنر کو امام حسینؑ سے بیعت لینے اور انکار کی صورت میں سر قلم کر کے شام بھیجنے کا حکم دیا۔ جب مدینہ کے حاکم نے یزید کا حکم آپ تک پہنچایا تو آپ اپنے خاندان کے ہمران رات کی تاریکی میں مدینہ سے مکہ کی جانب حرکت کر گئے۔<ref>موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۴۸و۱۴۹.</ref> کچھ عرصہ بعد کوفہ کے لوگوں کی دعوت پر آپ خاندان اور اپنے اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ کوفہ کی جانب نکلے۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۹و۲۱۰.</ref> امام اور ان کے ساتھیوں کو [[کربلا]] میں یزید کی لشکر نے محاصرہ کیا اور روز عاشورا امام اور عمر بن سعد کی فوج کے مابین جنگ ہوئی اور امام اور ان کے خاندان اور اصحاب شہید ہوئے نیز خواتین، بچے اور امام سجادؑ جو بیمار تھے، اسیر ہوئے۔<ref>موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۵۰.</ref>


[[امام حسین]] کو خواہ ناخواہ اس تاریک دور سے گذرنا پڑا رہا تھا اور معاویہ اور اس کے گماشتوں کے ہر روحانی تشدد کو برداشت کررہے تھے حتی کہ [[سنہ 60 ہجری]] کے وسط میں معاویہ کا انتقال ہوا اور اس کا بیٹا [[یزید بن معاویہ|یزید]] باپ کی جگہ پر بیٹھ گیا۔<ref>طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص208۔</ref>
امام حسینؑ [[اصحاب کساء|اصحاب کِساء]] میں شامل تھے<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۸ و۵۲-۵۵.</ref> اور آپ نجران کے نصرانیوں سے ہونے والے [[مباہلہ|مباہلے]] میں بھی شریک تھے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳، ج۱، ص۱۶۸.</ref> آپؑ پیغمبر اکرمؑ کی اہل بیتؑ میں سے ایک ہیں جن کی شان میں [[آیہ تطہیر]] نازل ہوئی۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۹-۱۳۹.</ref>
 
====یزید کی بیعت سے انکار====
{{محرم کی عزاداری}}
[[بیعت]] ایک عربی روایت تھی جو سلطنت اور امارت جیسے اہم مسائل میں نافذ ہوتی تھی اور ماتحت افراد، بالخصوص عمائدین اور زعماء کو سلطان یا امیر کے ہاتھ پر [[بیعت]] کرنا پڑتی تھی اور [[بیعت]] کے بعد اگر کوئی قوم اس کی خلاف ورزی کرتی تو یہ اس قوم کے لئے شرم اور ذلت کا باعث اور قطعی امضاء و تائید کی خلاف ورزی کی طرح، جرم مسلّم سمجھی جاتی تھی؛ اور سیرت نبوی میں [[بیعت]] اس وقت معتبر تھی جب یہ اختیاری اور جبر کے بغیر انجام پاتی۔<ref>طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص208۔</ref>
 
[[امام حسین علیہ السلام]] کے دس سالہ دور امامت کا زيادہ تر عرصہ [[معاویہ]] کے دور خلافت میں گذرا سوائے آخری چھ مہینوں کے۔ آپؑ نے یہ عرصہ نہایت دشوار اور ناخوشگوار اور گھٹن بھرے حالات میں بسر کیا۔ کیونکہ ایک طرف سے دینی قوانین و ضوابط غیر معتبر ہوچکے تھے اور حکومت کی خواہشات نے خدا اور [[رسول اللہ|رسولؐ]] کے احکام کی جگہ لی تھی؛ تو دوسری طرف سے معاویہ اور اس کے کارگزار [[اہل بیت]] اور [[شیعہ|شیعیان اہل بیت]] کو نقصان پہنچانے اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] اور آل [[امیرالمؤمنین|علی]] کا نام مٹانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا تو دوسری طرف سے معاویہ نے اپنے بیٹے [[یزید بن معاویہ|یزید]] کی خلافت کی بنیادیں استوار کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا تھا اور مسلمانوں کی ایک جماعت یزید کی بےراہرویوں کی وجہ سے معاویہ کی ان کوششوں سے خوش نہیں تھی۔ معاویہ نے ان مخالفتوں کو سرکوب کرنے اور نئی مخالفتوں کا سد باب کرنے کے لئے مزید تشدد آمیز روشوں کا سہارا لیا تھا۔<ref>طباطبائی، شیعه در اسلام، ص208-207۔</ref>
 
[[امام حسین]] کو خواہ ناخواہ اس تاریک دور سے گذرنا پڑا رہا تھا اور معاویہ اور اس کے گماشتوں کے ہر روحانی تشدد کو برداشت کررہے تھے حتی کہ [[سنہ 60 ہجری]] کے وسط میں معاویہ کا انتقال ہوا اور اس کا بیٹا [[یزید بن معاویہ|یزید]] باپ کی جگہ پر بیٹھ گیا۔<ref>طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص208۔</ref>
 
====یزید کی بیعت سے انکار====
[[بیعت]] ایک عربی روایت تھی جو سلطنت اور امارت جیسے اہم مسائل میں نافذ ہوتی تھی اور ماتحت افراد، بالخصوص عمائدین اور زعماء کو سلطان یا امیر کے ہاتھ پر [[بیعت]] کرنا پڑتی تھی اور [[بیعت]] کے بعد اگر کوئی قوم اس کی خلاف ورزی کرتی تو یہ اس قوم کے لئے شرم اور ذلت کا باعث اور قطعی امضاء و تائید کی خلاف ورزی کی طرح، جرم مسلّم سمجھی جاتی تھی؛ اور سیرت نبوی میں [[بیعت]] اس وقت معتبر تھی جب یہ اختیاری اور جبر کے بغیر انجام پاتی۔<ref>طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص208۔</ref>
 
معاویہ نے قوم کے جانے پہچانے افراد سے یزید کے لئے بیعت لی تھی لیکن اس نے [[امام حسین]]ؑ سے کوئی حجت نہیں کی تھی یہاں تک کہ اس نے یزید سے وصیت کی تھی کہ اگر [[امام حسین|حسین بن علی]] بیعت سے انکار کریں تو اس بات کو آگے نہ بڑھاؤ اور خاموشی اور چشم پوشی اختیار کرو؛ کیونکہ اس نے مسئلے کے دونوں پہلؤوں کا صحیح تجزیہ کیا تھا اور اس کے خطرناک انجام سے آگاہ تھا۔<ref>طباطبائی، شیعه در اسلام، ص209۔</ref>
 
[[ملف:سردر حرم امام حسین.jpg|thumbnail|35٪|حرم [[امام حسین]]ؑ کے اندرونی دروازے پر حدیث نبوی]]
 
لیکن [[یزید]] غرور و تکبر اور لاپروائی کی وجہ سے باپ کی وصیت پر عمل کرنے کے لئے تیار نہ ہوئی اور باپ کے چل بسنے کے فورا بعد والی [[مدینہ]] کو حکم دیا کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]] سے اس کے لئے [[بیعت]] لے اور اگر نہ مانیں تو انہیں گرفتار کرکے [[شام]] روانہ کرے!! چنانچہ [[مدینہ]] کے والی نے یزید کی درخواست [[امام حسین|امامؑ]] کو پہنچا دی اور آپؑ نے اس قضیے کے بارے میں سوچ بچار کے لئے مہلت مانگی اور رات کے وقت اپنے اہل خاندان کے ہمراہ [[مدینہ]] سے [[مکہ]] کی طرف ہجرت کرگئے اور حرم پروردگار میں پناہ لی جو اسلام میں باضابطہ مقام امن تھا۔<ref>طباطبائی، شیعه در اسلام، ص209۔</ref>
 
====مکہ میں قیام====
[[مدینہ]] سے [[مکہ]] کی طرف [[ہجرت]] کا واقعہ میں [[رجب المرجب]] کے آخر اور [[شعبان المعظم]] سنہ 60 ہجری کو پیش آیا اور [[امام حسین]]ؑ نے تقریبا 4 مہینوں تک [[مکہ]] میں جائے پناہ کے عنوان سے، قیام کیا اور یہ خبر عالم اسلام کے گوشے گوشے میں پھیل گئی۔ ایک طرف سے وہ لوگ تھے جو معاویہ کے زمانے کے مظالم سے ناراض تھے اور یزید کی خلافت ان کی ناراضگی میں اضافہ کررہی تھی تو دوسری طرف سے بے شمار خطوط و مراسلات شہر مکہ میں پہنچ رہے تھے اور آپؑ سے درخواست کررہے تھے کہ [[عراق]] تشریف جا کر لوگوں کی رہبری سنبھالیں اور ظلم و ستم کا تختہ الٹنے کے لئے اٹھیں چنانچہ یہ صورت حال یزید کے لئے خطرناک تھی۔<ref>طباطبائی، شیعه در اسلام، صص209-210۔</ref>
 
[[مکہ]] میں [[امام حسین]]ؑ کا قیام جاری تھا کہ [[حج]] کے ایام آن پہنچے اور مسلمانان عالم [[حج]] کے لئے گروہ در گروہ اور جوق در جوق [[حج]] بجا لانے کی تیاریاں کرنے لگے؛ اسی اثناء میں آپؑ کو اطلاع ملی کہ یزید کے کچھ گماشتے حجاج کرام کے بھیس میں [[مکہ]] میں داخل ہوئے ہیں جنہوں نے [[احرام]] کے نیچے ہتھیار چھپا رکھے ہیں اور انہیں حکم دیا گیا ہے کہ آپؑ کو اعمال [[حج]] کے دوران [دہشت گردی کا نشانہ بنا کر] قتل کردیں۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص210۔</ref>
 
[[امام حسین|فرزند رسول]]ؐ نے اعمال میں تخفیف کردی اور [[مکہ]] چھوڑنے کا عزم کیا اور لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور مختصر سا خطاب کرکے [[عراق]] کی طرف عزیمت کا اعلان کیا۔ آپؑ نے اس مختصر سے خطاب میں اپنی شہادت کی خبر دی اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ اس ہدف کے حصول میں آپؑ کا ساتھ دیں اور راہ خدا میں اپنے خون کا نذرانہ پیش کریں اور اگلے دن اپنے خاندان اور اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ [[عراق]] کی طرف عزیمت فرمائی۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص210۔</ref>
 
[[امام حسین]]ؑ نے [[بیعت]] نہ کرنے کا قطعی فیصلہ کیا تھا اور اچھی طرح جانتے تھے کہ قتل کئے جائیں گے اور [[بنو امیہ]] کی بڑی عسکری قوت، جس کو عمومی بےراہروی اور بے ارادہ عوام بالخصوص عراقی عوام کی بنا پر تقویت مل رہی تھی، آپؑ کو زندہ نہیں چھوڑے گی۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص210۔</ref>
 
بعض سرکردہ افراد نے خیرخواہی کی بنا پر، آپؑ کا راستہ روکا اور اس عزیمت اور تحریک کے خطرات گوش گذار کرائے لیکن آپؑ نے فرمایا: "میں [[بیعت]] نہیں کروں گا اور ظلم و جبر کی حکومت کی تائید نہیں کروں گا، میں جہاں بھی جاؤں اور جہاں بھی قیام کروں وہ مجھے قتل کریں گے اور میں جو [[مکہ]] کو چھوڑ کے جارہا ہوں اس کا سبب یہ ہے کہ [[کعبہ|خانہ خدا]] کی حرمت کی رعایت کرنا چاہتا ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ میرا خون بہا کر اس کی حرمت شکنی کی جائے۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص211۔</ref>
 
====بسوئے کوفہ====
{{اصلی|حسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تک}}
[[امام حسین]]ؑ [[کوفہ]] کی جانب روانہ ہوئے، بیچ راستے، جبکہ ابھی چند روز کا فاصلہ باقی تھا، آپؑ کو اطلاع دی گئی کہ [[کوفہ]] میں [[یزید بن معاویہ|یزید]] کے والی [[ابن زیاد]] نے آپؑ کے نمائندے ([[مسلم بن عقیل]]) اور شہر کے زعیم، آپ کے مخلص دوست اور حامی ([[ہانی بن عروہ]]) کو قتل کیا ہے اور اس کے حکم سے پیروں میں رسیاں باندھ کر لاشوں کو گلیوں اور بازاروں میں گھسیٹا ہے اور شہر اور اس کے نواح پر کڑی نگرانی کی جارہی ہے اور دشمن کے ہزاروں سپاہی آپؑ کا انتظار کررہے ہیں چنانچہ اب موت کے سوا کوئی چیز ان کا استقبال نہیںکرے گی۔ یہیں وہ نقطہ تھا جہاں [[امام حسین|امامؑ]] نے قطعی فیصلہ کیا کہ اس راہ میں جان کی بازی لگا دیں گے اور اپنا سفر جاری رکھا۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص211۔</ref>
 
====کربلا====
{{اصلی|واقعۂ عاشورا|شہدائے کربلا}}
[[کوفہ]] سے تقریبا 70 کلومیٹر کے فاصلے پر [[کربلا]] نامی صحرا واقع تھا جس میں لشکر [[يزید]] نے [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] اور آپؑ کے خاندان اور اصحاب کا محاصرہ کیا۔ [[امام حسین]]ؑ آٹھ روز تک [[کربلا]] میں تھے، محاصرے کا حلقہ ہر روز تنگ سے تنگ تر اور دشمن کی سپاہ میں اضافہ ہوتا گیا اور بالآخر 30000 یزیدی سپاہیوں نے آپؑ اور آپؑ کے خاندان کو گھیر لیا۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص211-212۔</ref>
 
ان چند دنوں کے دوران [[امام حسین]]ؑ نے اپنے ٹھکانوں کو مضبوط کیا، اہل ترین اصحاب کو پاس رکھا، رات کے وقت سب کو بلوایا اور مختصر خطبہ دے کر فرمایا: "یہاں ہمیں موت اور شہادت کے سوا کوئی چیز بھی نہیں ملے گی اور ان لوگوں کا میرے سوا کسی کے ساتھ بھی کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں نے اپنی [[بیعت]] تم سے اٹھا لی اور جو بھی چاہے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر اپنی جان اس ہولناک بھنور سے چھڑا چلا جائے"۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص212۔</ref>
 
پھر فرمایا: "چراغوں کو گل کردو اور اکثر ساتھی ـ جو بعض خاص مقاصد کے لئے آپؑ کے ساتھ تھے منتشر ہوئے اور عاشقان حق کی مختصر سی جماعت (اصحاب میں سے چالیس افراد) اور افراد خاندان کے سوا کوئی بھی ساتھ نہ رہا۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص212۔</ref>
 
امامؑ نے ایک بار پھر باقیماندہ اصحاب کو اکٹھا کیا اور ان کی آزمایش کی اور اصحاب اور [[بنو ہاشم|ہاشمی]] اعزاء و اقارب سے خطاب کرکے فرمایا: "ان دشمنوں کا کام مجھ سے ہے، تم میں سے جو بھی چاہے رات کے اندھیرے میں اپنی جان بچا کر چلا جائے لیکن اس بار آپ کے باوفا ساتھیوں نے مختلف قسم کے الفاظ میں جواب دیا کہ "ہم ہرگز راہ حق سے منہ نہیں موڑیں گے جس کے امام آپ ہیں اور آپ کے پاک دامن سے ہرگز دست کش نہ ہوں گے اور جب تک ہمارے جسم میں جان اور ہمارے ہاتھ میں شمشیر ہے، آپ کے حرم کا دفاع کریں گے۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص212۔</ref> بایں حال، [[امام زین العابدین علیہ السلام|امام سجاد]]ؑ سے منقولہ روایت کے مطابق جب [[امام حسین]]ؑ نے اصحاب کو خطبہ دے کر انہیں جانے کی اجازت دی تو سب نے جانے سے انکار کیا اور سب نے اٹھ کر ایمان و شجاعت اور ولایت [[اہل بیت]]ؑ سے مالامال جذبات کے ساتھ رہنے اور تا لمحۂ شہادت، پامردی دکھانے پر اصرار کیا۔<ref>امین العاملی، سید محسن، أعيان‏ الشيعہ، ج7، ص241۔</ref>
 
[[روز تاسوعا|9 محرم]] کی شام کو دشمن کی طرف سے [[امام حسین|امامؑ]] کو ([[بیعت]] یا جنگ) کی آخری تعمیل آگئی اور آپؑ نے اس رات عبادت اور راز و نیاز کے لئے مہلت لی اور اگلے روز جنگ کا فیصلہ کیا۔<ref>طباطبائی، شیعه در اسلام، ص212-213۔</ref> (دیکھیں: [[روز تاسوعا]])
 
[[روز عاشورا|10 محرم]] سنہ 61 ہجری، امامؑ اپنے قلیل ساتھیوں کے ہمراہ (جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ 90 تک پہنچتی تھی اور ان میں چالیس افراد وہ تھے جو آپؑ کے ساتھ کربلا آئے تھے اور 30 سے کچھ زیادہ افراد جنگ کی رات اور دن کے دوران دشمن کے لشکر سے الگ ہوکر آپؑ سے آملے تھے اور باقی افراد کا تعلق [[بنو ہاشم]] سے تھا جن میں آپؑ کے بھائی، بیٹے، بھتیجے، بھانجے اور عمو زادگان شامل تھے) دشمن کے کے بے شمار لشکر کے سامنے صف آرا ہوئے اور جنگ شروع ہوئی۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص213۔</ref> (دیکھیں: [[روز عاشورا]])
 
اس روز وہ صبح سے سہ پہر تک لڑے اور [[امام حسین|سیدالشہداءؑ]] اور آپؑ کے اصحاب کے تمام افراد شہید ہوئے (شہداء میں [[امام حسن مجتبی]]ؑ کے دو کم سن فرزند اور [[امام حسین]]ؑ کے ایک شیرخوار، بھی شامل تھے)۔ <ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص213۔</ref>
 
====بنوامیہ کی رسوائی====
{{اصلی|اربعین حسینی}}
[[واقعۂ عاشورا|واقعۂ کربلا]] اور [[اہل بیت]]ؑ کی خواتین و بچیوں کو شہر بہ شہر گھمائے جانے اور اسیروں کے درمیان [[زینب کبری]](س) اور [[امام سجادؑ]] کے [[کوفہ]] و [[شام]] میں متعدد بار خطبوں نے [[بنو امیہ]] کو رسوا کردیا اور [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] کی عشروں پر محیط تشہیری مہم کو ناکارہ کردیا یہاں تک کہ [[یزید بن معاویہ|یزید]] نے اپنے ہی گماشتوں کے اعمال سے ملأ امام میں بیزاری کا اعلان کیا اور [[واقعۂ عاشورا|واقعۂ کربلا]] مؤثر ترین سبب تھا جس نے اپنے طویل المدت اثر کے طور پر [[بنو امیہ]] کی حکومت کا تختہ الٹ کر رکھ دیا، [[شیعہ]] کی جڑوں کو مستحکم کیا اور اس کے قلیل المدت آثار میں سے ایک یہ تھا کہ پورے عالم اسلام میں بغاوتوں اور تحریکوں کا آغاز ہوا جن نہایت خونریز جنگوں میں بدل گئیں اور جنگ و نزاع کی یہ صورت حال 12 برسوں تک جاری رہی؛ یہاں تک کہ [[امام حسین علیہ السلام]] کے قتل میں شریک ہونے والوں میں سے ایک فرد دست انتقال کی گرفت سے جان نہ بچا سکا۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص214۔</ref>
 
====عاشورا کے بارے میں ایک تجزیہ====
اگر کوئی [[امام حسین]]ؑ کی تاریخ حیات اور [[یزید بن معاویہ|یزید]] کے احوال میں باریک بینی کے ساتھ غور و تدبر کرے تو اس کے لئے اس حقیقت میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس دن [[امام حسین]]ؑ کے پاس اور قتل ہوجانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور بیعت یزید جو [[اسلام]] کی اعلانیہ پامالی کے مترادف تھی، آپؑ کے لئے ممکن نہ تھی؛ کیونکہ اگر ایک طرف سے یزید دین اسلام اور اس کے احکام کے لئے کسی قسم کی حرمت و احترام کا قائل نہ تھا اور کسی بھی اخلاقی اور دینی قاعدے اور قانون کا پابند نہ تھا تو دوسری طرف سے وہ اسلام کے مقدسات اور قوانین کا اعلانیہ مذاق اڑاتا تھا اور لاپروائی سے انہیں پامال کرتا تھا۔ جبکہ اس کے اسلاف دین کے بھیس میں دینی قوانین کی مخالفت کیا کرتے تھے، وہ دین کی ظاہری صورت کا احترام کرتے تھے اور ان دینی نسبتوں پر فخر کیا کرتے تھے جو مسلمانوں کے نزدیک محترم تھیں؛ جیسے: [[رسول اللہ]]ؐ کا صحابی ہونا وغیرہ۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص214-215۔</ref>
 
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ان دو پیشواؤں ([[امام حسن]] اور [[امام حسین]]) کے معیار مختلف تھے ـ اور [[امام حسن]]ؑ صلح پسند تھے جبکہ [[امام حسین]]ؑ جنگ کو ترجیح دیتے تھے؛ یہاں تک کہ بڑے بھائی نے 40000 کا لشکر ہونے کے باوجود [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] کے ساتھ صلح کرلی اور چھوٹے بھائی 40 افراد کے ساتھ یزید کے خلاف میدان جنگ میں اترے ـ ایک بےجا اور بے بنیاد دعوی ہے؛ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہی [[امام حسین]]ؑ جو حتی ایک دن بھی یزید کی بیعت کے سائے میں جانے کے لئے تیار نہیں ہوئے، عرصہ 10 سال تک معاویہ کی حکومت میں بھائی [[امام حسن]]ؑ کی مانند رہے (اور [[امام حسن]]ؑ بھی 10 برس تک معاویہ کی حکومت میں رہے تھے)، اور کبھی اس انداز سے مخالفت نہیں کی اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر [[امام حسن]]ؑ اور [[امام حسین]]ؑ معاویہ کے خلاف کارزار کا راستہ اپناتے تو یقینا قتل کئے جاتے اور ان کا قتل اسلام کے لئے ذرہ برابر بھی مفید نہ ہوتا؛ اور ان کی شہادت معاویہ کی بظاہر حق بجانب روشوں کے مقابلے میں جو صحابی، کاتب وحی اور خال المؤمنین (مؤمنوں کا ماموں) کہلواتا تھا اور ہر قسم کی سازشیں کرتا تھا، غیر مؤثر ہوتی۔  علاوہ ازیں وہ اپنے گماشتوں کے ذریعے انہیں قتل کروا سکتا تھا اور خود جاکر سوگواری اور عزاداری کے لئے بیٹھ سکتا تھا اور ان کی خونخواہی کا دعوی کرسکتا تھا؛ وہی معاملہ جو اس نے [[عثمان بن عفان|خلیفۂ ثالث]] کے ساتھ کیا تھا۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص215۔</ref>


===چوتھے امام===
===چوتھے امام===
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,901

ترامیم