مندرجات کا رخ کریں

"حضرت یوسف" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 87: سطر 87:
{{مزید|ترک اولی}}
{{مزید|ترک اولی}}
سورہ یوسف کی [[آیت]] 42 کے مطابق، جب حضرت یوسفؑ زندان میں تھے تو اس وقت ایک قیدی کو آزادی کی خبر دی اور کہا: بادشاہ کے پاس میری بے گناہی کو بیان کرو، لیکن [[شیطان]] نے اسے بھلا دیا اور اسی وجہ سے مزید کئی سال تک حضرت یوسفؑ زندان میں رہے۔ اس بارے میں مفسروں کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ شیطان نے حضرت یوسف کے ذہن سے [[خدا]] کی یاد کو بھلا دیا جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ [[شیطان]] کی وجہ سے وہ قیدی بھول گیا اور جناب یوسفؑ کی بے گناہی کو بادشاہ کے پاس بیان نہ کرسکے۔ علامہ طباطبائی پہلے نظریئے کو قرآن کے ساتھ سازگار نہیں سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ایک طرف سے قرآن مجید میں جناب یوسفؑ کو مخلصین میں سے قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیطان کسی بھی صورت میں مخلصوں کے ذہن میں نفوذ نہیں کر سکتا ہے۔<ref> طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۱۸۱.</ref>
سورہ یوسف کی [[آیت]] 42 کے مطابق، جب حضرت یوسفؑ زندان میں تھے تو اس وقت ایک قیدی کو آزادی کی خبر دی اور کہا: بادشاہ کے پاس میری بے گناہی کو بیان کرو، لیکن [[شیطان]] نے اسے بھلا دیا اور اسی وجہ سے مزید کئی سال تک حضرت یوسفؑ زندان میں رہے۔ اس بارے میں مفسروں کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ شیطان نے حضرت یوسف کے ذہن سے [[خدا]] کی یاد کو بھلا دیا جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ [[شیطان]] کی وجہ سے وہ قیدی بھول گیا اور جناب یوسفؑ کی بے گناہی کو بادشاہ کے پاس بیان نہ کرسکے۔ علامہ طباطبائی پہلے نظریئے کو قرآن کے ساتھ سازگار نہیں سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ایک طرف سے قرآن مجید میں جناب یوسفؑ کو مخلصین میں سے قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیطان کسی بھی صورت میں مخلصوں کے ذہن میں نفوذ نہیں کر سکتا ہے۔<ref> طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۱۸۱.</ref>
 
{{یادداشت|[[سورہ حجر]] آیات ۳۹و۴۰ {{عربی|...لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ* إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ.}} تو میں بھی زمین میں ان (بندوں) کے لئے گناہوں کو خوشنما بناؤں گا اور سب کو گمراہ کروں گا۔  سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔}}
بہر حال مفسروں نے جناب یوسفؑ کے عمل کو [[ترک اولی]] سے تعبیر کیا ہے؛ کیونکہ انبیاء اور وہ لوگ جو [[توحید]] کے اعلی مراتب پر فائز ہیں ان سے اسی مقدار میں دنیوی اسباب سے [[توسل|متوسل]] ہونا مناسب نہیں ہے۔<ref> مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ،۱۳۷۴ش، ج۹، ص۴۱۴.</ref>
بہر حال مفسروں نے جناب یوسفؑ کے عمل کو [[ترک اولی]] سے تعبیر کیا ہے؛ کیونکہ انبیاء اور وہ لوگ جو [[توحید]] کے اعلی مراتب پر فائز ہیں ان سے اسی مقدار میں دنیوی اسباب سے [[توسل|متوسل]] ہونا مناسب نہیں ہے۔<ref> مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ،۱۳۷۴ش، ج۹، ص۴۱۴.</ref>


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم