confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,099
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{محرم کی | {{خانہ معلومات قاتلین شہدائے کربلا | ||
|قاتلین شہدائے کربلا =ابن زیاد | |||
| تصویر = | |||
| توضیح تصویر = | |||
| نام =عبید اللہ بن زیاد | |||
| کنیت = | |||
| لقب = | |||
| تاریخ/جائے پیدائش = | |||
| محل زندگی = | |||
| نسب/قبیلہ = | |||
|وجہ شہرت = | |||
| مشہوراقارب = | |||
| وفات =[[محرم الحرام]] [[سنہ 67 ہجری|67ھ]] | |||
| کیفیت وفات = | |||
| مدفن = | |||
| اقدامات =امام حسینؑ کے مقابلے کے لئے [[کربلا]] کی طرف فوج بھیجنا، امام حسینؑ کے سر اقدس کی توہین کرنا، [[قیام توابین]] کو شکست دینا | |||
| محرک = | |||
| نمایاں کردار = [[بصرہ]] اور [[کوفہ]] کا گورنر | |||
| دیگر فعالیتیں = | |||
}} | |||
'''عبید اللہ بن زیاد'''، واقعہ [[عاشورا]] کے موقع پر [[یزید]] کی جانب سے [[کوفہ]] کا والی اور گورنر تھا. اس سے پہلے وہ والی کی حیثیت سے [[بصرہ]] میں موجود تھا. [[امام حسین(ع)|حضرت امام حسینؑ]] کے کوفے کے سفر کی اطلاع پاتے ہی یزید بن معاویہ نے اسے امام کی تحریک روکنے کیلئے بصرہ سے ہٹا کر کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا. | |||
[[کربلا]] میں لشکر کشی اور کوفے میں [[اہل بیت(ع)|اہل بیت آل محمدؑ]] سے برے سلوک سے پیش آنے کی وجہ سے خاص طور پر شیعوں کے نزدیک اور حضرت امام حسین ؑ کے سر مبارک کے ساتھ بے ادبی کرنے کی وجہ سے تمام مسلمانوں کے نزدیک منفور ترین شخص سمجھا جاتا ہے. | [[کربلا]] میں لشکر کشی اور کوفے میں [[اہل بیت(ع)|اہل بیت آل محمدؑ]] سے برے سلوک سے پیش آنے کی وجہ سے خاص طور پر شیعوں کے نزدیک اور حضرت امام حسین ؑ کے سر مبارک کے ساتھ بے ادبی کرنے کی وجہ سے تمام مسلمانوں کے نزدیک منفور ترین شخص سمجھا جاتا ہے. | ||
==پیدائش اور خاندانی تعارف== | ==پیدائش اور خاندانی تعارف== | ||
عبید اللہ بن زیاد بن ابیہ کی کنیت '''ابو حفص''' تھی اور اس کی ماں "مرجانہ" نامی کنیز تھی<ref>بلاذری احمد ،انساب الاشراف ج 4 ص 75</ref> جس نے بعد میں ایک ایرانی فرد "شیرویہ" کے ساتھ شادی کی. عبیداللہ نے اسی کے گھر پرورش پائی. اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اسکی زبان بعض عربی الفاظ کی ادائیگی سے قاصر تھی.<ref>جاحظ عمرو ، البیان و التبیین ج 1 ص 76</ref> بعض ابن زیاد کو ماں کی نسبت سے طعن کرتے ہوئے '''ابن مرجانہ''' کہتے ہیں کہ جو اسکی ناپاک ولادت کی طرف اشارہ ہے. بعض ماخذ میں اس عورت کے بدنام اور زناکار ہونے کی تصریح موجود ہے. <ref>مفید، الاختصاص ص 73</ref>. | عبید اللہ بن زیاد بن ابیہ کی کنیت '''ابو حفص''' تھی اور اس کی ماں "مرجانہ" نامی کنیز تھی<ref>بلاذری احمد ،انساب الاشراف ج 4 ص 75</ref> جس نے بعد میں ایک ایرانی فرد "شیرویہ" کے ساتھ شادی کی. عبیداللہ نے اسی کے گھر پرورش پائی. اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اسکی زبان بعض عربی الفاظ کی ادائیگی سے قاصر تھی.<ref>جاحظ عمرو ، البیان و التبیین ج 1 ص 76</ref> بعض ابن زیاد کو ماں کی نسبت سے طعن کرتے ہوئے '''ابن مرجانہ''' کہتے ہیں کہ جو اسکی ناپاک ولادت کی طرف اشارہ ہے. بعض ماخذ میں اس عورت کے بدنام اور زناکار ہونے کی تصریح موجود ہے. <ref>مفید، الاختصاص ص 73</ref>. | ||
سطر 11: | سطر 29: | ||
==اخلاقی خصوصیات== | ==اخلاقی خصوصیات== | ||
{{محرم کی عزاداری}} | |||
کہا گیا ہے کہ وہ بہت سخت مزاج، بے رحم اور بے باک تھا. بعض سیرت نگاروں نے اسے "جبار" کے نام سے یاد | کہا گیا ہے کہ وہ بہت سخت مزاج، بے رحم اور بے باک تھا. بعض سیرت نگاروں نے اسے "جبار" کے نام سے یاد کیا ہے.<ref>زرکلی، الاعلام ج 4 ص 193</ref> جیسا کہ منقول ہے کہ اس نے بصرہ میں خوارج کے خروج کے موقع پر عجیب خشونت کا مظاہرہ کیا. <ref>دينوری، الاخبار الطوال، ص 269-270؛ طبری، تاریخ، ج7، ص 185-187.</ref> یہی خصلت غیر مسلموں سے جنگوں میں کامیابیوں کا موجب بنی. <ref>دیکھیں: زرکلی، الاعلام، ج4، ص193.</ref> | ||
==سیاسی اور حکومتی منصب== | ==سیاسی اور حکومتی منصب== | ||
عبیداللہ کی ساری زندگی کے حکومتی اور سیاسی عہدے کتابوں میں مذکور نہیں ہیں. بعض محققین کے مطابق ظاہر ہوتا ہے کہ بصرہ اور کوفہ کی حاکمیت کا قلمدان اموی حکومت نے اس سے نہیں لیا تھا.<ref>ابوعلی مسکویہ احمد، تجارب الامم، ج۲، ص۲۸.</ref> [[معاویہ]] نے زیاد کے مرنے کے بعد، عبیداللہ کو خراسان کا والی مقرر کیا.<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۱۶۶- ۱۶۸.</ref> | عبیداللہ کی ساری زندگی کے حکومتی اور سیاسی عہدے کتابوں میں مذکور نہیں ہیں. بعض محققین کے مطابق ظاہر ہوتا ہے کہ بصرہ اور کوفہ کی حاکمیت کا قلمدان اموی حکومت نے اس سے نہیں لیا تھا.<ref>ابوعلی مسکویہ احمد، تجارب الامم، ج۲، ص۲۸.</ref> [[معاویہ]] نے زیاد کے مرنے کے بعد، عبیداللہ کو خراسان کا والی مقرر کیا.<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۱۶۶- ۱۶۸.</ref> | ||
==معاویہ کا دور حکومت == | ==معاویہ کا دور حکومت == | ||
معاویہ کے دور حکومت میں [[ایران]] کے شمال مشرق اور مشرق کی فتوحات میں عبیداللہ کا بنیادی کردار تھا. معاویہ کی جانب سے خراسان کا والی بننے کے بعد اس نے پہلی بار دریائے جیحون <ref>یعقوبی،احمد، تاریخ یعقوبی، ج 2 ص236</ref> عبور کرنے کے بعد بخارا کے رامیئن<ref>ابوعلی مسکویہ احمد، تجارب الامم، ج۲، ص۳۲؛ بلاذری احمد، فتوح البلدان، ج۱، ص۴۱۰</ref>، نَسَف اور بیگند<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۱۶۹.</ref> جیسے علاقوں کو اپنے قبضے میں لیا. بخارا کی "ملکۂ قبج خاتون" اور اسکے لشکر کو پسپائی پر مجبور کیا. | معاویہ کے دور حکومت میں [[ایران]] کے شمال مشرق اور مشرق کی فتوحات میں عبیداللہ کا بنیادی کردار تھا. معاویہ کی جانب سے خراسان کا والی بننے کے بعد اس نے پہلی بار دریائے جیحون <ref>یعقوبی،احمد، تاریخ یعقوبی، ج 2 ص236</ref> عبور کرنے کے بعد بخارا کے رامیئن<ref>ابوعلی مسکویہ احمد، تجارب الامم، ج۲، ص۳۲؛ بلاذری احمد، فتوح البلدان، ج۱، ص۴۱۰</ref>، نَسَف اور بیگند<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۱۶۹.</ref> جیسے علاقوں کو اپنے قبضے میں لیا. بخارا کی "ملکۂ قبج خاتون" اور اسکے لشکر کو پسپائی پر مجبور کیا. | ||
معاویہ نے 55،56 یا 57 ق میں اسے خراسان سے ہٹا کر عبد اللہ بن عمرو بن غیالان کی بصرہ کا والی مقرر کیا. <ref>یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۳۷؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۱۷۲</ref>. | معاویہ نے 55،56 یا 57 ق میں اسے خراسان سے ہٹا کر عبد اللہ بن عمرو بن غیالان کی بصرہ کا والی مقرر کیا. <ref>یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۳۷؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۱۷۲</ref>. | ||
سطر 26: | سطر 42: | ||
==یزید کا دور حکومت== | ==یزید کا دور حکومت== | ||
سنہ ساٹھ ہجری میں معاویہ کے مرنے کے بعد یزید چاہتا تھا کہ اسے بصرے سے ہٹا دے لیکن بصرہ اور کوفہ کے خراب سیاسی حالات نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا. لیکن قیام امام حسین ؑ کے آغاز اور آپکی جانب سے مسلم بن عقیل کے کوفہ بھیجے جانے کے بعد، یزید نے عبید اللہ اور اس کے والد کی تحریکوں کو تشدد کے ساتھ کچلنے میں شہرت کی بنا پر اسے کوفے کا والی مقرر کر دیا. کہتے ہیں یزید نے اس اقدام کا فیصلہ اپنے مشیروں میں سے "سرجون" نامی عیسائی مشیر کے مشورے کے بعد کیا. <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۸</ref>. | سنہ ساٹھ ہجری میں معاویہ کے مرنے کے بعد یزید چاہتا تھا کہ اسے بصرے سے ہٹا دے لیکن بصرہ اور کوفہ کے خراب سیاسی حالات نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا. لیکن قیام امام حسین ؑ کے آغاز اور آپکی جانب سے مسلم بن عقیل کے کوفہ بھیجے جانے کے بعد، یزید نے عبید اللہ اور اس کے والد کی تحریکوں کو تشدد کے ساتھ کچلنے میں شہرت کی بنا پر اسے کوفے کا والی مقرر کر دیا. کہتے ہیں یزید نے اس اقدام کا فیصلہ اپنے مشیروں میں سے "سرجون" نامی عیسائی مشیر کے مشورے کے بعد کیا. <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۸</ref>. | ||
==عبید اللہ اور کوفہ== | ==عبید اللہ اور کوفہ== | ||
کوفیوں نے 60ویں ہجری کے اختتام پر حضرت امام حسینؑ کی بیعت کی آمادگی کا اعلان کیا اور آپ کے کوفہ آنے کے منتظر تھے کہ عبید اللہ بن زیاد اپنا چہرہ چھپائے وارد کوفہ ہوا. لوگوں نے سمجھا کہ حضرت امام حسین ؑ آئے ہیں لہذا انہوں نے اس کا پر تپاک استقبال کیا لیکن وہ جلد ہی حقیقت امر سے آگاہ ہو گئے.امام حسین ؑ کے نمائندے مسلم بن عقیل کی تلاش عبید اللہ کا پہلا اقدام تھا <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۹</ref>. | کوفیوں نے 60ویں ہجری کے اختتام پر حضرت امام حسینؑ کی بیعت کی آمادگی کا اعلان کیا اور آپ کے کوفہ آنے کے منتظر تھے کہ عبید اللہ بن زیاد اپنا چہرہ چھپائے وارد کوفہ ہوا. لوگوں نے سمجھا کہ حضرت امام حسین ؑ آئے ہیں لہذا انہوں نے اس کا پر تپاک استقبال کیا لیکن وہ جلد ہی حقیقت امر سے آگاہ ہو گئے.امام حسین ؑ کے نمائندے مسلم بن عقیل کی تلاش عبید اللہ کا پہلا اقدام تھا <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۲۲۹</ref>. | ||
سطر 48: | سطر 62: | ||
==اہل بیت ؑ کی اسیری== | ==اہل بیت ؑ کی اسیری== | ||
عبید اللہ کے حم کے مطابق حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد خاندان امام حسین ؑ کو اسیری کی حالت میں کوفہ لایا گیا.اہل بیت پیغمبر ؐ کو اسیری کی حالت میں کوفہ لانا ایسے واقعات میں سے ہے جسے تاریخ و حدیث کی کتب میں ذکر کیا گیا ہے. ان واقعات میں سے عبید اللہ کی حضرت زینب سے گفتگو اور آپ کے دیے جانے والے جوابات بھی تاریخی اور دوسرے منابع میں مذکور ہیں. حضرت زینب اور عبید اللہ کی باہمی گفتگو دربار میں موجود حاضرین پر نہایت اثر انداز ہوئی. کوفے میں ہونے والے دلخراش واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ عبید اللہ کے پاس جب حضرت امام حسین ؑ کا سر پیش ہوا تو اس نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی کے ساتھ آپ کے ہونٹوں اور دانتوں کی بے حرمتی کی تو دربار میں موجود صحابئ رسول خدا ؐ زید بن ارقم یہ گستاخی دیکھ کر رونے لگے اور کہنے لگے : اس چھڑی کو ان ہونٹوں سے اٹھا لو. خدا کی قسم! میں کئی مرتبہ ان ہونٹوں پر رسول اللہ کو بوسہ لیتے ہوئے دیکھا. عبید اللہ یہ سن کر خشمگین ہوا اور غصے سے بولا : خدا تجھے رلائے! کس چیز پر آنسو بہاتے ہو؟ فتح پر آنسو بہاتے ہو؟بخدا ! اگر میں یہ نہ جانتا ہوتا کہ تمہاری عقل زائل ہو چکی ہے تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا. زید نے جب یہ سنا تو دربار سے نکل گئے<ref>مفید، الارشاد، ج2، ص114 و 115</ref>. | عبید اللہ کے حم کے مطابق حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد خاندان امام حسین ؑ کو اسیری کی حالت میں کوفہ لایا گیا.اہل بیت پیغمبر ؐ کو اسیری کی حالت میں کوفہ لانا ایسے واقعات میں سے ہے جسے تاریخ و حدیث کی کتب میں ذکر کیا گیا ہے. ان واقعات میں سے عبید اللہ کی حضرت زینب سے گفتگو اور آپ کے دیے جانے والے جوابات بھی تاریخی اور دوسرے منابع میں مذکور ہیں. حضرت زینب اور عبید اللہ کی باہمی گفتگو دربار میں موجود حاضرین پر نہایت اثر انداز ہوئی. کوفے میں ہونے والے دلخراش واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ عبید اللہ کے پاس جب حضرت امام حسین ؑ کا سر پیش ہوا تو اس نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی کے ساتھ آپ کے ہونٹوں اور دانتوں کی بے حرمتی کی تو دربار میں موجود صحابئ رسول خدا ؐ زید بن ارقم یہ گستاخی دیکھ کر رونے لگے اور کہنے لگے : اس چھڑی کو ان ہونٹوں سے اٹھا لو. خدا کی قسم! میں کئی مرتبہ ان ہونٹوں پر رسول اللہ کو بوسہ لیتے ہوئے دیکھا. عبید اللہ یہ سن کر خشمگین ہوا اور غصے سے بولا : خدا تجھے رلائے! کس چیز پر آنسو بہاتے ہو؟ فتح پر آنسو بہاتے ہو؟بخدا ! اگر میں یہ نہ جانتا ہوتا کہ تمہاری عقل زائل ہو چکی ہے تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا. زید نے جب یہ سنا تو دربار سے نکل گئے<ref>مفید، الارشاد، ج2، ص114 و 115</ref>. | ||
سطر 56: | سطر 69: | ||
==یزید کے بعد== | ==یزید کے بعد== | ||
عبید اللہ واقعہ عاشورا کے بعد اپنی ظالمانہ قوت سے استفادہ کرتے ہوئے کوفہ اور بصرہ کی حکومت پر باقی رہا لیکن یزید کے مرنے کے بعد وی تزلزل کا شکار ہو گیا. طبری اور ابو علی مسکویہ کے مطابق یزید کے مرنے کے بعد اس نے ایک رات خطبہ دیا جس سے ایک رات پہلے بصرے کو بزرگان کو اس نے لالچ دیا تھا.اس خطبے کے بعد وہ کھڑے ہوئے اور اسے اپنی حکومت کے جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن کچھ عرصہ بعد لوگوں نے اس سے منہ موڑ لیا اور وہ عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کے طلبگار ہو گئے. <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۴۳۹؛ ابوعلی مسکویہ احمد، تجارب الامم، ج۲، ص۸۳ -۸۴</ref> | عبید اللہ واقعہ عاشورا کے بعد اپنی ظالمانہ قوت سے استفادہ کرتے ہوئے کوفہ اور بصرہ کی حکومت پر باقی رہا لیکن یزید کے مرنے کے بعد وی تزلزل کا شکار ہو گیا. طبری اور ابو علی مسکویہ کے مطابق یزید کے مرنے کے بعد اس نے ایک رات خطبہ دیا جس سے ایک رات پہلے بصرے کو بزرگان کو اس نے لالچ دیا تھا.اس خطبے کے بعد وہ کھڑے ہوئے اور اسے اپنی حکومت کے جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن کچھ عرصہ بعد لوگوں نے اس سے منہ موڑ لیا اور وہ عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کے طلبگار ہو گئے. <ref>طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۴۳۹؛ ابوعلی مسکویہ احمد، تجارب الامم، ج۲، ص۸۳ -۸۴</ref> | ||
سطر 62: | سطر 74: | ||
==مروان بن حکم کی بیعت== | ==مروان بن حکم کی بیعت== | ||
جب [[عبد اللہ بن زبیر]] نے [[مدینہ]] میں قوت حاصل کر لی جیسا کہ شام کے کچھ علاقے بھی اسکی خلافت میں شامل ہو گئے یہانتک کہ [[مروان بن حکم]] مدینے اسکی بیعت کی غرض سے آیا.[[ابن زیاد]] نے بَثَنیہ کے مقام پر اس سے ملاقات کی اور اسے اس کام سے روکا اور اسے وعدہ دیا کہ اگر وہ خود مدعی خلافت ہوا تو وہ اس کی حمایت کرے گا.مروان واپس چلا گیا ابن زیاد بھی دمشق روانہ ہو گیا. اس نے وہاں ضحاک بن قیس کو شہر سے باہر نکال کیا جو ابن زبیر کیلئے لوگوں سے بیعت لے رہا تھا عبید اللہ نے مرون کیلے بیعت لی.ضحاک بن قیس نے دمشق کے نزدیک مرج راہط کے مقام پر مروانیوں سے جنگ کی جو اسکی شکست پر منتہی ہوئی ؛اس جنگ میں مروانیوں کی سپہ سالاری کے فرائض ابن زیاد کے ذمہ تھے.<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج۵، ص۴۰-۴۲؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۴۷۶-۴۷۹</ref> | جب [[عبد اللہ بن زبیر]] نے [[مدینہ]] میں قوت حاصل کر لی جیسا کہ شام کے کچھ علاقے بھی اسکی خلافت میں شامل ہو گئے یہانتک کہ [[مروان بن حکم]] مدینے اسکی بیعت کی غرض سے آیا.[[ابن زیاد]] نے بَثَنیہ کے مقام پر اس سے ملاقات کی اور اسے اس کام سے روکا اور اسے وعدہ دیا کہ اگر وہ خود مدعی خلافت ہوا تو وہ اس کی حمایت کرے گا.مروان واپس چلا گیا ابن زیاد بھی دمشق روانہ ہو گیا. اس نے وہاں ضحاک بن قیس کو شہر سے باہر نکال کیا جو ابن زبیر کیلئے لوگوں سے بیعت لے رہا تھا عبید اللہ نے مرون کیلے بیعت لی.ضحاک بن قیس نے دمشق کے نزدیک مرج راہط کے مقام پر مروانیوں سے جنگ کی جو اسکی شکست پر منتہی ہوئی ؛اس جنگ میں مروانیوں کی سپہ سالاری کے فرائض ابن زیاد کے ذمہ تھے.<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج۵، ص۴۰-۴۲؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۷، ص۴۷۶-۴۷۹</ref> | ||
مروان کی حکومت کے دوران عبید اللہ دمشق میں تھا ۔ خون [[امام حسین]] کے انتقام کیلئے [[سلیمان بن صرد خزاعی]] کی سر کردگی میں [[توابین]] نے قیام کیا تو [[مروان]] نے [[ابن زیاد]] کو انکے مقابلے کیلئے روانہ کیا اور [[ابن زیاد]] کو غالب آنے کی صورت میں [[عراق]] کی حکومت دینے کا لالچ دیا<ref>یعقوبی ،تاریخ ، ج 2 ص 257</ref> ۔ابن زیاد جب [[جزیرہ]] میں پہنچا تو اسے مروان کی موت (65ق)کی خبر لیکن اس نے اپنی پیش قدمی کو جاری رکھا ۔ | مروان کی حکومت کے دوران عبید اللہ دمشق میں تھا ۔ خون [[امام حسین]] کے انتقام کیلئے [[سلیمان بن صرد خزاعی]] کی سر کردگی میں [[توابین]] نے قیام کیا تو [[مروان]] نے [[ابن زیاد]] کو انکے مقابلے کیلئے روانہ کیا اور [[ابن زیاد]] کو غالب آنے کی صورت میں [[عراق]] کی حکومت دینے کا لالچ دیا<ref>یعقوبی ،تاریخ ، ج 2 ص 257</ref> ۔ابن زیاد جب [[جزیرہ]] میں پہنچا تو اسے مروان کی موت (65ق)کی خبر لیکن اس نے اپنی پیش قدمی کو جاری رکھا ۔ | ||
===قیامِ توابین کا خاتمہ === | ===قیامِ توابین کا خاتمہ === | ||
مفصل مضمون: [[قیام توابین]] | مفصل مضمون: [[قیام توابین]] |