مندرجات کا رخ کریں

"کتاب سلیم بن قیس" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 74: سطر 74:
# پیغمبر اکرمؐ اور امام علیؑ کی طرف سے اموی ظالم حکومت اور شیعوں پر ظلم کی پیشنگوئی۔<ref>سبحانی، «گامی دیگر در شناسایی و احیای کتاب سلیم بن قیس هلالی»، ص۲۱.</ref>
# پیغمبر اکرمؐ اور امام علیؑ کی طرف سے اموی ظالم حکومت اور شیعوں پر ظلم کی پیشنگوئی۔<ref>سبحانی، «گامی دیگر در شناسایی و احیای کتاب سلیم بن قیس هلالی»، ص۲۱.</ref>


== کتاب کا نام==
==مختلف نظریات؛ جعلی سے کامل تائید تک==
یہ کتاب [[ائمہ معصومین]] ؑ کے کلام میں کتاب سلیم بن قیس ہلالی اور ابجد الشیعۃ کی تعابیر کے ساتھ ذکر ہوئی ہے اور اسی نام سے مشہور ہے، [[امام صادق]]ؑ فرماتے ہیں:
سلیم بن قیس کی کتاب کے بارے میں مختلف اور متضاد نظریات بیان ہوئے ہیں: [[محمد بن ابراہیم نعمانی]] اس کی پوری طرح  سے تائید کرتا ہے اور اسے شیعہ احادیث کی معتبر کتاب قرار دیتے ہیں<ref>نعمانی، الغیبه، ۱۴۳۲ق، ص۱۰۳-۱۰۴.</ref> [[شیخ مفید]] نے اگرچہ اس کے معتبر  ہونے کو نفی نہیں کیا ہے لیکن اس میں تحریف ہونے کا اذعان کیا ہے۔<ref>شیخ مفید، تصحیح اعتقادات الامامیه، ‌ص۱۴۹.</ref> [[احمد بن حسین غضائری|ابن‌غضائری]] اور [[شهید ثانی]] کتاب سلیم میں [[أبان بن ابی‌ عیاش|اَبان بن ابی‌عیاش]] کی ہاتھوں جعل سازی کے قائل ہیں۔<ref>ابن‌غضائری، الرجال لابن الغضائری، ۱۴۲۲ق، ص۳۶؛ شهید ثانی، رسائل الشهید الثانی، ۱۳۸۰ش، ج۲، ص۹۹۲-۹۹۳.</ref>
:::ہمارے شیعوں میں سے جس کے پاس بھی کتاب سلیم بن قیس ہلالی نہ ہو اس کے پاس ہماری [[ولایت]] اور امامت کے حوالے سے کچھ بھی نہیں ہے اور ہمارے اسباب و اسرار سے وہ شخص واقف نہیں ہے، یہ کتاب مذہب شیعہ کی بنیادی کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔
===کتاب معتبر ہونے کی تائید===
چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مفسر و محدث محمد بن ابراهیم نعمانی اپنی کتاب [[کتاب الغیبۃ (نعمانی)|کتاب الغیبہ]] میں سلیم بن قیس کی کتاب کو شیعہ علما اور راویوں کے ہاں سب سے معتبر کتاب اور بہت اہم کتاب قرار دیا ہے۔<ref>نعمانی، الغیبه، ۱۴۳۲ق، ص۱۰۳-۱۰۴.</ref>


بعض اس قلمی اثر کو کتاب السقیفۃ کے نام سے متعارف کراتے ہیں۔<ref>الاعلام، ج ۳، ص ۱۱۹</ref> اس کے علاوہ اس کتاب کو اسرار آل محمدؐ، کتاب فِتَن، کتاب وفاۃ النبیؐ اور کتاب [[امامت]] سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔<ref>اسرار آل محمد، ص ۴۷.</ref>
چوتھی صدی ہجری کے فہرست نگار اور ماہر کتابیات [[ابن‌ ندیم]]، سلیم بن قیس کی کتاب کو شیعوں میں پہلی تدوین شدہ کتاب سمجھتے ہیں۔<ref>ابن‌ندیم، الفهرست، ۱۴۱۷ق، ص۲۷۱.</ref> کتاب [[عبقات الانوار فی امامة الائمة الاطهار (کتاب)|عَبَقات‌ الانوار]]  کے مؤلف [[میر حامد حسین هندی|میر حامد حسین]] سلیم بن قیس کی کتاب کو شیعہ کتابوں میں سب سے قدیمی اور افضل سمجھتے ہیں۔ <ref>کنتوری، عبقات الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۳۰۹.</ref>


== انتساب و عدم انتساب ==
[[سید محمد باقر خوانساری|محمد باقر خوانساری]] اپنی کتاب [[روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات (کتاب)|روضات‌ الجنات]] میں سلیم کی کتاب کو مسلمان میں حدیث کی سب سے پہلی مدون کتاب قرار دیتے ہیں۔<ref>خوانساری، روضات الجنات، ۱۳۹۰ق، ج۴، ص۶۷.</ref> اسی طرح [[شیخ عباس قمی|محدث قمی]] اسے شیعوں کی پہلی اور محدثین کے مابین مشہور کتاب سمجھتے ہیں۔<ref>قمی، الکنی و الالقاب، ۱۳۹۷ق، ج۳، ص۲۹۳.</ref>
[[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] کے علماء میں اس کتاب کے بہت سارے موافقین اور مخالفین پائے جاتے ہیں۔
=== موافقین ===
[[ابن ندیم]] کہتے ہیں: شیعوں کی پہلی کتاب جو منظر عام پر آگئی وہ کتاب سلیم بن قیس ہلالی ہے۔


=== مخالفین ===
=== کتاب کا جعلی ہونا ===
[[شیخ مفید]] نے اپنی کتاب [[تصحیح الاعتقاد]]، [[علامہ حلی]] نے [[خلاصۃ الاقوال]]، [[ابن داوود حلی]] نے کتاب [[رجال ابن داوود|رجال]]، [[محمد تقی شوشتری]] نے [[قاموس الرجال]] میں سلیم بن ہلال کی بنسبت تو موقف لیا ہے لیکن کتاب کے مضامین کا انکار نہیں کیا ہے۔ بعض معاصر محققین نے بھی کتاب سلیم بن ہلالی کو کئی اشکلات اور تناقضات کا حامل قرار دیتے ہیں۔<ref>قاسم جوادی، کتاب سلیم بن قیس هلالی. بازسازی متون کهن حدیث شیعه، ص ۴۹۴ - ۵۰۴.</ref>
پانچویں صدی ہجری کے ماہرِ علم رجال [[احمد بن حسین غضائری|ابن‌ غضائری]] اپنی [[رجال ابن غضائری (کتاب)|رجال کی کتاب]] میں سلیم سے منسوب کتاب کو جعلی سمجھتے ہیں، اور اس انتساب کو درست نہیں سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب اَبان بن ابی عیاش نے جعل کیا ہے اور سلیم کی طرف نسبت دی ہے۔<ref>ابن‌غضائری، الرجال لابن الغضائری، ۱۴۲۲ق، ص۳۶.</ref> [[حسن بن داوود حلی|ابن‌ داوود حلی]] نے بھی اپنی [[رجال ابن داوود (کتاب)|رجال]] کی کتاب میں سلیم کی کتاب کو [[حدیث موضوع|جعلی]] قرار دیا ہے۔<ref>ابن‌داود، کتاب الرجال،‌ ۱۳۹۲ق، ص۴۶۰.</ref>  


== تألیف کا مقصد ==
دسویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ [[شهید ثانی]]  علامہ حلی کی کتاب [[خلاصة الاقوال فی معرفة الرجال (کتاب)|خلاصة‌ الاقوال]] کے حاشیے میں سلیم کی کتاب میں مذکور ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس حدیث کی وجہ سے کتاب کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ [[محمد بن ابی‌ بکر|محمد بن ابوبکر]] نے اپنے باپ کی وفات کے دوران اسے نصیحت کی۔ اس روایت کو کتاب جعلی ہونے کی ایک دلیل قرار دیتے ہیں کیونکہ محمد بن ابوبکر حجۃ الوداع کے دوران 10 ہجری کو پیدا ہوئے ہیں اور ابوبکر 13 ہجری کو وفات ہوئے ہیں اس لئے تین سالہ بچے کا نصیحت کرنا ممکن نہیں ہے۔<ref>شهید ثانی، رسائل الشهید الثانی، ۱۳۸۰ش، ج۲، ص۹۹۲-۹۹۳.</ref> شهید ثانی آخر میں کتاب کی سند میں [[ابراهیم بن عمر صنعانی]] اور [[أبان بن ابی‌ عیاش|اَبان بن ابی‌ عیاش]] ہونے کی وجہ سے ضعیف ہونے کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ کتاب میں موجود غیر صحیح مطالب کو جدا کیا جائے اور باقی مطالب کو نہ رد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کی تائید کی جاسکتی ہے۔<ref>شهید ثانی، رسائل الشهید الثانی، ۱۳۸۰ش، ج۲، ص۹۹۲-۹۹۳.</ref>
[[مدینہ]] آنے کے سلیم کچھ ایسے حوادث سے روبرو ہوئے جس سے ہر مسلمان کو دکھ ہوتا ہے اور یہی حوادث کسی حد تک اس کتاب کے لکھنے کا سبب بنا۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ [[اہل بیتؑ]] جو دین [[اسلام]] کے حقیقی محافظ اور خدا کی طرف سے اس دین کی سرپرستی کیلئے منتخب ہوئے تھے، کو پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد بے دخل کر دئے گئے ہیں اور [[حدیث ثقلین]] میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے [[قرآن]] و [[عترت]] میں جدایی نہ ڈالنے کی سفارش کو باکل ہی بھلا دئے ہیں۔ ان حالات کو دیکھنے کے بعد سلیم کے اندر موجود حس وظیفہ شناسی نے اس حوالے سے اپنی کوششوں کو بروئے کار لانے پر اسے مجبور کر دیا یوں جوانی کی ابتدائی ایام میں ہی اپنی تمام تر کوششوں کو رسول خداؐ کی سیرت اور صحیح تاریخ اسلام کو محفوظ رکھنے کیلئے بروئے کار لانا شروع کر دیا۔<ref>اسرار آل محمد، ص ۲۷ و ۲۸.</ref>


== مطالب کی جمع آوری ==
محقق قرآن و حدیث [[ابو الحسن شعرانی]] شرح اصول کافی کے حاشیے میں سلیم بن قیس کی کتاب کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں بعض ناصحیح مندرجات پائے جاتے ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے مگر یہ کہ کوئی عقلی یا نقلی شاہد اس کی تائید کے لئے موجود ہو۔<ref>ملاصالح مازندرانی، شرح اصول کافی، تعلیقه ابوالحسن شعرانی، ج۲، ص۳۷۳ و ۱۶۳.</ref>
سلیم نے مخفیانہ طور پر پیغمبر اکرمؐ کے حقیقی اصحاب سے آشنائی پیدا کی۔ پہلے مرحلے میں اس نے امیرالمؤمنین حضرت [[علی]]ؑ کے ساتھ ہمراہی کو یقینی بنایا اس طرح اس نے اپنے آپ کو منبع [[وحی]] سے متصل کردیا۔ اس کے بعد حضور اکرمؐ کے دیگر اصحاب بطور خاص [[سلمان فارسی|سلمان]]، [[ابوذر غفاری|ابوذر]] اور [[مقداد بن عمر|مقداد]] وغیرہ سے خصوصی ارتباط برقرار کیا اور ان سے [[پیغمبر اکرم]]ؐ کی سیرت اور آپ کی رحلت کے بعد پیش آنے والے حوادث کے بارے میں دقیق انداز میں سوال کر کے ان کی تفصیلات تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ حضرات بھی بغیر [[تقیہ]] تمام سوالات کا جواب دیتے تھے اور سلیم ان تمام مطال کو قلم بند کرتے تھے اس طرح اپنی عمر کے 60 سال کے اندر اس کتاب کے مطالب کو جمع کرکے اس کی تألیف کی۔<ref>اسرار آل محمد، ص ۱۹ - ۲۳.</ref>


== استحکام کی وجہ ==
===نہ پوری جعلی اور نہ پوری اصلی===
[[حجاج بن یوسف]] کی شر سے فرار اختیار کرنے کے بعد سلیم "نوبندجان" نامی شہر میں داخل ہوا۔ وہاں ایک سال سے زیادہ عرصہ زندہ نہ رہا اور جب بیماری کی وجہ سے موت کے آثار نمایاں ہونے لگا تو مخفی طور پر اپنی کتاب کے بارے میں [[ابان بن ابی عیاش]] کو بتایا اور اس کتاب کی اہمیت اور اس کی تألیف میں پیش آنے والے موانع اور مشکلات سے اسے آگاہ کیا اور اسے یہ سمجھا دیا کہ اس کتاب کو ہر کس و نا کس کی پہنچ سے دور رکھا جائے۔
پانچویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور متکلم [[شیخ مفید]] اپنی کتاب [[تصحیح الاعتقادات (کتاب)|تصحیح اعتقادات الامامیه]] میں سلیم بن قیس کی کتاب میں موجود اکثر احادیث میں دخل و تصرف کی وجہ سے جائز نہیں سمجھتے ہیں اور دینداروں کو اس پر عمل کرنے سے اجتناب کی تلقین کرتے ہیں<ref>شیخ مفید، تصحیح اعتقادات الامامیه، ‌ص۱۴۹.</ref> آٹھویں صدی ہجری کے فقیہ و متکلم [[علامه حلی]] اپنی کتاب [[خلاصة الاقوال فی معرفة الرجال (کتاب)|خلاصة الاقوال]] میں اگرچہ سلیم بن قیس کو عادل سمجھتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان سے منسوب کتاب میں موجود نادرست مطالب پر عمل کرنے سے اجتناب کیا جائے۔<ref>علامه حلی، خلاصة الاقوال، ۱۴۱۷ق، ص۱۶۳.</ref>


اس کے بعد اس نے "ابان" سے تین بنیادی شرائط پر اس سے عہد و پیمان لیا وہ شرائط درج ذیل ہیں:
[[محمد تقی شوشتری]] نے بھی اپنی کتاب [[قاموس الرجال (کتاب)|قاموس‌ الرجال]] میں سلیم کی کتاب جعلی ہونے کے بارے میں ابن غضائری کی بات کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں اصل کتاب جعلی نہیں ہے؛ بلکہ دشمنوں نے اس کتاب میں کچھ چیزیں خود سے اس میں شامل کیا ہے۔<ref>شوشتری،‌ قاموس الرجال، ۱۴۱۴ق، ج۵، ص۲۳۹.</ref>
# جب تک سلیم زندہ ہو اس کتاب اوراس کے مطالب کے بارے میں کسی سے کچھ نہیں بتائیں گے۔
# اس کی رحلت کے بعد بھی سوائے شیعہ موثق افراد کے کسی کو اس کتاب کے مطالب سے آگاہ نہیں کرے گا۔
# اپنی موت کے وقت اسے کسی شیعہ موثق فرد کے حوالے کر دے گا۔


ان شرائط کے ساتھ اس نے تمام کتاب ابان کیلئے پڑھ کر سنایا اور ابان نے دقت کے ساتھ سن لیا تاکہ کتاب کے مطالب کے حوالے سے کوئی ابہام باقی نہ رہ جائے اور امانت میں اپنا وظیفہ اچھی طرح نبا سکے۔<ref>اسرار آل محمد، ص ۲۸ و ۲۹.</ref>
==نقد و نظر==
محققین نے سلیم کی کتاب کے مندرجات پر نقد کیا ہے۔ قاسم جوادی نے ایک مقالے میں 18 مورد بیان کیا ہے<ref>جوادی، «کتاب سلیم بن قیس هلالی»، ص۱۶۶-۱۷۹.</ref> جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
* وفات کے بعد حدیث کی روایت کرنا: اس کتاب میں [[ابراهیم بن مالک اشتر|ابراهیم نخعی]] کی وفات کے دوران کی ایک حدیث نقل ہوئی ہے؛ جبکہ سلیم سنہ 76ھ میں وفات پائے ہیں اور ابراہیم نخعی سنہ 95 یا 96ھ کو وفات پاگئے ہیں۔ [[محمد باقر انصاری زنجانی]] جنہوں نے کتاب سلیم کی تحقیق و تصحیح کی ہے اس مشکل کے حل کے لئے اس روایت کی ابان بن ابی عیاش کی طرف نسبت دی ہے جبکہ اس طرح کے اشکال کے لئے یہی جواب دیا جائے کہ یہ کتاب سلیم کی نہیں اور اس حدیث کا انتساب کسی اور کی طرف دینا مشکل کا حل نہیں ہے۔<ref>جوادی، «کتاب سلیم بن قیس هلالی»، ص۱۶۶.</ref>
* پیغمبر اکرمؐ کا امام علیؑ کو بھائی کہہ کر خطاب کرنا: اس کتاب کی ایک حدیث میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے امام علی کو کبھی بھائی کہہ کر نہیں پکارا ہے؛ درحالیکہ اسی کتاب میں ایک اور حدیث نقل ہوئی ہے کہ [[حضرت محمد صلی الله علیه و آله|پیامبر(ص)]] نے امام علیؑ کو اس طرح کے عنوان سے خطاب کیا ہے۔ اس طرح سے دو قسم کی روایات کا کتاب میں ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اصل کتاب میں کچھ تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔<ref>جوادی، «کتاب سلیم بن قیس هلالی»، ص۱۶۷.</ref>
* تاریخی مسلمات سے تضاد: سلیم بن قیس کی کتاب میں مذکور بعض روایات تاریخی مسلمات سے سازگار نہیں ہیں؛ جیسے ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے بعد [[معاویة بن ابی‌سفیان|معاویه]] اور [[یزید بن معاویه|اس کا بیٹا]] حاکم بنیں گے؛ جبکہ عثمان کے بعد امام علیؑ کی خلافت کا آغاز ہوا ہے۔ ایک اور مورد میں بنی امیہ کے خلفا کی تعداد کو ایک حدیث میں دس افراد قرار دیا ہے جبکہ ان کی تعداد 14 تھی۔<ref>جوادی، «کتاب سلیم بن قیس هلالی»، ص۱۷۰.</ref>


== کتاب کے نسخے==
سلیم بن قیس کی کتاب کے خطی نسخوں کی تعداد 69 تک بتائی گئی ہے۔<ref>جلالی، «پژوهشی درباره سلیم بن قیس هلالی»، ص۹۰.</ref> دانش نامہ جہان اسلام میں عمادی حائری کا کہنا ہے کہ اس کتاب کے نسخے چوتھی صدی ہجری سے اختلافات کا شکار ہیں اور مختلف ادوار میں مختلف مطالب اس میں شامل کی گئی ہیں۔<ref>عمادی حائری، «سلیم بن قیس هلالی»، ص۴۶۶.</ref> کتابِ سلیم بن قیس کا تصحیح شدہ نسخہ محمد باقر انصاری زنجانی کے توسط سنہ 1415ھ میں چھپ گیا۔ یہ نسخہ چودہ خطی نسخوں پر تحقیق کا نتیجہ ہے۔ پہلی جلد میں کتاب معتبر ہونے کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے جبکہ دوسری اور تیسری جلد میں کتاب کا متن اور فہرست شامل ہے۔<ref>ملکی معاف، «مؤلف کتاب اسرار آل محمد(ص) بر ترازوی نقد»، ص۱۵۰.</ref>


== اہمیت اور اعتبار ==
=== ترجمہ===
یہ کتاب کئی جہات سے قابل تحقیق ہے:
* شیخ ملک محمد شریف بن شیر محمد شاه رسولوی ملتانی نے سنہ 1375ھ کو اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا؛
* تقدم زمانی؛
* [[سید ذیشان حیدر جوادی]] نے [[نجف اشرف]] میں زمانہ طالب علمی (1955 سے 1965 تک) کے دوران اس کا اردو میں ترجمہ کیا۔<ref>https://library.tebyan.net/fa/Viewer/Text/86193/1</ref>
بعض مورخین کے بقول احادیث پر مشتمل یہ پہلی کتاب ہے جسے کسی مسلمان نے تألیف کی ہے اس حوالے سے یہ کتاب نہایت اہمیت کا حامل اور معتبر کتاب ہے۔
* فارسی ترجمہ پہلی بار سنہ 1400ھ میں نجف میں چھپ گیا؛
* فارسی ترجمہ اور عربی متن کے ساتھ سنہ 1412ھ میں شیخ [[محمد باقر کمره‌ای]] نے انجام دیا؛
* اسماعیل انصاری زنجانی نے «اسرار آل محمدؑ» کے نام سے فارسی میں ترجمہ کیا؛<ref>هلالی، اسرار آل محمد، ۱۴۱۶ق، ص۱۵۴-۱۵۵.</ref>
*«تاریخ سیاسی صدر اسلام» کے نام سے محمود رضا افتخار زادہ نے ترجمہ کیا۔


* تاریخی واقعات پر مشتمل ہے؛
== تلخیص  ==
اس کتاب کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایسے تاریخی واقعات نقل ہوئی ہیں جو ہمیشہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان مورد اختلاف واقع ہوئی ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ کا امامت و [[ولایت]] کے مسئلے پر کی گئی تاکید، [[فدک]] کا مسئلہ اور حضرت [[زہرا(س)|فاطمہ زہرا]](س) کے دروازے پر آگ لے کر حملہ کرنا وغیرہ منجملہ ان حوادث میں سے ہیں جو اس کتاب میں مذکور ہیں۔
علم حدیث کی ماہرین میں سے دو علما نے اس کتاب کا خلاصہ منتخب کتاب سلیم کے نام سے مرتب کیا ہے:
 
* شیخ عبد الحمید بن عبد اللہ کرہرودی اور سید محمد علی شاہ عبد العظیمی (متوفی 1334 ھ) نے اس کتاب کی بعض احادیث کو انتخاب کر کے منتخب کتاب سلیم کے نام سے اس کا خلاصہ مرتب کیا ہے<ref> اسرار آل محمد، ص ۱۵۴.</ref>
* ائمہ اطہار کی تائید؛
* مرزا یوسف حسین لکھنوی نے اس کتاب کو اسرار امامت کے نام سے اردو میں خلاصہ کیا ہے جو معصوم پبلیکیشنز کھرمنگ سکردو بلتستان سے 1425ھ کو چھپ گیا۔<ref>[https://www.maablib.org/israr-e-imamat-translated-by-mirza-yousaf-hussain-luckhnovi/ اسرارِ امامت (تلخیص کتاب سُلَیْم بن قیس ہلالی)]، ویب سائٹ:مرکز احیاء آثار برصغیر</ref>
اس کتاب کے مضامین کی صحیح ہونے پر [[ائمّہ اطہارؑ|ائمّہ معصومین]]ؑ نے اس طرح تأیید اور اس کے مطالب سے دفاع کیا ہے جس کی مثال ائمہ کی زندگی میں نہیں ملتی۔<ref>اسرار آل محمد، ص ۵۶.</ref>


* علما کی تأئید؛
پہلی صدی ہجری سے لے کر اب تک کے بڑے بڑے شیعہ علماء نے اس کتاب کے مطالب کی تأئید کی ہے اور چودہ سو سال سے اس کتاب کے احادیث کو ایک سند کے طور پر نقل کرنا اس کتاب کے معتبر ہونے کی دلیل ہے۔
* [[اصول اربع مائۃ]] میں سے ہے؛
اصول اربع مأۃ میں سے کتاب سلیم بن قیس پہلی اور سب سے اہم کتاب کے عنوان سے پہچانی جاتی ہے اسی وجہ سے علماء اور محدثین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔
* شیعوں کے درمیان اس کی شہرت پر غیر شیعوں کا اعتراف؛
بعض غیر شیعہ جیسے [[ابن ندیم]]، [[ابن ابی الحدید]]، قاضی سُبکی، ملا حیدر علی فیض آبادی وغیرہ نے بھی اس کتاب کی سلیم بن قیس کی طرف منسوب ہونے پر تصریح کی ہیں۔
* اس کی تعریف خود مؤلف کی زبانی؛
[[سلیم بن قیس|سلیم بن قیس]] نے اپنی کتاب [[ابان بن ابی عیاش]] کے حوالے کرتے ہوئے اس بارے میں یوں کہا ہے:
:::میرے پاس کچھ ایسے مکتوب ہیں جنہیں میں نے معتبر افراد سے سنا اور اپنے ہاتھوں سے لکھا ہوں۔ اس میں ایسی احادیث ہیں، میں نہیں چاہتا یہ احادیث اس زمانے کے لوگوں پر آشکار ہو کیونکہ یہ لوگ ان احادیث کا انکار کرینگے اور انہیں عجوبہ سمجھیں گے جبکہ یہ تمام حقیقت پر مبنی ہیں اور جن سے میں نے سنا ہے وہ سب کے سب اہل حق، اہل فقہ، اہل صدق اور اہل صلاح ہیں حن میں [[امیرالمؤمنین]] حضرت علیؑ سے لے کر سلمان، ابوذر اور مقداد شامل ہیں۔<ref>اسرار آل محمد، ص ۵۰ - ۸۷.</ref>
[[ملف:اسرار آل محمد.jpg|تصغیر|اسرار آل محمد]]
[[ملف:اسرار آل محمد.jpg|تصغیر|اسرار آل محمد]]
[[ملف:تاریخ سیاسی صدر اسلام.jpg|تصغیر| صدر اسلام کی سیاسی تاریخ]]
[[ملف:تاریخ سیاسی صدر اسلام.jpg|تصغیر| صدر اسلام کی سیاسی تاریخ]]
== نسخہ جات ==
کتاب سلیم بن قیس کے خطی نسخے جن کی معرفی اس کتاب کے ترجمے میں کی گئی ہے، ایسے نسخے ہیں جن کا ذکر یا گذشتہ علماء کے آثار میں ہوا ہے اور ان کتابوں کے مصنفین ان نسخوں کے موجود ہونے کے بارے میں آگاہ تھے یا اب بھی مختلف لائبریریوں میں موجود کتابوں کی فہرست میں موجود ہے یا دوسرے خطی نسخوں میں ان کے بارے میں خبر دی گئی ہے۔ ان نسخوں کی تعداد 60 سے زیادہ ہیں۔<ref>اسرار آل محمد، ص ۱۴۲ - ۱۴۷.</ref>
== اس کتاب کے ترجمے ==
* اردو زبان میں اس کا ترجمہ شیخ ملک محمد شریف بن شیر محمد شاہ رسولوی ملتانی نے سنہ 1375 قمری میں کیا ہے۔ اس کے بعد [[سید ذیشان حیدر جوادی]] نے [[نجف اشرف]] میں زمانہ طالب علمی (1955 سے 1965 تک) کے دوران اس کا اردو میں ترجمہ کیا۔<ref>https://library.tebyan.net/fa/Viewer/Text/86193/1</ref>
* فارسی میں اس کا ترجمہ سنہ 1400 قمری میں پہلی بار [[نجف]] اشرف میں ہوا ہے۔
* سنہ 1412 قمری میں عربی متن کی ساتھ اس کا فارسی ترجمہ شیخ محمد باقر کمرہ ای کے قلم سے ہوا ہے۔
* فارسی زبان میں اسرار آل محمد علیہم السّلام کے نام سے اس کا ترجمہ [[اسماعیل انصاری زنجانی]] نے کیا ہے۔<ref> اسرار آل محمد، ص ۱۵۴ و ۱۵۵.</ref>
* فارسی زبان میں تاریخ سیاسی صدر اسلام کے نام سے اس کا ترجمہ محمود رضا افتخار زادہ نے کیا ہے۔
== تلخیص  ==
علم حدیث کی ماہرین میں سے دو علما نے اس کتاب کا خلاصہ منتخب کتاب سلیم کے نام سے مرتب کیا ہے:
* شیخ عبد الحمید بن عبد اللہ کرہرودی۔
* سید محمد علی شاہ عبد العظیمی متوفی 1334 ھ۔<ref> اسرار آل محمد، ص ۱۵۴.</ref>
* مرزا یوسف حسین لکھنوی نے اس کتاب کا خلاصہ اسرار امامت کا اردو میں ترجمہ کیا ہے جو معصوم پبلیکیشنز کھرمنگ سکردو بلتستان سے 1425ھ کو چھپ گیا۔<ref>[https://www.maablib.org/israr-e-imamat-translated-by-mirza-yousaf-hussain-luckhnovi/ اسرارِ امامت (تلخیص کتاب سُلَیْم بن قیس ہلالی)]، ویب سائٹ:مرکز احیاء آثار برصغیر</ref>
== طباعت ==
عربی متن کی پہلی بار طباعت کے تقریبا 50 سال گذر گئے ہیں۔ اس کتاب کا خلاصہ اصل کتاب کی طباعت سے پہلے منظر عام پر آ چکا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ تقریبا 20 سال پہلے جبکہ فارسی ترجمہ 15 سال پہلے پہلی بار نشر ہوا ہے۔<ref> اسرار آل محمد، ص ۱۵۲.</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 155: سطر 125:


== مآخذ ==
== مآخذ ==
* ہلالی، سلیم بن قیس، کتاب سلیم، قم، ہادی، ۱۴۰۵ ھ۔
{{مآخذ}}
* ہلالی، سلیم بن قیس، اسرار آل محمد، ترجمہ اسماعیل انصاری زنجانی، قم الہادی، ۱۴۱۶ ھ۔
* آقابزرگ تهرانی، محمدمحسن، الذریعة إلی تصانیف الشیعه، مقدمه محمدحسن آل‌کاشف‌الغطاء، بیروت، دارالأضواء، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م.
* ابن‌غضائری، احمد بن حسین، الرجال لابن الغضائری، تحقیق سید محمدرضا حسینی جلالی، قم، دارالحدیث، ۱۴۲۲ق/۱۳۸۰ش.
* ابن‌ندیم، الفهرست، تحقیق ابراهیم رمضان، بیروت، دار المعرفه، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۷م.
* برقی، احمد بن عبدالله، رجال البرقی، تحقیق و تعلیق حیدر محمدعلی البغدادی، با اشراف جعفر سبحانی، قم، مؤسسة الإمام الصادق، ۱۴۳۳ق/۱۳۹۱ش.
* جلالی، عبدالمهدی، «پژوهشی درباره سلیم بن قیس هلالی»، فصلنامه مطالعات اسلامی، شماره ۶۰، تابستان ۱۳۸۲ش.
* جوادی، قاسم، «کتاب سلیم بن قیس هلالی»، در فصلنامه علوم حدیث، بهار و تابستان ۱۳۸۴ش، شماره ۳۵ و ۳۶.
* ابن‌داوود حلی، حسن، کتاب الرجال، تحقیق سید محمدصادق بحرالعلوم، نجف، مطبعة الحیدریة، ۱۳۹۲ق.
* علامه حلی، حسن بن یوسف، خلاصة الاقوال، مؤسسة نشر الفقاهة، ۱۴۱۷ق.
* خوانساری، محمدباقر، روضات الجنات، قم، اسماعیلیان، ۱۳۹۰ق.
* زرکلی، خیرالدین، الاعلام، بیروت، دارالعلم.
* زرکلی، خیرالدین، الاعلام، بیروت، دارالعلم.
* شوشتری،‌ محمدتقی،‌ قاموس الرجال، قم،‌ جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، ۱۴۱۴ق.
* شهید ثانی، زین‌الدین بن علی، رسائل الشهید الثانی، تحقیق رضا مختاری، ج۲، قم، بوستان کتاب قم، ۱۴۲۲ق/۱۳۸۰ش.
* شیخ مفید، تصحیح اعتقادات الإمامیه، تصحیح حسین درگاهی.
* عمادی حائری، سید محمد، «سلیم بن قیس هلالی»، در دانشنامه جهان اسلام، زیرنظر غلامعلی حدادعادل، ج۲۴، تهران، بنیاد دائرةالمعارف اسلامی، ۱۳۷۵ش.
* کنتوری، میر حامد حسین، عبقات الانوار، تحقیق غلامرضا مولانا بروجردی، قم، غلامرضا مولانا بروجردی، ۱۴۰۴ق.
* ملکی معاف، اسلام، «مؤلف کتاب اسرار آل محمد(ص) بر ترازوی نقد»، در مجله مطالعات قرآن و حدیث، سال اول، شماره دوم، بهار و تابستان ۱۳۸۷ش.
* نعمانی، محمد بن ابراهیم، الغیبه، تحقیق فارس حسون کریم، بیروت، دارالجوادین، ۱۴۳۲ق/۲۰۱۱م.
* هلالی، سلیم بن قیس، کتاب سلیم، قم، هادی، ۱۴۰۵ق.
{{خاتمہ}}


 
{{شیعہ کتب حدیث}}
{{شیعہ کتابیات تاریخ}}
{{شیعہ کتب کلام}}
{{شیعہ کتب کلام}}
{{پہلی صدی ہجری کی شیعہ کتابیات}}
{{پہلی صدی ہجری کی شیعہ کتابیات}}
{{شیعہ کتابیں (پہلی صدی ہجری)}}


[[زمرہ:پہلی صدی ہجری کی شیعہ کتب حدیث]]
[[زمرہ:پہلی صدی ہجری کی شیعہ کتب حدیث]]
سطر 167: سطر 156:
[[زمرہ:پہلی صدی ہجری کی شیعہ کتب تاریخ]]
[[زمرہ:پہلی صدی ہجری کی شیعہ کتب تاریخ]]
[[زمرہ:حائز اہمیت درجہ سوم مقالات]]
[[زمرہ:حائز اہمیت درجہ سوم مقالات]]
[[زمرہ:کتب تاریخ (عربی)
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم