مندرجات کا رخ کریں

"حديث ثقلین" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 16: سطر 16:
  |قرآنی تائیدات =  
  |قرآنی تائیدات =  
}}
}}
'''حدیث ثقلین'''  [[قرآن]] اور [[اہل‌ بیتؑ|اہل‌بیتؑ]] کا مقام ہدایت اور ان کی اطاعت لازم ہونے کے بارے میں [[رسول خداؐ]] کی مشہور اور [[حدیث متواتر|متواتر]] [[حدیث]] ہے۔ اس حدیث کے مطابق [[قرآن کریم]] اور [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیتؑ]] دو گراں بہا چیزیں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں یہاں تک کہ [[حوض کوثر]] پر رسول اللہؐ سے محلق ہوجائیں۔
'''حدیث ثقلین'''  [[قرآن]] اور [[اہل‌ بیتؑ|اہل‌ بیتؑ]] کا مقام ہدایت اور ان کی اطاعت لازم ہونے کے بارے میں [[رسول خداؐ]] کی مشہور اور [[حدیث متواتر|متواتر]] [[حدیث]] ہے۔ اس [[حدیث]] کے مطابق [[قرآن کریم]] اور [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیتؑ]] دو گراں بہا چیزیں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں یہاں تک کہ [[حوض کوثر]] پر رسول اللہؐ سے محلق ہوجائیں۔


شیعہ متکلمین شیعہ ائمہ کی امامت اور ولایت ثابت کرنے کے لئے حدیث ثقلین سے استناد کرتے ہیں۔ اسی حدیث سے استناد کرتے ہوئے شیعہ علما کا کہنا ہے کہ جو خصوصیات اور صفات قرآن مجید کے لئے ذکر ہوئی ہیں وہ اہل بیتؑ پر بھی صدق آتی ہیں۔ اس حدیث سے علم کلام میں کچھ ثابت کرتے ہیں جن میں شیعہ ائمہ کی امامت اور اس کا استمرار قیامت تک، ان کی اطاعت لازم ہونا، عصمت ائمہ، علمی مرجعیت، رہبری اور ولایت نیز قرآن اور اہلبیت کے درمیان اختلاف نہ ہونا شامل ہیں۔
[[شیعہ]] متکلمین [[ائمہ معصومین علیہم السلام|شیعہ ائمہ]] کی [[امامت]] اور [[ولایت]] ثابت کرنے کے لئے حدیث ثقلین سے استناد کرتے ہیں۔ اسی حدیث سے استناد کرتے ہوئے شیعہ علما کا کہنا ہے کہ جو خصوصیات اور صفات [[قرآن کریم|قرآن مجید]] کے لئے ذکر ہوئی ہیں وہ اہل بیتؑ پر بھی صدق آتی ہیں۔ اس حدیث سے [[علم کلام]] میں کچھ ثابت کرتے ہیں جن میں شیعہ ائمہ کی امامت اور اس کا استمرار قیامت تک، ان کی اطاعت لازم ہونا، عصمت ائمہ، علمی مرجعیت، رہبری اور ولایت نیز قرآن اور اہلبیت کے درمیان اختلاف نہ ہونا شامل ہیں۔


بعض اہل سنت علما کے مطابق یہ حدیث  [[مودت اہل‌بیت(ع)|مَوَدّت اہل‌بیت]]، ان کا احترام اور ان کے مستحب اور واجب حقوق ادا کرنے پر تاکید کرتی ہے۔ بعض اہل سنت اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ حدیث اہل بیت سے تمسک پر دلالت کرتی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ حدیث امامت اور خلافت پر دلالت نہیں کرتی ہے۔
بعض [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] علما کے مطابق یہ حدیث  [[مودت اہل‌بیت(ع)|مَوَدّت اہل‌بیت]]، ان کا احترام اور ان کے [[مستحب]] اور [[واجب]] حقوق ادا کرنے پر تاکید کرتی ہے۔ بعض اہل سنت اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ حدیث اہل بیت سے تمسک پر دلالت کرتی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ حدیث امامت اور خلافت پر دلالت نہیں کرتی ہے۔


شیعہ اور اہل سنت علما کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صرف ایک بار بیان نہیں ہوئی بلکہ متعدد بار رسول اللہ سے نقل ہوئی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ سے حدیث بار بار بیان ہونا اس کی اہمیت اور عظمت سمجھاتی ہے۔ حدیث ثقلین شیعہ اور سنی متعدد مصادر حدیث میں نقل ہوئی ہے اور دونوں مذاہب اس حدیث کا مضمون صحیح ہونے پر بھی اتفاق رائے رکھتے ہیں۔
شیعہ اور اہل سنت علما کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صرف ایک بار بیان نہیں بلکہ متعدد بار رسول اللہ سے نقل ہوئی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ سے حدیث بار بار بیان ہونا اس کی اہمیت اور عظمت سمجھاتی ہے۔ حدیث ثقلین شیعہ اور سنی متعدد مصادر حدیث میں نقل ہوئی ہے اور دونوں مذاہب اس حدیث کا مضمون صحیح ہونے پر بھی اتفاق رائے رکھتے ہیں۔


یہ حدیث مختلف سند کے ساتھ 20 سے زائد اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔ [[سید ہاشم بحرانی|سید ہاشم بَحرانی]] اپنی کتاب [[غایۃ المرام و حجۃ الخصام (کتاب)|غایَۃُالمَرام]] میں [[الکافی (کتاب)|کافی]]، [[کمال الدین و تمام النعمۃ (کتاب)|کمال‌الدین]]، [[عیون اخبار الرضا (کتاب)|عیون اخبار الرضا(ع)]]، [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائِرالدرجات]] جیسے شیعہ مصادر حدیث سے اسی مضمون کی 82 احادیث اور  [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]، سُنَن تِرْمِذی، سنن نِسائی، سنن دارَمی و [[مسند احمد بن حنبل]] جیسی اہل سنت مصادر حدیث سے 39 احادیث نقل کرتے ہیں۔
یہ حدیث مختلف سند کے ساتھ 20 سے زائد اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔ [[سید ہاشم بحرانی|سید ہاشم بَحرانی]] اپنی کتاب [[غایۃ المرام و حجۃ الخصام (کتاب)|غایَۃُ المَرام]] میں [[الکافی (کتاب)|کافی]]، [[کمال الدین و تمام النعمۃ (کتاب)|کمال‌ الدین]]، [[عیون اخبار الرضا (کتاب)|عیون اخبار الرضا(ع)]]، [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائِر الدرجات]] جیسے شیعہ مصادر حدیث سے اسی مضمون کی 82 احادیث اور  [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]، سُنَن تِرْمِذی، سنن نِسائی، سنن دارَمی و [[مسند احمد بن حنبل]] جیسی اہل سنت مصادر حدیث سے 39 احادیث نقل کرتے ہیں۔


حدیث ثقلین کے مصادیق میں شیعہ علما صراحت سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد شیعہ بارہ ائمہ ہیں اور بعض روایات میں اس بات کی تصریح بھی ہوئی ہے؛ لیکن اہل سنت علما کے درمیان حدیث کا مصداق بیان کرنے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے؛ بعض نے اصحاب کساء کو رسول اللہ کی عترت اور اہل بیت سمجھا ہے بعض نے آل‌ علی، آل‌ عقیل، آل‌ جعفر اور آل‌ عباس جن پر صدقہ حرام ہے کو بھی اہل بیت میں شامل کیا ہے۔
حدیث ثقلین کے مصادیق میں شیعہ علما صراحت سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد شیعوں کے بارہ ائمہ ہیں اور بعض روایات میں اس بات کی تصریح بھی ہوئی ہے؛ لیکن اہل سنت علما کے درمیان حدیث کا مصداق بیان کرنے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے؛ بعض نے [[اصحاب کساء]] کو رسول اللہ کی عترت اور اہل بیت سمجھا ہے بعض نے آل‌ علی، آل‌ عقیل، آل‌ جعفر اور آل‌ عباس جن پر [[صدقہ]] حرام ہے کو بھی اہل بیت میں شامل کیا ہے۔


==اہمیت==
==اہمیت==
سطر 32: سطر 32:
اس حدیث کا پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے مختلف مواقع پر بیان ہونا اس حدیث کی اہمیت اور مقام پر دلالت کرتا ہے۔<ref>واعظ‌زادہ خراسانی، «مقدمہ» در حدیث الثقلین، ص17 و 18.</ref> شیعہ متکلمین نے اس حدیث سے شیعہ ائمہ کی ولایت اور امامت ثابت کرنے کے لئے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102.</ref> مختلف مذاہب اور فرقوں کے کلامی مباحث، جیسے امامت و خلافت کے مسئلے میں اس حدیث سے بحث کی جاتی ہے اور امامت سے مربوط مباحث اور مسائل میں اسے بے نظیر سمجھا گیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102.</ref>
اس حدیث کا پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے مختلف مواقع پر بیان ہونا اس حدیث کی اہمیت اور مقام پر دلالت کرتا ہے۔<ref>واعظ‌زادہ خراسانی، «مقدمہ» در حدیث الثقلین، ص17 و 18.</ref> شیعہ متکلمین نے اس حدیث سے شیعہ ائمہ کی ولایت اور امامت ثابت کرنے کے لئے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102.</ref> مختلف مذاہب اور فرقوں کے کلامی مباحث، جیسے امامت و خلافت کے مسئلے میں اس حدیث سے بحث کی جاتی ہے اور امامت سے مربوط مباحث اور مسائل میں اسے بے نظیر سمجھا گیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102.</ref>
[[فائل:Majmaahl.jpg|تصغیر|[[مجمع جہانی اہل‌بیت]] کے مونوگرام میں حدیث ثقلین کا ایک حصہ]]
[[فائل:Majmaahl.jpg|تصغیر|[[مجمع جہانی اہل‌بیت]] کے مونوگرام میں حدیث ثقلین کا ایک حصہ]]
[[عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار (کتاب)|عَبَقات‌الانوار]] میں کہا گیا ہے کہ اس حدیث کی اسناد کی کثرت اور متن کے استحکام کی وجہ سے قدیم الایام سے یہ حدیث علما اور محدثین کو توجہ کا مرکز رہا ہے اور بعض نے تو اس حدیث کے بارے میں مستقل کتاب یا رسالہ لکھا ہے۔<ref>میر حامد حسین، عبقات الانوار، 1366شمسی۔ ج23، ص1245.</ref> بعض محققین کے مطابق یہ حدیث پہلی صدی ہجری سے ہی شیعہ اور اہل سنت مصادر حدیث میں نقل ہوئی ہے۔ اس کے بعد بھی تاریخی، رجالی، [[کلام اسلامی|کلامی]]، [[اخلاق|اخلاقی]]، [[فقہ|فقہی]] اور [[اصول فقہ|اصولی]] مصادر میں اس کے شایان شان بحث ہوئی ہے<ref>حاج منوچہری، «ثقلین، حدیث»، ص73 و 74.</ref>
[[عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار (کتاب)|عَبَقات‌ الانوار]] میں کہا گیا ہے کہ اس حدیث کی اسناد کی کثرت اور متن کے استحکام کی وجہ سے قدیم الایام سے یہ حدیث علما اور محدثین کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور بعض نے تو اس حدیث کے بارے میں مستقل کتاب یا رسالہ لکھا ہے۔<ref>میر حامد حسین، عبقات الانوار، 1366شمسی۔ ج23، ص1245.</ref> بعض محققین کے مطابق یہ حدیث پہلی صدی ہجری سے ہی شیعہ اور اہل سنت مصادر حدیث میں نقل ہوئی ہے۔ اس کے بعد بھی تاریخی، رجالی، [[کلام اسلامی|کلامی]]، [[اخلاق|اخلاقی]]، [[فقہ|فقہی]] اور [[اصول فقہ|اصولی]] مصادر میں اس کے شایان شان بحث ہوئی ہے<ref>حاج منوچہری، «ثقلین، حدیث»، ص73 و 74.</ref>


دانشنامہ جہان اسلام میں موجود مقالہ «حدیث ثقلین» میں کہا گیا ہے کہ شیعہ علما نے قدیم الایام سے اس حدیث کو حدیثی مثادر میں نقل کیا ہے لیکن متقدمین کی کلامی کتابوں میں امامت اور خلافت کی بحث میں اس سے کم استناد کیا ہے۔ البتہ بعض علما نے کلامی مباحث میں بھی استناد کیا ہے۔ مثال کے طور پر شیخ صدوق نے زمین اللہ کی حجت سے خالی نہ ہونے کی بحث میں، شیخ طوسی نے ہر عصر میں اہل بیت میں سے کوئی ایک امام ہونے میں اس حدیث سے استناد کیا ہے۔ علامہ حلی نے [[نہج الحق و کشف الصدق (کتاب)|کتاب نہج‌الحق]] مین امام علی کی خلافت ثابت کرنے کے لئے جبکہ  [[محمدمحسن فیض کاشانی|فیض کاشانی]] نے قرآن کی عظمت کے بحث میں اس حدیث سے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102 و 103.</ref>  
دانشنامہ جہان اسلام میں موجود مقالہ «حدیث ثقلین» میں کہا گیا ہے کہ شیعہ علما نے قدیم الایام سے اس حدیث کو حدیثی مثادر میں نقل کیا ہے لیکن متقدمین کی کلامی کتابوں میں امامت اور خلافت کی بحث میں اس سے کم استناد کیا ہے۔ البتہ بعض علما نے کلامی مباحث میں بھی استناد کیا ہے۔ مثال کے طور پر [[شیخ صدوق]] نے زمین اللہ کی حجت سے خالی نہ ہونے کی بحث میں، [[شیخ طوسی]] نے ہر عصر میں اہل بیت میں سے کوئی ایک امام ہونے میں اس حدیث سے استناد کیا ہے۔ [[علامہ حلی]] نے [[نہج الحق و کشف الصدق (کتاب)|کتاب نہج‌ الحق]] میں امام علی کی [[خلافت]] ثابت کرنے کے لئے جبکہ  [[محمدمحسن فیض کاشانی|فیض کاشانی]] نے قرآن کی عظمت کے بحث میں اس حدیث سے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102 و 103.</ref>  


کہا جاتا ہے کہ [[میر حامد حسین ہندی]] (متوفی 1306ھ) نے عبقات الانوار میں اس حدیث کی سند اور دلالت پر کئی فصلوں میں بحث کرکے اس حدیث کو پہچانوانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بعد اس حدیث پر بہت توجہ دی گئی یہاں تک کہ معاصر علما کے پاس یہ اہلبیت سے تمسک کی ضرورت اور لزوم کے لئے استناد کی جانے والی اہم روایات میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص103.</ref>
کہا جاتا ہے کہ [[میر حامد حسین ہندی]] (متوفی 1306ھ) نے عبقات الانوار میں اس حدیث کی سند اور دلالت پر کئی فصلوں میں بحث کرکے اس حدیث کو پہچانوانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بعد اس حدیث پر بہت توجہ دی گئی یہاں تک کہ معاصر علما کے پاس یہ حدیث اہلبیت سے تمسک کی ضرورت اور لزوم کے لئے استناد کی جانے والی اہم روایات میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص103.</ref>


[[قرآن]] کی عظمت، اہل بیت کی احادیث کی حجیت، ظواہرِ قرآن کی حجیت، قرآن اور احادیث اہل بیت کی مطابقت اور قرآن کا احادیث اہل بیتؑ پر مقدم ہونے کے حوالے سے شیعہ متکلمین نے حدیث ثقلین سے استناد کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص105.</ref>
[[قرآن]] کی عظمت، اہل بیت کی احادیث کی حجیت، ظواہرِ قرآن کی حجیت، قرآن اور احادیث اہل بیت کی مطابقت اور قرآن کا احادیث اہل بیتؑ پر مقدم ہونے کے حوالے سے شیعہ متکلمین نے حدیث ثقلین سے استناد کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص105.</ref>


یہ حدیث چونکہ اہل بیت کی منزلت اور ان کی علمی مرجعیت پر تاکید کرتی ہے اسی لئے مذاہب اسلامی کے مابین ہونے والی گفتگو اور مناظروں میں راہ گشا ثابت ہوئی ہے۔ جیسا کہ [[سید عبدالحسین شرف‌الدین]] کا شیخ سلیم بُشری سے ہونے والی گفتگو میں یہ بات مشہود ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص103.</ref>
یہ حدیث چونکہ اہل بیت کی منزلت اور ان کی علمی مرجعیت پر تاکید کرتی ہے اسی لئے مذاہب اسلامی کے مابین ہونے والی گفتگو اور مناظروں میں راہ گشا ثابت ہوئی ہے۔ جیسا کہ [[سید عبدالحسین شرف‌الدین|سید عبد الحسین شرف‌ الدین]] کا شیخ سلیم بُشری سے ہونے والی گفتگو میں یہ بات مشہود ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص103.</ref>


== متن حدیث ==
==متن حدیث==
حدیث ثقلین شیعہ<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص294، ج2،‌ ص415؛ صفار، بصائرالدرجات، 1404ھ، ص413؛ خزاز رازی،‌ کفایۃالاثر، 1401ھ، ص87، 137، 163، 265؛ قمی، تفسیرالقمی، 1404ھ، ج1،‌ ص172، 173، ج2، ص345، 447؛ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج1، ص229، ج2، ص30، 31، 62.</ref> اور اہل سنت<ref>ملاحظہ کریں: مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج4،‌ ص1873؛ نسائی، السنن الکبری، 1421ھ، ج7، ص310 و 437؛ ترمذی، سنن‌التزمذی، 1395ھ،  ج5، ص662، 663؛ ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، 1421ھ، ج17، ص169، 170، 211، 308، 309، ج18، ص114، حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص118، 160.</ref> مختلف مصادر حدیث میں مختلف عبارتوں کے ساتھ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] سے نقل ہوئی ہے۔<ref>مختلف اسناد اور عبارتوں سے آشنائی کے لئے ملاحظہ کریں:بحرانی، غایۃالمرام، 1422ھ، ج2،‌ ص304-367؛ شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج9، ص309-375، ج18، ص261-289؛  میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ کل جلد 18 و 19.</ref>
حدیث ثقلین شیعہ<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص294، ج2،‌ ص415؛ صفار، بصائرالدرجات، 1404ھ، ص413؛ خزاز رازی،‌ کفایۃالاثر، 1401ھ، ص87، 137، 163، 265؛ قمی، تفسیرالقمی، 1404ھ، ج1،‌ ص172، 173، ج2، ص345، 447؛ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج1، ص229، ج2، ص30، 31، 62.</ref> اور اہل سنت<ref>ملاحظہ کریں: مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج4،‌ ص1873؛ نسائی، السنن الکبری، 1421ھ، ج7، ص310 و 437؛ ترمذی، سنن‌التزمذی، 1395ھ،  ج5، ص662، 663؛ ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، 1421ھ، ج17، ص169، 170، 211، 308، 309، ج18، ص114، حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص118، 160.</ref> مختلف مصادر حدیث میں مختلف عبارتوں کے ساتھ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] سے نقل ہوئی ہے۔<ref>مختلف اسناد اور عبارتوں سے آشنائی کے لئے ملاحظہ کریں:بحرانی، غایۃالمرام، 1422ھ، ج2،‌ ص304-367؛ شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج9، ص309-375، ج18، ص261-289؛  میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ کل جلد 18 و 19.</ref>


[[شیعہ|اہل تشیع]] کی بنیادی چار [[کتب اربعہ|کتابوں]] میں شامل [[اصول کافی]] میں یہ [[حدیث]] اس صورت میں وارد ہوئی ہے:
[[شیعہ|اہل تشیع]] کی بنیادی چار [[کتب اربعہ|کتابوں]] میں شامل [[اصول کافی]] میں یہ [[حدیث]] اس صورت میں وارد ہوئی ہے:


<font color=green>{{حدیث|'''"...إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اِسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِکُوا وَ لَاتُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُم‏‏؛...}}"'''</font>۔
<font color="green">{{حدیث|'''"...إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اِسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِکُوا وَ لَاتُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُم‏‏؛...}}'''"'''</font>۔
:ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو امانتیں چھوڑے جارہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میری [[عترت]] جو [[اہل بیت علیہم السلام]] اور میرے خاندان والے ہیں۔ اے لوگو! سنو، میں نے تمہیں یہ پیغام پہنچا دیا کہ تمہیں حوض کے کنارے میرے سامنے لایا جائے گا؛ چنانچہ میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے ان دو امانتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؛ یعنی [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میرے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] ان سے آگے مت جاؤ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور ان کو کچھ مت سکھاؤ کیونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص294.</ref>
:ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو امانتیں چھوڑے جارہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میری [[عترت]] جو [[اہل بیت علیہم السلام]] اور میرے خاندان والے ہیں۔ اے لوگو! سنو، میں نے تمہیں یہ پیغام پہنچا دیا کہ تمہیں حوض کے کنارے میرے سامنے لایا جائے گا؛ چنانچہ میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے ان دو امانتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؛ یعنی [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میرے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] ان سے آگے مت جاؤ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور ان کو کچھ مت سکھاؤ کیونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص294.</ref>


سطر 71: سطر 71:


==اعتبار حدیث==
==اعتبار حدیث==
شیعہ علما حدیث ثقلین کو  [[تواتر|متواتر]] سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص130؛ بحرانی، منارالہدی، 1405ھ، ص670؛ مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6،‌ ص240؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص7؛ سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص106؛ شرف‌الدین، المراجعات،‌ 1426ھ، ص70.</ref> 12ویں صدی ہجری کے شیعہ محدث [[یوسف بن احمد بحرانی|صاحبْ‌حَدائق]] کے مطابق یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت کے درمیان [[تواتر معنوی|متواتر معنوی]] ہے۔<ref>بحرانی، الحدائق الناظرۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج9، ص360.</ref> گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین [[محمدصالح بن احمد مازندرانی|ملاصالح مازندرانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے مضمون اور اس کے صحیح ہونے میں شیعہ اور اہل‌ سنت کا اتفاق ہے۔<ref>مازندرانی، شرح‌الکافی، 1382ھ، ج6، ص124، ج10، ص118؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص7؛ خرازی، بدایۃالمعارف، 1417ھ، ج2، ص19.</ref> شیعہ متکلم؛ [[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کی صحت میں سوائے جاہل اور دشمن کے کوئی اور شک نہیں کرسکتا ہے۔<ref>سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص105؛ سبحانی، سیمای عقاید شیعہ،‌ 1386شمسی۔ ص232.</ref>  
شیعہ علما حدیث ثقلین کو  [[تواتر|متواتر]] سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص130؛ بحرانی، منارالہدی، 1405ھ، ص670؛ مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6،‌ ص240؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص7؛ سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص106؛ شرف‌الدین، المراجعات،‌ 1426ھ، ص70.</ref> 12ویں صدی ہجری کے شیعہ محدث [[یوسف بن احمد بحرانی|صاحبْ‌ حَدائق]] کے مطابق یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت کے درمیان [[تواتر معنوی|متواتر معنوی]] ہے۔<ref>بحرانی، الحدائق الناظرۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج9، ص360.</ref> گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین [[محمدصالح بن احمد مازندرانی|ملا صالح مازندرانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے مضمون اور اس کے صحیح ہونے میں شیعہ اور اہل‌ سنت کا اتفاق ہے۔<ref>مازندرانی، شرح‌الکافی، 1382ھ، ج6، ص124، ج10، ص118؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص7؛ خرازی، بدایۃالمعارف، 1417ھ، ج2، ص19.</ref> شیعہ متکلم؛ [[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کی صحت میں سوائے جاہل اور دشمن کے کوئی اور شک نہیں کرسکتا ہے۔<ref>سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص105؛ سبحانی، سیمای عقاید شیعہ،‌ 1386شمسی۔ ص232.</ref>  


[[صحیح البخاری (کتاب)|صحیح بخاری]] کے بعد اہل سنت کی سب سے اہم کتاب [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]<ref>مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، ج4،‌ ص1873، حدیث 36.</ref> کے علاوہ اہل سنت کے محدث [[حاکم نیشابوری]] نے بھی [[المستدرک علی الصحیحین (کتاب)|المستدرک]] میں حدیث ثقلین کو [[زید بن ارقم|زید بن اَرقم]] سے نقل کیا ہے۔  اور  [[محمد بن اسماعیل بخاری|بُخاری]] و [[مسلم بن حجاج نیشابوری|مُسْلم نیشابوری]] کے تصریح کردہ شرائط کے مطابق اس حدیث کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص160.</ref>شافعی عالم دین [[ابن حجر ہیتمی|ابن‌حَجَر ہَیْتَمی]] نے بھی اس حدیث کو صحیح جانا ہے۔<ref>ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص439 و 653.</ref> عبدالرَّؤُوف مَناوی اپنی کتاب فَیْضُ‌القَدیر میں ہیثمی سے نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔<ref>مناوی، فیض‌القدیر، 1391ھ، ج3، ص15.</ref> شافعی عالم دین علی بن عبداللہ سَمْہودی اپنی کتاب [[جواہر العقدین فی فضل الشرفین (کتاب)|جَواہِرُالعِقْدَیْن]] میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو [[احمد بن حنبل|احمد بن حَنْبَل]] اپنی کتاب مُسند احمد میں صحیح اسناد سے اور سلیمان‌ بن‌ احمد طَبَرانی اپنی کتاب مُعْجَمُ‌ الکبیر میں اس روایت کو ثقہ راویوں کی سند سے نقل کیا ہے۔<ref>سمہودی، جواہرالعقدين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول، ص82.</ref>
[[صحیح البخاری (کتاب)|صحیح بخاری]] کے بعد اہل سنت کی سب سے اہم کتاب [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]<ref>مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، ج4،‌ ص1873، حدیث 36.</ref> کے علاوہ اہل سنت کے محدث [[حاکم نیشابوری]] نے بھی [[المستدرک علی الصحیحین (کتاب)|المستدرک]] میں حدیث ثقلین کو [[زید بن ارقم|زید بن اَرقم]] سے نقل کیا ہے۔  اور  [[محمد بن اسماعیل بخاری|بُخاری]] و [[مسلم بن حجاج نیشابوری|مُسْلم نیشابوری]] کے تصریح کردہ شرائط کے مطابق اس حدیث کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص160.</ref>شافعی عالم دین [[ابن حجر ہیتمی|ابن‌حَجَر ہَیْتَمی]] نے بھی اس حدیث کو صحیح جانا ہے۔<ref>ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص439 و 653.</ref> عبدالرَّؤُوف مَناوی اپنی کتاب فَیْضُ‌القَدیر میں ہیثمی سے نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔<ref>مناوی، فیض‌القدیر، 1391ھ، ج3، ص15.</ref> شافعی عالم دین علی بن عبداللہ سَمْہودی اپنی کتاب [[جواہر العقدین فی فضل الشرفین (کتاب)|جَواہِرُ العِقْدَیْن]] میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو [[احمد بن حنبل|احمد بن حَنْبَل]] اپنی کتاب مُسند احمد میں صحیح اسناد سے اور سلیمان‌ بن‌ احمد طَبَرانی اپنی کتاب مُعْجَمُ‌ الکبیر میں اس روایت کو ثقہ راویوں کی سند سے نقل کیا ہے۔<ref>سمہودی، جواہرالعقدين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول، ص82.</ref>


چھٹی ہجری کے جنبلی عالم دین ابن‌جوزی اپنی کتاب العِلَل المُتَناہیہ میں حدیث ثقلین کو ایک خاص سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور بعض راویوں کے ضعیف ہونے کی وجہ سے حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔<ref>ابن‌جوزی، العلل المتناہیۃ فی الاحادیث الواہیۃ، 1401ھ، ج1، ص268.</ref> سَمہودی اور ابن‌حجر ہیتمی جیسے علما نے ابن‌ جوزی کا حدیث ثقلین کو ضعیف سمجھنے کو درست نہیں سمجھا ہے؛ کیونکہ یہ حدیث صحیح مسلم اور دیگر کتابوں میں اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی نقل ہوئی ہے۔<ref> سمہودی، جواہرالعقدين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص73؛ ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص652.</ref>
چھٹی ہجری کے جنبلی عالم دین ابن‌جوزی اپنی کتاب العِلَل المُتَناہیہ میں حدیث ثقلین کو ایک خاص سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور بعض راویوں کے ضعیف ہونے کی وجہ سے حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔<ref>ابن‌جوزی، العلل المتناہیۃ فی الاحادیث الواہیۃ، 1401ھ، ج1، ص268.</ref> سَمہودی اور ابن‌حجر ہیتمی جیسے علما نے ابن‌ جوزی کا حدیث ثقلین کو ضعیف سمجھنے کو درست نہیں سمجھا ہے؛ کیونکہ یہ حدیث صحیح مسلم اور دیگر کتابوں میں اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی نقل ہوئی ہے۔<ref> سمہودی، جواہرالعقدين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص73؛ ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص652.</ref>


== راوی اور مصادر حدیث ==
==راوی اور مصادر حدیث==
شیعہ علما [[سید عبدالحسین شرف‌الدین|علامہ شرف‌الدین]]،<ref>شرف‌الدین، المراجعات، 1426ھ، ص70.</ref> اور  [[جعفر سبحانی]]<ref>سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص105؛ سبحانی، سیمای عقاید شیعہ،‌ 1386شمسی۔ ص232.</ref> اور سنی علما میں سمہودی<ref>ملاحظہ کریں: مناوی، فیض القدیر، 1391ھ، ج3، ص14.</ref> اور ابن‌حجر ہیتمی<ref>ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص440 و653.</ref> نے حدیث ثقلین کو مختلف اسناد کے ساتھ 20 سے زائد اصحاب پیغمبر سے نقل کیا ہے۔ جبکہ بعض نے 50 سے زائد صحابی کا بھی کہا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت(ع)، مکتبۃالثقلین، ص5.</ref> [[میر حامدحسین ہندی|میر حامد حسین]] نے کتاب [[عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار (کتاب)|عَبَقات‌الاَنْوار]] میں حدیث ثقلین کو 30 اصحاب اور 200 سے زائد اہل سنت علما کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنی کتابوں میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔<ref>میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، مقدمہ، ص2.</ref> آپ نے دوسری صدی ہجری سے 13ویں صدی تک کے اہل سنت راویوں کے نام ذکر کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص9-15.</ref> [[قوام‌الدین محمد وشنوی]] کے مطابق اس حدیث کو نقل کرنے کے اسناد 60 سے زائد ہیں۔<ref>وشنوی، حدیث‌الثقلین، 1428ھ، ص41.</ref>  
شیعہ علما [[سید عبدالحسین شرف‌الدین|علامہ شرف‌الدین]]،<ref>شرف‌الدین، المراجعات، 1426ھ، ص70.</ref> اور  [[جعفر سبحانی]]<ref>سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص105؛ سبحانی، سیمای عقاید شیعہ،‌ 1386شمسی۔ ص232.</ref> اور سنی علما میں سمہودی<ref>ملاحظہ کریں: مناوی، فیض القدیر، 1391ھ، ج3، ص14.</ref> اور ابن‌حجر ہیتمی<ref>ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص440 و653.</ref> نے حدیث ثقلین کو مختلف اسناد کے ساتھ 20 سے زائد اصحاب پیغمبر سے نقل کیا ہے۔ جبکہ بعض نے 50 سے زائد صحابی کا بھی کہا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت(ع)، مکتبۃالثقلین، ص5.</ref> [[میر حامدحسین ہندی|میر حامد حسین]] نے کتاب [[عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار (کتاب)|عَبَقات‌الاَنْوار]] میں حدیث ثقلین کو 30 اصحاب اور 200 سے زائد اہل سنت علما کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنی کتابوں میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔<ref>میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، مقدمہ، ص2.</ref> آپ نے دوسری صدی ہجری سے 13ویں صدی تک کے اہل سنت راویوں کے نام ذکر کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، 1366شمسی۔‌ ج18، ص9-15.</ref> [[قوام‌الدین محمد وشنوی]] کے مطابق اس حدیث کو نقل کرنے کے اسناد 60 سے زائد ہیں۔<ref>وشنوی، حدیث‌الثقلین، 1428ھ، ص41.</ref>  


سطر 86: سطر 86:
[[سید ہاشم بحرانی|سید ہاشم بَحرانی]] نے [[غایۃ المرام و حجۃ الخصام (کتاب)|غایَۃُالمَرام]] میں حدیث ثقلین کے مضمون سے مشابہ 82 حدیث کو مختلف شیعہ کتابوں سے نقل کیا ہے جن میں [[الکافی (کتاب)|کافی]]، [[کمال الدین و تمام النعمۃ (کتاب)|کمال‌الدین]]، [[الامالی (شیخ صدوق)|اَمالی صدوق]]، [[الامالی (شیخ مفید)|اَمالی مفید]]، [[الامالی (شیخ طوسی)|اَمالی طوسی]]، [[عیون اخبار الرضا (کتاب)|عُیونُ اَخبارِ الرِّضا]]، [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائرالدرجات]]<ref>بحرانی، غایۃ المرام و حجۃ الخصام، 1422ھ، ج2، ص320-367.</ref> شامل ہیں جبکہ اہل سنت مآخذ میں 39 احادیث جمع آوری کی ہے<ref>بحرانی، غایۃ المرام و حجۃ الخصام، 1422ھ، ج2، ص304-320.</ref> جن میں [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]،<ref>مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء‌التراث العربی، ص1873.</ref> [[سنن ترمذی|سُنَن تِرْمِذی]]،<ref name=":5">ترمذی، سنن الترمذی، 1419، ج5،‌ ص478، 479.</ref> [[سنن نسائی]]،<ref name=":6">نسائی، السنن الکبری، 1421ھ، ج7، ص310، 437.</ref> [[سنن دارمی|سنن دارَمی]]،<ref name=":7">دارمی، سنن‌الدارمی، 1421ھ، ج4، ص2090.</ref> مُسند احمد بن حنبل،<ref name=":8">ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، 1421ھ، ج17، ص211، 309، ج18، ص114، ج32، ص10، 11، ج35، ص456.</ref> المُسْتَدرکُ عَلیَ الصَّحیحَین،<ref name=":9">حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص118، 160.</ref> السُّنَنُ الکبری،<ref name=":10">بیہقی، السنن الکبری، 1424ھ، ج2، ص212، حدیث 2857.</ref> [[مناقب امیرالمؤمنین (کتاب)|مَناقب خوارزمی]]،<ref name=":11">خوارزمی، المناقب، 1411ھ، ص155، حدیث 182.</ref> المُعجَم الکبیر،<ref name=":12">طبرانی، المعجم الکبیر، 1405ھ، ج3،‌ ص66، 67، 180، ج5، ص154، 166، 169، 170، 182، 186.</ref> کتابُ‌السُّنۃ،<ref name=":13"> ابن‌ابی‌عاصم، کتاب‌السنہ، 1413ھ، ص629، 630.</ref> مَجْمَع الزَّوائِد و مَنْبَع الفَوائِد،<ref name=":14">ہیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، 1414ھ، ج9، ص163.</ref> [[فرائد السمطین (کتاب)|فَرائِدالسِّمْطَین]]،<ref name=":15">حموی جوینی، فرائدالسمطین، مؤسسہ محمودی، ج2، ص146.</ref> [[جواہر العقدین فی فضل الشرفین (کتاب)|جَواہِرالعِقْدَین،]]<ref name=":16">سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص78، 79، 83 ، 86-88.</ref> جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)،<ref name=":17">ابن‌اثیر، جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)، 1420ھ، ج1، ص277، حدیث 65.</ref> [[کنز العمال|کَنْزالعُمّال]]،<ref name=":18">متقی ہندی، کنزالعمال، 1401ھ، ج1، ص172، حدیث 870، ص186، حدیث 945، 946.</ref> [[حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء (کتاب)|حِلْیَۃ الاَولیاء و طبقات الاَصْفِیاء]]،<ref name=":19">ابونعیم اصفہانی، حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، 1407ھ، ج1، ص355.</ref> المُؤْتَلف و المُخْتَلف،<ref>دارقطنی، المؤتلف و المختلف، 1406ھ، ج2، ص1046.</ref> اِسْتِجْلاب اِرْتَقاء الغُرَف،<ref>سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص351، 352، 359، 362، 363.</ref> [[احیاء المیت بفضائل اہل البیت (کتاب)|اِحْیاء المَیّت بفضائل اہل البیت(ع)]]<ref>سیوطی، احياء المیت بفضائل اہل البیت‌(ع)، 1421ھ، ص9، 10، 23، 42.</ref> و جامع المَسانید و السُّنَن.<ref>ابن‌کثیر، جامع المسانید و السنن، 1419ھ، ج3، ص98، 156.</ref> شامل ہیں۔
[[سید ہاشم بحرانی|سید ہاشم بَحرانی]] نے [[غایۃ المرام و حجۃ الخصام (کتاب)|غایَۃُالمَرام]] میں حدیث ثقلین کے مضمون سے مشابہ 82 حدیث کو مختلف شیعہ کتابوں سے نقل کیا ہے جن میں [[الکافی (کتاب)|کافی]]، [[کمال الدین و تمام النعمۃ (کتاب)|کمال‌الدین]]، [[الامالی (شیخ صدوق)|اَمالی صدوق]]، [[الامالی (شیخ مفید)|اَمالی مفید]]، [[الامالی (شیخ طوسی)|اَمالی طوسی]]، [[عیون اخبار الرضا (کتاب)|عُیونُ اَخبارِ الرِّضا]]، [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائرالدرجات]]<ref>بحرانی، غایۃ المرام و حجۃ الخصام، 1422ھ، ج2، ص320-367.</ref> شامل ہیں جبکہ اہل سنت مآخذ میں 39 احادیث جمع آوری کی ہے<ref>بحرانی، غایۃ المرام و حجۃ الخصام، 1422ھ، ج2، ص304-320.</ref> جن میں [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]،<ref>مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء‌التراث العربی، ص1873.</ref> [[سنن ترمذی|سُنَن تِرْمِذی]]،<ref name=":5">ترمذی، سنن الترمذی، 1419، ج5،‌ ص478، 479.</ref> [[سنن نسائی]]،<ref name=":6">نسائی، السنن الکبری، 1421ھ، ج7، ص310، 437.</ref> [[سنن دارمی|سنن دارَمی]]،<ref name=":7">دارمی، سنن‌الدارمی، 1421ھ، ج4، ص2090.</ref> مُسند احمد بن حنبل،<ref name=":8">ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، 1421ھ، ج17، ص211، 309، ج18، ص114، ج32، ص10، 11، ج35، ص456.</ref> المُسْتَدرکُ عَلیَ الصَّحیحَین،<ref name=":9">حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص118، 160.</ref> السُّنَنُ الکبری،<ref name=":10">بیہقی، السنن الکبری، 1424ھ، ج2، ص212، حدیث 2857.</ref> [[مناقب امیرالمؤمنین (کتاب)|مَناقب خوارزمی]]،<ref name=":11">خوارزمی، المناقب، 1411ھ، ص155، حدیث 182.</ref> المُعجَم الکبیر،<ref name=":12">طبرانی، المعجم الکبیر، 1405ھ، ج3،‌ ص66، 67، 180، ج5، ص154، 166، 169، 170، 182، 186.</ref> کتابُ‌السُّنۃ،<ref name=":13"> ابن‌ابی‌عاصم، کتاب‌السنہ، 1413ھ، ص629، 630.</ref> مَجْمَع الزَّوائِد و مَنْبَع الفَوائِد،<ref name=":14">ہیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، 1414ھ، ج9، ص163.</ref> [[فرائد السمطین (کتاب)|فَرائِدالسِّمْطَین]]،<ref name=":15">حموی جوینی، فرائدالسمطین، مؤسسہ محمودی، ج2، ص146.</ref> [[جواہر العقدین فی فضل الشرفین (کتاب)|جَواہِرالعِقْدَین،]]<ref name=":16">سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص78، 79، 83 ، 86-88.</ref> جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)،<ref name=":17">ابن‌اثیر، جامع الاصول فی احادیث الرسول(ص)، 1420ھ، ج1، ص277، حدیث 65.</ref> [[کنز العمال|کَنْزالعُمّال]]،<ref name=":18">متقی ہندی، کنزالعمال، 1401ھ، ج1، ص172، حدیث 870، ص186، حدیث 945، 946.</ref> [[حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء (کتاب)|حِلْیَۃ الاَولیاء و طبقات الاَصْفِیاء]]،<ref name=":19">ابونعیم اصفہانی، حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، 1407ھ، ج1، ص355.</ref> المُؤْتَلف و المُخْتَلف،<ref>دارقطنی، المؤتلف و المختلف، 1406ھ، ج2، ص1046.</ref> اِسْتِجْلاب اِرْتَقاء الغُرَف،<ref>سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص351، 352، 359، 362، 363.</ref> [[احیاء المیت بفضائل اہل البیت (کتاب)|اِحْیاء المَیّت بفضائل اہل البیت(ع)]]<ref>سیوطی، احياء المیت بفضائل اہل البیت‌(ع)، 1421ھ، ص9، 10، 23، 42.</ref> و جامع المَسانید و السُّنَن.<ref>ابن‌کثیر، جامع المسانید و السنن، 1419ھ، ج3، ص98، 156.</ref> شامل ہیں۔


== حدیث صادر ہونے کا زمان و مکان==
==حدیث صادر ہونے کا زمان و مکان==
شیعہ عالم دین [[شیخ مفید]]<ref>مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص179-180</ref> اور [[سید نوراللہ حسینی شوشتری|قاضی نوراللہ شوشتری]]،<ref>شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج9، ص309.</ref> کا کہنا ہے کہ حدیث ثقلین متعدد بار پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: سبحانی، سیمای عقاید شیعہ،‌ 1386شمسی، ص232؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن،‌1386شمسی،‌ ج9، ص62، 77؛ شرف‌الدین، المراجعات، 1426ھ، ص70.</ref> [[ناصر مکارم شیرازی]] کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے صرف ایک مرتبہ روایات بیان کیا ہو اور مختلف راویوں نے مختلف عبارتوں میں اسے نقل کیا ہو؛ بلکہ روایات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور متعدد بھی۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن،‌1386شمسی،‌ ج9، ص62.</ref> [[سید نوراللہ حسینی شوشتری|قاضی نوراللہ شوشتری]] نے [[احقاق الحق و ازہاق الباطل (کتاب)|اِحقاق‌الحق]] میں کہا ہے کہ حدیث ثقلین پیغمبر اکرمؐ سے چار جگہوں پر نقل ہوئی ہے: [[روز عرفہ]] اونٹ پر، [[مسجد خیف|مسجد خَیف]] میں، [[حجۃ الوداع|حَجَّۃُالوداع]] کے دوران  [[خطبہ غدیر]] میں اور روز رحلت منبر پر۔<ref>شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج9، ص309.</ref> [[سید عبدالحسین شرف‌الدین]] نے پانچ جگہوں کا نام لیا ہے: روز عرفہ، [[غدیر خم|غدیر خم]]، [[طائف]] سے واپسی پر، [[مدینہ]]  میں منبر پر اور بیماری کے دوران پیغمبر کے حجرے میں۔<ref>شرف‌الدین، المراجعات، 1426ھ، ص70.</ref>
شیعہ عالم دین [[شیخ مفید]]<ref>مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص179-180</ref> اور [[سید نوراللہ حسینی شوشتری|قاضی نوراللہ شوشتری]]،<ref>شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج9، ص309.</ref> کا کہنا ہے کہ حدیث ثقلین متعدد بار پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: سبحانی، سیمای عقاید شیعہ،‌ 1386شمسی، ص232؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن،‌1386شمسی،‌ ج9، ص62، 77؛ شرف‌الدین، المراجعات، 1426ھ، ص70.</ref> [[ناصر مکارم شیرازی]] کے مطابق ایسا نہیں ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے صرف ایک مرتبہ روایات بیان کیا ہو اور مختلف راویوں نے مختلف عبارتوں میں اسے نقل کیا ہو؛ بلکہ روایات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور متعدد بھی۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن،‌1386شمسی،‌ ج9، ص62.</ref> [[سید نوراللہ حسینی شوشتری|قاضی نوراللہ شوشتری]] نے [[احقاق الحق و ازہاق الباطل (کتاب)|اِحقاق‌الحق]] میں کہا ہے کہ حدیث ثقلین پیغمبر اکرمؐ سے چار جگہوں پر نقل ہوئی ہے: [[روز عرفہ]] اونٹ پر، [[مسجد خیف|مسجد خَیف]] میں، [[حجۃ الوداع|حَجَّۃُالوداع]] کے دوران  [[خطبہ غدیر]] میں اور روز رحلت منبر پر۔<ref>شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج9، ص309.</ref> [[سید عبدالحسین شرف‌الدین]] نے پانچ جگہوں کا نام لیا ہے: روز عرفہ، [[غدیر خم|غدیر خم]]، [[طائف]] سے واپسی پر، [[مدینہ]]  میں منبر پر اور بیماری کے دوران پیغمبر کے حجرے میں۔<ref>شرف‌الدین، المراجعات، 1426ھ، ص70.</ref>


سطر 115: سطر 115:
لغت کی کتابوں میں عترت سے مراد نسل اور قریبی رشتہ،<ref>جوہری، الصحاح، 1407ھ، ج2، ص 735.</ref> اولاد اور ذریت<ref>ابن‌منظور، لسان‌العرب، 1414ھ، ج4، ص538.</ref> یا مخصوص رشتہ دار<ref>ابن‌اثیر، النہایہ، 1367شمسی، ج3، ص177.</ref> ہیں۔
لغت کی کتابوں میں عترت سے مراد نسل اور قریبی رشتہ،<ref>جوہری، الصحاح، 1407ھ، ج2، ص 735.</ref> اولاد اور ذریت<ref>ابن‌منظور، لسان‌العرب، 1414ھ، ج4، ص538.</ref> یا مخصوص رشتہ دار<ref>ابن‌اثیر، النہایہ، 1367شمسی، ج3، ص177.</ref> ہیں۔


== ثقلین کی وجہ تسمیہ ==
==ثقلین کی وجہ تسمیہ==
اس حدیث میں ثقلین کا لفظ آنے کی وجہ سے اس نام سے مشہور ہوئی ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص100.</ref> ثقلین کو «ثَقَلَیْن» اور «ثِقْلَیْن» دو طرح سے پڑھ سکتے ہیں؛ پہلے کے معنی گرانبہا چیز اور دوسرے کے معنی زیادہ وزنی چیز کے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص62.</ref> قرآن اور اہل بیتؑ کو ثقلین نام دینے کے حوالے سے مختلف نظریات پیش ہوئے ہیں۔ [[جامع احادیث الشیعہ (کتاب)|جامع احادیث الشیعہ]] کے مقدمے میں 9 وجوہات ذکر ہوئے ہیں<ref>معزی ملایری، جامع احادیث الشیعۃ، 1373شمسی، ج1، ص36-41؛</ref> جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
اس حدیث میں ثقلین کا لفظ آنے کی وجہ سے اس نام سے مشہور ہوئی ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص100.</ref> ثقلین کو «ثَقَلَیْن» اور «ثِقْلَیْن» دو طرح سے پڑھ سکتے ہیں؛ پہلے کے معنی گرانبہا چیز اور دوسرے کے معنی زیادہ وزنی چیز کے ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص62.</ref> قرآن اور اہل بیتؑ کو ثقلین نام دینے کے حوالے سے مختلف نظریات پیش ہوئے ہیں۔ [[جامع احادیث الشیعہ (کتاب)|جامع احادیث الشیعہ]] کے مقدمے میں 9 وجوہات ذکر ہوئے ہیں<ref>معزی ملایری، جامع احادیث الشیعۃ، 1373شمسی، ج1، ص36-41؛</ref> جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
* ابوالعباس ثَعْلَب، تیسری صدی ہجری کے ادیب اور زبان‌ شناس سے ہونے والے سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے چونکہ اہل بیتؑ اور قرآن کی پیروی کرنا سخت اور سنگین ہے اس لئے ثقلین نام دیا گیا ہے؛<ref>صدوق، معانی الاخبار، 1403ھ، ص90؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1395ھ، ج1، ص236؛ حموی جوینی، فرائد السمطین، مؤسسہ محمودی، ج2، ص145.</ref>کیونکہ یہ دونوں، انسان کو  بندگی، اخلاص، عدالت اور نیکی کا حکم دیتے ہیں اور فحشا اور منکرات نیز نفس امارہ اور شیطان کی پیروی سے منع کرتے ہیں۔<ref>احمدی میانجی، فی رحاب حدیث الثقلین و احادیث اثنی‌عشر، 1391شمسی، ص89.</ref>
*ابوالعباس ثَعْلَب، تیسری صدی ہجری کے ادیب اور زبان‌ شناس سے ہونے والے سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے چونکہ اہل بیتؑ اور قرآن کی پیروی کرنا سخت اور سنگین ہے اس لئے ثقلین نام دیا گیا ہے؛<ref>صدوق، معانی الاخبار، 1403ھ، ص90؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1395ھ، ج1، ص236؛ حموی جوینی، فرائد السمطین، مؤسسہ محمودی، ج2، ص145.</ref>کیونکہ یہ دونوں، انسان کو  بندگی، اخلاص، عدالت اور نیکی کا حکم دیتے ہیں اور فحشا اور منکرات نیز نفس امارہ اور شیطان کی پیروی سے منع کرتے ہیں۔<ref>احمدی میانجی، فی رحاب حدیث الثقلین و احادیث اثنی‌عشر، 1391شمسی، ص89.</ref>
* بعض کا کہنا ہے کہ قرآن و اہل بیتؑ کو اس لئے ثقلین کہا گیا کہ قرآن اور اہل بیتؑ کے حقوق پر عمل اور ان کی حرمت کی پاسداری کرنا سخت اور سنگین ہے۔<ref>سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص92؛ ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص653.</ref>
*بعض کا کہنا ہے کہ قرآن و اہل بیتؑ کو اس لئے ثقلین کہا گیا کہ قرآن اور اہل بیتؑ کے حقوق پر عمل اور ان کی حرمت کی پاسداری کرنا سخت اور سنگین ہے۔<ref>سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص92؛ ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص653.</ref>
*اہل سنت علما کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ کی منزلت اور مقام بیان کرنے کے لئے ثقلین کہا گیا ہے؛<ref> سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص92؛ ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص653؛ سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص364.</ref> کیونکہ ہر قیمت اور گراں بہا چیز کو ثقیل کہا جاتا ہے۔<ref>سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص364.</ref>
*اہل سنت علما کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ کی منزلت اور مقام بیان کرنے کے لئے ثقلین کہا گیا ہے؛<ref> سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص92؛ ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، 1417ھ، ج2،‌ ص653؛ سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص364.</ref> کیونکہ ہر قیمت اور گراں بہا چیز کو ثقیل کہا جاتا ہے۔<ref>سخاوی، استجلاب ارتقاء الغرف، بیروت، ج1، ص364.</ref>
*از نظر عدہ‌ای ہمچون سَمہودی اور بعض دیگر علما کا کہنا ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ علوم دینی، شرعی احکام اور اسرار کے معدن ہیں اس لئے پیغمبر اکرمؐ نے انہیں ثقلین کہا ہے۔ اسی سبب اہل بیت کی پیروی اور ان سے تمسک کرنے اور ان سے سیکھنے کی ترغیب دی ہے۔<ref>سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص92؛ معزی ملایری، جامع احادیث الشیعہ، 1373شمسی، ج1، ص36، 37؛ احمدی میانجی، فی رحاب حدیث الثقلین و احادیث اثنی‌عشر، 1391شمسی، ص87، 88.</ref>
*از نظر عدہ‌ای ہمچون سَمہودی اور بعض دیگر علما کا کہنا ہے کہ قرآن اور اہل بیتؑ علوم دینی، شرعی احکام اور اسرار کے معدن ہیں اس لئے پیغمبر اکرمؐ نے انہیں ثقلین کہا ہے۔ اسی سبب اہل بیت کی پیروی اور ان سے تمسک کرنے اور ان سے سیکھنے کی ترغیب دی ہے۔<ref>سمہودی، جواہر العقدين فی فضل الشرفين، 1405ھ، ج2،‌ بخش اول،‌ ص92؛ معزی ملایری، جامع احادیث الشیعہ، 1373شمسی، ج1، ص36، 37؛ احمدی میانجی، فی رحاب حدیث الثقلین و احادیث اثنی‌عشر، 1391شمسی، ص87، 88.</ref>


=== ثقل اکبر و ثقل اصغر ===
===ثقل اکبر و ثقل اصغر===
{{اصلی|ثقل اکبر|ثقل اصغر}}
{{اصلی|ثقل اکبر|ثقل اصغر}}
حدیث ثقلین کے بعض نقل میں قرآن کو [[ثقل اکبر]] اور اہل‌ بیت کو [[ثقل اصغر]] نام دیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: قمی، تفسیرالقمی، 1404ھ، ج1،‌ ص3؛ صفار، بصائرالدرجات، 1404ھ،‌ ص414؛ عیاشی، التفسیر العیاشی، 1380ھ، ج1، ص4، 5.</ref>
حدیث ثقلین کے بعض نقل میں قرآن کو [[ثقل اکبر]] اور اہل‌ بیت کو [[ثقل اصغر]] نام دیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: قمی، تفسیرالقمی، 1404ھ، ج1،‌ ص3؛ صفار، بصائرالدرجات، 1404ھ،‌ ص414؛ عیاشی، التفسیر العیاشی، 1380ھ، ج1، ص4، 5.</ref>
سطر 133: سطر 133:
===شیعہ ائمہ کی امامت===
===شیعہ ائمہ کی امامت===
حدیث ثقلین کو شیعہ ائمہ کی امامت کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مفید، المسائل الجارودیہ،‌ 1413ھ، ص42؛ ابن‌عطیہ، ابہی المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص131؛ مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص241-244.</ref> حدیث ثقلین کا امام علیؑ اور دیگر ائمہ کی امامت پر دلالت کرنے کے لئے درج ذیل دلائل ذکر ہوئے ہیں:
حدیث ثقلین کو شیعہ ائمہ کی امامت کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مفید، المسائل الجارودیہ،‌ 1413ھ، ص42؛ ابن‌عطیہ، ابہی المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص131؛ مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص241-244.</ref> حدیث ثقلین کا امام علیؑ اور دیگر ائمہ کی امامت پر دلالت کرنے کے لئے درج ذیل دلائل ذکر ہوئے ہیں:
* قرآن اور اہل بیتؑ میں جدائی کے عدم امکان پر حدیث ثقلین تصریح کرتی ہے کیونکہ اہل بیتؑ قرآن کا علم رکھتے ہیں اور اپنے گفتار اور کردار میں اس کی مخالفت نہیں کرتے ہیں۔ یہ بات اہل بیتؑ کی فضیلت اور برتری پر دلالت کرتی ہے۔ اور جو شخص برتر اور افضل ہونا امامت کرنے کے لئے شایستہ اور لائق بھی وہی ہوگا۔
*قرآن اور اہل بیتؑ میں جدائی کے عدم امکان پر حدیث ثقلین تصریح کرتی ہے کیونکہ اہل بیتؑ قرآن کا علم رکھتے ہیں اور اپنے گفتار اور کردار میں اس کی مخالفت نہیں کرتے ہیں۔ یہ بات اہل بیتؑ کی فضیلت اور برتری پر دلالت کرتی ہے۔ اور جو شخص برتر اور افضل ہونا امامت کرنے کے لئے شایستہ اور لائق بھی وہی ہوگا۔
* حدیث ثقلین میں اہل بیتؑ کو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا ہے اسی لئے قرآن کی طرح ان کی پیروی اور ان سے تمسک کرنا بھی واجب ہے۔ پیغمبر اکرمؐ اور امام معصومؑ کے علاوہ کسی اور کی بغیر شرط کے پیروی کرنا واجب نہیں ہے۔
*حدیث ثقلین میں اہل بیتؑ کو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا ہے اسی لئے قرآن کی طرح ان کی پیروی اور ان سے تمسک کرنا بھی واجب ہے۔ پیغمبر اکرمؐ اور امام معصومؑ کے علاوہ کسی اور کی بغیر شرط کے پیروی کرنا واجب نہیں ہے۔
* بعض نسخوں میں ثقلین کی جگہ «خلیفتین» (دو خلیفے) کا لفظ آیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ کسی شخص کی خلافت اس کی امامت اور امت کی ضرورت کے امور کی انجام دہی سے وابستہ ہے۔
*بعض نسخوں میں ثقلین کی جگہ «خلیفتین» (دو خلیفے) کا لفظ آیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ کسی شخص کی خلافت اس کی امامت اور امت کی ضرورت کے امور کی انجام دہی سے وابستہ ہے۔
* حدیث میں آیا ہے کہ  جو شخص ثقلین کی پیروی کرے گا وہ ہرگز گمراہ نہیں ہوگا۔ پیغمبر اکرمؐ نے امت کے گمراہ نہ ہونے کو ثقلین کی پیروی سے مربوط کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص131؛ مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص241-244.</ref>
*حدیث میں آیا ہے کہ  جو شخص ثقلین کی پیروی کرے گا وہ ہرگز گمراہ نہیں ہوگا۔ پیغمبر اکرمؐ نے امت کے گمراہ نہ ہونے کو ثقلین کی پیروی سے مربوط کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص131؛ مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص241-244.</ref>
بعض کا کہنا ہے کہ اگر شیعوں کے پاس امام علیؑ کی جانشینی اور خلافت پر حدیث ثقلین کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ ہوتی تو بھی مخالفوں کے مقابلے میں یہی ایک حدیث کافی تھی۔<ref>ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص132.</ref>
بعض کا کہنا ہے کہ اگر شیعوں کے پاس امام علیؑ کی جانشینی اور خلافت پر حدیث ثقلین کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ ہوتی تو بھی مخالفوں کے مقابلے میں یہی ایک حدیث کافی تھی۔<ref>ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد، 1423ھ، ج1،‌ ص132.</ref>


===امامت کا دوام اور استمرار ===
===امامت کا دوام اور استمرار===
[[محمد حسن مظفر]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں بعض ایسے فقرے ہیں جو دلالت کرتے ہیں کہ قیامت تک عترت پیغمبر میں سے کوئی دنیا میں باقی رہے۔ وہ فقرے درج ذیل ہیں:
[[محمد حسن مظفر]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں بعض ایسے فقرے ہیں جو دلالت کرتے ہیں کہ قیامت تک عترت پیغمبر میں سے کوئی دنیا میں باقی رہے۔ وہ فقرے درج ذیل ہیں:
* عبارت «اِن تَمَسَّکْتُم بِہِما لَن تَضِّلّوا» (ثقلین سے تمسک سے انسان ہرگز گمراہ نہیں ہوگا): ہرگز گمراہ نہ ہونا اس بات پر مبتنی ہے کہ جس پر تمسک کیا جاتا ہے وہ ہمیشہ موجود ہو۔
*عبارت «اِن تَمَسَّکْتُم بِہِما لَن تَضِّلّوا» (ثقلین سے تمسک سے انسان ہرگز گمراہ نہیں ہوگا): ہرگز گمراہ نہ ہونا اس بات پر مبتنی ہے کہ جس پر تمسک کیا جاتا ہے وہ ہمیشہ موجود ہو۔
* عبارت «لَن یَفتَرِقا» (قرآن و عترت میں جدائی ناممکن ہونا)، اگر کسی وقت عترت میں سے کوئی نہ ہو تو قرآن اور اہل بیتؑ میں جدائی لازم آئے گی۔ لہذا عترت میں سے کوئی ہمیشہ کے لئے دنیا میں موجود ہونا چاہئے۔<ref>مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص246.</ref>
*عبارت «لَن یَفتَرِقا» (قرآن و عترت میں جدائی ناممکن ہونا)، اگر کسی وقت عترت میں سے کوئی نہ ہو تو قرآن اور اہل بیتؑ میں جدائی لازم آئے گی۔ لہذا عترت میں سے کوئی ہمیشہ کے لئے دنیا میں موجود ہونا چاہئے۔<ref>مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص246.</ref>
[[ناصر مکارم شیرازی |ناصر مکارم شیرازی]] کہتے ہیں کہ حدیث کا یہ جملہ کہ «یہ دونوں ہمیشہ ساتھ ہیں یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں» سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تاریخ میں اہل بیتؑ میں سے ایک معصوم پیشوا ہمیشہ سے موجود ہو۔ جس طرح سے قرآن ہمیشہ کے لئے چراغِ ہدایت ہے اہل بیتؑ بھی چراغ ہدایت ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص75.</ref>
[[ناصر مکارم شیرازی |ناصر مکارم شیرازی]] کہتے ہیں کہ حدیث کا یہ جملہ کہ «یہ دونوں ہمیشہ ساتھ ہیں یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں» سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تاریخ میں اہل بیتؑ میں سے ایک معصوم پیشوا ہمیشہ سے موجود ہو۔ جس طرح سے قرآن ہمیشہ کے لئے چراغِ ہدایت ہے اہل بیتؑ بھی چراغ ہدایت ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص75.</ref>


=== اہل بیت کی پیروی کا لازم ہونا ===
===اہل بیت کی پیروی کا لازم ہونا===
شیعہ علما کا کہنا ہے کہ اس [[حدیث]] میں [[اہل بیتؑ]] کو [[قرآن کریم|قرآن]] کے برابر میں ذکر کیا ہے اور ان میں جدائی ناممکن ہے لہذا جس طرح سے مسلمانوں پر [[قرآن کریم|قرآن]] کی پیروی لازمی قرار دی گئی ہے، [[اہل بیتؑ]] کی پیروی بھی لازمی اور ضروری ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرمؐ نے ان کی پیروی کرنے کے لئے کوئی شرط بیان نہیں کیا ہے اسی طرح ان کی پیروی بھی بغیر شرط کے تمام گفتار اور کردار میں واجب ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حلبی، الکافی فی الفقہ، 1403ھ، ص97؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص75.</ref>
شیعہ علما کا کہنا ہے کہ اس [[حدیث]] میں [[اہل بیتؑ]] کو [[قرآن کریم|قرآن]] کے برابر میں ذکر کیا ہے اور ان میں جدائی ناممکن ہے لہذا جس طرح سے مسلمانوں پر [[قرآن کریم|قرآن]] کی پیروی لازمی قرار دی گئی ہے، [[اہل بیتؑ]] کی پیروی بھی لازمی اور ضروری ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرمؐ نے ان کی پیروی کرنے کے لئے کوئی شرط بیان نہیں کیا ہے اسی طرح ان کی پیروی بھی بغیر شرط کے تمام گفتار اور کردار میں واجب ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حلبی، الکافی فی الفقہ، 1403ھ، ص97؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص75.</ref>


=== عصمت اہل بیت ===
===عصمت اہل بیت===
شیعہ علما کہتے ہیں کہ [[حدیث]] میں واضح کیا گیا ہے کہ [[قرآن کریم|قرآن]] اور [[اہل بیتؑ]] ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور جدائی ناپذیر ہے۔ اور یہ بات اہل بیت کی عصمت پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ کسی بھی قسم کا گناہ اور خطا کا ارتکاب اہل بیتؑ کو قرآن سے جدا ہونے کا باعث بنے گا۔<ref>نگاہ کنید بہ مفید، المسائل الجارودیہ،‌ 1413ھ، ص42؛ ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد،‌ 1423ھ، ج1،‌ ص131؛ بحرانی، منارالہدی، 1405ھ، ص671؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص75؛ سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص105، 106.</ref>
شیعہ علما کہتے ہیں کہ [[حدیث]] میں واضح کیا گیا ہے کہ [[قرآن کریم|قرآن]] اور [[اہل بیتؑ]] ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور جدائی ناپذیر ہے۔ اور یہ بات اہل بیت کی عصمت پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ کسی بھی قسم کا گناہ اور خطا کا ارتکاب اہل بیتؑ کو قرآن سے جدا ہونے کا باعث بنے گا۔<ref>نگاہ کنید بہ مفید، المسائل الجارودیہ،‌ 1413ھ، ص42؛ ابن‌عطیہ، ابہی‌المداد،‌ 1423ھ، ج1،‌ ص131؛ بحرانی، منارالہدی، 1405ھ، ص671؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص75؛ سبحانی، الالہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص105، 106.</ref>
اسی طرح پیغمبر اکرمؐ نے اس حدیث میں تصریح کی ہے کہ جو بھی قرآن اور اہل بیتؑ سے متمسک ہوگا وہ گمراہ نہیں ہوگا۔ اگر اہل بیتؑ معصوم نہ ہوتے تو ان کی بلاشرط پیروی کرنا گمراہی کا باعث بنتا۔<ref>نگاہ کنید بہ: ابن‌عطیہ، ابہی المداد،‌ 1423ھ، ج1،‌ ص131؛ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص671؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص75؛ سبحانی، الإلہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص106.</ref>  
اسی طرح پیغمبر اکرمؐ نے اس حدیث میں تصریح کی ہے کہ جو بھی قرآن اور اہل بیتؑ سے متمسک ہوگا وہ گمراہ نہیں ہوگا۔ اگر اہل بیتؑ معصوم نہ ہوتے تو ان کی بلاشرط پیروی کرنا گمراہی کا باعث بنتا۔<ref>نگاہ کنید بہ: ابن‌عطیہ، ابہی المداد،‌ 1423ھ، ج1،‌ ص131؛ بحرانی، منار الہدی، 1405ھ، ص671؛ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386شمسی، ج9، ص75؛ سبحانی، الإلہیات على ہدى الکتاب و السنۃ و العقل‏،‌ 1412ھ، ج4، ص106.</ref>  
سطر 154: سطر 154:


حدیث ثقلین سے اہل بیت کی عصمت ثابت کرنے کے لئے دلیل کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
حدیث ثقلین سے اہل بیت کی عصمت ثابت کرنے کے لئے دلیل کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
* اگر کوئی شخص ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہو تو وہ گناہ اور خطا سے محفوظ رہتا ہے؛ کیونکہ قرآن ہر قسم کے خطا اور اشتباہ سے محفوظ ہے۔
*اگر کوئی شخص ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہو تو وہ گناہ اور خطا سے محفوظ رہتا ہے؛ کیونکہ قرآن ہر قسم کے خطا اور اشتباہ سے محفوظ ہے۔
* حدیث ثقلین کے مطابق اہل بیت ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے۔
*حدیث ثقلین کے مطابق اہل بیت ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے۔
* پس اہل بیتؑ قرآن کی طرح معصوم ہیں۔<ref>فاریاب، عصمت امام در تاریخ تفکر امامیہ، ص303.</ref>
*پس اہل بیتؑ قرآن کی طرح معصوم ہیں۔<ref>فاریاب، عصمت امام در تاریخ تفکر امامیہ، ص303.</ref>
سید علی حسینی میلانی کہتے ہیں کہ ابن حجر ہیتمی کی طرح اہل سنت کے بعض محققین نے بھی حدیث ثقلین کا اہل بیتؑ کی عصمت و طہارت پر دلالت کرنے کو مان لیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حسینی میلانی، نفحات‌الازہار، 1414ھ، ج2، ص268، 269.</ref>
سید علی حسینی میلانی کہتے ہیں کہ ابن حجر ہیتمی کی طرح اہل سنت کے بعض محققین نے بھی حدیث ثقلین کا اہل بیتؑ کی عصمت و طہارت پر دلالت کرنے کو مان لیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: حسینی میلانی، نفحات‌الازہار، 1414ھ، ج2، ص268، 269.</ref>


=== اہل بیت کی علمی مرجعیت ===
===اہل بیت کی علمی مرجعیت===
شیعہ علما کے مطابق حدیث ثقلین اہل بیتؑ کی علمی مرجعیت بیان کرتی ہے؛<ref>ملاحظہ کریں: سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، 1386شمسی، ص231، 232؛ خرازی، بدایۃالمعارف، 1417ھ، ج2، ص19، 20.</ref> کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے قرآن اور اہل بیتؑ سے تمسک کرنے کی دعوت اس بات کی دلیل ہے کہ علمی مرجعیت صرف اہل بیتؑ ہی میں منحصر ہے اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کریں۔<ref>سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، 1386شمسی، ص231، 232.</ref> اسی لئے اہل بیتؑ کے بیانات اور ان کی باتیں قرآن کی طرح مسلمانوں کے لئے حجت ہیں۔<ref>خرازی، بدایۃالمعارف، 1417ھ، ج2، ص20.</ref>
شیعہ علما کے مطابق حدیث ثقلین اہل بیتؑ کی علمی مرجعیت بیان کرتی ہے؛<ref>ملاحظہ کریں: سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، 1386شمسی، ص231، 232؛ خرازی، بدایۃالمعارف، 1417ھ، ج2، ص19، 20.</ref> کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے قرآن اور اہل بیتؑ سے تمسک کرنے کی دعوت اس بات کی دلیل ہے کہ علمی مرجعیت صرف اہل بیتؑ ہی میں منحصر ہے اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کریں۔<ref>سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، 1386شمسی، ص231، 232.</ref> اسی لئے اہل بیتؑ کے بیانات اور ان کی باتیں قرآن کی طرح مسلمانوں کے لئے حجت ہیں۔<ref>خرازی، بدایۃالمعارف، 1417ھ، ج2، ص20.</ref>


سطر 165: سطر 165:


حدیث کے بعض نسخوں میں حدیث کے آخر میں یہ جملہ آیا ہے: {{عربی|«فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِكُوا وَ لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُم‏}}؛ یعنی ان سے آگے مت بڑھو ورنہ ہلاک ہوجاوگے اور ان کو کچھ مت سکھاؤ کیونکہ وہ تم سے زیادہ عالم ہیں۔»<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص294؛ خزاز رازی،‌ کفایۃالاثر، 1401ھ، ص163؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1405ھ، ج5، ص 167؛ قندوزی، ينابيع المودہ لذوی القربی، 1422ھ، ج1، ص73، 74.</ref>[[جامع احادیث الشیعہ (کتاب)|جامع احادیث الشیعہ]] کے مقدمے میں اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے اہل بیت کی علمی مرجعیت کے بارے میں حدیث ثقلین سے سات نکات اخذ کیا ہے:
حدیث کے بعض نسخوں میں حدیث کے آخر میں یہ جملہ آیا ہے: {{عربی|«فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِكُوا وَ لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُم‏}}؛ یعنی ان سے آگے مت بڑھو ورنہ ہلاک ہوجاوگے اور ان کو کچھ مت سکھاؤ کیونکہ وہ تم سے زیادہ عالم ہیں۔»<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص294؛ خزاز رازی،‌ کفایۃالاثر، 1401ھ، ص163؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1405ھ، ج5، ص 167؛ قندوزی، ينابيع المودہ لذوی القربی، 1422ھ، ج1، ص73، 74.</ref>[[جامع احادیث الشیعہ (کتاب)|جامع احادیث الشیعہ]] کے مقدمے میں اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے اہل بیت کی علمی مرجعیت کے بارے میں حدیث ثقلین سے سات نکات اخذ کیا ہے:
# گمراہی سے بچنے کے لئے پیغمبر اکرمؐ کی عترت سے سیکھنا واجب ہے؛
#گمراہی سے بچنے کے لئے پیغمبر اکرمؐ کی عترت سے سیکھنا واجب ہے؛
# اہل بیتؑ کے علمی احاطے کی وجہ سے رسول اللہؐ نے ان سے سیکھنے کا حکم دیا؛
#اہل بیتؑ کے علمی احاطے کی وجہ سے رسول اللہؐ نے ان سے سیکھنے کا حکم دیا؛
# اہل بیت کے علاوہ دوسرے لوگوں کو ہر شرعی حکم کا علم نہیں جس کی وجہ سے ان کی پیروی گمراہی کا باعث بن سکتا ہے؛
#اہل بیت کے علاوہ دوسرے لوگوں کو ہر شرعی حکم کا علم نہیں جس کی وجہ سے ان کی پیروی گمراہی کا باعث بن سکتا ہے؛
# غیر اہل بیتؑ کا قرآن پر احاطہ اور تسلط نہ ہونا اور احکام الہی استنباط کرنا اہل بیتؑ سے اختصاص؛
#غیر اہل بیتؑ کا قرآن پر احاطہ اور تسلط نہ ہونا اور احکام الہی استنباط کرنا اہل بیتؑ سے اختصاص؛
# اہل بیتؑ کے علاوہ دوسرے احکام الہی کی تعلیم نہیں دے سکتے ہیں؛
#اہل بیتؑ کے علاوہ دوسرے احکام الہی کی تعلیم نہیں دے سکتے ہیں؛
# عترت کے اعلم ہونے کے ناطے ان کی بات رد کرنا حرام ہے؛
#عترت کے اعلم ہونے کے ناطے ان کی بات رد کرنا حرام ہے؛
# عترت پیغمبرؐ تمام دینی اور غیر دینی علوم میں باقیوں سے اعلم ہیں۔<ref>معزی ملایری، جامع احادیث الشیعہ، 1373شمسی، ج1، ص82.</ref>
#عترت پیغمبرؐ تمام دینی اور غیر دینی علوم میں باقیوں سے اعلم ہیں۔<ref>معزی ملایری، جامع احادیث الشیعہ، 1373شمسی، ج1، ص82.</ref>


شیعہ عالم دین [[سید کمال حیدری]] حدیث ثقلین سے استناد کرتے ہوئے ائمہؑ کے علم کو لامحدود سمجھتے ہیں۔<ref>الحیدری، علم‌الامام، 1429ھ، ص110-157.</ref>
شیعہ عالم دین [[سید کمال حیدری]] حدیث ثقلین سے استناد کرتے ہوئے ائمہؑ کے علم کو لامحدود سمجھتے ہیں۔<ref>الحیدری، علم‌الامام، 1429ھ، ص110-157.</ref>
سطر 179: سطر 179:
کہا گیا ہے کہ حدیث ثقلین سے اہل بیت کی دوسروں پر برتری ثابت ہوتی ہے؛ کیونکہ پیغمبر اکرمؐ نے صرف اہل بیتؑ کو قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔ اسی لئے جس طرح قرآن کریم مسلمانوں سے افضل ہے اسی طرح اہل بیت بھی دوسروں پر برتری رکھتے ہیں۔<ref>.ربانی گلپایگانی، «اہل‌بیت»، ص556.</ref>
کہا گیا ہے کہ حدیث ثقلین سے اہل بیت کی دوسروں پر برتری ثابت ہوتی ہے؛ کیونکہ پیغمبر اکرمؐ نے صرف اہل بیتؑ کو قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔ اسی لئے جس طرح قرآن کریم مسلمانوں سے افضل ہے اسی طرح اہل بیت بھی دوسروں پر برتری رکھتے ہیں۔<ref>.ربانی گلپایگانی، «اہل‌بیت»، ص556.</ref>


=== ولایت اور رہبری ===
===ولایت اور رہبری===
[[جعفر سبحانی]] کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کا کتاب اور اہل بیتؑ سے تمسک کی دعوت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سیاسی قیادت اور رہبری صرف اہل بیتؑ سے خاص ہے۔<ref>سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، 1386شمسی، ص231، 232.</ref> حدیث ثقلین کے بعض نسخوں میں [[قرآن]] اور اہل‌ بیت کو ثقلین کے بجائے «خلیفتَین» (دو جانشین) کی تعبیر آئی ہے۔<ref>شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، 1395ھ، ج1، ص240؛ ابن‌حنبل، مسند احمد بن حنبل، 1416ھ، ج35، ص456، 512؛ ہیثمی، مجمع‌الزوائد، دارالکتاب العربی، ج9، ص163؛ شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج9، ص375، ج18، ص279-281.</ref> اس نقل کے مطابق اہل بیتؑ پیغمبر اکرمؐ کے جانشین اور خلیفہ ہیں اور ان کی جانشینی ہر پہلو سے ہے جو سیاسی امور اور رہبری کو بھی شامل ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، «اہل‌بیت»، ص562.</ref>اسی طرح اہل بیت کی پیروی کا بلاقید و شرط وجوب کو سیاسی قیادت اور رہبری کی دلیل قرار دیا ہے؛ کیونکہ پیروی کا واجب ہونا مسلمانوں کے زندگی سے مربوط تمام امور میں ہے خواہ وہ عبادی مسائل ہوں یا اقتصادی یا سیاسی اور سماجی۔ اس لئے معاشرے کے سیاسی اور حکومتی مسائل میں بھی ان کی پیروی واجب ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، «اہل‌بیت»، ص561.</ref>
[[جعفر سبحانی]] کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کا کتاب اور اہل بیتؑ سے تمسک کی دعوت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سیاسی قیادت اور رہبری صرف اہل بیتؑ سے خاص ہے۔<ref>سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، 1386شمسی، ص231، 232.</ref> حدیث ثقلین کے بعض نسخوں میں [[قرآن]] اور اہل‌ بیت کو ثقلین کے بجائے «خلیفتَین» (دو جانشین) کی تعبیر آئی ہے۔<ref>شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، 1395ھ، ج1، ص240؛ ابن‌حنبل، مسند احمد بن حنبل، 1416ھ، ج35، ص456، 512؛ ہیثمی، مجمع‌الزوائد، دارالکتاب العربی، ج9، ص163؛ شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج9، ص375، ج18، ص279-281.</ref> اس نقل کے مطابق اہل بیتؑ پیغمبر اکرمؐ کے جانشین اور خلیفہ ہیں اور ان کی جانشینی ہر پہلو سے ہے جو سیاسی امور اور رہبری کو بھی شامل ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، «اہل‌بیت»، ص562.</ref>اسی طرح اہل بیت کی پیروی کا بلاقید و شرط وجوب کو سیاسی قیادت اور رہبری کی دلیل قرار دیا ہے؛ کیونکہ پیروی کا واجب ہونا مسلمانوں کے زندگی سے مربوط تمام امور میں ہے خواہ وہ عبادی مسائل ہوں یا اقتصادی یا سیاسی اور سماجی۔ اس لئے معاشرے کے سیاسی اور حکومتی مسائل میں بھی ان کی پیروی واجب ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، «اہل‌بیت»، ص561.</ref>


سطر 200: سطر 200:
نویں اور دسویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین [[فضل بن روزبہان]] کے مطابق حدیث ثقلین گفتار اور عمل میں اہل بیت کی پیروی اور ان سے تمسک، ان کا احترام اور مودت پر دلالت کرتی ہے لیکن امامت اور خلافت میں تصریح نہیں ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص238، 239.</ref>
نویں اور دسویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین [[فضل بن روزبہان]] کے مطابق حدیث ثقلین گفتار اور عمل میں اہل بیت کی پیروی اور ان سے تمسک، ان کا احترام اور مودت پر دلالت کرتی ہے لیکن امامت اور خلافت میں تصریح نہیں ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مظفر، دلائل‌الصدھ، 1422ھ، ج6، ص238، 239.</ref>


== مونوگراف==
==مونوگراف==
شیعہ علما نے حدیث ثقلین کو روایت کرنے کے علاوہ اس بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
شیعہ علما نے حدیث ثقلین کو روایت کرنے کے علاوہ اس بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
* ''حدیث‌الثقلین''، تالیف، قوام‌الدین محمد وشنوی قمی: اس کتاب میں حدیث کے مختلف اسناد کی تحقیق کی ہے اور حدیث کے مختلف نسخوں پائی جانے والی لفظی فرق کو بھی بیان کیا ہے۔<ref>صداقت ثمر حسینی، «[https://ebookshia.com/books/pdf/4178/حدیث+ثقلین+و+پژوهش+قوام+الدین+محمد+وشنوی+درباره+آن حدیث ثقلین و پژوهش قوام الدین محمد وشنوی درباره آن]»، کتابخانہ الکترونیک شیعہ.</ref>
*''حدیث‌الثقلین''، تالیف، قوام‌الدین محمد وشنوی قمی: اس کتاب میں حدیث کے مختلف اسناد کی تحقیق کی ہے اور حدیث کے مختلف نسخوں پائی جانے والی لفظی فرق کو بھی بیان کیا ہے۔<ref>صداقت ثمر حسینی، «[https://ebookshia.com/books/pdf/4178/حدیث+ثقلین+و+پژوهش+قوام+الدین+محمد+وشنوی+درباره+آن حدیث ثقلین و پژوهش قوام الدین محمد وشنوی درباره آن]»، کتابخانہ الکترونیک شیعہ.</ref>
* ''حدیث‌الثقلین''، تالیف، نجم‌الدین عسکری: یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور ایک جلد میں چھپ کر منظر عام پر آئی ہے۔
*''حدیث‌الثقلین''، تالیف، نجم‌الدین عسکری: یہ کتاب عربی زبان میں ہے اور ایک جلد میں چھپ کر منظر عام پر آئی ہے۔
* ''حدیث‌الثقلین''، تالیف [[سید علی میلانی]]: یہ کتاب حدیث ثقلین کے بارے میں علی احمد السالوس کی طرف سے کئے جانے والے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔<ref>«[https://lohedana.ir/books/reader/7626/1/1/1 حدیث الثقلین]»، وبگاہ لوح دانا.</ref>
*''حدیث‌الثقلین''، تالیف [[سید علی میلانی]]: یہ کتاب حدیث ثقلین کے بارے میں علی احمد السالوس کی طرف سے کئے جانے والے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔<ref>«[https://lohedana.ir/books/reader/7626/1/1/1 حدیث الثقلین]»، وبگاہ لوح دانا.</ref>
* ''حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت(ع):'' یہ کتاب بحرینی عالم دین احمد الماحوزی کی حدیث ثقلین پر کی جانے والی تقاریر پر مشتمل ہے جسے بحرین کے مدرہ اہل الذکر کے طلاب نے جمع آوری کی ہے۔<ref>جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت، مکتبۃالثقلین، ص3.</ref>
*''حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت(ع):'' یہ کتاب بحرینی عالم دین احمد الماحوزی کی حدیث ثقلین پر کی جانے والی تقاریر پر مشتمل ہے جسے بحرین کے مدرہ اہل الذکر کے طلاب نے جمع آوری کی ہے۔<ref>جمعی از طلاب، حدیث الثقلین و مقامات اہل البیت، مکتبۃالثقلین، ص3.</ref>
* ''حدیث الثقلین؛ سنداً و دلالۃً:'' [[سید کمال حیدری]] کی تقاریر کا مجموعہ ہے جسے اسعد حسین علی شمری نے تین فصلوں میں مرتب کیا ہے جو حدیث کی سند، دلالت اور اس سے مربوط سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔<ref>«[https://alhaydari.ir/product/%d8%ad%d8%af%d9%8a%d8%ab-%d8%a7%d9%84%d8%ab%d9%82%d9%84%d9%8a%d9%86/ حدیث القلین سنداً و دلالۃً]»، وبگاہ مؤسسہ امام جواد(ع).</ref>
*''حدیث الثقلین؛ سنداً و دلالۃً:'' [[سید کمال حیدری]] کی تقاریر کا مجموعہ ہے جسے اسعد حسین علی شمری نے تین فصلوں میں مرتب کیا ہے جو حدیث کی سند، دلالت اور اس سے مربوط سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے۔<ref>«[https://alhaydari.ir/product/%d8%ad%d8%af%d9%8a%d8%ab-%d8%a7%d9%84%d8%ab%d9%82%d9%84%d9%8a%d9%86/ حدیث القلین سنداً و دلالۃً]»، وبگاہ مؤسسہ امام جواد(ع).</ref>
* ''موسوعۃُ حدیثِ الثَّقلین:'' مرکز ابحاث العقائد نے اس کتاب کو چار جلدوں میں چھاپ کیا ہے جس کی پہلی دو جلدوں میں حدیث ثقلین کے بارے میں پہلی صدی سے دسوی صدی ہجری تک لکھی جانے والی کتابوں اور دوسری دو جلدوں میں زیدی اور اسماعیلیہ کتابوں کا تذکر کیا ہے جو حدیث ثقلین کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔
*''موسوعۃُ حدیثِ الثَّقلین:'' مرکز ابحاث العقائد نے اس کتاب کو چار جلدوں میں چھاپ کیا ہے جس کی پہلی دو جلدوں میں حدیث ثقلین کے بارے میں پہلی صدی سے دسوی صدی ہجری تک لکھی جانے والی کتابوں اور دوسری دو جلدوں میں زیدی اور اسماعیلیہ کتابوں کا تذکر کیا ہے جو حدیث ثقلین کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔


== حوالہ جات ==
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}


== مآخذ ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
*‌ ابن‌ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ‌اللہ، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم،‏ قم، مکتبۃ آیۃ‌اللہ المرعشی النجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
*‌ ابن‌ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ‌اللہ، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم،‏ قم، مکتبۃ آیۃ‌اللہ المرعشی النجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم