مندرجات کا رخ کریں

"حديث ثقلین" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 22: سطر 22:
بعض [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] علما کے مطابق یہ حدیث  [[مودت اہل‌بیت(ع)|مَوَدّت اہل‌بیت]]، ان کا احترام اور ان کے [[مستحب]] اور [[واجب]] حقوق ادا کرنے پر تاکید کرتی ہے۔ بعض اہل سنت اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ حدیث اہل بیت سے تمسک پر دلالت کرتی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ حدیث امامت اور خلافت پر دلالت نہیں کرتی ہے۔
بعض [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] علما کے مطابق یہ حدیث  [[مودت اہل‌بیت(ع)|مَوَدّت اہل‌بیت]]، ان کا احترام اور ان کے [[مستحب]] اور [[واجب]] حقوق ادا کرنے پر تاکید کرتی ہے۔ بعض اہل سنت اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ حدیث اہل بیت سے تمسک پر دلالت کرتی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ حدیث امامت اور خلافت پر دلالت نہیں کرتی ہے۔


شیعہ اور اہل سنت علما کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صرف ایک بار بیان نہیں بلکہ متعدد بار رسول اللہ سے نقل ہوئی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ سے حدیث بار بار بیان ہونا اس کی اہمیت اور عظمت سمجھاتی ہے۔ حدیث ثقلین شیعہ اور سنی متعدد مصادر حدیث میں نقل ہوئی ہے اور دونوں مذاہب اس حدیث کا مضمون صحیح ہونے پر بھی اتفاق رائے رکھتے ہیں۔
شیعہ اور اہل سنت علما کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صرف ایک بار بیان نہیں بلکہ متعدد بار رسول اللہ سے نقل ہوئی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ سے حدیث بار بار بیان ہونا اس کی اہمیت اور عظمت سمجھاتی ہے۔ حدیث ثقلین شیعہ اور [[اہل سنت و الجماعت|سنی]] متعدد مصادر حدیث میں نقل ہوئی ہے اور دونوں مذاہب اس حدیث کا مضمون صحیح ہونے پر اتفاق رائے رکھتے ہیں۔


یہ حدیث مختلف سند کے ساتھ 20 سے زائد اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔ [[سید ہاشم بحرانی|سید ہاشم بَحرانی]] اپنی کتاب [[غایۃ المرام و حجۃ الخصام (کتاب)|غایَۃُ المَرام]] میں [[الکافی (کتاب)|کافی]]، [[کمال الدین و تمام النعمۃ (کتاب)|کمال‌ الدین]]، [[عیون اخبار الرضا (کتاب)|عیون اخبار الرضا(ع)]]، [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائِر الدرجات]] جیسے شیعہ مصادر حدیث سے اسی مضمون کی 82 احادیث اور  [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]، سُنَن تِرْمِذی، سنن نِسائی، سنن دارَمی و [[مسند احمد بن حنبل]] جیسی اہل سنت مصادر حدیث سے 39 احادیث نقل کرتے ہیں۔
یہ حدیث مختلف سند کے ساتھ 20 سے زائد اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔ [[سید ہاشم بحرانی|سید ہاشم بَحرانی]] اپنی کتاب [[غایۃ المرام و حجۃ الخصام (کتاب)|غایَۃُ المَرام]] میں [[الکافی (کتاب)|کافی]]، [[کمال الدین و تمام النعمۃ (کتاب)|کمال‌ الدین]]، [[عیون اخبار الرضا (کتاب)|عیون اخبار الرضا(ع)]]، [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائِر الدرجات]] جیسے شیعہ مصادر حدیث سے اسی مضمون کی 82 احادیث اور  [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]، سُنَن تِرْمِذی، سنن نِسائی، سنن دارَمی و [[مسند احمد بن حنبل]] جیسی اہل سنت مصادر حدیث سے 39 احادیث نقل کرتے ہیں۔


حدیث ثقلین کے مصادیق میں شیعہ علما صراحت سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد شیعوں کے بارہ ائمہ ہیں اور بعض روایات میں اس بات کی تصریح بھی ہوئی ہے؛ لیکن اہل سنت علما کے درمیان حدیث کا مصداق بیان کرنے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے؛ بعض نے [[اصحاب کساء]] کو رسول اللہ کی عترت اور اہل بیت سمجھا ہے بعض نے آل‌ علی، آل‌ عقیل، آل‌ جعفر اور آل‌ عباس جن پر [[صدقہ]] حرام ہے کو بھی اہل بیت میں شامل کیا ہے۔
حدیث ثقلین کے مصادیق میں شیعہ علما صراحت سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد [[ائمہ معصومین علیہم السلام|شیعوں کے بارہ ائمہ]] ہیں اور بعض روایات میں اس بات کی تصریح بھی ہوئی ہے؛ لیکن اہل سنت علما کے درمیان حدیث کا مصداق بیان کرنے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے؛ بعض نے [[اصحاب کساء]] کو رسول اللہ کی عترت اور اہل بیت سمجھا ہے بعض نے آل‌ علی، آل‌ عقیل، آل‌ جعفر اور آل‌ عباس جن پر [[صدقہ]] حرام ہے کو بھی اہل بیت میں شامل کیا ہے۔


==اہمیت==
==اہمیت==
سطر 32: سطر 32:
اس حدیث کا پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے مختلف مواقع پر بیان ہونا اس حدیث کی اہمیت اور مقام پر دلالت کرتا ہے۔<ref>واعظ‌زادہ خراسانی، «مقدمہ» در حدیث الثقلین، ص17 و 18.</ref> شیعہ متکلمین نے اس حدیث سے شیعہ ائمہ کی ولایت اور امامت ثابت کرنے کے لئے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102.</ref> مختلف مذاہب اور فرقوں کے کلامی مباحث، جیسے امامت و خلافت کے مسئلے میں اس حدیث سے بحث کی جاتی ہے اور امامت سے مربوط مباحث اور مسائل میں اسے بے نظیر سمجھا گیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102.</ref>
اس حدیث کا پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے مختلف مواقع پر بیان ہونا اس حدیث کی اہمیت اور مقام پر دلالت کرتا ہے۔<ref>واعظ‌زادہ خراسانی، «مقدمہ» در حدیث الثقلین، ص17 و 18.</ref> شیعہ متکلمین نے اس حدیث سے شیعہ ائمہ کی ولایت اور امامت ثابت کرنے کے لئے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102.</ref> مختلف مذاہب اور فرقوں کے کلامی مباحث، جیسے امامت و خلافت کے مسئلے میں اس حدیث سے بحث کی جاتی ہے اور امامت سے مربوط مباحث اور مسائل میں اسے بے نظیر سمجھا گیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102.</ref>
[[فائل:Majmaahl.jpg|تصغیر|[[مجمع جہانی اہل‌بیت]] کے مونوگرام میں حدیث ثقلین کا ایک حصہ]]
[[فائل:Majmaahl.jpg|تصغیر|[[مجمع جہانی اہل‌بیت]] کے مونوگرام میں حدیث ثقلین کا ایک حصہ]]
[[عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار (کتاب)|عَبَقات‌ الانوار]] میں کہا گیا ہے کہ اس حدیث کی اسناد کی کثرت اور متن کے استحکام کی وجہ سے قدیم الایام سے یہ حدیث علما اور محدثین کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور بعض نے تو اس حدیث کے بارے میں مستقل کتاب یا رسالہ لکھا ہے۔<ref>میر حامد حسین، عبقات الانوار، 1366شمسی۔ ج23، ص1245.</ref> بعض محققین کے مطابق یہ حدیث پہلی صدی ہجری سے ہی شیعہ اور اہل سنت مصادر حدیث میں نقل ہوئی ہے۔ اس کے بعد بھی تاریخی، رجالی، [[کلام اسلامی|کلامی]]، [[اخلاق|اخلاقی]]، [[فقہ|فقہی]] اور [[اصول فقہ|اصولی]] مصادر میں اس کے شایان شان بحث ہوئی ہے<ref>حاج منوچہری، «ثقلین، حدیث»، ص73 و 74.</ref>
[[عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار (کتاب)|عَبَقات‌ الانوار]] میں کہا گیا ہے کہ اس حدیث کی اسناد کی کثرت اور متن کے استحکام کی وجہ سے قدیم الایام سے یہ حدیث علما اور محدثین کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور بعض نے تو اس حدیث کے بارے میں مستقل کتاب یا رسالہ لکھا ہے۔<ref>میر حامد حسین، عبقات الانوار، 1366شمسی۔ ج23، ص1245.</ref> بعض محققین کے مطابق یہ حدیث [[پہلی صدی ہجری]] سے ہی شیعہ اور اہل سنت مصادر حدیث میں نقل ہوئی ہے۔ اس کے بعد بھی تاریخی، رجالی، [[کلام اسلامی|کلامی]]، [[اخلاق|اخلاقی]]، [[فقہ|فقہی]] اور [[اصول فقہ|اصولی]] مصادر میں اس کے شایان شان بحث ہوئی ہے<ref>حاج منوچہری، «ثقلین، حدیث»، ص73 و 74.</ref>


دانشنامہ جہان اسلام میں موجود مقالہ «حدیث ثقلین» میں کہا گیا ہے کہ شیعہ علما نے قدیم الایام سے اس حدیث کو حدیثی مثادر میں نقل کیا ہے لیکن متقدمین کی کلامی کتابوں میں امامت اور خلافت کی بحث میں اس سے کم استناد کیا ہے۔ البتہ بعض علما نے کلامی مباحث میں بھی استناد کیا ہے۔ مثال کے طور پر [[شیخ صدوق]] نے زمین اللہ کی حجت سے خالی نہ ہونے کی بحث میں، [[شیخ طوسی]] نے ہر عصر میں اہل بیت میں سے کوئی ایک امام ہونے میں اس حدیث سے استناد کیا ہے۔ [[علامہ حلی]] نے [[نہج الحق و کشف الصدق (کتاب)|کتاب نہج‌ الحق]] میں امام علی کی [[خلافت]] ثابت کرنے کے لئے جبکہ  [[محمدمحسن فیض کاشانی|فیض کاشانی]] نے قرآن کی عظمت کے بحث میں اس حدیث سے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102 و 103.</ref>  
دانشنامہ جہان اسلام میں موجود مقالہ «حدیث ثقلین» میں کہا گیا ہے کہ شیعہ علما نے قدیم الایام سے اس حدیث کو حدیثی مثادر میں نقل کیا ہے لیکن متقدمین کی کلامی کتابوں میں امامت اور خلافت کی بحث میں اس سے کم استناد کیا ہے۔ البتہ بعض علما نے کلامی مباحث میں بھی استناد کیا ہے۔ مثال کے طور پر [[شیخ صدوق]] نے زمین اللہ کی حجت سے خالی نہ ہونے کی بحث میں، [[شیخ طوسی]] نے ہر عصر میں اہل بیت میں سے کوئی ایک امام ہونے میں اس حدیث سے استناد کیا ہے۔ [[علامہ حلی]] نے [[نہج الحق و کشف الصدق (کتاب)|کتاب نہج‌ الحق]] میں امام علی کی [[خلافت]] ثابت کرنے کے لئے جبکہ  [[محمد محسن فیض کاشانی|فیض کاشانی]] نے [[قرآن کریم|قرآن]] کی عظمت کی بحث میں اس حدیث سے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص102 و 103.</ref>  


کہا جاتا ہے کہ [[میر حامد حسین ہندی]] (متوفی 1306ھ) نے عبقات الانوار میں اس حدیث کی سند اور دلالت پر کئی فصلوں میں بحث کرکے اس حدیث کو پہچانوانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بعد اس حدیث پر بہت توجہ دی گئی یہاں تک کہ معاصر علما کے پاس یہ حدیث اہلبیت سے تمسک کی ضرورت اور لزوم کے لئے استناد کی جانے والی اہم روایات میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص103.</ref>
کہا جاتا ہے کہ [[میر حامد حسین ہندی]] (متوفی 1306ھ) نے عبقات الانوار میں اس حدیث کی سند اور دلالت پر کئی فصلوں میں بحث کر کے اس حدیث کے تعارف کروانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بعد اس حدیث پر بہت توجہ دی گئی ہے یہاں تک کہ معاصر علما کے ہاں یہ حدیث، اہلبیت سے تمسک کی ضرورت اور اس کے لزوم کے لئے استناد کی جانے والی اہم روایات میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص103.</ref>


[[قرآن]] کی عظمت، اہل بیت کی احادیث کی حجیت، ظواہرِ قرآن کی حجیت، قرآن اور احادیث اہل بیت کی مطابقت اور قرآن کا احادیث اہل بیتؑ پر مقدم ہونے کے حوالے سے شیعہ متکلمین نے حدیث ثقلین سے استناد کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص105.</ref>
[[قرآن]] کی عظمت، اہل بیت کی احادیث کی حجیت، ظواہرِ قرآن کی حجیت، قرآن اور احادیث اہل بیت کی مطابقت اور قرآن کا احادیث اہل بیتؑ پر مقدم ہونے کے حوالے سے شیعہ متکلمین نے حدیث ثقلین سے استناد کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص105.</ref>


یہ حدیث چونکہ اہل بیت کی منزلت اور ان کی علمی مرجعیت پر تاکید کرتی ہے اسی لئے مذاہب اسلامی کے مابین ہونے والی گفتگو اور مناظروں میں راہ گشا ثابت ہوئی ہے۔ جیسا کہ [[سید عبدالحسین شرف‌الدین|سید عبد الحسین شرف‌ الدین]] کا شیخ سلیم بُشری سے ہونے والی گفتگو میں یہ بات مشہود ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص103.</ref>
یہ حدیث چونکہ اہل بیت کی منزلت اور ان کی علمی مرجعیت پر تاکید کرتی ہے اسی لئے مذاہب اسلامی کے مابین ہونے والی گفتگو اور مناظروں میں راہ گشا ثابت ہوئی ہے۔ جیسا کہ [[سید عبد الحسین شرف‌الدین|سید عبد الحسین شرف‌ الدین]] کا شیخ سلیم بُشری سے ہونے والی گفتگو میں یہ بات مشہود ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص103.</ref>


==متن حدیث==
==متن حدیث==
سطر 46: سطر 46:


[[شیعہ|اہل تشیع]] کی بنیادی چار [[کتب اربعہ|کتابوں]] میں شامل [[اصول کافی]] میں یہ [[حدیث]] اس صورت میں وارد ہوئی ہے:
[[شیعہ|اہل تشیع]] کی بنیادی چار [[کتب اربعہ|کتابوں]] میں شامل [[اصول کافی]] میں یہ [[حدیث]] اس صورت میں وارد ہوئی ہے:
 
{{حدیث|'"...إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اِسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِکُوا وَ لَاتُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُم‏‏؛...}}'''
<font color="green">{{حدیث|'''"...إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اِسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِکُوا وَ لَاتُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُم‏‏؛...}}'''"'''</font>۔
:ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو امانتیں چھوڑے جارہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میری [[عترت]] جو [[اہل بیت علیہم السلام]] اور میرے خاندان والے ہیں۔ اے لوگو! سنو، میں نے تمہیں یہ پیغام پہنچا دیا کہ تمہیں حوض کے کنارے میرے سامنے لایا جائے گا؛ چنانچہ میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے ان دو امانتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؛ یعنی [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میرے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] ان سے آگے مت جاؤ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور ان کو کچھ مت سکھاؤ کیونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص294.</ref>
:ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو امانتیں چھوڑے جارہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میری [[عترت]] جو [[اہل بیت علیہم السلام]] اور میرے خاندان والے ہیں۔ اے لوگو! سنو، میں نے تمہیں یہ پیغام پہنچا دیا کہ تمہیں حوض کے کنارے میرے سامنے لایا جائے گا؛ چنانچہ میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے ان دو امانتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؛ یعنی [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میرے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] ان سے آگے مت جاؤ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور ان کو کچھ مت سکھاؤ کیونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص294.</ref>


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم