confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 59: | سطر 59: | ||
{{جعبہ نقل قول | {{جعبہ نقل قول | ||
| عنوان = [[عبدالله جوادی آملی|آیتالله جوادی آملی]] | | عنوان = [[عبدالله جوادی آملی|آیتالله جوادی آملی]] | ||
| نویسنده = | | نویسنده = | ||
| نقل قول = کامل اور معصوم انسان کا مصداق صرف عترت طاہرہ ہیں، جو قرآن کے ہم پلہ اور برابر ہیں، حدیث متواترِ ثقلین کے مطابق یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ہیں۔ ۔۔۔ | | نقل قول = کامل اور معصوم انسان کا مصداق صرف عترت طاہرہ ہیں، جو قرآن کے ہم پلہ اور برابر ہیں، حدیث متواترِ ثقلین کے مطابق یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ہیں۔ ۔۔۔ | ||
قرآن اللہ کی تدوینی کتاب کی تجلی ہے اور انسانِ کاملِ معصوم اللہ کی تکوینی کتاب کے تجلی ہیں۔۔۔۔ معصومینؑ کی روایات بھی قرآن اور عترت کے مابین نہ ختم ہونے والے رابطے کو بیان کرتی ہیں اور حدیث ثقلین کی طرح ان دو حقیقتوں اور ان کے احکام کے مابین جدائی ممکن نہ ہونے اور ان میں سے کسی ایک کو دوسری کے بغیر شناخت ممکن نہ ہونے کو کو بیان کرتی ہیں۔ | قرآن اللہ کی تدوینی کتاب کی تجلی ہے اور انسانِ کاملِ معصوم اللہ کی تکوینی کتاب کے تجلی ہیں۔۔۔۔ معصومینؑ کی روایات بھی قرآن اور عترت کے مابین نہ ختم ہونے والے رابطے کو بیان کرتی ہیں اور حدیث ثقلین کی طرح ان دو حقیقتوں اور ان کے احکام کے مابین جدائی ممکن نہ ہونے اور ان میں سے کسی ایک کو دوسری کے بغیر شناخت ممکن نہ ہونے کو کو بیان کرتی ہیں۔ <ref>«[https://javadi.esra.ir/fa/w/فضیلت-نیمه-شعبان-و-همتایی-آن-با-شب-قدر-از-منظر-آیت-ا فضیلت نیمه شعبان و همتایی آن با شب قدر از منظر آیتالله جوادی آملی]»، وبگاه دفتر مرجعیت.</ref> | ||
| منبع = | |||
| تراز =چپ | | تراز =چپ | ||
| پسزمینه = #FFF7E6 | | پسزمینه = #FFF7E6 | ||
سطر 69: | سطر 69: | ||
| اندازه قلم =13px | | اندازه قلم =13px | ||
}} | }} | ||
==اعتبار حدیث== | ==اعتبار حدیث== | ||
شیعہ علما حدیث ثقلین کو [[تواتر|متواتر]] سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابنعطیه، ابهیالمداد، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۱۳۰؛ بحرانی، منارالهدی، ۱۴۰۵ق، ص۶۷۰؛ مظفر، دلائلالصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۴۰؛ میر حامد حسین، عبقاتالانوار، ۱۳۶۶ش، ج۱۸، ص۷؛ سبحانی، الالهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۰۶؛ شرفالدین، المراجعات، ۱۴۲۶ق، ص۷۰.</ref> 12ویں صدی ہجری کے شیعہ محدث [[یوسف بن احمد بحرانی|صاحبْحَدائق]] کے مطابق یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت کے درمیان [[تواتر معنوی|متواتر معنوی]] ہے۔<ref>بحرانی، الحدائق الناظرة، مؤسسة النشر الاسلامی، ج۹، ص۳۶۰.</ref> گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین [[محمدصالح بن احمد مازندرانی|ملاصالح مازندرانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے مضمون اور اس کے صحیح ہونے میں شیعه اور اهل سنت کا اتفاق ہے۔<ref>مازندرانی، شرحالکافی، ۱۳۸۲ق، ج۶، ص۱۲۴، ج۱۰، ص۱۱۸؛ میر حامد حسین، عبقاتالانوار، ۱۳۶۶ش، ج۱۸، ص۷؛ خرازی، بدایةالمعارف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۹.</ref> شیعہ متکلم؛ [[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کی صحت میں سوائے جاہل اور دشمن کے کوئی اور شک نہیں کرسکتا ہے۔<ref>سبحانی، الالهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۰۵؛ سبحانی، سیمای عقاید شیعه، ۱۳۸۶ش، ص۲۳۲.</ref> | شیعہ علما حدیث ثقلین کو [[تواتر|متواتر]] سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابنعطیه، ابهیالمداد، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۱۳۰؛ بحرانی، منارالهدی، ۱۴۰۵ق، ص۶۷۰؛ مظفر، دلائلالصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۴۰؛ میر حامد حسین، عبقاتالانوار، ۱۳۶۶ش، ج۱۸، ص۷؛ سبحانی، الالهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۰۶؛ شرفالدین، المراجعات، ۱۴۲۶ق، ص۷۰.</ref> 12ویں صدی ہجری کے شیعہ محدث [[یوسف بن احمد بحرانی|صاحبْحَدائق]] کے مطابق یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت کے درمیان [[تواتر معنوی|متواتر معنوی]] ہے۔<ref>بحرانی، الحدائق الناظرة، مؤسسة النشر الاسلامی، ج۹، ص۳۶۰.</ref> گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین [[محمدصالح بن احمد مازندرانی|ملاصالح مازندرانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے مضمون اور اس کے صحیح ہونے میں شیعه اور اهل سنت کا اتفاق ہے۔<ref>مازندرانی، شرحالکافی، ۱۳۸۲ق، ج۶، ص۱۲۴، ج۱۰، ص۱۱۸؛ میر حامد حسین، عبقاتالانوار، ۱۳۶۶ش، ج۱۸، ص۷؛ خرازی، بدایةالمعارف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۹.</ref> شیعہ متکلم؛ [[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کی صحت میں سوائے جاہل اور دشمن کے کوئی اور شک نہیں کرسکتا ہے۔<ref>سبحانی، الالهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۰۵؛ سبحانی، سیمای عقاید شیعه، ۱۳۸۶ش، ص۲۳۲.</ref> |