مندرجات کا رخ کریں

"حديث ثقلین" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 29: سطر 29:


==اہمیت==
==اہمیت==
حدیث ثقلین [[رسول خداؐ]] کی مشہور<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۳.</ref> اور [[حدیث متواتر|متواتر]] [[حدیث]]<ref>ملاحظہ کریں: بحرانی، منار الهدی، ۱۴۰۵ق، ص۶۷۰؛ مظفر، دلائل الصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶،‌ ص۲۴۰؛ میر حامد حسین، عبقات الانوار، ۱۳۶۶ش،‌ ج۱۸، ص۷.</ref> ہے اور سارے مسلمان مانتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: مازندرانی، شرح‌الکافی، ۱۳۸۲ق، ج۶، ص۱۲۴، ج۱۰، ص۱۱۸؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، ۱۳۶۶ش،‌ ج۱۸، ص۷؛ خرازی، بدایةالمعارف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۹. </ref>   
حدیث ثقلین [[رسول خداؐ]] کی مشہور<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۳.</ref> اور [[حدیث متواتر|متواتر]] [[حدیث]]<ref>ملاحظہ کریں: بحرانی، منار الهدی، ۱۴۰۵ق، ص۶۷۰؛ مظفر، دلائل الصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶،‌ ص۲۴۰؛ میر حامد حسین، عبقات الانوار، ۱۳۶۶ش،‌ ج۱۸، ص۷.</ref> ہے اور سارے مسلمان مانتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: مازندرانی، شرح‌الکافی، ۱۳۸۲ق، ج۶، ص۱۲۴، ج۱۰، ص۱۱۸؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، ۱۳۶۶ش،‌ ج۱۸، ص۷؛ خرازی، بدایةالمعارف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۹. </ref>   
اس حدیث کا پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے مختلف مواقع پر بیان ہونا اس حدیث کی اہمیت اور مقام پر دلالت کرتا ہے۔<ref>واعظ‌زاده خراسانی، «مقدمه» در حدیث الثقلین، ص۱۷ و ۱۸.</ref> شیعہ متکلمین نے اس حدیث سے شیعہ ائمہ کی ولایت اور امامت ثابت کرنے کے لئے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۲.</ref> مختلف مذاہب اور فرقوں کے کلامی مباحث، جیسے امامت و خلافت کے مسئلے میں اس حدیث سے بحث کی جاتی ہے اور امامت سے مربوط مباحث اور مسائل میں اسے بے نظیر سمجھا گیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۲.</ref>
اس حدیث کا پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے مختلف مواقع پر بیان ہونا اس حدیث کی اہمیت اور مقام پر دلالت کرتا ہے۔<ref>واعظ‌زاده خراسانی، «مقدمه» در حدیث الثقلین، ص۱۷ و ۱۸.</ref> شیعہ متکلمین نے اس حدیث سے شیعہ ائمہ کی ولایت اور امامت ثابت کرنے کے لئے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۲.</ref> مختلف مذاہب اور فرقوں کے کلامی مباحث، جیسے امامت و خلافت کے مسئلے میں اس حدیث سے بحث کی جاتی ہے اور امامت سے مربوط مباحث اور مسائل میں اسے بے نظیر سمجھا گیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۲.</ref>
سطر 36: سطر 35:


دانشنامہ جہان اسلام میں موجود مقالہ «حدیث ثقلین» میں کہا گیا ہے کہ شیعہ علما نے قدیم الایام سے اس حدیث کو حدیثی مثادر میں نقل کیا ہے لیکن متقدمین کی کلامی کتابوں میں امامت اور خلافت کی بحث میں اس سے کم استناد کیا ہے۔ البتہ بعض علما نے کلامی مباحث میں بھی استناد کیا ہے۔ مثال کے طور پر شیخ صدوق نے زمین اللہ کی حجت سے خالی نہ ہونے کی بحث میں، شیخ طوسی نے ہر عصر میں اہل بیت میں سے کوئی ایک امام ہونے میں اس حدیث سے استناد کیا ہے۔ علامہ حلی نے [[نهج الحق و کشف الصدق (کتاب)|کتاب نهج‌الحق]] مین امام علی کی خلافت ثابت کرنے کے لئے جبکہ  [[محمدمحسن فیض کاشانی|فیض کاشانی]] نے قرآن کی عظمت کے بحث میں اس حدیث سے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۲ و ۱۰۳.</ref>  
دانشنامہ جہان اسلام میں موجود مقالہ «حدیث ثقلین» میں کہا گیا ہے کہ شیعہ علما نے قدیم الایام سے اس حدیث کو حدیثی مثادر میں نقل کیا ہے لیکن متقدمین کی کلامی کتابوں میں امامت اور خلافت کی بحث میں اس سے کم استناد کیا ہے۔ البتہ بعض علما نے کلامی مباحث میں بھی استناد کیا ہے۔ مثال کے طور پر شیخ صدوق نے زمین اللہ کی حجت سے خالی نہ ہونے کی بحث میں، شیخ طوسی نے ہر عصر میں اہل بیت میں سے کوئی ایک امام ہونے میں اس حدیث سے استناد کیا ہے۔ علامہ حلی نے [[نهج الحق و کشف الصدق (کتاب)|کتاب نهج‌الحق]] مین امام علی کی خلافت ثابت کرنے کے لئے جبکہ  [[محمدمحسن فیض کاشانی|فیض کاشانی]] نے قرآن کی عظمت کے بحث میں اس حدیث سے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۲ و ۱۰۳.</ref>  
ہوئی ہے در [[دانشنامه جهان اسلام (کتاب)|دانشنامه جهان اسلام]]، عالمان شیعه از دیرباز در مجموعه‌های حدیثی خود این حدیث را نقل کرده‌اند؛ اما در کتاب‌های کلامی متقدم، در بحث امامت و خلافت، کمتر بدان استناد شده است. با این حال، گروهی از عالمان شیعه در بحث‌های کلامی بدان استناد کرده‌اند؛ برای نمونه [[شیخ صدوق]] در اثبات خالی نبودن زمین از حجت و [[شیخ طوسی]] در بحث ضرورت وجود امامی از اهل‌بیت در همه زمان‌ها، به این حدیث تمسک کرده‌اند. [[علامه حلی]] در [[نهج الحق و کشف الصدق (کتاب)|کتاب نهج‌الحق]] در اثبات [[خلافت امام علی(ع)]] و [[محمدمحسن فیض کاشانی|فیض کاشانی]] نیز در بحث از جایگاه قرآن، از این حدیث بهره برده‌اند.<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۲ و ۱۰۳.</ref>


کہا جاتا ہے کہ [[میر حامد حسین هندی]] (متوفی ۱۳۰۶ھ) نے عبقات الانوار میں اس حدیث کی سند اور دلالت پر کئی فصلوں میں بحث کرکے اس حدیث کو پہچانوانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بعد اس حدیث پر بہت توجہ دی گئی یہاں تک کہ معاصر علما کے پاس یہ اہلبیت سے تمسک کی ضرورت اور لزوم کے لئے استناد کی جانے والی اہم روایات میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۳.</ref>
کہا جاتا ہے کہ [[میر حامد حسین هندی]] (متوفی ۱۳۰۶ھ) نے عبقات الانوار میں اس حدیث کی سند اور دلالت پر کئی فصلوں میں بحث کرکے اس حدیث کو پہچانوانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بعد اس حدیث پر بہت توجہ دی گئی یہاں تک کہ معاصر علما کے پاس یہ اہلبیت سے تمسک کی ضرورت اور لزوم کے لئے استناد کی جانے والی اہم روایات میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۳.</ref>
سطر 55: سطر 52:
شیعہ حدیثی کتاب [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائرالدرجات]] میں امام محمد باقر سے یہ حدیث یوں نقل ہوئی ہے: {{حدیث|«يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّی تَارِکٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَمَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا: كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِی أَهْلَ بَيْتِی فَإِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْض}}؛ اے لوگو! "میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں [[قرآن کریم|اللہ کی کتاب]] ([[قرآن کریم]]) اور [[عترت]] یا [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] چھوڑے جا رہا ہوں۔ اگر ان دونوں سے متمسک رہوں گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔ [[قرآن کریم|قرآن]] اور [[اہل بیت]] [[قیامت]] تک ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونگے" یہاں تک کہ [[حوض کوثر]] پر میرے پاس وارد ہوں گے۔<ref>صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۳، حدیث ۳.</ref>
شیعہ حدیثی کتاب [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائرالدرجات]] میں امام محمد باقر سے یہ حدیث یوں نقل ہوئی ہے: {{حدیث|«يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّی تَارِکٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَمَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا: كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِی أَهْلَ بَيْتِی فَإِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْض}}؛ اے لوگو! "میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں [[قرآن کریم|اللہ کی کتاب]] ([[قرآن کریم]]) اور [[عترت]] یا [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] چھوڑے جا رہا ہوں۔ اگر ان دونوں سے متمسک رہوں گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔ [[قرآن کریم|قرآن]] اور [[اہل بیت]] [[قیامت]] تک ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونگے" یہاں تک کہ [[حوض کوثر]] پر میرے پاس وارد ہوں گے۔<ref>صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۳، حدیث ۳.</ref>


اہل سنت کی حدیثی کتاب [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]] میں حدیث ثقلین کو [[زید بن ارقم|زید بن اَرقَم]] سے یوں نقل کیا ہے: {{حدیث|«... وَأَنَا تَارِکٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِی أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِی أَهْلِ بَيْتِی، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِی أَهْلِ بَيْتِی، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِی أَهْلِ بَيْتِی.»}}<ref>مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء‌التراث العربی، ج۴،‌ ص۱۸۷۳، حدیث ۳۶.</ref> میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: پہلی اللہ کی کتاب، جس میں ہدایت اور نور ہے۔ پس اللہ کی کتاب سے تمسک کرو۔ رسول اللہؐ نے اللہ کی کتاب کی ترغیب دی ہے پھر فرمایا: اور میرے اہل بیتؑ، اللہ کی خاطر میری اہل بیت کو یاد کرو اور انھیں مت بھولو۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶، ج۹، ص۶۳.</ref>


 
احادیث کی بعض کتابوں میں ثقلین کے بجائے خَلیفَتَین» (دو جانشین)<ref>صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۴۰؛ ابن‌حنبل، مسند احمد بن حنبل، ۱۴۱۶ق، ج۳۵، ص۴۵۶، ۵۱۲؛ هیثمی، مجمع‌الزوائد، دارالکتاب العربی، ج۹، ص۱۶۳؛ متقی هندی، کنزالعمال، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۱۸۶؛ شوشتری، احقاق‌الحق، ۱۴۰۹ق، ج۹، ص۳۷۵ ، ج۱۸، ص۲۷۹-۲۸۱.</ref> یا «اَمرَین» (دو امر)<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۹۴.</ref> کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ اور بعض کتابوں میں «‌عِترتی‌»، کے بجائے «‌سنّتی‌» کا لفظ آیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۲۳۵؛ متقی هندی، کنزالعمال، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۱۷۳، ۱۸۷.</ref>
 
شیعہ عالم اور مصنف [[ناصر مکارم شیرازی]] کا کہنا ہے کہ جن کتابوں میں «‌عترتی‌» کے بجائے «‌سنّتی‌» کا لفظ آیا ہے وہ قابل استناد نہیں ہیں؛ کیونکہ اگر یہ صحیح بھی ہوں تو آپ میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اکرمؐ نے ایک جگہ کتاب اور عترت کی تاکید کی ہے اور دوسری جگہ قرآن اور سنت کی۔<ref>مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش،‌ ج۹، ص۷۶، ۷۷.</ref>  
 
[[احمد بن شعیب نسائی]] نے اپنی کتاب [[السنن الکبری|سنن نسائی]] ـ جو [[اہل سنت]] کی [[صحاح ستہ]] میں سے ایک ہے ـ  میں اس [[حدیث]] کو اس صورت میں نقل کرتے ہیں:
 
:<font color=green>{{حدیث|'''"...كَأَنِّي قَدْ دُعِيتُ فَأَجَبْتُ، إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الآخَرِ، كِتَابُ اللَّهِ تَعَالَى، وَعِتْرَتِي، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ..."'''}}</font>
 
::ترجمہ: گویا مجھے خالق یکتا نے بلایا ہے اور میں نے بھی یہ دعوت قبول کرلی ہے (اور میرا وقت وصال آن پہنچا ہے) میں تمہارے درمیان دو گراں بہاء امانتیں چھوڑے جارہا ہوں جن میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میری عترت ـ جو میرے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] ہی ہیں ـ پس دیکھو کہ ان کے ساتھ کیا رویہ روا رکھتے ہو کیونکہ وہ کبھی جدا جدا نہیں ہوتیں حتی کہ حوض کے کنارے مجھ سے آ ملیں۔<ref>نسائی، ''السنن الكبری''، ح8148۔</ref>
 


{{جعبہ نقل قول
{{جعبہ نقل قول
| عنوان = '''حدیث ثقلین'''
| عنوان = [[عبدالله جوادی آملی|آیت‌الله جوادی آملی]]
| نویسنده = مآخذ
| نویسنده = مآخذ
| نقل قول = [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] نے فرمایا: <br>{{حدیث| إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِكُوا وَلَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ۔|ترجمہ= بے شک میں دو امانتیں تمہارے درمیان چھوڑے جا رہا ہوں، اگر انہیں قبول کرو تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ 1۔ خدائے عز و جل کی کتاب (قرآن) اور 2۔ میرے اہل بیت اور میری عترت، اے لوگو! سنو! میں تمہیں یہ حقیقت پہنچا چکا کہ تمہیں میرے پاس حوض کے کنارے لوٹا دیا جائے گا اور میں ان دو بھاری اور گران بہاء امانتوں کے ساتھ تمہارے برتاؤ کے بارے میں تم سے بازخواست کروں گا اور یہ دو بھاری امانتیں کتاب خدا اور میرے اہل بیت ہیں۔ پس ان سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کرو اور انہیں کچھ سکھانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ وہ تم سے زیادہ عالم و دانا ہیں۔}}
| نقل قول = کامل اور معصوم انسان کا مصداق صرف عترت طاہرہ ہیں، جو قرآن کے ہم پلہ اور برابر ہیں، حدیث متواترِ ثقلین کے مطابق یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ہیں۔ ۔۔۔
قرآن اللہ کی تدوینی کتاب کی تجلی ہے اور انسانِ کاملِ معصوم اللہ کی تکوینی کتاب کے تجلی ہیں۔۔۔۔ معصومینؑ کی روایات بھی قرآن اور عترت کے مابین نہ ختم ہونے والے رابطے کو بیان کرتی ہیں اور حدیث ثقلین کی طرح ان دو حقیقتوں اور ان کے احکام کے مابین جدائی ممکن نہ ہونے اور ان میں سے کسی ایک کو دوسری کے بغیر شناخت ممکن نہ ہونے کو کو بیان کرتی ہیں۔  
| منبع = <small> اصول كافى ج2 ص54 ح3۔</small>
| منبع = <small> اصول كافى ج2 ص54 ح3۔</small>
| تراز =
| تراز =چپ
| پس‌زمینه = #eefffb
| پس‌زمینه = #FFF7E6
| عرض = 280px
| عرض = 280px
| حاشیه =
| حاشیه =
| اندازه قلم =
| اندازه قلم =13px
}}
}}
==اعتبار حدیث==
شیعہ علما حدیث ثقلین کو  [[تواتر|متواتر]] سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌عطیه، ابهی‌المداد، ۱۴۲۳ق، ج۱،‌ ص۱۳۰؛ بحرانی، منارالهدی، ۱۴۰۵ق، ص۶۷۰؛ مظفر، دلائل‌الصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶،‌ ص۲۴۰؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، ۱۳۶۶ش،‌ ج۱۸، ص۷؛ سبحانی، الالهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل‏،‌ ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۰۶؛ شرف‌الدین، المراجعات،‌ ۱۴۲۶ق، ص۷۰.</ref> 12ویں صدی ہجری کے شیعہ محدث [[یوسف بن احمد بحرانی|صاحبْ‌حَدائق]] کے مطابق یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت کے درمیان [[تواتر معنوی|متواتر معنوی]] ہے۔<ref>بحرانی، الحدائق الناظرة، مؤسسة النشر الاسلامی، ج۹، ص۳۶۰.</ref> گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین [[محمدصالح بن احمد مازندرانی|ملاصالح مازندرانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کے مضمون اور اس کے صحیح ہونے میں شیعه اور اهل‌ سنت کا اتفاق ہے۔<ref>مازندرانی، شرح‌الکافی، ۱۳۸۲ق، ج۶، ص۱۲۴، ج۱۰، ص۱۱۸؛ میر حامد حسین، عبقات‌الانوار، ۱۳۶۶ش،‌ ج۱۸، ص۷؛ خرازی، بدایةالمعارف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۹.</ref> شیعہ متکلم؛ [[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ اس حدیث کی صحت میں سوائے جاہل اور دشمن کے کوئی اور شک نہیں کرسکتا ہے۔<ref>سبحانی، الالهیات على هدى الکتاب و السنة و العقل‏،‌ ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۰۵؛ سبحانی، سیمای عقاید شیعه،‌ ۱۳۸۶ش، ص۲۳۲.</ref>
[[صحیح البخاری (کتاب)|صحیح بخاری]] کے بعد اہل سنت کی سب سے اہم کتاب [[صحیح مسلم (کتاب)|صحیح مسلم]]<ref>مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، ج۴،‌ ص۱۸۷۳، حدیث ۳۶.</ref> کے علاوہ اہل سنت کے محدث [[حاکم نیشابوری]] نے بھی [[المستدرک علی الصحیحین (کتاب)|المستدرک]] میں حدیث ثقلین کو [[زید بن ارقم|زید بن اَرقم]] سے نقل کیا ہے۔  اور  [[محمد بن اسماعیل بخاری|بُخاری]] و [[مسلم بن حجاج نیشابوری|مُسْلم نیشابوری]] کے تصریح کردہ شرائط کے مطابق اس حدیث کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۶۰.</ref>شافعی عالم دین [[ابن حجر هیتمی|ابن‌حَجَر هَیْتَمی]] نے بھی اس حدیث کو صحیح جانا ہے۔<ref>ابن‌حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ ص۴۳۹ و ۶۵۳.</ref> عبدالرَّؤُوف مَناوی اپنی کتاب فَیْضُ‌القَدیر میں ہیثمی سے نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔<ref>مناوی، فیض‌القدیر، ۱۳۹۱ق، ج۳، ص۱۵.</ref> شافعی عالم دین علی بن عبدالله سَمْهودی اپنی کتاب [[جواهر العقدین فی فضل الشرفین (کتاب)|جَواهِرُالعِقْدَیْن]] میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو [[احمد بن حنبل|احمد بن حَنْبَل]] اپنی کتاب مُسند احمد میں صحیح اسناد سے اور سلیمان‌ بن‌ احمد طَبَرانی اپنی کتاب مُعْجَمُ‌ الکبیر میں اس روایت کو ثقہ راویوں کی سند سے نقل کیا ہے۔<ref>سمهودی، جواهرالعقدين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول، ص۸۲.</ref>
چھٹی ہجری کے جنبلی عالم دین ابن‌جوزی اپنی کتاب العِلَل المُتَناهیه میں حدیث ثقلین کو ایک خاص سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور بعض راویوں کے ضعیف ہونے کی وجہ سے حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔<ref>ابن‌جوزی، العلل المتناهیة فی الاحادیث الواهیة، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۲۶۸.</ref> سَمهودی اور ابن‌حجر هیتمی جیسے علما نے ابن‌ جوزی کا حدیث ثقلین کو ضعیف سمجھنے کو درست نہیں سمجھا ہے؛ کیونکہ یہ حدیث صحیح مسلم اور دیگر کتابوں میں اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی نقل ہوئی ہے۔<ref> سمهودی، جواهرالعقدين، ۱۴۰۵ق، ج۲،‌ بخش اول،‌ ص۷۳؛ ابن‌حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، ۱۴۱۷ق، ج۲،‌ ص۶۵۲.</ref>


== حدیث کے مآخذ اور سند ==
== حدیث کے مآخذ اور سند ==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم