confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (اصلاح شناسہ) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 27: | سطر 27: | ||
حدیث ثقلین کے مصادیق میں شیعہ علما صراحت سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد شیعہ بارہ ائمہ ہیں اور بعض روایات میں اس بات کی تصریح بھی ہوئی ہے؛ لیکن اہل سنت علما کے درمیان حدیث کا مصداق بیان کرنے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے؛ بعض نے اصحاب کساء کو رسول اللہ کی عترت اور اہل بیت سمجھا ہے بعض نے آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس جن پر صدقہ حرام ہے کو بھی اہل بیت میں شامل کیا ہے۔ | حدیث ثقلین کے مصادیق میں شیعہ علما صراحت سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد شیعہ بارہ ائمہ ہیں اور بعض روایات میں اس بات کی تصریح بھی ہوئی ہے؛ لیکن اہل سنت علما کے درمیان حدیث کا مصداق بیان کرنے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے؛ بعض نے اصحاب کساء کو رسول اللہ کی عترت اور اہل بیت سمجھا ہے بعض نے آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس جن پر صدقہ حرام ہے کو بھی اہل بیت میں شامل کیا ہے۔ | ||
==اہمیت== | |||
حدیث ثقلین [[رسول خداؐ]] کی مشہور<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۳.</ref> اور [[حدیث متواتر|متواتر]] [[حدیث]]<ref>ملاحظہ کریں: بحرانی، منار الهدی، ۱۴۰۵ق، ص۶۷۰؛ مظفر، دلائل الصدق، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۴۰؛ میر حامد حسین، عبقات الانوار، ۱۳۶۶ش، ج۱۸، ص۷.</ref> ہے اور سارے مسلمان مانتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: مازندرانی، شرحالکافی، ۱۳۸۲ق، ج۶، ص۱۲۴، ج۱۰، ص۱۱۸؛ میر حامد حسین، عبقاتالانوار، ۱۳۶۶ش، ج۱۸، ص۷؛ خرازی، بدایةالمعارف، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۹. </ref> | |||
اس حدیث کا پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے مختلف مواقع پر بیان ہونا اس حدیث کی اہمیت اور مقام پر دلالت کرتا ہے۔<ref>واعظزاده خراسانی، «مقدمه» در حدیث الثقلین، ص۱۷ و ۱۸.</ref> شیعہ متکلمین نے اس حدیث سے شیعہ ائمہ کی ولایت اور امامت ثابت کرنے کے لئے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۲.</ref> مختلف مذاہب اور فرقوں کے کلامی مباحث، جیسے امامت و خلافت کے مسئلے میں اس حدیث سے بحث کی جاتی ہے اور امامت سے مربوط مباحث اور مسائل میں اسے بے نظیر سمجھا گیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۲.</ref> | |||
[[فائل:Majmaahl.jpg|تصغیر|[[مجمع جهانی اهلبیت]] کے مونوگرام میں حدیث ثقلین کا ایک حصہ]] | |||
[[عبقات الانوار فی امامة الائمة الاطهار (کتاب)|عَبَقاتالانوار]] میں کہا گیا ہے کہ اس حدیث کی اسناد کی کثرت اور متن کے استحکام کی وجہ سے قدیم الایام سے یہ حدیث علما اور محدثین کو توجہ کا مرکز رہا ہے اور بعض نے تو اس حدیث کے بارے میں مستقل کتاب یا رسالہ لکھا ہے۔<ref>میر حامد حسین، عبقات الانوار، ۱۳۶۶ش، ج۲۳، ص۱۲۴۵.</ref> بعض محققین کے مطابق یہ حدیث پہلی صدی ہجری سے ہی شیعہ اور اہل سنت مصادر حدیث میں نقل ہوئی ہے۔ اس کے بعد بھی تاریخی، رجالی، [[کلام اسلامی|کلامی]]، [[اخلاق|اخلاقی]]، [[فقه|فقهی]] اور [[اصول فقه|اصولی]] مصادر میں اس کے شایان شان بحث ہوئی ہے<ref>حاج منوچهری، «ثقلین، حدیث»، ص۷۳ و ۷۴.</ref> | |||
دانشنامہ جہان اسلام میں موجود مقالہ «حدیث ثقلین» میں کہا گیا ہے کہ شیعہ علما نے قدیم الایام سے اس حدیث کو حدیثی مثادر میں نقل کیا ہے لیکن متقدمین کی کلامی کتابوں میں امامت اور خلافت کی بحث میں اس سے کم استناد کیا ہے۔ البتہ بعض علما نے کلامی مباحث میں بھی استناد کیا ہے۔ مثال کے طور پر شیخ صدوق نے زمین اللہ کی حجت سے خالی نہ ہونے کی بحث میں، شیخ طوسی نے ہر عصر میں اہل بیت میں سے کوئی ایک امام ہونے میں اس حدیث سے استناد کیا ہے۔ علامہ حلی نے [[نهج الحق و کشف الصدق (کتاب)|کتاب نهجالحق]] مین امام علی کی خلافت ثابت کرنے کے لئے جبکہ [[محمدمحسن فیض کاشانی|فیض کاشانی]] نے قرآن کی عظمت کے بحث میں اس حدیث سے استفادہ کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۲ و ۱۰۳.</ref> | |||
ہوئی ہے در [[دانشنامه جهان اسلام (کتاب)|دانشنامه جهان اسلام]]، عالمان شیعه از دیرباز در مجموعههای حدیثی خود این حدیث را نقل کردهاند؛ اما در کتابهای کلامی متقدم، در بحث امامت و خلافت، کمتر بدان استناد شده است. با این حال، گروهی از عالمان شیعه در بحثهای کلامی بدان استناد کردهاند؛ برای نمونه [[شیخ صدوق]] در اثبات خالی نبودن زمین از حجت و [[شیخ طوسی]] در بحث ضرورت وجود امامی از اهلبیت در همه زمانها، به این حدیث تمسک کردهاند. [[علامه حلی]] در [[نهج الحق و کشف الصدق (کتاب)|کتاب نهجالحق]] در اثبات [[خلافت امام علی(ع)]] و [[محمدمحسن فیض کاشانی|فیض کاشانی]] نیز در بحث از جایگاه قرآن، از این حدیث بهره بردهاند.<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۲ و ۱۰۳.</ref> | |||
کہا جاتا ہے کہ [[میر حامد حسین هندی]] (متوفی ۱۳۰۶ھ) نے عبقات الانوار میں اس حدیث کی سند اور دلالت پر کئی فصلوں میں بحث کرکے اس حدیث کو پہچانوانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بعد اس حدیث پر بہت توجہ دی گئی یہاں تک کہ معاصر علما کے پاس یہ اہلبیت سے تمسک کی ضرورت اور لزوم کے لئے استناد کی جانے والی اہم روایات میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۳.</ref> | |||
[[قرآن]] کی عظمت، اہل بیت کی احادیث کی حجیت، ظواہرِ قرآن کی حجیت، قرآن اور احادیث اہل بیت کی مطابقت اور قرآن کا احادیث اہل بیتؑ پر مقدم ہونے کے حوالے سے شیعہ متکلمین نے حدیث ثقلین سے استناد کیا ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۵.</ref> | |||
یہ حدیث چونکہ اہل بیت کی منزلت اور ان کی علمی مرجعیت پر تاکید کرتی ہے اسی لئے مذاہب اسلامی کے مابین ہونے والی گفتگو اور مناظروں میں راہ گشا ثابت ہوئی ہے۔ جیسا کہ [[سید عبدالحسین شرفالدین]] کا شیخ سلیم بُشری سے ہونے والی گفتگو میں یہ بات مشہود ہے۔<ref>نفیسی، «ثقلین، حدیث»، ص۱۰۳.</ref> | |||
== متن حدیث == | == متن حدیث == | ||
حدیث ثقلین شیعہ<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۹۴، ج۲، ص۴۱۵؛ صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۳؛ خزاز رازی، کفایةالاثر، ۱۴۰۱ق، ص۸۷، ۱۳۷، ۱۶۳، ۲۶۵؛ قمی، تفسیرالقمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۷۲، ۱۷۳، ج۲، ص۳۴۵، ۴۴۷؛ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۲۲۹، ج۲، ص۳۰، ۳۱، ۶۲.</ref> اور اہل سنت<ref>ملاحظہ کریں: مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۱۸۷۳؛ نسائی، السنن الکبری، ۱۴۲۱ق، ج۷، ص۳۱۰ و ۴۳۷؛ ترمذی، سننالتزمذی، ۱۳۹۵ق، ج۵، ص۶۶۲، ۶۶۳؛ ابنحنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۱۴۲۱ق، ج۱۷، ص۱۶۹، ۱۷۰، ۲۱۱، ۳۰۸، ۳۰۹، ج۱۸، ص۱۱۴، حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۳، ص۱۱۸، ۱۶۰.</ref> مختلف مصادر حدیث میں مختلف عبارتوں کے ساتھ [[حضرت محمد صلی الله علیه و آله|پیغمبر اکرمؐ]] سے نقل ہوئی ہے۔<ref>مختلف اسناد اور عبارتوں سے آشنائی کے لئے ملاحظہ کریں:بحرانی، غایةالمرام، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۳۰۴-۳۶۷؛ شوشتری، احقاقالحق، ۱۴۰۹ق، ج۹، ص۳۰۹-۳۷۵، ج۱۸، ص۲۶۱-۲۸۹؛ میر حامد حسین، عبقاتالانوار، ۱۳۶۶ش، کل جلد ۱۸ و ۱۹.</ref> | |||
[[شیعہ|اہل تشیع]] کی بنیادی چار [[کتب اربعہ|کتابوں]] میں شامل [[اصول کافی]] میں یہ [[حدیث]] اس صورت میں وارد ہوئی ہے: | |||
<font color=green>{{حدیث|'''"...إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا، كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَهْلَ بَيْتِى عِتْرَتِى أَيُّهَا النَّاسُ اِسْمَعُوا وَقَدْ بَلَّغْتُ إِنَّكُمْ سَتَرِدُونَ عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُكُمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِى الثَّقَلَيْنِ وَالثَّقَلَانِ كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَهْلُ بَيْتِى فَلَا تَسْبِقُوهُمْ فَتَهْلِکُوا وَ لَاتُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُم؛...}}"'''</font>۔ | |||
:ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو امانتیں چھوڑے جارہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میری [[عترت]] جو [[اہل بیت علیہم السلام]] اور میرے خاندان والے ہیں۔ اے لوگو! سنو، میں نے تمہیں یہ پیغام پہنچا دیا کہ تمہیں حوض کے کنارے میرے سامنے لایا جائے گا؛ چنانچہ میں تم سے پوچھوں گا کہ تم نے ان دو امانتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؛ یعنی [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میرے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] ان سے آگے مت جاؤ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور ان کو کچھ مت سکھاؤ کیونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۹۴.</ref> | |||
شیعہ حدیثی کتاب [[بصائر الدرجات (کتاب)|بَصائرالدرجات]] میں امام محمد باقر سے یہ حدیث یوں نقل ہوئی ہے: {{حدیث|«يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّی تَارِکٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَمَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا: كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِی أَهْلَ بَيْتِی فَإِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْض}}؛ اے لوگو! "میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں [[قرآن کریم|اللہ کی کتاب]] ([[قرآن کریم]]) اور [[عترت]] یا [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] چھوڑے جا رہا ہوں۔ اگر ان دونوں سے متمسک رہوں گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔ [[قرآن کریم|قرآن]] اور [[اہل بیت]] [[قیامت]] تک ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونگے" یہاں تک کہ [[حوض کوثر]] پر میرے پاس وارد ہوں گے۔<ref>صفار، بصائرالدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۳، حدیث ۳.</ref> | |||
[[احمد بن شعیب نسائی]] نے اپنی کتاب [[السنن الکبری|سنن نسائی]] ـ جو [[اہل سنت]] کی [[صحاح ستہ]] میں سے ایک ہے ـ میں اس [[حدیث]] کو اس صورت میں نقل کرتے ہیں: | |||
:<font color=green>{{حدیث|'''"...كَأَنِّي قَدْ دُعِيتُ فَأَجَبْتُ، إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الآخَرِ، كِتَابُ اللَّهِ تَعَالَى، وَعِتْرَتِي، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ..."'''}}</font> | |||
::ترجمہ: گویا مجھے خالق یکتا نے بلایا ہے اور میں نے بھی یہ دعوت قبول کرلی ہے (اور میرا وقت وصال آن پہنچا ہے) میں تمہارے درمیان دو گراں بہاء امانتیں چھوڑے جارہا ہوں جن میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: [[قرآن کریم|کتاب خدا]] اور میری عترت ـ جو میرے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] ہی ہیں ـ پس دیکھو کہ ان کے ساتھ کیا رویہ روا رکھتے ہو کیونکہ وہ کبھی جدا جدا نہیں ہوتیں حتی کہ حوض کے کنارے مجھ سے آ ملیں۔<ref>نسائی، ''السنن الكبری''، ح8148۔</ref> | |||
{{جعبہ نقل قول | {{جعبہ نقل قول | ||
| عنوان = '''حدیث ثقلین''' | | عنوان = '''حدیث ثقلین''' | ||
سطر 40: | سطر 77: | ||
| اندازه قلم = | | اندازه قلم = | ||
}} | }} | ||
== حدیث کے مآخذ اور سند == | == حدیث کے مآخذ اور سند == |