مندرجات کا رخ کریں

"خطبہ شقشقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م (Text replacement - "<div class="reflist4" style="height: 220px; overflow: auto; padding: 3px" >↵{{حوالہ جات}}↵</div>" to "{{حوالہ جات}}")
سطر 111: سطر 111:


== خطبہ شقشقیہ کا متن اور ترجمہ ==
== خطبہ شقشقیہ کا متن اور ترجمہ ==
{| class="infobox" style="text-align:center; width:100%; margin-right:10px; font-size:80%"
{{نقل قول دوقلو طبقاتی تاشو
|+ style="font-weight:bold" |
|عنوان=
|-
|رنگ حاشیه=
! style="background:#FFB60B;" |متن
|تراز=
! style="background:#FFB60B;" |ترجمہ
|عرض=
 
|أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ تَقَمَّصَهَا فُلَانٌ وَ إِنَّهُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَى يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ فَسَدَلْتُ دُونَهَا ثَوْباً وَ طَوَيْتُ عَنْهَا كَشْحاً وَ طَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَةٍ عَمْيَاءَ يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ وَ يَشِيبُ فِيهَا الصَّغِيرُ وَ يَكْدَحُ فِيهَا مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّه ُ.فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى هَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَيْنِ قَذًى وَ فِي الْحَلْقِ شَجًا أَرَى تُرَاثِي نَهْباً حَتَّى مَضَى الْأَوَّلُ لِسَبِيلِهِ فَأَدْلَى بِهَا إِلَى فُلَانٍ بَعْدَهُ ـ ثُمَّ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الْأَعْشَى ـ :شَتَّانَ مَا يَوْمِي عَلَى كُورِهَا * وَ يَوْمُ حَيَّانَ أَخِي جَابِرِ فَيَا عَجَباً بَيْنَا هُوَ يَسْتَقِيلُهَافِي حَيَاتِهِ إِذْ عَقَدَهَا لِآخَرَ بَعْدَ وَفَاتِهِ لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَا ضَرْعَيْهَا فَصَيَّرَهَا فِي حَوْزَةٍ خَشْنَاءَ يَغْلُظُ كَلْمُهَا وَ يَخْشُنُ مَسُّهَا وَ يَكْثُرُ الْعِثَارُ فِيهَا وَ الِاعْتِذَارُ مِنْهَا فَصَاحِبُهَا كَرَاكِبِ الصَّعْبَةِ إِنْ أَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ وَ إِنْ أَسْلَسَ لَهَا تَقَحَّمَ فَمُنِيَ النَّاسُ لَعَمْرُ اللَّهِ بِخَبْطٍ وَ شِمَاسٍ وَ تَلَوُّنٍ وَ اعْتِرَاضٍ فَصَبَرْتُ عَلَى طُولِ الْمُدَّةِ وَ شِدَّةِ الْمِحْنَةِ حَتَّى إِذَا مَضَى لِسَبِيلِهِ جَعَلَهَا فِي جَمَاعَةٍ زَعَمَ أَنِّي أَحَدُهُمْ فَيَا لَلَّهِ وَ لِلشُّورَى مَتَى اعْتَرَضَ الرَّيْبُ فِيَّ مَعَ الْأَوَّلِ مِنْهُمْ حَتَّى صِرْتُ أُقْرَنُ إِلَى هَذِهِ النَّظَائِرِ لَكِنِّي أَسْفَفْتُ إِذْ أَسَفُّوا وَ طِرْتُ إِذْ طَارُوا فَصَغَا رَجُلٌ مِنْهُمْ لِضِغْنِهِ وَ مَالَ الْآخَرُ لِصِهْرِهِ مَعَ هَنٍ وَ هَنٍ إِلَى أَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ نَافِجاً حِضْنَيْهِ بَيْنَ نَثِيلِهِ وَ مُعْتَلَفِهِ وَ قَامَ مَعَهُ بَنُو أَبِيهِ يَخْضَمُونَ مَالَ اللَّهِ خِضْمَةَ الْإِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِيعِ إِلَى أَنِ انْتَكَثَ عَلَيْهِ فَتْلُهُ وَ أَجْهَزَ عَلَيْهِ عَمَلُهُ وَ كَبَتْ بِهِ بِطْنَتُهُ. فَمَا رَاعَنِي إِلَّا وَ النَّاسُ كَعُرْفِ الضَّبُعِ إِلَيَّ يَنْثَالُونَ عَلَيَّ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ حَتَّى لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنَانِ وَ شُقَّ عِطْفَايَ مُجْتَمِعِينَ حَوْلِي كَرَبِيضَةِ الْغَنَمِ فَلَمَّا نَهَضْتُ بِالْأَمْرِ نَكَثَتْ طَائِفَةٌ وَ مَرَقَتْ أُخْرَى وَ قَسَطَ آخَرُونَ كَأَنَّهُمْ لَمْ يَسْمَعُوا اللَّهَ سُبْحَانَهُ يَقُولُ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُها لِلَّذِينَ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لا فَساداً وَ الْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ بَلَى وَ اللَّهِ لَقَدْ سَمِعُوهَا وَ وَعَوْهَا وَ لَكِنَّهُمْ حَلِيَتِ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنِهِمْ وَ رَاقَهُمْ زِبْرِجُهَا أَمَا وَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسَمَةَ لَوْ لَا حُضُورُ الْحَاضِرِ وَ قِيَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِ النَّاصِرِ وَ مَا أَخَذَ اللَّهُ عَلَى الْعُلَمَاءِ أَلَّا يُقَارُّوا عَلَى كِظَّةِ ظَالِمٍ وَ لَا سَغَبِ مَظْلُومٍ لَأَلْقَيْتُ حَبْلَهَا عَلَى غَارِبِهَا وَ لَسَقَيْتُ آخِرَهَا بِكَأْسِ أَوَّلِهَا وَ لَأَلْفَيْتُمْ دُنْيَاكُمْ هَذِهِ أَزْهَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ . قَالُوا وَ قَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ السَّوَادِ عِنْدَ بُلُوغِهِ إِلَى هَذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِهِ فَنَاوَلَهُ كِتَاباً قِيلَ إِنَّ فِيهِ مَسَائِلَ كَانَ يُرِيدُ الْإِجَابَةَ عَنْهَا فَأَقْبَلَ يَنْظُرُ فِيهِ [فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَتِهِ] قَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوِ اطَّرَدَتْ خُطْبَتُكَ مِنْ حَيْثُ أَفْضَيْتَ . فَقَالَ : هَيْهَاتَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ تِلْكَ شِقْشِقَةٌ هَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ . قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَوَاللَّهِ مَا أَسَفْتُ عَلَى كَلَامٍ قَطُّ كَأَسَفِي عَلَى هَذَا الْكَلَامِ أَلَّا يَكُونَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عليه السلام) بَلَغَ مِنْهُ حَيْثُ أَرَادَ .
|
|خدا کی قسم ! فلان (ابوبکر) نے پیراہنِ خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں وہ (کوہ ُ بلند ہوں ) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا۔ (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سنِ رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج)  كے پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابنِ خطاب کو دے گیا۔ (پھر حضرت نے بطورِ تمثیل اعشی کا یہ شعر پڑھا۔)
|-
| style="background:#FFEAB7;text-align:center" |
{{حدیث|أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ تَقَمَّصَهَا فُلَانٌ وَ إِنَّهُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَى يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ فَسَدَلْتُ دُونَهَا ثَوْباً وَ طَوَيْتُ عَنْهَا كَشْحاً وَ طَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَةٍ عَمْيَاءَ يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ وَ يَشِيبُ فِيهَا الصَّغِيرُ وَ يَكْدَحُ فِيهَا مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّه ُ.فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى هَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَيْنِ قَذًى وَ فِي الْحَلْقِ شَجًا أَرَى تُرَاثِي نَهْباً حَتَّى مَضَى الْأَوَّلُ لِسَبِيلِهِ فَأَدْلَى بِهَا إِلَى فُلَانٍ بَعْدَهُ ـ ثُمَّ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الْأَعْشَى ـ :شَتَّانَ مَا يَوْمِي عَلَى كُورِهَا * وَ يَوْمُ حَيَّانَ أَخِي جَابِرِ فَيَا عَجَباً بَيْنَا هُوَ يَسْتَقِيلُهَافِي حَيَاتِهِ إِذْ عَقَدَهَا لِآخَرَ بَعْدَ وَفَاتِهِ لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَا ضَرْعَيْهَا فَصَيَّرَهَا فِي حَوْزَةٍ خَشْنَاءَ يَغْلُظُ كَلْمُهَا وَ يَخْشُنُ مَسُّهَا وَ يَكْثُرُ الْعِثَارُ فِيهَا وَ الِاعْتِذَارُ مِنْهَا فَصَاحِبُهَا كَرَاكِبِ الصَّعْبَةِ إِنْ أَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ وَ إِنْ أَسْلَسَ لَهَا تَقَحَّمَ فَمُنِيَ النَّاسُ لَعَمْرُ اللَّهِ بِخَبْطٍ وَ شِمَاسٍ وَ تَلَوُّنٍ وَ اعْتِرَاضٍ فَصَبَرْتُ عَلَى طُولِ الْمُدَّةِ وَ شِدَّةِ الْمِحْنَةِ حَتَّى إِذَا مَضَى لِسَبِيلِهِ جَعَلَهَا فِي جَمَاعَةٍ زَعَمَ أَنِّي أَحَدُهُمْ فَيَا لَلَّهِ وَ لِلشُّورَى مَتَى اعْتَرَضَ الرَّيْبُ فِيَّ مَعَ الْأَوَّلِ مِنْهُمْ حَتَّى صِرْتُ أُقْرَنُ إِلَى هَذِهِ النَّظَائِرِ لَكِنِّي أَسْفَفْتُ إِذْ أَسَفُّوا وَ طِرْتُ إِذْ طَارُوا فَصَغَا رَجُلٌ مِنْهُمْ لِضِغْنِهِ وَ مَالَ الْآخَرُ لِصِهْرِهِ مَعَ هَنٍ وَ هَنٍ إِلَى أَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ نَافِجاً حِضْنَيْهِ بَيْنَ نَثِيلِهِ وَ مُعْتَلَفِهِ وَ قَامَ مَعَهُ بَنُو أَبِيهِ يَخْضَمُونَ مَالَ اللَّهِ خِضْمَةَ الْإِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِيعِ إِلَى أَنِ انْتَكَثَ عَلَيْهِ فَتْلُهُ وَ أَجْهَزَ عَلَيْهِ عَمَلُهُ وَ كَبَتْ بِهِ بِطْنَتُهُ. فَمَا رَاعَنِي إِلَّا وَ النَّاسُ كَعُرْفِ الضَّبُعِ إِلَيَّ يَنْثَالُونَ عَلَيَّ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ حَتَّى لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنَانِ وَ شُقَّ عِطْفَايَ مُجْتَمِعِينَ حَوْلِي كَرَبِيضَةِ الْغَنَمِ فَلَمَّا نَهَضْتُ بِالْأَمْرِ نَكَثَتْ طَائِفَةٌ وَ مَرَقَتْ أُخْرَى وَ قَسَطَ آخَرُونَ كَأَنَّهُمْ لَمْ يَسْمَعُوا اللَّهَ سُبْحَانَهُ يَقُولُ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُها لِلَّذِينَ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَ لا فَساداً وَ الْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ بَلَى وَ اللَّهِ لَقَدْ سَمِعُوهَا وَ وَعَوْهَا وَ لَكِنَّهُمْ حَلِيَتِ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنِهِمْ وَ رَاقَهُمْ زِبْرِجُهَا أَمَا وَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسَمَةَ لَوْ لَا حُضُورُ الْحَاضِرِ وَ قِيَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِ النَّاصِرِ وَ مَا أَخَذَ اللَّهُ عَلَى الْعُلَمَاءِ أَلَّا يُقَارُّوا عَلَى كِظَّةِ ظَالِمٍ وَ لَا سَغَبِ مَظْلُومٍ لَأَلْقَيْتُ حَبْلَهَا عَلَى غَارِبِهَا وَ لَسَقَيْتُ آخِرَهَا بِكَأْسِ أَوَّلِهَا وَ لَأَلْفَيْتُمْ دُنْيَاكُمْ هَذِهِ أَزْهَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ . قَالُوا وَ قَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ السَّوَادِ عِنْدَ بُلُوغِهِ إِلَى هَذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِهِ فَنَاوَلَهُ كِتَاباً قِيلَ إِنَّ فِيهِ مَسَائِلَ كَانَ يُرِيدُ الْإِجَابَةَ عَنْهَا فَأَقْبَلَ يَنْظُرُ فِيهِ [فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَتِهِ] قَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوِ اطَّرَدَتْ خُطْبَتُكَ مِنْ حَيْثُ أَفْضَيْتَ . فَقَالَ : هَيْهَاتَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ تِلْكَ شِقْشِقَةٌ هَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ . قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَوَاللَّهِ مَا أَسَفْتُ عَلَى كَلَامٍ قَطُّ كَأَسَفِي عَلَى هَذَا الْكَلَامِ أَلَّا يَكُونَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عليه السلام) بَلَغَ مِنْهُ حَيْثُ أَرَادَ .}}
| style="background:#FFF2D2;text-align:center " |
خدا کی قسم ! فلان (ابوبکر) نے پیراہنِ خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں وہ (کوہ ُ بلند ہوں ) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا۔ (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سنِ رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج)  كے پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابنِ خطاب کو دے گیا۔ (پھر حضرت نے بطورِ تمثیل اعشی کا یہ شعر پڑھا۔)
 
" کہاں یہ دن جو ناقہ کے پالان پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادر جابر کی صحبت میں گزرتا تھا۔"  
" کہاں یہ دن جو ناقہ کے پالان پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادر جابر کی صحبت میں گزرتا تھا۔"  
 
تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کے لئے استوار کرتا گیا۔ بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا۔ جس کے چرکے کاری تھے۔ جس کو چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی تھی۔ جہاں بات بات میں ٹھوکر کھانا اور پھر عذر کرنا تھا۔ جس کا اس سے سابقہ پڑے ہو ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کو سوار کہ اگر مہار کھینچتا ہے تو (اس کی منہ زوری سے ) اس کی ناک کا درمیانی حصہ ہی شگافتہ ہوا جاتا ہے جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہو جائے گا) اور اگر باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ جائے گا۔ اس کی وجہ سے بقائے ایزد کی قسم ! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا۔ یہاں تک کہ دوسرا بھی اپنی راہ لگا، اور خلافت کو ایک جماعت میں محدود کر گیا۔ اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔ اے اللہ مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟ ان میں کے سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اب ان لوگوں میں میں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں۔) ان میں سے ایک شخص تو کینہ وعناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا مادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا۔ یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے۔ جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصلِ ربیع کا چارہ چرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا۔ جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بَل کھِل گئے اورا س کی بد اعمالیوں نے اسی کا کام تمام کر دیا۔ اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا دیا۔ اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری جانب بچو کے ایال کی طرح ہر طرف سے لگاتار بڑھ رہا تھا یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسن علیہ اور حسین علیہ کچلے جارہے تھے اور میری ردا  کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا۔ گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ » یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں نہ فساد پھیلاتے ہیں۔ اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔« ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس کو سنا تھا اور یاد کیا تھا۔ لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔ دیکھو اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں۔ اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے۔ کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم پانی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے۔}}
تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کے لئے استوار کرتا گیا۔ بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا۔ جس کے چرکے کاری تھے۔ جس کو چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی تھی۔ جہاں بات بات میں ٹھوکر کھانا اور پھر عذر کرنا تھا۔ جس کا اس سے سابقہ پڑے ہو ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کو سوار کہ اگر مہار کھینچتا ہے تو (اس کی منہ زوری سے ) اس کی ناک کا درمیانی حصہ ہی شگافتہ ہوا جاتا ہے جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہو جائے گا) اور اگر باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ جائے گا۔ اس کی وجہ سے بقائے ایزد کی قسم ! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا۔ یہاں تک کہ دوسرا بھی اپنی راہ لگا، اور خلافت کو ایک جماعت میں محدود کر گیا۔ اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔ اے اللہ مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟ ان میں کے سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اب ان لوگوں میں میں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں۔) ان میں سے ایک شخص تو کینہ وعناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا مادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا۔ یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے۔ جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصلِ ربیع کا چارہ چرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا۔ جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بَل کھِل گئے اورا س کی بد اعمالیوں نے اسی کا کام تمام کر دیا۔ اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا دیا۔ اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری جانب بچو کے ایال کی طرح ہر طرف سے لگاتار بڑھ رہا تھا یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسن علیہ اور حسین علیہ کچلے جارہے تھے اور میری ردا  کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا۔ گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ » یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں نہ فساد پھیلاتے ہیں۔ اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔« ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس کو سنا تھا اور یاد کیا تھا۔ لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔ دیکھو اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں۔ اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے۔ کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم پانی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے۔
|}
{{جدا کنندہ}}


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
confirmed، templateeditor
8,854

ترامیم