مندرجات کا رخ کریں

"واقعہ افک" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 16: سطر 16:


مذکورہ آیات کے آخری حصے میں [[خدا|خداوندعالم]] نے لوگوں کو کسی [[پاکدامن]] عورت پر فحاشی کی تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتے ہوئے پاکدامن عورتوں کو ایسی تہمتوں سے مبراء قرار دیا ہے۔<ref>سورہ نور، آیات 20 تا 26۔</ref>
مذکورہ آیات کے آخری حصے میں [[خدا|خداوندعالم]] نے لوگوں کو کسی [[پاکدامن]] عورت پر فحاشی کی تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتے ہوئے پاکدامن عورتوں کو ایسی تہمتوں سے مبراء قرار دیا ہے۔<ref>سورہ نور، آیات 20 تا 26۔</ref>
== واقعہ افک  کے بارے میں مختلف اقوال==
== واقعہ افک  کے بارے میں مختلف اقوال==
واقعہ افک میں جس شخص پر تہمت لگائی گئی ہے اس کے بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔<ref>منتظری، پاسخ به پرسش‌های دینی، ۱۳۸۹ش، ص۴۲.</ref> بعض شیعہ اقوال کے مطابق یہ تہمت [[ماریه دختر شمعون|ماریہ قبطیہ]] پر لگائی گئی تھی؛ لیکن اہل سنت روایات اور بعض شیعوں کے مطابق یہ الزام عائشہ پر لگائی گئی تھی۔<ref>منتظری، پاسخ به پرسش‌های دینی، ۱۳۸۹ش، ص۴۲.</ref> [[تفسیر علی بن ابراهیم قمی (کتاب)|تفسیرالقمی]] کے مؤلف [[علی بن ابراهیم قمی]]<ref>قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.</ref> کی باتوں سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ شیعوں کے نزدیک ان آیات کا ماریہ قبطیہ کے بارے میں نازل ہونے میں کوئی اختلاف نہیں یا کم سے کم مشہور یہی ہے کہ یہ آیات ماریہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں؛<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی‌ـ‌تفسیری حادثه افک»، ص۱۶۶.</ref> لیکن بعض کا کہنا ہے کہ ان آیتوں کا ماریہ کے بارے میں نازل ہونا نہ صرف مشہور ہے بلکہ قدیم علما کے ہاں آیات کا عائشہ کے بارے میں نازل ہونا مشہور تھا؛<ref>خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۸.</ref> جیسے کہ آٹھویں صدی ہجری کے فقیہ اور متکلم [[علامہ حلی]] ان آیات کے نزول کو عائشہ سے مربوط سمجھتے ہیں اور اس کے برخلاف کوئی اور نظریہ ہونے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: علامہ حلی، اجوبۃ المسائل المهنّائیہ، ۱۴۰۱ق، ص۱۲۱.</ref>
واقعہ افک میں جس شخص پر تہمت لگائی گئی ہے اس کے بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔<ref>منتظری، پاسخ به پرسش‌های دینی، ۱۳۸۹ش، ص۴۲.</ref> بعض شیعہ اقوال کے مطابق یہ تہمت [[ماریه دختر شمعون|ماریہ قبطیہ]] پر لگائی گئی تھی؛ لیکن اہل سنت روایات اور بعض شیعوں کے مطابق یہ الزام عائشہ پر لگائی گئی تھی۔<ref>منتظری، پاسخ به پرسش‌های دینی، ۱۳۸۹ش، ص۴۲.</ref> [[تفسیر علی بن ابراهیم قمی (کتاب)|تفسیرالقمی]] کے مؤلف [[علی بن ابراهیم قمی]]<ref>قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.</ref> کی باتوں سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ شیعوں کے نزدیک ان آیات کا ماریہ قبطیہ کے بارے میں نازل ہونے میں کوئی اختلاف نہیں یا کم سے کم مشہور یہی ہے کہ یہ آیات ماریہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں؛<ref>حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی‌ـ‌تفسیری حادثه افک»، ص۱۶۶.</ref> لیکن بعض کا کہنا ہے کہ ان آیتوں کا ماریہ کے بارے میں نازل ہونا نہ صرف مشہور ہے بلکہ قدیم علما کے ہاں آیات کا عائشہ کے بارے میں نازل ہونا مشہور تھا؛<ref>خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۸.</ref> جیسے کہ آٹھویں صدی ہجری کے فقیہ اور متکلم [[علامہ حلی]] ان آیات کے نزول کو عائشہ سے مربوط سمجھتے ہیں اور اس کے برخلاف کوئی اور نظریہ ہونے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: علامہ حلی، اجوبۃ المسائل المهنّائیہ، ۱۴۰۱ق، ص۱۲۱.</ref>


=== پہلا احتمال ===
=== پہلا قول: عائشہ پر تہمت===
اکثر [[تفسیر قرآن|مفسرین]] اور مورخین کے مطابق ان قرآنی [[آیات]] میں سنہ 5 صدی ہجری کو پیش آنے والے ایک واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے بعض [[صحابہ]]، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ افراد منافقین میں سے تھے، [[حضرت عائشہ]]، [[زوجہ پیغمبرؐ]] پر بے عفتی کی تہمت لگائی یہاں تک کہ [[قرآن|قرآن کریم]] میں مذکورہ [[آیت|آیات]] کے ذریعے اس تہمت کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے والوں کے اس ناروا عمل کو [[گناہ کبیرہ]] میں شمار کیا گیا ہے۔ [[اہل سنت]] حضرت عائشہ کی شان میں ان آیات کے نازل ہونے کو ان کیلئے ایک فضیلت کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔<ref>فخررازی، التفسیر الکبیر، بیروت، ج23، ص 173؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، بیروت، ج5، ص504۔</ref>
چودہویں صدی ہجری کے شیعہ مفسر [[محمدجواد مغنیه]] اور اکثر [[تفسیر قرآن|مفسرین]] اور مورخین کے مطابق [[آیات افک]] اس واقعے سے مربوط ہیں جو [[سنہ 5 ہجری|]]<ref>ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۴ق،‌ ج۲، ص۴۸-۵۰؛ مسعودی، التنبیه و الاشراف، مؤسسة نشر المنابع الثقافة الاسلامیه، ص۲۱۵.</ref> یا [[سنہ 6 ہجری|]]<ref>ابن‌اثیر، اسدالغابة، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۹.</ref> کو رسول اللہؐ کی [[بنی‌مصطلق (غزوه)|غزوہ بنی‌ مُصطَلِق]] سے واپسی پر پیش آیا۔<ref>مغنیه، تفسیرالکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۴۰۳.</ref>  
 
عائشہ کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ ہر جنگ میں کسی ایک زوجہ کو ساتھ لے جاتے تھے اور غزوہ بنی مصطلق میں عائشہ کو ہمراہ لے گئے تھے۔<ref>بخاری، صحیح‌البخاری، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۱۰۱.</ref> جنگ سے واپسی پر لشکر جب استراحت کے لئے رک گیا عائشہ رفع حاجت کے لئے لشکرگاہ سے فاصلے پر گئی اور چونکہ ان کے گلے کا ہار اسی وقت گم ہوگیا تھا اس لئے اسے ڈھونڈنے میں کچھ وقت لگ گیا۔<ref>واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۲۸.</ref> قافلہ والوں نے خیال کیا کہ آپ ہودج میں موجود ہونگی، اس لیے آگے کی طرف چل پڑے۔<ref>ابن‌هشام، السیرة النبویة، دارالمعرفة، ج۲، ص۲۹۸.</ref>
مشہور روایت خود حضرت عائشہ کے نقل کے مطابق جسے تقریبا تمام منابع میں یکساں ذکر کیا گیا ہے، واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے: [[غزوہ بنی مصطلق|غزوہ بنی مُصطَلِق]] سے واپسی پر قافلہ کسی جگہ آرام کی خاطر ٹھہر گیا، اس وقت [[حضرت عائشہ]] رفع حاجت کی نیت سے لشکر سے کہیں دور چلی گئی اس دوران آپ کے گلے کا ہار کہیں گر کر ٹوٹ گیا ہے جس کی تلاش میں وقت لگا۔ جب واپس آئی تو قافلہ وہاں سے روانہ ہوچکا تھا۔ قافلہ والوں نے خیال کیا کہ آپ ہودج میں موجود ہونگی، اس لیے آگے کی طرف چل پڑے۔ حضرت عائشہ اسی جگہ بیٹھ گئی اس خیال سے کہ جب قافلہ والے انہیں ہودج میں نہیں پائیں گے تو دوبارہ یہیں پلٹ آئیں گے، اس دوران صفوان بن معطَّل نامی ایک شخص وہاں پہنچ گیا جس نے حضرت عائشہ کو اپنے اونٹ پر بٹھا کر اپنے ساتھ قافلہ تک پہنچایا۔ اس روایت کے مطابق اس سفر سے واپسی پر حضرت عائشہ بیمار ہو گئیں۔ اس دوران آپ نے یہ محسوس کیا کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کا آپ کے ساتھ برتاؤ میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آپ اور صفوان بن معطل کے بارے میں کچھ افواہیں لوگوں کے درمیان گردش کررہی ہیں۔ اس واقعے کے کچھ مدت بعد [[قرآن]] کی مذکورہ آیات نازل ہوئی اور تہمت لگانے والوں کی سرزنش کی گئی جسے [[پیغمبر اکرمؐ]] نے لوگوں کے سامنے تلاوت فرمائی۔<ref>ابن ہشام، سیرہ النبویہ، بیروت، ج2، ص 297-302 واقدی، المغازی، 1414ھ، ص426-435۔ </ref>
جب واپس آئی تو قافلہ وہاں سے روانہ ہوچکا تھا۔ آپ اسی جگہ بیٹھ گئی، اس دوران صفوان بن معطَّل نامی ایک شخص وہاں پہنچ گیا جس نے حضرت عائشہ کو اپنے اونٹ پر بٹھا کر اپنے ساتھ قافلہ تک پہنچایا۔<ref>مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۲۱۲۹.</ref> سفر سے واپسی پر عائشہ بیمار ہو گئیں اور اس دوران آپ نے یہ محسوس کیا کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کا آپ کے ساتھ برتاؤ میں کچھ تبدیلی آئی ہے اور صفوان بن معطل کے بارے میں کچھ افواہیں لوگوں کے درمیان گردش کررہی ہیں۔<ref>صنعانی، المصنف، ۱۴۰۳ق، ج۵، ص۴۱۰.</ref> اس واقعے کے کچھ مدت بعد [[قرآن]] کی مذکورہ آیات نازل ہوئی اور تہمت لگانے والوں کی سرزنش کی گئی۔<ref>واحدی نیشابوری، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۳۲.</ref>
 
بعض شیعہ علما نے واقعہ افک کو عائشہ پر تہمت لگانے سے مربوط جانا ہے۔ انہی علما میں سے [[نصر بن مزاحم]] نے اپنی کتاب [[وقعة صفین (کتاب)|وَقْعَةُ صِفّین]] میں،<ref>ابن‌مزاحم، وقعة صفین، ۱۴۰۴ق، ص۵۲۳.</ref> [[نعمانی|نُعمانی]] نے [[تفسیر نعمانی (کتاب)|ان سے منسوب تفسیر]] میں،<ref>نعمانی، رسالة المحکم و المتشابه، ۱۳۸۴ش، ص۱۵۶.</ref> [[شیخ مفید]] نے [[الجمل|الجَمَل]] میں،<ref>شیخ مفید، الجمل، ۱۴۱۶ق، ص۱۵۷.</ref> [[شیخ طوسی]] نے [[التبیان|التِّبیان]] میں،<ref>شیخ طوسی، التبیان، ج۷، ص۴۱۵.</ref> [[طبرسی|طَبرِسی]] نے [[اعلام الوری|اِعلام‌الوَری]] میں،<ref>طبرسی، اعلام‌الوری، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۹۷.</ref> [[قطب‌الدین راوندی]] نے [[فقه القرآن (کتاب)|فقه‌القرآن]] میں<ref>راوندی، فقه‌القرآن، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۳۸۸.</ref> اور [[مقدس اردبیلی]] نے [[زبدة البیان|زُبدةالبیان]] میں<ref>مقدس اردبیلی، زبدةالبیان، مکتبةالمرتضویة، ص۳۸۸.</ref> بیان کیا ہے۔
====تہمت لگانے والے====
====تہمت لگانے والے====
قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے میں تہمت لگانے والوں کا تعلق ایک گروہ  سے تھا، لیکن اس کے باوجود تاریخ میں بعض اشخاص کا نام لیا گیاہے۔ منجملہ ان افراد میں [[عبداللہ بن ابی|عبداللہ بن اُبَیّ]] جو اس وقت [[مدینہ]] میں [[منافقین]] کا سردار تھا۔ افواہ پھیلانے میں اس کا کردار اس واقعے میں نمایاں طور پر ذکر ہوا ہے۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ،‌ج2، ص 614۔</ref> ان کے علاوہ [[حسان بن ثابت]]، [[حمنہ بنت جحش]] اور [[مسطح بن اثاثہ]] کا نام بھی منابع میں آیا ہے جو اس واقعے میں ملوث تھے اور پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے ان پر حد بھی جاری کی گئی۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج2، ص 616۔</ref> بعض منابع میں عبداللہ بن اُبَیّ کا نام بھی سزا یافتہ افراد کے ذیل میں لایا گیا ہے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج2، ص 53۔</ref> لیکن بعض منابع میں ان کی طرف اس حوالے سے اشارہ نہیں ہوا ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج2، ص 302۔</ref>
قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے میں تہمت لگانے والوں کا تعلق ایک گروہ  سے تھا، لیکن اس کے باوجود تاریخ میں بعض اشخاص کا نام لیا گیاہے۔ منجملہ ان افراد میں [[عبداللہ بن ابی|عبداللہ بن اُبَیّ]] جو اس وقت [[مدینہ]] میں [[منافقین]] کا سردار تھا۔ افواہ پھیلانے میں اس کا کردار اس واقعے میں نمایاں طور پر ذکر ہوا ہے۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ،‌ج2، ص 614۔</ref> ان کے علاوہ [[حسان بن ثابت]]، [[حمنہ بنت جحش]] اور [[مسطح بن اثاثہ]] کا نام بھی منابع میں آیا ہے جو اس واقعے میں ملوث تھے اور پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے ان پر حد بھی جاری کی گئی۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج2، ص 616۔</ref> بعض منابع میں عبداللہ بن اُبَیّ کا نام بھی سزا یافتہ افراد کے ذیل میں لایا گیا ہے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج2، ص 53۔</ref> لیکن بعض منابع میں ان کی طرف اس حوالے سے اشارہ نہیں ہوا ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج2، ص 302۔</ref>
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096

ترامیم